مارچ ۲۰۲۳
زمرہ : النور

مارسیل موص کی کتاب دا گفٹ جو کی قبائل پر ایک نسل نگاری ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صدقہ کے تعلق سے بات کرتے ہوئےبتاتے ہیں کی سڈان کے حوصا قبیلے میں جب بٹے کی کھیتی لہلہانے لگتی،اس وقت لوگوں کو کسی انجانے وبا کے آنے کا خدشہ لاحق ہوتا۔ اس قسم کی کسی بھی آفت سے بچنے کے لیے وہاں کے لوگ غریبوں میں صدقہ کا اہتمام کرتے ہیں ،بلکہ صدقہ ان کے مذہبی عقیدے کا حصہ بھی بن چکا ہے۔ موص کا کہنا ہے کی حوصا قبیلے میں صدقہ کی یہ روایت در اصل مسلمانوں کی ہے۔ مصنف کتاب میں آگے اس کی تفصیلات بیان کرتے ہیں کی اس علاقہ میں صدقہ کا تصور کن بنیادوں پر جنم پایا اور کس طرح صدقہ کا تصور ان کے مذہبی عقیدہ کا حصہ بن گیا۔اس تاریخی نسل نگاری کی مثال کے ذریعہ ہمیں صدقہ کی اہمیت کا اندازہ ہوا ۔ اس کتاب سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کی معاصر دنیا میں اور دیگر مذاہب میں صدقہ کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ۔

انفاق کا اسلامی نظریہ

انفاق کے تعلق سے امین احسن اصلاحی ؒ اپنی کتاب تزکیۂ نفس میں بیان کرتے ہیں کہ دنیا اور اسباب دنیا سے محبت کے سبب اللہ تعالی کے تئیں جو غفلت ہوتی ہے اس کا سب سے زیادہ مؤثر اور کارگر علاج انفاق فی سبیل اللہ ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا۔تزکیۂ نفس اور احسان کے نقطۂ نظر سے دین میں جس چیز کی اہمیت ہے، وہ انفاق کی ہے ،صرف زکوٰۃ کی نہیں ہے۔
زکوٰۃ ادا کرنے سے اسلامی حکومت کے مطالبے سے تو آدمی ضرور بری ہو جاتا ہے ۔لیکن جہاں تک اللہ تعالیٰ کے مطالبے کا تعلق ہے،وہ صرف زکوٰۃ ادا کردینے سے پورا نہیں ہوتا بلکہ اس وقت پورا ہوتا ہے،جب انسان اپنی ضروریات کے سوا ہر مصرف سے اپنا مال بچا کر اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے ،در حقیقت وہی آخرت میں اپنے رب کی خوشنودی کی جنت دیکھے گا۔
اسلام کا اصلی مطالبہ تو انفاق کے لیے ہے، جو سراً بھی ہو علانیہ بھی ہو ،جو تنگی میں بھی ہو فراخی میں بھی ہو ،دوست اور عزیز کے لیے بھی ہو ،مخالف اور دشمن کے لیے بھی ہو۔

انفاق کی برکات

انفاق کی مختلف برکات ہیں جن میں تین بنیادی برکتوں پر ہم گفتگوں کریں گے۔ انفاق کی عبادت میںذیل کی تین برکتوں کی خاص اہمیت ہے :
1.اللہ تعالیٰ کے ساتھ حقیقی لگاؤ
2.معاشرے کے ساتھ حقیقی ربط
3.مال میں برکت

اللہ تعالیٰ کے ساتھ حقیقی لگاؤ

انفاق کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ یہ آدمی کے دل کو اللہ کے ساتھ اس طرح جوڑتا ہے کہ اس کے لیے اللہ سے غافل رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔آدمی کی مال سے محبت کے نتیجہ میں فطرت شہادت دیتی ہے کہ جہاں اس کامال رہتا ہے وہیں اس کا دل بھی اٹکا رہتا ہے۔اگر کوئی شخص اپنا مال کسی کاروبار یا کسی کمپنی میں لگاتا ہے تو، ہمیشہ اس کی فکر اسی کاروبار یا کمپنی میں لگی رہتی ہے۔اس حقیقت کی روشنی میں اگر دیکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کی جو شخص اپنا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے،اس کا دل بھی ہمیشہ اللہ ہی کے ساتھ رہتا ہے۔اسی وجہ سے انفاق کے ذریعہ ایک بندہ کا اپنے رب کے ساتھ تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہو جاتا ہے۔

معاشرے کے ساتھ حقیقی ربط

اس کی دوسری برکت یہ ہے کی صاحب انفاق کا اپنے معاشرے کے ساتھ بھی صحیح ربط قائم ہوجاتا ہے۔ایک بندہ کے صحیح بندہ بننے کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں ۔ایک یہ کہ رب کے ساتھ اس کا تعلق ٹھیک ٹھیک قائم ہوجائے اور دوسری یہ کہ خلق کے ساتھ وہ صحیح طور پر مربوط ہو جائے۔دوسری چیز انسان کو انفاق سے حاصل ہو تی ہے۔ان دونوں برکتوں پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ پہلی برکت حقوق اللہ کا سرچشمہ اور دوسری حقوق العباد کی اصل ہے ۔جو آدمی دوسروں کے لیے اپنا مال خرچ کرسکتا ہے ،وہ دوسرے حقوق بھی ادا کرنے میں تنگ دل نہیں ہوگا ۔انسان کا دل اگر مال کی محبت اور بخالت کی بیماری سے پاک ہوجائے تو اس کے لیے وہ تمام نیکیاں آسان ہوجاتی ہیں جن سے ایک آدمی اپنے معاشرے کا بہترین فرد ثابت ہوسکے۔

مال میں برکت

انفاق کی تیسری برکت یہ ہے کہ اس سے آدمی کے مال میں برکت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اس برکت کی مثال اس طرح بیان ہوئی ہے :

 مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ-وَ اللٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ-وَ اللٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْم

(ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں ،ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیےچاہے اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔)(البقرہ)
یہ برکت آخرت میں جو ظاہرہوگی وہ تو ہوگی ہی،اس دنیا میں بھی اس شخص کے مال میں برکت ہوتی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اس کے مال سے فائدہ اٹھا تاہے وہ اس کے لیے دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بالخصوص ان کی دعائیں قبول کرتے ہیں، جو حاجت مند ہوں۔
مال میں برکت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ مال کا جو حقیقی فائدہ اور نفع ہے ، جس مقدار میں وہ حاصل کرتا ہے ، اس کے مقابل میں دوسرے حاصل نہیں کر پاتے۔خلق خدا کی جو خدمت اس کے مال سے انجام پاتی ہے ،دوسرے کے مال سے انجام نہیں پاتی۔ معاشرے اور تمدن کی اصلاح و ترقی میں جو حصہ اس کے مال کا ہوتا ہے ، دوسروں کے مال کا نہیں ہوتا ۔ اللہ کی خوشنودی کا جو لا زوال خزانہ وہ اپنے مال کے بدلے میں حاصل کرلیتا ہے، دوسرے اس سے محروم رہتے ہیں۔اس برکت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انفاق کرنے والوں کا مال چونکہ دوسروں کے فاسد ملاوٹ سے پاک ہوتا ہے،اس وجہ سے صالح بیج کی طرح اس کی قوت نشونما میں بڑا اضافہ ہو جاتا ہے۔

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳