عالمی منظر نامے:
ترکی اور شام میں شدید زلزلہ
6 فروری کو دو طاقتور زلزلے جنوبی اور وسطی ترکی میں آئے۔ پہلے زلزلے کی شدت 7.8 میگاواٹ کی تھی جس کے نتیجے میں ترکی اور شام میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ۔ یہ 1999 ءکے ازمیت زلزلے کے بعد سے ملک میں آنے والا سب سے تباہ کن زلزلہ بھی ہے ۔ دوسرا زلزلہ اس کے بعد قہرمان مرعش (ترکی کا ایک رہائشی علاقہ) میں آیا ،جس کی شدت 7.5 میگاواٹ تھی۔ اس کے بعد سے اب تک 2100 آفٹرشاکس آچکے ہیں۔ 16 فروری تک 47,900 سے زیادہ اموات کی اطلاع ملی ہیں، جن میں ترکی میں 41,040 اور شام میں 6,460 کے قریب اموات ہوئی ہیں۔ ترکی میں لگ بھگ 13.5 ملین افراد اور 4 ملین عمارتیں متاثر ہوئی ہیں ۔
21 فروری کو 6.4 کی شدت سے ایک نئے زلزلے نے پھر سے ترکی اور شام کو ہلا کر رکھ دیا۔ جس میں قریب 680 افرد زخمی ہوگئے۔ ترکی کی ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی ایجنسی آفاد نے کہا کہ یہ زلزلہ مقامی وقت کے مطابق 08:04 پر آیا جس کے بعد درجنوں آفٹر شاکس آئے ۔
دوسری جانب سرحدی علاقے میں زلزلے سے شامی تنازع سے پریشانیوں کا سامنا کرنے والے لاکھوں مہاجرین بھی بےیارومددگار ہو گئے ہیں۔ سڑکوں پر موجود لاکھوں افراد شدید ٹھنڈ میں ملبے کا ڈھیر جلا کر سردی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ زلزلے میں ہلاک ہونے والے ہر شامی کی میت کو باڈی بیگ میں لپیٹ کر باب الحوا لایا جارہا ہے۔ ان سفید بیگز پر نیلے رنگ کے قلم سے تفصیلات درج ہیں ،تاکہ وطن واپسی پر ان کی شناخت باآسانی ہوسکے ۔
ترکی کی اس تباہ کن حالت کو دیکھ کر دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اسی دوران ترک خواتین کی پون صدی پر مشتمل جدوجہد رنگ لاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ جدوجہد دو گز کپڑے کے لیے ہے، جو ترک خواتین اپنے سروں پر رکھنا چاہتی ہیں۔ بقول امام خمینی:’’یورپ ہمارے تباہ کن ہتھیاروں سے اتنا خوفزدہ نہیں، جتنا ڈر اسے ہماری بچیوں کے آنچل سے ہے۔‘‘ حقِ اظہارِ حیا کے حصول کے لیے ترکوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ حجاب پر پابندی کے حامی میں راہ مستقیم کی سربراہ اور نائب وزیر اعظم محترمہ تانسو چیلر بھی حامی تھیں۔ فضیلت پارٹی کی ٹکٹ پر جب محترمہ مروہ صفا قاوفجی رکن پارلیمان منتخب ہو گئیں اور جب حلف اٹھانے پہنچیں تو وہ اسکارف اوڑھے ہوئے تھیں چنانچہ انہیں دروازے پر روک لیا گیا مروہ نے اسکارف اتارنے سے انکار کر دیا جس پر پارلیمان سے ان کی رکنیت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ وزارت انصاف نے فضیلت پارٹی کو بھی کالعدم کر دیا۔ رائے عامہ کی جائزوں کے مطابق ترک خواتین کی تین چوتھائی اکثریت حجاب پر پابندی ختم کرنے کے حق میں ہے۔ گزشتہ سال کی وسط سے حجاب پر پابندی کے خاتمے کیلئے ٹھوس و پائیدار اقدامات پر غور کرنا شروع کیا گیا۔ چند دنوں قبل پارلیمان کے اسپیکر مصطفی سینتوپ نے کہا تھا کہ اسکارف پر پابندی ختم کرنے کے لیے مجوزہ آئینی ترمیم پر تمام جماعتیں متفق ہیں۔ اب یہ ترمیم بحث اور راۓ شماری کے لیے پارلیمان میں پیش کی جائے گی۔ امید ہے کہ اس دفعہ بل پاس کر لی جائے اور ترک خواتین کو اپنی مرضی کے مطابق سر ڈھکنے کی اجازت مل سکے۔
نیوزی لینڈ میں سائیکلون گیبریل
طوفان گیبریئل کو چھ فروری کو پہلی بار ریکارڈ کیا گیا تھا۔ آسٹریلیائی بیورو آف میٹرولوجی نے اس طوفان کا نام گیبریل رکھا۔ اس طوفان نے نیوزی لینڈ اور نارفولک جزیرے کو متاثر کیا ہے۔ یہ جنوبی بحرالکاہل کے موسم کا پہلا شدید طوفان ہے۔ نیوزی لینڈ نے 12 فروری کو سمندری طوفان کے اثرات کو محسوس کرنا شروع کیا۔ اس طوفان سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں تیسری دفعہ ایسی صورتحال پیش آئی کہ ملک بھر میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گیارہ افراد ہلاک جبکہ پانچ ہزار چھ سو آٹھ افراد لاپتہ ہیں۔ اس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس طوفان کی وجہ سے ملک بھر میں شدید سیلاب آیا جبکہ کچھ عمارتوں کی چھت ہوا میں اڑ گئی یا لینڈ سلائیڈنگ سے نقصان پہنچا۔ موسلادھار بارش اور طوفانی ہواؤں کی وجہ سے 38 ہزارسے زیادہ مکانوں سے بجلی کی سپلائی منقطع ہو گئی ان میں نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے شہر آک لینڈ کی نزدیکی بستیاں بھی شامل ہیں۔
فلسطینی کارکن کے ساتھ اسرائیلی فوجی کا جارحانہ سلوک
عیسیٰ عمرو ایک فلسطینی کارکن ہیں۔ حالیہ دنوں میں وہ ایک اسرائیلی فوجی کی بربریت کا نشانہ بنے۔ وہ اپنے آبائی وطن ہبرون میں مشہور امریکی مصنف لارنس رائٹ کو اسرائیلی مقبوضہ علاقے دکھا رہے تھے، کہ انہیں ایک اسرائیلی فوجی نے پہلے خبردار کیا کہ وہاں نہ جائیں ،اور پھر مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔
عیسیٰ عمرو ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ’’ اب میں اپنی زندگی کو خطرے میں محسوس کر رہا ہوں، جو کچھ ہوا اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ فوجی واقعی وحشی تھا، اسے اس بات سے بالکل فرق نہیں پڑا کہ وہاں ایک بین الاقوامی صحافی موجود تھا ، نہ ہی انھیں اب کیمروں کا ڈر ہے، نہ ہی صحافیوں کا۔ انھیں لگتا ہے کہ ان کی حکومت ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔‘‘
اس واقعے کی ایک ویڈیو لارنس رائٹ نے ٹویٹر پر ارسال کی، جو کہ کچھ ہی دیر میں وائرل ہو گئی۔ اسرائیل کے وزیرِ دفاع اتمیر نے اسرایلی فوجی کی پوری حمایت کی ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اس تشدد کا نشانہ فرح پناہ گزین کیمپ پر چھاپے کے دوران اور شمالی مقبوضہ مغربی کنارے پر مزید دو اور نوجوان بنے۔ اسرائیلیوں کے ہاتھوں جنوری ماہ سے اب تک 50 فلسطینی -جس میں 11 بچے شامل ہیں- شہید کیے گئے ہیں۔
اس پر احتجاج کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کے جیمس کیوالرو نے انسانی حقوق پر امریکی کمیشن میں ہیومن رائٹس اٹارنی کی نامزدگی سے اپنا نام واپس لے لیا ہے۔ وہ اپنے ایک ٹویٹ میں اسرائیل کو ایک نسل پرست ریاست کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ اسرائیل میں نسل پرستی کی مذمت کرنے والے انسانی حقوق کے حامیوں کی سنسرشپ ان گنت فلسطینی ماہرین تعلیم ، کارکنوں اور طلبہ کو بھی متاثر کرتی ہے، جن کے پاس میرے جیسا پلیٹ فارم نہیں ہے۔‘‘ ( جیمس کیوالرویونیورسٹی نیٹ ورک فار ہیومن رائٹس کے شریک بانی ہیں۔)
ملکی منظر نامہ:
بجٹ پہ بحث
یکم فروری کو پارلیمنٹ میں اس سال کا بجٹ پیش کیا گیا۔ ہمارے ملک کےمعاشیات کے لیے یہ سب سے اہم دن ہے۔بنیادی طور پر بجٹ کے تین نکات ہیں۔ پہلا آئندہ سال میں ہمارا ملک کتنا کمانے والا ہے، دوسرا آنے والے سال میں ہمارا ملک کتنا خرچ کرنے والا ہے، اور تیسرا یہ کہ آنے والے سال میں ہمارے ملک کی معاشیات کی توجہ کہاں مرکوز ہوں گی۔ اس سال کی بجٹ کا کام پچھلے سال کے اگست 2022 ءسے ہی شروع کر دیا گیا تھا۔ اس کو تیار کرنے میں لگ بھگ چھ ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ وزیر مالیات ساری وزارتوں سے آنے والے سال کےلیے ایک اندازہ کے مطابق مطلوبہ رقم منصوبوں کی تیاری کےلیےپوچھتا ہے، اور پھر جی ڈی پی کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشیات کے ماہرین سے بجٹ تیار کروایا جاتا ہے۔
اس سال کے بجٹ میں کیپٹل اسپنڈنگ (Capital spending) کو بہت زیادہ بڑھایا گیا ہے، جو کہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ لگ بھگ دس لاکھ کروڑ روپے اس سال میں خرچ کیے جائیں گے۔ وزیر مالیات کا کہنا ہے کہ اس کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ ملازمت فراہم کرنا ہے، کیونکہ جتنا زیادہ انفراسٹرکچر کام ہوگا لوگوں کو روزگار ملنے کے اتنے ہی زیادہ مواقع ہوں گے۔
دوسری چیز جس پر اس سال کے بجٹ کا زور رہا ہے وہ ہے کہ مالیاتی خسارے میں کمی یعنی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق۔ جمالیات وزیر مالیات کے مطابق اس سال مالیاتی خسارے کو 5.9 جی ڈی پی تک کم کیا جائے گا۔ اس کو عمل میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کو گھاٹے اور کمائی کو بڑھانے کی طرف غور کرے۔ نتیجۃً سرکار کو اپنی اسکیم اور دوسرے مد میں فنڈ کی کٹوتی کرنی ہوگی ،ساتھ ہی ٹیکس کو بڑھانا پڑے گا۔ لہذا میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کہ کھانے پینے کی اشیاء،کھاد اور پٹرولیم میں 28 فیصد تک کٹوتی کی گئی ہے۔ پچھلے سال مذکورہ چیزوں پر 5.2 لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے، جبکہ اس سال 3.75 لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ منریگا اسکیم جو کہ حکومت پر دیہی علاقوں میں ملازمت دینے کی سب سے اہم اسکیم ہے اس میں پچھلے سالوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ کٹوتی کی گئی ہے۔ گذشتہ سال کے 89 ہزار کروڑ سے گھٹتے ہوئے اب یہ رقم محض 60 ہزار کروڑ تک رہ گئی ہے۔وزیر مالیات کے مطابق نرملا سیتا رمن کے الفاظ میں یہ ’’امرت کال‘‘ کا پہلا بجٹ ہے۔ان کے مطابق بجٹ میں سات چیزوں کو ترجیحات دی گئی ہیں۔
1. مشمولہ ترقی
2. زرعی شعبے کی مدد کےلیے ڈیجیٹل انفراسٹکچر
3. مالیاتی شعبے
4. انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری
5. گرین گروتھ
6. یوتھ پاور
7. ان لیشنگ پوٹینشل مشمولہ ترقی یعنی سب کا ساتھ سب کا وکاس ہو۔
اس ترقی میں عورتیں، بچے، بوڑھے ، جوان، دیہاتی، آدیواسی ہر طرح کے لوگوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے پر توجہ دی گئی ہے۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ کو بڑھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سڑکوں کی تعمیر، دفاع کا بجٹ اور خصوصاً ریلوے منسٹری کا بجٹ کافی بڑھایا گیا ہے۔ ریلوے میں ایک لاکھ کروڑ کی رقم کا اضافہ ہوا ہے۔ پی ایم غریب کلیان یوجنا کے تحت 5 کیلواضافی راشن بانٹنے والی اسکیم کو ختم کر کے اس کا متبادل لایا گیا کہ اب چاول اور گیہوں جو پہلے تین اور دو روپے کلو کے حساب سے بیچے جاتے تھے انہیں مفت بیچا جائے گا۔
ایک نئی اسکیم کو بھی متعارف کروایا گیا ہے جس کا نام پی ایم پرانام رکھا گیا ہے۔ اس کے تحت کیمیکل والے کھاد کو بغیر کیمیکل والے کھاد سے بدلا جائے گا۔ لیکن اس سال وزارت خواتین کے بجٹ میں کوئی خاص اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ تغذیہ کی کمی سے نمٹنے کے لیے بھی کوئی خاص رقم نہیں ہے خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کا بجٹ پچھلے سال کے مقابلے میں نصف طور پر گھٹا دیا گیا ہے۔ انکم ٹیکس میں میں بھی تبدیلی کی گئی ہے اور نئے ریجیم کو مزید پر کشش بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بجٹ سے ملک کو کتنا نفع ہوتا ہے ۔
بی بی سی ڈاکیومنٹری
بی بی سی کی جانب سے ایک ڈاکیومنٹری نے ملک بھر میں ہلچل پیدا کردی۔ ڈاکیومنٹری دو حصوں پر مشتمل ہے ،جس میں وزیراعظم نریندر مودی کی ٹریک ریکارڈ کی تفصیلات ہیں۔ ان میں گجرات 2002 ءمیں مسلمانوں کے خلاف فسادات کے احوال بھی شامل ہیں جب کہ نریندر مودی وہاں کے وزیر اعلیٰ تھے۔ حکومت نے اپنے ایمرجنسی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فلم کو انٹرنیٹ، اور یو ٹیوب وغیرہ سے ہٹوا دیا ہے اور فلم کو ایک پروپیگنڈہ قرار دیا ہے کہ اس سے ملک کے امن کو نقصان پہنچے گا۔
جہاں کہیں اس فلم کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے وہاں طلبہ کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ بی بی سی کے دہلی اور ممبئی دفتروں میں انکم ٹیکس نے سروے بھی کیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ایک معمولی سروے ہے ،کیوں کہ بی بی سی نے سرکاری نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔بعض جگہوں پر اس سے پہلے کے طلبہ فلم کی اسکریننگ کر پاتے ، پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا ۔ کچھ کو چند گھنٹوں بعد رہا کر دیا گیا جبکہ کچھ کو پوری رات حراست میں گزارنی پڑی۔ تقاریر اور آزادی اظہار پر اس طرح کی پابندیوں پر انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سینیئر صحافی ساگاریکا گھوش نے بی بی سی کو بتایا کہ’’اس طرح کے سوالات کو دبانا، کھلی بحث کو کچلنا، دستاویزی فلم کو بلاک کرنا، جواہر لال یونیورسٹی میں بجلی کو کاٹ دینا، جامعہ کے طلبہ کو گرفتار کرنا بہت زیادہ شدید ردعمل ہے۔ اور یہ ایک طرح کا پاگل پن ہے۔‘‘بی بی سی پہلے ہی چین میں بین ہوا ہے۔ ہندوستان میں اندرا گاندھی کا حوالہ دیتے ہوئے کہ انھوں نے بھی بی بی سی کو بین کیا تھا، ہندوتوا گروپ اسے بین کرنے کی مانگ کر رہی ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس بی بی سی ڈاکیومنٹری کو اس وقت کیوں دکھایا گیا،جبکہ ہندوستان جی ٹونٹی کی صدارت کرنے جارہا ہے۔ ہمارے وزیراعظم عالمی سطح پر ہندوستان کو Mother of Democracy کے طور پر پیش کرنے جا رہے ہیں، یا پھر اس وقت جبکہ انگلینڈ اور ہندوستان کے درمیان کافی اہم تجارتی معاہدوں پر دستخط ہو رہے ہیں۔
ایک طرف ہماری حکومتیں میڈیا کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پرانی باتوں کو بھلا کر ہمارے ملک کی تصویر عالمی طور پر خراب کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ڈاکیومنٹری میں جو باتیں دکھائی گئی ہیں، وہ بے بنیاد نہیں ہیں ،بلکہ گجرات فسادات کے سلسلے میں ہیومن رائٹس کمیشن نے 2002ءمیں ہی کہا تھا کہ گجرات حکومت اپنے لوگوں کی حفاظت میں ناکام رہی ہے۔ ڈاکیومنٹری سے نمٹنے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ اسے Discredit کر دیا جاتا یعنی حکومت اسے قابل اعتبار ہی نہ سمجھتی۔ ڈاکیومنٹری کے بارے میں میں انگلینڈ کے وزیراعظم رشی سو نک کا کہنا ہے کہ وہ بی بی سی کی اس ڈاکیومنٹری کے رویے سے متفق نہیں ہیں، خاص طورپر جس طرح اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کو دکھایا گیا ہے۔ یہ کوئی پہلی ڈاکیومنٹری بھی نہیں ہے ،بلکہ بی بی سی اس سے پہلے ٹرمپ، بولسونارو، اوربان،اور اردگان وغیرہ پر بھی ڈاکومینٹری بنا چکی ہے اور تقریباً ساری ہی تنقیدی ہیں۔ لیکن حکومت کا جو رویہ اس ڈاکیو منٹری اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ رہا ہے وہ ظاہر کر رہا ہے کہ 2023 ءمیں Press freedom index میں ہمارا درجہ 150 سے بھی نیچے جا سکتا ہے۔
0 Comments