مارچ ۲۰۲۳

سحرش اپنے گھر آئی ہوئی تھی۔ وہ دادی ماں کے ساتھ تخت پر بیٹھی تھی۔ امی کچن کے دروازے کے سامنے صحن میں بیٹھی چاول صاف کررہی تھیں۔
’’تیری نند بھی یہی کہتی ہے؟‘‘دادی ماں سحرش سے پوچھ رہی تھیں۔
’’سب یہی کہتے ہیں دادی ماں۔ اسی بات کے طعنے دیتے ہیں۔‘‘ سحرش خالص بہوؤں کی طرح میکے میں اپنے سسرالیوں کی شکایت کررہی تھی۔
’’جب کہ ان لوگوں نے ہی منع کیا تھا جہیز لینے سے، لیکن پھر بھی آپ لوگوں نے اتنا کچھ دیا۔ انھیں تو خوش ہونا چاہیے تھا۔ ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا شادی کو،اور ان لوگوں نے ظلم شروع کردیا۔‘‘ سحرش جلی بھنی بیٹھی تھی۔
’’سحرش!عورت کو سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اور اس طرح میکے میں آکر رونا نہیں رونا آئندہ۔ وہیں صبر کرکے بیٹھ جانا۔ تیرے ابا کو پتہ چلا تو بہت برا ہوگا۔ پہلے ہی وہ دل کے مریض ہیں۔‘‘امی اس کی اور دادی ماں کی گفتگو میں مخل ہوئیں۔
’’صرف ابا کی خاطر چپ ہوں میں۔ ورنہ مجھ سے نہیں ہوتا برداشت۔ نہ میں وہاں صبر کرکے بیٹھ سکتی ہوں۔ آپ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہے، کیسی کیسی باتیں کرتے ہیں وہ لوگ۔ اٹھتے بیٹھتے جہیز کے طعنے دیتے ہیں۔‘‘امی اس کی بات پر اپنا سر پیٹ کررہ گئیں۔
’’تو آگے سے زبان درازی تو نہیں کرتی ناں؟‘‘ دادی ماں نے اس سے پوچھا۔
’’تو کیا میں خاموش رہوں؟ مجھ سے میرے ابا کے بارے میں کہتے ہیں۔ کہتے ہیں تیرے باپ نے آدھے جہیز میں بیٹی نمٹادی۔ نہ گھر دیا نہ گاڑی۔ جہیز نہیں دے سکتے تھے تو شادی ہی کیوں کی بیٹی کی؟ ہمیشہ غریب، فقیر کہتے ہیں۔ میں نہیں برداشت کرسکتی۔ میں بھی برابر جواب دیتی ہوں۔‘‘
سحرش!جانے دے۔ عمیر تو تیرے ساتھ اچھا ہے ناں۔‘‘ دادی ماں نے پیار سے اسے سمجھانا چاہا۔
’’وہ تو میری طرف سے کچھ نہیں بولتے۔ ماں اور بہن کے سامنے زبان کو تالے لگ جاتے ہیں ان کی۔‘‘
’’تو بھی چپ ہی رہا کر۔ بڑی بہن اور ماں ہیں وہ اس کی۔ دیکھا نہیں کل تیری ساس باتوں ہی باتوں میں کیسے تجھے منہ پھٹ لڑکی کہہ کرگئی ہے۔ میں تو سمجھ گئی کہ اس کا اشارہ تیری ہی طرف ہے۔ ضرور تونے کچھ کہاہے۔‘‘
’’ہائے اماں! میں نے تو دھیان ہی نہیں دیا۔ وہ سحرش کو کہہ رہی تھیں؟‘‘امی نے چونک کے دادی ماں کو دیکھا۔
’’دھوپ میں سفید نہیں کیے میں نے یہ بال۔ سب کی باتیں سمجھ آتی ہیں، اور باتوں کے پیچھے چھپے تیر بھی سمجھ آتے ہیں۔ اب تو بھی ذرا عقل سے کام لے۔ساس اور نند سے جھگڑا مول لے رہی ہے۔‘‘ دادی ماں نے اسے ڈانٹا۔
’’دادی ماں!ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں وہ لوگ،اللہ کی پناہ! اور میرے گھر والوں کے بارے میں کوئی کچھ کہے، میں یہ برداشت نہیں کروں گی۔‘‘ سحرش اپنی بات پر جمی ہوئی تھی۔
’’بیٹھ پھر لڑتے ہوئے۔ بعد میں کچھ برا ہوا تیرے ساتھ تو ہمارے پاس روتے ہوئے نہیں آنا۔‘‘ دادی ماں خفگی سے کہہ کے بڑبڑا کررہ گئیں۔
’’ساسوں اور نندوں کی سو باتیں سننی پڑتی ہیں۔ ہم نے تو کبھی ایسا نہیں کیا۔ سب برداشت کیا۔‘‘
’’دادی ماں!پہلے کا زمانہ اور تھا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے۔‘‘
’’تو اور تیری باتیں؛میری تو سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘دادی ماں نے بڑبڑاکر آنکھوں پر عینک لگالی۔
’’چل اٹھ! تیرے دادا کی برسی آرہی ہے۔ دو قرآن شریف بخشوانے ہیں۔‘‘دادی ماں نے قرآن مجید کا جز کھولتے ہوئے کہا۔

٭٭٭

’’کہاں ہوگی فریا؟نہ جانے کس حال میں ہوگی؟اس نے کھانا بھی کھایا ہوگا یا نہیں؟‘‘ فریا کی امی آنسو بہاتے ہوئے نڈھال سی کہہ رہی تھیں۔
’’رخسار! وہ جہاں بھی ہوگی، ٹھیک ہوگی۔اللہ اس کی حفاظت کرے گا۔‘‘فریا کی تائی انھیں دلاسا دے رہی تھیں۔
’’زمانہ کتنا خراب ہے۔ لوگ باتیں بنارہے ہیں۔‘‘ کہنے والی فریا کی چچی تھیں۔
’’میں نے آج پیر کی درگاہ پر منت مانگی ہےکہ ہماری فریا مل گئی تو چار دیگ کھانا اور ان کی مزار پر پھولوں کی چادر چڑھاؤں گی۔‘‘ فریا کی تائی نے گھر میں بیٹھے افراد کو اطلاع دی۔
’’بہت اچھا کیا بھابی،بس میری بیٹی مل جائے۔‘‘ فریا کے والد ایاز نے کہا۔
’’پولیس میں رپورٹ کردی ہے، وہ کسی بھی اغواء کی گئی لڑکی کو دیکھیں گے تو ہمیں فوراً خبر کر دیں گے۔ فریا کا حلیہ بھی بتا دیا ہے انھیں۔ بھیا آپ فکر نہ کریں،وہ جلد ہی مل جائے گی۔‘‘ فریا کے چچا نے کہا۔
فریا ان کی فیملی کی اکلوتی لڑکی تھی۔ اس کے تایا، تائی، چچا، چچی، سبھی اس سے بہت محبت کرتے تھے۔
’’ساری غلطی میری ہے۔ مجھے پہلے ہی پٹرول کا خیال کرنا چاہیے تھا۔ نہ وقت پر پٹرول ختم ہوتا نہ میں کالج دیر سے پہنچتا اور نہ فریا کڈنیپ ہوتی۔‘‘فریا کے بھائی تیمور کو اپنےاوپر افسوس تھا۔
’’میری بچی کو تو باہر کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ کبھی گھر سے باہر کی دنیا نہیں دیکھی اس نے۔‘‘رخسار آنسو پونچھتے ہوئے بولیں۔
’’سب ٹھیک ہوجائے گا رخسار، تم فکر مت کرو۔ہماری فریا جہاں بھی ہوگی، محفوظ ہوگی، صحیح سلامت ہوگی۔‘‘ فریا کی تائی نے کہا۔ تبھی ایاز کا فون بجنے لگا۔
’’انسپکٹر ریاض کا فون ہے۔‘‘انھوں نے کال ریسیو کی، سب ان کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’السلام علیکم! جی انسپکٹر صاحب؟… اچھا؟… کہاں؟…جی؟‘‘ وہ دوسری جانب کی بات سنتے ہوئے کہہ رہے تھے۔’’کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘وہ غصے میں کہہ رہے تھے۔
’’اچھا۔ ٹھیک ہے، ہم آتے ہیں۔‘‘انھوں نے فون رکھ دیا۔
’’کیاہوا؟‘‘ سب بے چینی سے انھیں دیکھنے لگے۔
’’کچھ نہیں تم پریشان مت ہو۔‘‘ ایاز نے سنجیدگی سے کہا۔ اور اپنے دونوں بھائیوں کوساتھ آنے کا اشارہ کیا۔
’’کیاہوا؟ آپ بتاتے کیوں نہیں؟‘‘ تینوں خواتین پریشانی کے عالم میں انھیں دیکھنے لگیں۔
’’کچھ نہیں، میں بتاتا ہوں آکر۔‘‘ وہ چاروں باہر نکل گئے۔
’’کیا ہوا ابّو؟‘‘ تیمور نے باہر آتے ہی پوچھا۔
’’پولیس کو ابھی ابھی تالاب کے کنارے بوری میں لپٹی ایک لڑکی ملی ہے۔‘‘ ان کی بات سب کے کانوں میں دھماکہ بن کے گری۔
’’کیا کہہ رہے ہو؟‘‘فریا کے تایا بے یقینی سے انھیں دیکھنے لگے۔
’’ابھی یہ تصدیق نہیں ہوئی کہ وہ زندہ ہے یا…‘‘ اس سے آگے ان سے کچھ بولا نہیں گیا۔گلے میں آنسوؤں کا پھندا آگرا۔
’’لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں جس حالت میں لڑکی ملی ہے، 90 فی صد امکان ہے کہ وہ زندہ نہیں ہوسکتی۔‘‘ وہ ضبط کی کس انتہا پر جاکر یہ کہہ رہے تھے، انھیں خود اندازہ نہیں تھا۔ وہ اپنی ہمت اور صبر پر خود حیران تھے۔ان کی باتیں سنتی، کھڑکی کے پاس کھڑی تینوں خواتین میں سے درمیان میں کھڑی رخسار کی آنکھیں پتھرا گئیں۔

٭٭٭

عمیمہ اور علیزہ کینٹین میں داخل ہوئیں۔ وہ لڑکا اور لڑکی ٹیبل کے آگے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔ علیزہ اور عمیمہ وہیں کھڑی انھیں دیکھنے لگیں۔ وہ ان کی آواز بآسانی سن سکتی تھیں۔اس لڑکے نے اپنا ہاتھ اس لڑکی کی طرف بڑھایا۔ اس لڑکی نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔علیزہ اور عمیمہ نے حیرت اور بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
’’یہ ہاتھ میرے لیے دنیا کا سب سے سندر ہاتھ ہے۔‘‘ وہ لڑکا کہہ رہا تھا۔عمیمہ کو لگا وہ غلط سن رہی ہے، یا غلط دیکھ رہی ہے۔ یہ کوئی خواب ہے۔ اس نے بے یقینی سے پلکیں جھپکائیں۔ علیزہ نے آنکھیں بند کرکے کھولیں۔ نہیں، یہ خواب نہیں تھا۔ وہ اس منظر کی تاب نہ لاسکی۔ وہ دونوں فوراً وہاں سے ہٹ گئیں۔ان دونوں کی آنکھوں میں ابھی تک استعجاب و بے یقینی کی کیفیت تھی۔ وہ دونوں وہاں سے اٹھ کر آگئیں۔
’’علیزہ!یہ واقعی فریا ہے؟‘‘علیزہ نے سامنے دیکھتے ہوئے بے یقینی کے عالم میں اس سے پوچھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو نہیں دیکھ رہی تھیں۔
’’ہاں،فریا ہی ہے۔ ہماری دوست فریا۔‘‘
’’لیکن اس کو ہو کیا گیاہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اسے کڈنیپ کرکے وہ لڑکا زبردستی اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہے۔‘‘ عمیمہ نے قیاس آرائی کی۔
’’ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ہمارے کالج میں کیا کررہا ہے؟ کیا یہ ہمارے کالج کا ہے؟ یہ فریا کو کالج کیوں لایا ہے؟مجھے لگتا ہے ہمیں چل کر دیکھنا چاہیے۔ پرنسپل سر سے پوچھیں گے کہ وہ دونوں یہاں کیوں آئے تھے؟‘‘
’’نہیں۔ ہمیں اس سب میں نہیں پڑنا۔ ہم بس فریا کی فیملی کو انفارم کردیں گے کہ فریا کا کڈنیپر اس کے ساتھ کالج میں ہے۔‘‘عمیمہ نے فریا کی امی کو کال کی۔اس کے اطلاع دینے پر ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔

٭٭٭

تقریباً ایک گھنٹے بعد ایاز کی گھر واپسی ہوئی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ رخسار تیزی سے ان کی جانب لپکیں۔
’’وہ فریانہیں تھی۔کوئی اور لڑکی تھی۔ جس کو بہت بے دردی سے تشدد کرکے زخمی کیا گیا تھا۔‘‘ فریا کے چچا بولے۔رخسار واپس اپنی جگہ بیٹھ گئیں۔ چہرے پر مایوسی پھیل گئی۔
’’زندہ تھی؟‘‘ فریا کی چچی نے پوچھا۔
’’نہیں۔ اسے بوری میں باندھ کر تالاب کےکنارےپھینکے ہوئے بھی بہت وقت گزر چکا ہے۔ وہ مرچکی ہے۔‘‘ ایاز نے جھرجھری لے کر کہا۔تبھی رخسار کا فون بجا۔ انھوں نے اسکرین دیکھی۔
’’عمیمہ کالنگ۔‘‘سب نے انھیں جلدی اٹھانے کو کہا۔ انھوں نے پھرتی سے کال ریسیو کی۔

٭٭٭

کالج کیمپس میں کارز اور پولیس کی گاڑیاں یکے بعد دیگرے آکر رکیں۔ علیزہ اور عمیمہ نے دیکھا کہ کلاس کے اندر سے اسٹوڈنٹس باہر نکل رہے ہیں۔ فریا بھی باہر نکلی۔ پرنسپل سر نے پولیس اور فریا کے تایا سے کچھ بات کی اور فریا کو روک کر باقی تمام اسٹوڈنٹس کو کلاسز میں جانے کے لیے کہا۔عمیمہ اور علیزہ چونکہ رخسار کے ساتھ جاکھڑی ہوئی تھیں، اس لیے انھیں اندر نہیں بھیجا گیا۔جیسے ہی فریا کی فیملی کے افراد کی نگاہیں فریا پرپڑیں انھیں چار سو وولٹ کا شاک لگا۔ یقیناً اپنی بیٹی کو بغیر عبایا اور بغیر حجاب کے دیکھ کر۔ انھوں نے اس کے ساتھ کھڑے دراز قامت لڑکے کو دیکھا۔ جس کے ہاتھوں اور گلے میں سیاہ سرخ دھاگے بندھے تھے۔فریا کے والد غصے سے آگے بڑھے اور اس لڑکے کا گریبان پکڑا۔ فریا چپ کھڑی حیرت سے دیکھنے لگی۔ ایک پولیس آفیسر نے پھرتی سے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ سے گریبان چھڑایا۔
’’یہی ہماری بیٹی ہے۔ اس شخص نے کڈنیپ کیا ہے اسے۔‘‘ فریا کے تایا نے غصے میں کہا۔ تیمور آگے بڑھا اور اس لڑکے سے ہاتھا پائی شروع کردی۔ وہ لڑکا اس اچانک افتاد کے لیے تیار نہ تھا، سو لڑکھڑا گیا۔
’’بھیا!رک جائیں۔‘‘ فریا تیزی سے آگے آئی۔
’’یہ کڈنیپر نہیں ہے۔ یہ میرا ہزبینڈ ہے۔‘‘ علیزہ اور عمیمہ کو لگا ان کی سماعتیں اب پھٹ پڑیں گی۔ وہ جہاں کی تہاں کھڑ ی رہ گئیں۔ فریا کے والد، والدہ،تایا، چچا، بھائی سب اپنی جگہ منجمد ہوگئے۔ یہ انجماد اسی وقت پگھلاؤ میں بدل سکتا تھا، جب کوئی حدت انھیں چھوئے،اور ایک لمحہ لگا۔ اشتعال کی حدت اس لمحے میں قید ہوکر آئی اور اس لمحے سے آزاد ہوئی۔ برف پگھلنے لگی۔
’’یہ نہیں ہوسکتا۔ اس نے ضرور تمھیں ڈرایا دھمکایا ہوگا۔ زبردستی تمھیں شادی پر مجبور کیا ہوگا۔ یہ ایک غیر مسلم لڑکا ہے۔ تم اس سے شادی کرہی نہیں سکتیں۔‘‘خوف، اشتعال اور بے یقینی، سب مل جل کر الفاظ کی صورت ادا ہورہے تھے۔
’’نہیں ابو!امر کانت نے مجھے کوئی دھمکی نہیں دی۔ اس نے مجھے کسی بات کے لیے مجبور نہیں کیا۔ میں نے اپنی مرضی سے اس سے شادی کی ہے۔‘‘ فریا کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہونے تھے کہ ایاز چکرا کر گر پڑے۔ سب تیزی سے ان کی جانب لپکے۔ فریا بھی بے اختیاری کیفیت میں ان کی سمت بڑھی۔ اور پھریک لخت رک گئی۔
’’فریا! کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے یہ؟ کیا ثبوت ہے تمھارے پاس کہ یہ شخص تمھارا شوہر ہے؟‘‘ تیمور چیختے ہوئے اس سے استفسار کرنے لگا۔
’’میں اب فریا نہیں ہوں بھیا۔ اب میں شریا(Shreya)ہوں۔‘‘
’’یہ رہا ہمارا میرج سرٹیفکیٹ۔‘‘ اس لڑکے نے بیگ سے ایک کاغذ نکال کر ان کے سامنے لہرایا۔
’’فریا یہ تم کیسے کرسکتی ہو؟‘‘ اس کے چچا آگے بڑھے۔
’’ایک مسلم لڑکی کی شادی کسی کافر سے نہیں ہوسکتی۔‘‘
’’قانون نے تو ہماری شادی قبول کرلی ہے۔‘‘ اس لڑکے نے کہا۔
’’قانون کی ایسی کی تیسی!میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔‘‘ تیمور مغلظات اگلتے ہوئے جارحانہ تیور لیے آگے بڑھا۔ ایاز ہوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوئے۔تیمور کو پولیس نے روک دیا۔’’پولیس یہاں موجود ہے۔ آپ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔‘‘
’’فریا! چلو ہمارے ساتھ۔‘‘ فریا کے تایا اسے کہنی سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے جانے لگے۔
’’ایک منٹ! شی از مائی وائف۔ قانونی طور پر اب میں اس کا پتی ہوں۔ اب آپ اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے۔‘‘
’’انسپکٹر صاحب! اریسٹ کرلیجیے اس کو۔‘‘ فریا کے تایا نے بلند آواز میں کہا۔
’’سوری مسٹر! یہ قانونی طور پر ہزبینڈ وائف ہیں۔ اور ہم ان کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے۔ نہ انھیں کسی کام کے لیے مجبور کرسکتے ہیں۔‘‘
رخسار صدمے کی کیفیت میں تھیں۔ چند منٹوں بعد امر کانت اور فریا عرف شریا وہاں سے چلے گئے۔ اس کی فیملی والے بھی صبر اور ضبط کے گھونٹ پیتے ہوئے کالج سے چلے گئے۔ علیزہ اور عمیمہ کلاس میں چلی گئیں۔

٭٭٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳