اپریل ۲۰۲۴

کردار

دو خا ند ان ایک دوسرے کے ہم سائےہیں۔

امیر خاندان:

شوہر(ساجد،پیشے سے معلّم)
ثمینہ:بیوی
سلمہ: بیٹی( عمر : 8 سال)
غریب خاندان:
اصغر(کڈنی کا مریض ،پیشے سے مزدور)
بیوی :نجمہ
بیٹی:اسماء( عمر: 8 سال)
(پردہ اٹھتا ہے)

پہلا منظر

غریب خاندان: اصغر کے گھر آج رمضان کا پہلا روزہ ہے۔ظہر کا وقت ہے۔نجمہ نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے رورو کر دعا ما نگ رہی ہے:
’’یا اللہ تو رحیم ہے تو کریم ہے ۔یا اللہ میں بہت گنہ گار ہوں ۔تو میرا امتحان نہ لے ،میں تیرے امتحان کے قابل نہیں ہوں میرے رب!یااللہ میرے شوہر کو شفا ءعطا فرما ۔تو ہی حکیم ہے ،میں تیرے سامنے اپنا دردبیان کرتی ہوں، تو مجھے دوا دے کر شفاء عطا فرما۔يا اللہ میں غریب ہو ں تو اس میں میرا کیا قصور ؟یا اللہ تیرے ہی سامنے میں اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتی ہوں، یا اللہ کل ہی کی بات ہے ،کل میں آج کے روزے کے افطار کے لیے سامان خریدنے بازار گئی ۔
تُو تو گھر کے حالات سے واقف ہے ۔بمشکل گھر کا خرچ چل رہا ہے ۔سوچا ان کے لیے اور اسماء کے لیے کچھ پھل خرید لوں، مگر جب پھلوں کی قیمت معلوم کی تو اُن کی قیمت تو جیسے آسمان چھو رہی تھی۔انار 140 روپے کیلو، کیلے 50روپے درجن، تربوز 50 روپے کا ایک۔قیمت پتہ کرکے تو مجھے اندازہ ہوا کہ مجھ میں ابھی کچھ بھی خریدنے کی استطاعت نہیں ہے۔میں صرف کھجور لے کر گھر واپس آگئی۔

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

یا اللہ رمضان میں نیکیاں کمانا تو بڑا آ سان ہے، مگر ایک غریب کے لیے افطار کا سامان خریدنا بہت مشکل۔‘‘

دوسرا منظر

امیر خاندان: ثمینہ اپنے شوہر ساجد سے کہتی ہے کہ آج رمضان کا پہلا روزہ ہے،ہم نے ابھی تک گھر میں رنگ نہیں کروایا ہے۔
ساجد:’’ او ہو بیگم! آپ بھی ناں!ابھی پچھلے رمضان پر ہی تو آپ کی پسند کا رنگ کروایا تھا ۔‘‘
ثمینہ:’’ تو کیا ہوا؟ اس سال بھی کروا لیتے ہیں۔گھر میں مہمان آتے جاتے رہتے ہیںاور ہاں! مجھے اس رمضان پر دو نئے نقاب بھی لینے ہیںاور نئے کپڑے اور بہت سے سامان چاہئیں۔‘‘
ساجد:’’ ٹھیک ہے، خرید لیں گے۔‘‘
افطار کا وقت ہے،ثمینہ افطار کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔دسترخوان پر انار،کیلے ،تربوز، سموسے ،گلاب جامن اور ایسی کئی انواع اقسام کی چیز یںموجود ہیں۔مغرب کی اذان کے بعد سب نے مل کر افطار کیا،مگرجتناکھایاگیا اس سے کہیں زیادہ برباد کیا گیا۔بچاہوا کھانا کوڑے دان میں پھینکا گیا۔

تیسرا منظر

اصغر ،نجمہ اور بیٹی اسماء ؛تینوں افطار کرنے بیٹھے ہیں۔دسترخوان پر صرف کھجور موجود ہے ۔اذان ہوئی، تینوں نے افطار کیا۔کھانا کھایا،نمازتراویح ادا کی،اور بستر پر جا لیٹے ۔
اسماء:’’ابو! مجھے کہانی سنائیے ناں، مجھے نیند نہیں آرہی ہے۔‘‘
اصغر:’’ ٹھیک ہے، آج میں تمھیں ایک سچا واقعہ سنائوں گا۔تمھیںمعلوم ہے ہمارے دوسرےخلیفہ کون ہیں؟یہ اُن کا واقعہ ہے۔‘‘
’’جی! وہ حضرت عمرؓ ہیں۔‘‘
’’ماشاءاللہ!
حضرت عمر جب خلیفہ ہوئے تو وہ راتوں کو بھی گشت کرتے تھے ،تا کہ یہ جان سکیں کہ کون پریشان ہے یا کسی کو کوئی مدد کی ضرورت ہے؟
ایک مرتبہ وہ گشت پر نکلے، رات کا وقت تھا۔ تو انھوں نے ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز سنی، وہ وہیں ٹھہر گئے کہ آخر ماجرا کیا ہے؟بچے اپنی ماں سے کھانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ما ں کہہ رہی تھی کہ کھانا پک رہا ہے۔بچوں نے پھر کچھ دیرمیں کھانے کاکہا۔ماں نے پھر یہی جواب دیا۔ آخر کار حضرت عمر ؓسے رہا نہیں گیا اور وہ گھر میں داخل ہوگئے،اور عورت سے کہا کہ آخرتم بچو ںکو کھانا کیوں نہیں دے دیتیں؟
عورت نے کہاکہ میرے پاس کھانا نہیں ہے۔بچوںکادل بہلانے کے لیے میں نے ہانڈی میں پتھر ڈال کر اس میں پانی ڈال دیااورڈ ھکن سےڈھانپ دیا اور اسے ہلاتی رہتی ہوں تاکہ بچو ںکو لگے کہ کھانا پک رہا ہے۔حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
حضرت عمرؓ نے کہا کہ تم نے اس کے بارے میں خلیفہ کو کیوں نہیں بتایا؟عورت نے کہا کہ اس کا کام ہے کہ وہ لوگوں کی پریشانیوں کو جانے۔حضرت عمرؓ فوراً بیت اُلمال گئے اور وہاں سے اناج کی بوری لی، غلام سے کہا کہ میرے کندھوں پر رکھ دو۔ غلام نے کہاکہ میں لے چلتا ہوں۔ حضرت عمر نے کہا:’’ قیامت کے دن تم میرا بوجھ اٹھائو گے؟‘‘
اور سامان لے کر عورت کے گھر گئے۔
تو بیٹی اسماء! کیسا لگا واقعہ؟‘‘ مگر اسماء تو سو چکی تھی۔
اصغر نے نجمہ سے کہا کہ مجھے معاف کردو، آج میری وجہ سے تمھیں اور اسماء کو صرف کھجور سے افطار کرنا پڑا۔میں اپنی بیماری کی وجہ سے کچھ بھی نہ کرسکا۔
نجمہ:’’ اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔میں تو یہ سوچ رہی ہوں کہ آج کے نوجوان حضرت عمرؓ جیسے کیوں نہیں ہیں؟ آج کی ما ئیں اپنے بچوں کوحضرت عمر ؓجیسا کیوں نہیں بناتیں؟آج کے نوجوانوں میں نہ حضرت عمرؓ جیسی بہادری، نہ حضرت عثمان ؓجیسی سخاوت، نہ حضرت علیؓ جیسی فکر پائی جاتی ہے۔ آج کے مسلمان تو صرف اپنا سوچتے ہیں،ہمارے پڑوس میں ہی دیکھ لو۔رمضان تو موا سات کا مہینہ ہے،اس میں زیادہ سے زیادہ ہم دردی اور غم گساری کا معاملہ کرنا چاہیے۔(پردہ گر تا ہے۔)

سبق

اس ڈرامے سے ہمیں یہ اہم سبق ملتا ہے کہ کہیں ہمارا ر ویہ بھی ساجد کے خاندان والوں کی طرح تو نہیں ؟کہیں ایساتو نہیں کہ ہمارے پڑوسی بھی مفلسی کا شکار ہیں اور ہم نعمتیں اڑا رہے ہیں؟اگر ایسا ہے تو ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔
قرآن میں سورۂ بقرہ، آیت نمبر: 261 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اُن کی مثال جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے، اور اس کی سات با لیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودا نے ہو ں ۔اللہ جس کےلیے چاہتا ہے اس سےبھی زیادہ اضافہ کرتا ہے۔اللہ وُسعت والا اور علم والاہے۔‘‘
یعنی ہم اللہ کی راہ میں ایک روپیہ خرچ کریں گےتو ہمیں اس کا اجر سات سوگنا یا اللّٰہ چاہے تو اس سے بھی زیادہ ملےگا ۔اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے دیا ہے تو ہمیں زیادہ سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے،کنجوسی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ سورۂ نساء، آیت نمبر : 36میں فرماتے ہیں:
’’اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں،اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے اُنھیں دیا ہے،اُسے چھپاتے ہیں، ایسے کفران نعمت کرنے والوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب تیارکر رکھا ہے۔‘‘
اللہ کی راہ میں مال دینے سے کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ مال میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ہم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک ہم اللہ کی را ہ میں اُن چیزوں کو خرچ نہ کریں جن کو ہم پسند کرتے ہیں،جو ہمیں محبوب ہیں اور آج کے زمانے میں انسان کو سب سے زیادہ محبوب اس کا پیسہ ہے۔اللہ ہمیں اپنی راہ میں خرچ کرنے والا،زیادہ سے زیادہ غریبوں مسکینوں اور یتیموں کی مدد کرنے والا بنائے ۔
آمین!

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴