مارچ ۲۰۲۳

 آپ تنہا اپنے آپ میں کچھ نہیں ہوتے ،آپ کا وجود ہی دوسرے کے سہارے سے وجود میں آتا ہے اور نمو پاتا ہے ۔ہر ایک دوسرے کے سہارے تکمیل پاتا ہے، یہ نظام کائنات ہے ۔بچپن کی زندگی میں بولنے سے پہلے ہم نے بھانت بھانت کی بولیاں سارے خاندان اور ملنے جلنے والوں سے سنیں،جانےپھر کون سےلمحے نےآپ کو، ہمیں اپنے محسنین سے اتنا بے خبر کردیا ہے کہ ہم نےصرف اپنی ذات پر توجہ دی، ہر فائدہ اپنے لیے سوچا،دوسرے کو نظر انداز کردیا ۔مادی فائدے کے لیے اتنے خود غرض ہوئے کہ دوسروں کو دھوکے دینے ،مال غصب کرنے میںبھی عار محسوس نہیں کیا ۔
معاشرے کا جہاز:اس حدیث کے ذریعہ یہی بات سمجھائی جاتی ہے کہ اگر ایک دوسرے کے تعاون کا مزاج نہ ہو تو انسان بس اپنا دائرہ دیکھتا ہے، اور ذاتی فائدے کا حصول معاشرے کے استحکام کو متاثر کرتا ہے ۔جب معاشرہ مستحکم نہ ہو تو اس انتشار کا نقصان پورے معاشرے کوہوتا ہے، اس لیے اپنی ذات سے زیادہ ہم پورے معاشرے کی بھلائی ، فلاح و خیر کے لیے آپس میں متحد رہیں، ذاتی مفاد کے لیے معاشرے کو قربان نہ کریں ۔
یہی حال معاشرے میں موجود برائی ، فحاشی ، لاعلمی و جہالت کا بھی ہے کہ اس کی اصلاح کے لیے ہم نہ اٹھیں تو ہمارے لیے اپنی نسلوں کو بچانا بھی ناممکن ہو جائے گا ۔جو آگ معاشرے میں لگی ہو، کل وہ ہماری دہلیز کو بھی اپنی لپیٹ میںلےلے گی، اس لیے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں ساری انسانیت کا بھلا سوچنے والا بنیں ۔پوری انسانیت کی بہی خواہی اپنا شیوہ بنالیں ،تاکہ ہم تنہا نہ رہ جائیں، کیونکہ جس کے پاس معاشرتی احساس زندہ نہ ہووہ اپنے خول میں تنہا رہ جاتا ہے ۔عبادتوں کا نظام بھی انسان کی سماجی و اجتماعی زندگی سے مربوط ہے ۔جیسے باجماعت نماز ، حج اور زکوۃ کا نظام بھی ۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳