مارچ ۲۰۲۳

ھادیہ میگزین کا مطالعہ اکثر مڈل کلاس اور معزز گھرانے سے تعلق رکھنے والی بہو ، بیٹیاں کرتی ہیں ۔میں سمجھتی ہوں ’’کیس اسٹڈی‘‘ کے ذریعے جو حقیقی واقعات پیش کیے جارہے ہیں ،ان برائیوں کو پیش کرنے کے بجائے ،اصلاحی اورسبق آموز واقعات پیش کیے جائیں۔
اس قسم کے سچے واقعات آج کل بھرے پڑے ہیں، بالخصوص کچھ رسالے ہر ریلوے اسٹیشنوں پر دستیاب ہیں، جن میں صرف ایسے ہی واقعات کو پیش کیا گیا جو صرف اور صرف گندے ذہن رکھنے والے قاریوں کے لیے تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔ایسے واقعات کی منظر کشی ذہنوں کو کیونکر اصلاح کی جانب مبذول کرے گی؟ مناسب یہ ہوگا کہ ’’کیس اسٹڈی‘‘ کو مختصر الفاظ میں ڈھکے چھپے انداز میں پیش کریں پھر ان میں رونما ہونے والے مسائل کا حل تلاش کیا جائے ،مثلاً :مظلوم کو کس طرح انصاف دلایا گیا؟ یا خاندان میں سدھار کیسے لایا گیا؟ انصاف ملنے کے بعد مظلوم کی کیا کیفیات و تاثرات تھیں۔اس پر اگر مفصل بات ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔
تمام واقعات جوں کے توں بیان کرنا ،پھر ان کا کوئی حل بھی سامنے نکل نہیں آنا ،میں سمجھتی ہوں برائیوں کو بِنا حل کے صرف پڑھنا کچھ حاصل نہیں ،کیونکہ ناجائز تعلقات ، نازیبا حرکات اور حقیقی واقعات پر مبنی اس طرح کی کہانیاں اچھے گھرانوں میں پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا اور جاتا ہے۔
کیس اسٹڈی کے مطالعہ میں بھابھی سے دیور کا ناجائز رشتہ ، باپ کا بیٹی کے ساتھ ناجائز تعلق ، بھائی بہن میں جنسی تعلق۔ایک شوہر کی دو بہنیں آپس میں سوتن ۔استغفراللہ!
یہ برائیاں واقعات کی شکل میں پڑھ کر ہمیں اور ہماری بچیوں کو کیا حاصل ہورہا ہے؟ ان برائیوں کو فوکس کرکے جو کہ یہ زیادہ تر جاہل گھرانہ اور جھوپڑ پٹی طبقے کا شیوہ ہے ۔ان پر کھل کر لکھنا ، پڑھنا ، تبصرہ کرنا کہاں تک درست ہے؟ملک وملت کے کئی مسائل ہیں۔معاشرے کی کئی اچھی باتیں اور واقعات ہیں ان پر فوکس کرنا زیادہ مناسب اور بہتر ہوگا ۔صحت منداور معلومات سے بھرپور گفتگو ہو ،سماج میں جو اچھے واقعات رونما ہوتے ہیں،انھیں زیادہ سے زیادہ آگے لائیں، تاکہ ہماری خواتین اور خصوصاً قوم کی معصوم بچیوں کو پروٹین کی شکل میں ایک صحت مند لٹریچر پڑھنے کو ملے۔
اس کیس اسٹڈی پر تبصرے کےلیےکیس کی جانب بڑھتے ہیں۔کیس اسٹڈی کی رائٹر لکھتی ہیں :
’’زیادہ تر لڑکیاں اپنی ماؤں کےسامنے اپنے خیالات، جذبات، احساسات اور حقائق بتانا پسند نہیں کرتیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ وہ اپنی ماؤں کے ساتھ جو کچھ بھی شیئر کریں گی وہ انہیں منفی انداز میں لیں گی ۔ ان کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر اس کے بارے میں ناگوار تاثرات قائم کریں گی ۔‘‘
ماں کے سامنے اگر لڑکیاں فری ہوں اور بے تکلفی سے اپنے مسائل شیئر کریں تو ہر مسئلے کا صحیح حل نکل سکتا ہے، لیکن افسوس ان پڑھ جاہل قسم کی لڑکیاں اپنی والدہ کو اہمیت کی حامل ہی نہیں سمجھتیں اور کچھ کہنے سے اس لیے بھی کتراتی ہیں کہ وہ بات کو منفی انداز میں لے کر ہو سکتا بات کا بتنگڑ نہ بنا دیں۔ افسوس ہے ایسی ذہنیت رکھنے والی ناسمجھ بیٹیوں پر۔ بیٹی کی دنیا میں سب سے زیادہ اگر کوئی کیئرکرسکتا ہے تو وہ ماں ہے۔سب سے زیادہ پیار کرنے والی،سب سے زیادہ بھلا چاہنے والی اور دنیا کی سب سے مخلص ترین ہستی ماں کہلاتی ہے۔
اصلاحی معاشرے کا یہ طریقۂ کار رہا ہے کہ بیٹی کی سب سے بہترین دوست ماں کہلاتی ہے اور بیٹے کا سب سے بہترین دوست اس کا اپنا باپ ۔ان ہی مقدس رشتوں سے جب بچیاں بھاگ کر اپنی باتیں ، فکریں ، راز چھپاتی رہیں گی تو دنیا کا کوئی رشتہ اسے بہتر انداز میں تحفظ نہیں دے سکتا ۔
ہمارا مسلم معاشرہ اگر شریعت کی رو شنی میں زندگی گزارنے کی کوشش کرے گا تو یہ مسائل ہی نہیں پیدا ہوں گے۔ پیاری سی حدیث ہے :
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں میں جانے سے بچتے رہو، اس پر قبیلہ انصار کے ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دیور کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ دیور یا (جیٹھ) تو موت ہے۔
یعنی دیور کا اپنی بھابھی کے پاس خلوت میں جانا موت کی طرح خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ شرعی احکام اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ایک عورت، دیور یا سسرالی قریبی رشتہ دار مردوں سے بے تکلف ہوکر خلوت میں اس کے ساتھ وقت گزارے۔پردے کے معاملے میں لاپرواہی مناسب نہیں ۔دیور ایک عورت کے لیے نامحرم ہے۔یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو ایک عورت یعنی بھابھی کی عزت اور اس کی معصومیت کے لیے کبھی بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ،اس کی عزت کی چادر کو تار تار کرنے میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے ،اس رشتے سے ایک عورت اپنے ہی خاندان اور اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ۔ لہٰذا، عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی عزت و ناموس کی تحفظ کے پیشِ نظر اس کے ساتھ بے تکلف ہونے سے اجتناب کرے اور اپنے پردے کو کسی صورت ترک نہ کرے۔شوہر کہیں دور پردیس چلا گیا ہو تو ان حالات میں ایک لڑکی کا اپنے سسرال میں غیر شادی شدہ دیوروں کے ساتھ رہنا مناسب نہیں ۔
والدین سمجھتے ہیں کہ بیٹی بہت ہی نیک سیرت ، فرشتہ صفت ہے اور سسرالی لوگ سمجھتے ہیں کہ گھر کے مرد حضرات فرشتے ہیں۔ بچوں کو فرشتہ صفت سمجھنا الگ چیز ہے اور جوان لڑکا ، لڑکی کو ایک چھت کے نیچے گھر میں رکھنا ایک الگ مسئلہ و فتنہ ہے ،جو شر پھیلانے کے تمام تر اندیشے پیدا کرسکتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ مرد الگ جگہ کھانے کی ترتیب بنالیں اور خواتین الگ جگہ۔یا ایسی ترتیب بنائیں کہ دیور اور بھابھی کا سامنا نہ ہو۔دیور اور بھابھی کی بے تکلفی،ہنسی مذاق کا ماحول پیدا نہ ہو اور کوئی غیر محرم کسی کے ساتھ متصل بھی نہ ہو۔

اس کیس میں:

’’ساس کا ماننا تھا کہ گھر سنبھالنا، سب کا خیال رکھنا بہو کی ذمہ داری ہے۔‘‘
مسلم معاشرے کا یہ بھی ایک بدنما پہلو جان لیں کہ ساس سسر ،بہو کو بیٹی نہیں بلکہ ایک ملازمہ یا مشین تصور کرتے ہیں کہ جب اسے بیاہ کر گھر لایا جاتا ہے تو بس اسے ہر وقت آن موڈ پر دیکھنا پسند کریں گے۔سسر کے سر میں درد ہو تو بہو چائے بنائے ، ساس کی کمرمیں درد ہو تو بہو تیل کا مساج کرے۔دیوردیر رات گھر لوٹے تو بہو کھانا گرم کرکے دسترخوان لگائے۔میں پوچھتی ہوںکہ کیا اس دیور کی بہن کا کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے چھوٹے موٹے کام انجام دےدیا کرے؟کیا ساس کےلیے اپنے شوہر کا خیال رکھنا ضروری نہیں؟ ایسے حالات پتہ نہیں کتنی بہو ، بیٹیوں کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔جنھیں وہ اپنی عزت کی خاطر چھپا کررکھنے پر مجبور ہیں ۔ رب خیر کا معاملہ فرمائے۔آمین۔
مصنفہ کو چاہیے مسائل کے ساتھ ان کاحل بھی قاری کے سامنے پیش کریں۔اصلاحی پہلو بھی پیش کریں تاکہ الجھن میں مبتلا قاری کے قلب کو سکون میسر ہو ۔یہ ضروری نہیں کہ ہر قاری فہم و فراست کا پیکر ہو۔ کچھ لوگ بلکہ بیش تر پڑھنے والے سیکھنے ، سمجھنے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے ایسی تحاریر کا مطالعہ کرتے ہیں ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳