مارچ ۲۰۲۳

’’ تحریکی مکالمے ‘‘ نامی کتاب کا پیغام یہ ہے کہ مردِ مسلم کی شخصیت سنور جائے،وہ اعلیٰ کردار سے آراستہ ہوجائے ،عام لوگوں کے لیے بہترین نمونہ اور دعوت و عزیمت کی راہ پر چلنے والوں کے لیے معاون مددگار بن جائے ۔
دو حصوں میں منقسم اس کتاب کا پہلا حصہ زندگی کو ایمان کی بلندی دکھاتا ہے تو دوسرا حصہ دعوتِ دین کے شرف سے آشنا کرتا ہے ۔ ایمان افروز باب میں مصنف دنیا سے ،جا نماز سے،دینار سے، غفلت سے ،سائے سے ،بدی سے،فکرمندی اور دیوار سے گفتگو کرتے ہیں ۔
ایک ایسا شخص جو دنیا سے بیزار ہوچکا ہے ،جیتے جی دنیا سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے ،وہ تنہائ میں بیٹھ کر دنیا سے کہتا ہے کہ مجھے تم سے چھٹکارا پانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ،مجھے تم سے تعلق نہیں رکھنا ہے ۔ جواباً دنیا کہتی ہے کہ مجھ سے تعلق رکھنا فطری ضرورت ہے ۔ اس زندگی میں کوئی مجھ سے لا تعلق نہیں رہ سکتا ۔ میں اللہ کی مخلوق ہوں ،میرے اندر دل موہ لینے کی صفت رکھی گئی ہے۔ دراصل تم جو مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہ رہے ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ تم مجھے آخرت پر ترجیح دیتے ہو اور جو ایسا کرے گا وہ اس کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ میں عارضی،بےوقعت چیز ہوں ،بہت جلد فنا ہو جانے والی ہوں،آخرت کے مقابلے میں میری کوئی قیمت نہیں ،میں حلاوت سے بھرپور سرسبز و شاداب ہوں ۔میں مال و دولت سے، جاہ و منصب سے، اپنے میک اپ اور آرائش کے کمال سے لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتی ہوں ،لیکن جو ہوشیاری اور بیداری سے میرے فتنوں سے بچتے ہوئے مجھے آخرت کی گزرگاہ مان کر آخرت کی طرف چلتا رہے گا ،وہ مجھ سے بچ نکلے گا اور وہ منزل پا لے گا جو مستقل ٹھکانہ ہے، اور جو میرے جال میں پھنس جاتا ہے وہ نامراد ہو جاتا ہے۔
حسن بصریؒ کہتے ہیں:’’دیکھو ان چیزوں سے پرہیز کرو جو تمھیںدنیا میں مصروف کر دیں، کیونکہ دنیا کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں، آدمی مصروفیت کا ایک دروازہ اپنے لیے کھولتا ہے اور اس سے دس دروازے کھل جاتے ہیں۔
جا نماز سے گفتگو کے دوران مصنف نماز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں:

 ’’الصَّلَاۃ خَیر مِنَ النَّوم !‘‘

(نماز نیند سے بہتر ہے !)

 نماز قلب و روح کی زندگی ہے۔ انسان دن رات دنیا کی پکار پر دوڑتا رہتا ہے، لیکن خدائے ذوالجلال کی پکار پر کان پر جوں نہیں رینگتی ۔ اپنی زندگی دین سے زیادہ دنیا کی نذر کر رہا ہے، جب کہ آپ ﷺ نے یہ خوشخبری دی ہے :
’’جس نے ٹھنڈک والی (فجروعصر) دو نمازیں پڑھیں، وہ جنت میں جائے گا ۔‘‘
نیز یہ بھی فرمایا:
’’ منافقوں پر فجر اور عشاء سے زیادہ گراں اور کوئی نماز نہیں ہے۔ اگر وہ ان کے ثواب کو جان لیںتو گھسٹتے ہوئے آئیں گے ۔‘‘
بقول حسن بصری: ؒ’’ ہر قوم کا ایک بت ہوتا ہے، جسے لوگ پوجتے ہیں اس قوم کے بت درہم و دینار ہیں ۔‘‘
دولت کے پجاریوں کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انھیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں، ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں ،پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا ۔ ‘‘
مصنف کہتے ہیں کہ سفیان ابن عینیہ جیسا احساس پیدا کرو ۔ انہیں راستے سے گزرتے وقت سائل ملا۔ ان کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ تھا ،وہ رونے لگے ۔
ان کے ساتھ موجود شاگرد ان سے پوچھنے لگے’’ استاد آپ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘
جواب دیا ’’کسی آدمی کے لیے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی کہ اس سے بھلائی کی توقع کی جائے اور وہ توقع پوری نہ ہو سکے ۔ ‘‘
دینار مدتوں جیب میں یاالماری میں پڑا ہوتا ہے، لیکن کوئی اس کےمقصدِ وجود پر غور نہیں کرتا۔دینار کا مقصد وجود؟ جی ! مقصد یہی ہے کہ اس سے ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے علاوہ اللہ کے بندوں کی مدد کی جائے ،نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جائے، دنیا کے کانٹوں میں مصروف ہو کرمال و منصب،زن و زینت،دنیا کے پیچھے بھاگنے میں لوگ اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ اپنے مقصدِ وجود ایمانی کیفیت سے غافل ہو رہے ہیں ۔ مراقبہ کی کمی،مجاہدہ کی کمی ،نہ احتساب ہے اور نہ توبہ و انابت۔
یاد رکھو! جب غفلت چھا جاتی ہے خواہ وہ دل کی ہو یا زبان کی کان کی ہویا آنکھ کی تو اس وقت آدمی کی سخت آزمائش ہوتی ہے ۔ مصنف غفلت کا مفہوم بتاتے ہوئے عون بن عبد اللہ ؒکا قول نقل کرتے ہیں:’’ جس نے اپنے آپ کو لوگوں کی عیب جوئی کے لیے فارغ کر رکھا ہے، میں نے دیکھا کہ وہ اپنے آپ سے غافل ہے ۔‘‘
مصنف سائے سے گفتگو کے دوران اپنے آپ کو اخلاص کے لیےآمادہ کرنے کی ہدایت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حسن نیت کے ساتھ میدان عمل میں آ جاؤ، کیونکہ جب کاموں سے اخلاص رخصت ہوجائے اور معاملات میں ریا شامل ہوجائے تو دل سیاہ ہو جاتے ہیں ۔ ریا کی تین نشانیاں ہیں :جب وہ تنہا ہوتا ہے تو سستی کرتا ہے، لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے تو چاق و چوبند ہوجاتا ہے ،تعریف ہو تو عمل زیادہ کرتا ہے،مذمت ہو عمل کم کرتا ہے ۔
گفتگو بدی سے میں مصنف نے تحریر کیا ہے کہ مصروفیات سے فارغ ،کمرے میں تنہاایک شخص فرصت کے طویل اوقات گزارتے ہوئے بدی کا کام کرنے کی طرف بڑھ رہا تھاکہ اچانک ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی : ’’اے گنہگار! تجھے شرم نہیں آتی؟ تیری تنہائی میں بھی اللہ تیرے ساتھ ہے ۔ ‘‘
خوف سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے یہ کوئی اور نہیں بدی تھی ۔ سمجھدار کے لیے بدی میں بھی نصیحت کا سامان ہے۔ تنہائی میں گناہ کرنے سے اللہ کے ساتھ بندے کا تعلق خراب ہونے کے ساتھ خلقِ خدا سے بھی تعلق بگڑ جاتا ہے۔ لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ مصنف لکھتے ہیں کہ بدی قیامت کے دن ہلاکت کا سبب،بندوں کے بغض و نفرت کی وجہ،نیکیوں میں سے برکت اٹھانے والی ،حافظہ اور علم دونوں کے لیے مہلک ہے ۔ ایک بزرگ کے بقول:’’نیکی کا ثواب یہ بھی ہے کہ اس کے بعد دوسرے نیکی کی توفیق ملے اور بدی کی سزا یہ بھی ہے کہ اس کے بعد دوسری بدی کا صدور ہو۔‘‘
فکرمندی سے گفتگو میں مصنف فکر مندی کی دو قسمیں بتاتے ہیں: دنیا کی فکر اور آخرت کی فکر ۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی یہی بتایا ہے:
’’ جس کی فکر آخرت کے لیے ہو ،اللہ اس کے دل کو مالدار بنا لیتا ہے، اس کے کاموں کو اس کے لیےجمع کر دیتا ہے ،دنیا بے بسی کی حالت میں اس کے پاس آتی ہے اور جس کی فکرمندی دنیا بن جائے، اللہ اس کی محتاجی کو اس کی نگاہوں کے سامنے کر دیتا ہے،اس کے کاموں کو بکھیر دیتا ہے اور دنیا سے اس کو وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے۔ دنیا کا فکر مند انسان پر اللہ دنیا کی فکروں،الجھنوں اور غموں کو مسلط کر دیتا ہے۔‘‘
آخرت کی فکر کے متعلق محاسبی ؒنے نصیحت کی تھی :’’ اپنی فکر مندی کے ذریعے قبرستان ہوآ یا کرو ،اپنے دل پر سوار ہو کر میدانِ حشر میں ٹہل آیاکرو ۔‘‘
اب یہ بھی ممکن نہیں کہ دنیا کی فکر کو دل سے کھرچ کر نکال دیں اس لیے اسے اپنے ہاتھ میں لو، اپنے دل میں نہ بٹھاؤ ۔ پانی کی طرح کہ کشتی میں بھر جائے تو اسے ڈبو دے، اور کشتی کے نیچے رہے تو اسےسہارا دے ۔
ایمان افروز باب کی آخری گفتگو مصنف دیوار سے کرتے ہوئے خلوت پر روشنی ڈالتے ہیں ،زمین کی ہر بے جان چیز قیامت کے دن بندوں کے سلسلے میں گواہی دے گی اس لیے یہاں دیوار کہتی ہے کہ’’ میرے پاس بیٹھ کر عبادت اور نیک کام کرو،کتاب الہٰی کی تلاوت اور اس کی آیات پر غور و تدبر کرو، خلوت اور تنہائی کا فائدہ بتاتے ہوئے مصنف سید قطب کا قول نقل کرتے ہیں:’’ کسی روحانی وجود کے بارے میں اگر یہ امنگ ہوکہ انسانی زندگی کے رنگ ڈھنگ بدلے،اسے نیا رخ دے تو اس روحانی وجود کے لیے کچھ دیر کی خلوت اور تنہائی ضروری ہے اور بہت ضروری ہے۔‘‘
جب داعیٔ حق، اللہ تعالی کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے ،اس کی حرکت و قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے ،اسے اللہ کا نور ملتا ہے ،پھر وہ اگلی صبح نئے ذہن اور تازہ وجود کے ساتھ میدان عمل میں نکلتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:’’بندے کے پاس ایسے اوقات ضرور رہنے چاہیے جن میں وہ اپنی ذات کے ساتھ تنہا ہوں ۔
دعا ،ذکر ،نماز ،غور وفکر،نفس کا احتساب،دل کی اصلاح اور ایسے تمام کام جو خاص اس کی ذات سے تعلق رکھتے ہوں،اس کا مشغلہ بن جائے ؛یہ وہ کام ہیں جن کے لیے تنہائی ضروری ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. محی الدین غازی

    کتاب کا عمدگی اور گہرائی سے کیسے مطالعہ کیا جائے اور کتاب کا عطر کشید کر کس طرح خوبی سے کس طرح پیش کیا جائے… اس کی ایک خوبصورت مثال یہ تبصرہ ہے..

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳