مارچ ۲۰۲۳

ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا،بجلیاں کڑکیں، بادل گرجے، درخت پوری قوت کے ساتھ جھوما، اور تنکا تنکا لاکر گھونسلہ بناتی بھوری چڑیا کا ادھ بنا گھر زمین بوس ہوگیا۔
تنکا تنکا جوڑ کر بنا یا گیا گھر ٹوٹنے کا دکھ!
آہ!لیکن بھوری چڑیا پہلی دفعہ اس درد کا شکار نہیں ہوئی تھی۔وہ اپنی فیملی کے ساتھ بہت خوشحال زندگی گزار رہی تھی، لیکن ایک دن آندھی سے اس کا شاندار گھونسلہ بکھر گیا تھا، جس کے نتیجے میں اس نے اپنے بچے کو بھی کھویا تھا۔ اس نے کئی دفعہ گھونسلہ بنانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہی،پھر بھی اس نے ہمت نہیں ہاری، اور اب وہ ایک دفعہ پھر اپنے بچوں کے لیے گھر بنانے کی کوشش کررہی تھی،لیکن اب بھی اس کا گھر نہیں بن پایا۔
تبھی ہواؤں کے ساتھ بارش شروع ہوئی۔ بھوری چڑیا کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں اپنے بچوں کے ساتھ آسمان میں تیز تیز اڑنے لگی۔ آس پاس کہیں کوئی درخت نظر نہیں آرہا تھا۔ انسانوں نے پرندوں کے گھر درختوں کی کٹائی کرکے وہاں اپنے گھر تعمیر کرلیے تھے۔ اسے دور دور تک کہیں ایک بھی درخت نظر نہیں آرہا تھا۔ بارش مسلسل ان پر برس رہی تھی۔ اس کے بچے بھیگ رہے تھے۔ ٹھنڈ سے کانپتے ہوئے بھی اڑ رہے تھے۔یکایک بھوری چڑیا کو ایک ایسی جگہ نظر آئی جہاں وہ اپنے بچوں کو محفوظ کرسکتی تھی۔وہ ایک گھنا درخت تھا۔ وہ تیزی سے اپنے بچوں کو لیے نیچے آئی۔ بچے بھوک کے مارے چوں چوں کررہے تھے۔ گھنے سایہ دار درخت کی شاخ پر بنا مضبوط اور بڑا گھونسلہ دیکھ کر بھوری چڑیا کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسے بھی ایسا ہی گھر دیا تھا، لیکن وہ ٹوٹ گیا، اور اب اللہ نے ہی اسے اِس گھر کا راستہ بتایا تھا۔ وقتی طور پر ہی سہی، وہ یہاں اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو محفوظ کرسکتی تھی۔بھوری چڑیا گھونسلے کے ساتھ والی ٹہنی پر بیٹھ گئی۔اس کی تقلید میں اس کے بچے بھی وہیں بیٹھ گئے۔یک لخت اس گھونسلے میں بیٹھی چڑیا کی نظر اس پر پڑی۔ بھوری چڑیا بھوکی، پریشانی سے بے حال اور بھیگی ہوئی تھی۔
’’اے ہٹو یہاں سے۔ میرے بچوں کے کھانے کو نظر لگارہی ہو؟جاؤ یہاں سے۔‘‘ اس چڑیا کی اونچی آواز سن کر بھوری چڑیا کے بچے سہم کر اس سے لپٹ گئے۔
’’نہیں نہیں بہن، ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ بارش سے بچنے کے لیے یہاں آئے ہیں بس۔‘‘ بھوری چڑیا نے تیزی سے کہا۔
’’نہیں،میرے گھر میں جگہ نہیں ہے۔‘‘ بھوری چڑیا نے اس کی بات پر اس کے بڑے سے گھونسلے کو دیکھا، جس میں وہ چڑیا اپنے دو بچوں کو پروں میں چھپائے بیٹھی تھی۔ اطراف میں وسیع جگہ خالی تھی۔ بھوری چڑیا نے اس کے جھوٹ بولنے پر ملامتی نظروں سے اسے دیکھا۔
’’کوئی بات نہیں۔ ہم بارش رکنے تک یہیں بیٹھ جائیں گے۔ اسی درخت کی ٹہنی پر۔‘‘اتنے میں پڑوسی گھونسلے سے ایک چڑیا آئی اور اس چڑیا سے بھوری چڑیا کے متعلق استفسار کیا۔
’’پتہ نہیں۔ کوئی بھکارن ہے۔‘‘
’’بھکارن!‘‘ یہ لفظ سن کر بھوری چڑیا کو ایسا لگا جیسے اس کے دل پر کسی نے ضرب لگائی ہو۔
’’بری بات چڑیا بی! ایسے نہیں کہتے۔ غربت کی وجہ سے ان کا یہ حال ہے۔بھکارن نہ کہو۔‘‘
’’غربت! کیا وہ غریب ہے؟ وہ تو بہت خوشحال تھی۔ وہ تو بس بارش کے تھمنے تک پناہ گاہ کی تلاش میں آئی تھی۔ بارش رکتے ہی وہ اپنے گھر کی تعمیر اور روزی کی تلاش میں نکل جائے گی۔ پھر لوگ اسے غریب کیوں کہہ رہے ہیں؟‘‘بھوری چڑیا کا دل ڈوبنے لگا۔ اس نے بے اختیار اپنے بچوں کو اپنے مزید قریب کیا۔ وہ ٹھنڈ سے کانپ رہے تھے۔
’’تم کون ہو بہن؟‘‘ پڑوسن چڑیا نے اس کے قریب آکر پوچھا۔
بھوری چڑیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔’’میں مسافر ہوں۔ حالات کی ماری ہوئی ہوں۔ الحمدللہ اب تک میں بہت خوشحال تھی،لیکن اس برسات کے شروع میں میرا گھر ٹوٹ گیا۔ میں نے اپنا ایک بچہ کھویا۔ کچھ عرصے سے گھر بنا بنا کر رہتی ہوں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں، پھر ٹوٹ جاتا ہے۔ آج پھر گھر بنا رہی تھی کہ بارش شروع ہوگئی۔ ادھورا گھر ٹوٹ گیا۔‘‘ بھوری چڑیا آنکھوں میں آنسو لیے کہہ رہی تھی۔
’’لیکن میں نے ہر حال میں اللہ کا شکر ہی ادا کیا ہے۔کبھی اس سے شکوہ نہیں کیا۔ میں جانتی ہوں یہ اس کی طرف سے میری آزمائش ہے۔ میں ہر حال میں خوش رہ کر اس کی آزمائش میں کھری اترنے کی کوشش کرتی رہوں گی۔ آج رات کی پناہ لینے کی غرض سے یہاں آئی ہوں۔ صبح بارش رکے گی تو میں چلی جاؤں گی۔‘‘پڑوسن چڑیا نے اس پر ترس کھاکر چڑیا بی سے کہا کہ وہ اسے آج رات کے لیے جگہ دے دے، کیونکہ اس درخت کے علاقے میں سب سے بڑا گھونسلہ چڑیا بی کا ہی تھا، اور اس کا خاندان بھی چھوٹا تھا۔ کسی کے بھی لیے آسانی سے جگہ نکل آتی تھی،لیکن چڑیا بی غصہ ہوگئی۔
’’نہیں نہیں،میں اس کو نہیں رکھ سکتی۔ میرے بچے تنگی کا شکار ہوجائیں گے۔ میں اپنے بچوں کی جگہ اور ان کا کھانا کسی اور کو نہیں کھلا سکتی۔‘‘کہہ کر وہ تیزی سے گھونسلے میں پھیل کر بیٹھ گئی۔
’’کوئی بات نہیں بہن! میں یہیں ٹہنی پر رہ لوں گی۔ ایک رات کی ہی تو بات ہے، اور یہاں سایہ تو ہے ہی۔ آپ میرے لیے پریشان نہ ہوں۔‘‘
’’تھوڑا ہمارے گھونسلے سے دور والی ٹہنی پر بیٹھو۔ میرے بچوں پر غریبوں کا سایہ بھی نہیں پڑنا چاہیے۔ ‘‘چڑیا بی نے بھوری چڑیا سے کہا۔چڑیا بی کی بات سن کر بھوری چڑیا کو بہت افسوس ہوا۔
’’تم نے انسانوں والی عادت کب سے سیکھ لی چڑیا بی؟ تم ایسی تو نہیں تھیں۔‘‘
’’انسانوں والی عادت؟‘‘
’’ہاں! انسانوں والی عادت۔ انسان آج کل انسانوں کی عزت نہیں کرتا۔ایک دوسرے کا احترام نہیں کرتا۔‘‘ پڑوسن چڑیا کہنے لگی۔
’’انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔ ہم سب سے افضل ہے۔‘‘
’’انسان ہم سے افضل ہے، لیکن آج کل انسان اپنے اخلاق کھو بیٹھاہے۔انسان میں انسانیت باقی نہیں رہی۔ تم ابھی جس طرح اس بھوری چڑیا کے ساتھ پیش آرہی تھیں، بالکل وہی عادات انسانوں کی ہیں۔ انسان اپنی افضلیت کھو بیٹھا ہے۔ تم تو انسان نہیں ہو چڑیا بی! پھر کیوں ایسی نیچ حرکتیں کررہی ہو؟‘‘ بھوری چڑیا خاموشی سے پڑوسن چڑیا کی باتیں سن رہی تھی۔
’’تم نے وہ واقعہ تو سنا ہی ہوگا۔ جب اللہ کی وحدانیت کی دعوت دینے کے جرم میں حضرت ابراہیم (خلیل اللہ) علیہ السلام کے خلاف فیصلہ کرتے ہوئے بادشاہ نمرود نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ دہکانے کا حکم صادر کیا۔ نمرود نے اپنی پوری طاقت آگ کو بھڑکانے میں صرف کی،جس سے اطراف کا علاقہ بھی آگ کی زد میں آگیا۔ وہ ایک دہشت ناک منظر تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا۔ نمرودی لشکر آگ دہکا رہا تھا۔ تب ایک چڑیا وہاں آئی اور آتش نمرود کے اوپر پرواز کرتی ہوئی چکر کاٹنے لگی۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ اے ننھی چڑیا تو یہاں کیسے آئی ہے؟اور کیا کرنا چاہ رہی ہے؟ تو چڑیا نے جواب دیا تھا کہ میں جب بھی یہاں آتی ہوں اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لے آتی ہوں، اور وہ قطرہ آتش نمرود پر ڈال واپس جاکر پھر سے چونچ بھر پانی لاتی ہوں۔ میں آگ کو بجھانے کی کوشش کررہی ہوں۔ تو اس شخص نے کہا: اے چڑیا! تو کتنی بھولی اور سادہ ہے۔ جس آگ کو دہکانے میں نمرود نے اپنا سارا لشکر وقف کررکھا ہے، جس کے شعلے فلک کو چھو رہے ہیں، اس آگ کو توُ ننھی چڑیا کیسے بجھا پائے گی۔ جا چلی جا یہاں سے، ایسا نہ ہو کہ تیرے پر بھی جل جائیں۔صاحب دل بزرگ کی یہ باتیں سن کر چڑیا بولی :گو کہ میں بہت نحیف اور کمزور ہوں اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میری چونچ میں لایاگیا یہ قطرہ قطرہ پانی اس بھڑکتی آگ کو نہیں بجھا سکتا، لیکن میرا یہ عمل قیامت تک آنے والی نسلوں کےلیے سبق آموز بن جائے گا کہ جب نمرود کے لشکروں کے لشکر اور نمرودی سلطنت کا ہرفرد اس آگ کوبھڑکا نے میں مصروف تھا تو ایک ننھی سی چڑیا آگ بجھانے کی کوششیں کرتی رہی ۔سو میں خود کوآگ بھڑکانے والوں میں نہیں بلکہ آگ بجھانے والوں میں شامل رکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’وہ بھی تمھاری ہی جیسی ننھی چڑیا تھی چڑیا بی،لیکن اس کا دل اور اس کا عزم بہت بڑا تھا۔‘‘ پڑوسن چڑیا نے آہستگی سے کہا۔
’’کوئی بھکاری یا غریب نہیں ہوتا۔ سب اپنے حالات کا عکس دکھاتے ہیں،اور حالات کسی کے بھی دائمی نہیں ہوتے۔بدلتے رہتے ہیں، اور انھیں بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ ابھی یہ غریب نظر آرہی ہے،اللہ کو پل بھر میں اسے امیر بنانے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ اس پل تم امیر ہو تو تم پر غربت طاری ہونے میں ایک لمحہ نہیں لگتا۔ اس پل تم بڑی ہو، دوسروں کو جوتی کی نوک پر رکھتی ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرتی ہو تو اگلے پل کسی کو تمھیں جوتی سے کچلنے میں کوئی دقت نہیں پیش آئے گی۔‘‘پڑوسن چڑیا، چڑیا بی کے گھر کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔
’’تمھیں اپنے گھر پر بھی ناز ہے ناں! اگر اللہ چاہے تو اس گھونسلے کو ٹوٹنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگے گا۔ تم چڑیا ہو چڑیا بی،اور چڑیا ہی رہو۔ انسانوں کی طرح مت بنو۔ انسان اپنی مرضی کا مالک ہے۔ وہ کسی دوسرے انسان کا دل دکھاتے ہوئے کچھ نہیں سوچتا۔ دل آزاری کرنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ اسے انسانوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اسے صرف مادی چیزوں میں دلچسپی ہے۔ انسان انسانوں میں فرق کرتا ہے۔ امیر غریب، گھر داربے گھر، کالا گورا، نسل ذات، دھن دولت، روپیہ پیسہ، یہی چیزیں اس کے نزدیک اہمیت رکھتی ہیں۔‘‘
’’لیکن ہم تو ایسے نہیں ہیں۔ ہم تو اللہ کی خلق کی ہوئی ہر جان کا احترام کرتے ہیں۔ اس کے ہر فیصلے پر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ اس کو خوش کرنے کے لیے ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے وہ راضی ہو۔ ہر اس کام سے رکتے ہیں، جس سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ اس کی عطا کردہ چیزوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں نہ کہ اس پر غرور کرتے ہیں۔ پھر تم ایسی کیوں ہوگئی ہو چڑیا بی؟‘‘پڑوسن چڑیا نے توقف کیا۔
’’لیکن تمام انسان برے نہیں ہیں۔ انسانوں میں وہ گروہ بھی ہیے جو موسم گرما شروع ہوتے ہی ہمارے لیے کھانے اور پانی کا انتظام کرتے ہیں۔ جو ان گرمیوں میں بھی اپنے چھتوں پر، اپنے گھروں کے صحن میں برتن میں ہمارے لیے پانی بھر کر رکھیں گے۔ درختوں کی ٹہنیوں پر پانی سے بھرے برتن لٹکائیں گے۔ یہ وہ انسان ہیں، جنھیں انسانوں کے ساتھ ساتھ ہم پرندوں اور جانوروں سے بھی ہمدردی ہے۔ یہ اصل انسان ہیں۔ جن میں اب بھی انسانیت باقی ہے۔‘‘
’’کیا تم اتنی کم ظرف ہو کہ کسی کو اپنے گھر میں تھوڑی سی جگہ تھوڑے سے وقت کے لیے نہ دے سکو۔ دوسروں کے سکون کی خاطر اپنی چیزوں میں سے کچھ حصہ نہ دے سکو۔کیا تمھارا دل اتنا چھوٹا ہوگیا ہے؟‘‘
پڑوسن چڑیا کی باتیں سن کر چڑیا بی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے فوراً اللہ سے توبہ کی،اورپڑوسن چڑیا کا شکریہ ادا کیا۔ چڑیا بی نے بھوری چڑیا سے معافی مانگی۔ اور اسے اپنے گھر میں ایک رات کے لیے پناہ دے دی۔ اس نے بھوری چڑیا کے بچوں کو کھانا بھی دیا۔صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی بارش تھم گئی۔ بھوری چڑیا نے چڑیا بی کا شکریہ ادا کیا۔اور کہا :’’بہن!آپ نے اللہ کی خاطر میری مدد کی، مجھے یقین ہے کہ اللہ تمھیں بہترین بدلہ عطا کرے گا۔‘‘
’’آمین۔‘‘ چڑیا بی نے کہا۔
بھوری چڑیا اپنے بچوں کو لیے درخت سے اڑ گئی۔ اور آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرنے لگی۔اس نے دل ہی دل میں چڑیا بی اور پڑوسن چڑیا کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اور اپنے بچوں سے کہا:’’بچو! اپنا دل اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے لیے ہمیشہ کھلا اور وسیع رکھنا۔ اللہ تمھیں کبھی ناکام نہیں ہونے دے گا۔ پریشانیاں، مصیبتیں، مشکلات آتی رہیں گی، لیکن کامیابی اور خوشحالی ہمیشہ تمھارے قدم چومنے کو بے تاب رہے گی، ان شاء اللہ۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔‘‘ بھوری چڑیا اپنے بچوں کو پروں کے حصار میں لیے اڑتی جارہی تھی۔

٭٭٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مارچ ۲۰۲۳