اپریل ۲۰۲۴
زمرہ : ادراك

ملک میں الیکشن کا ماحول بنا ہوا ہے ۔چوں کہ ہم ہندوستان جیسے ایک آزاد جمہوری ملک میں رہتے ہیں ،اس لیےاس کے ہر شہری کےلیےاپنے ملک میں اپنے ذاتی حقوق سے آگاہی لازم ہے ،نہ صرف یہ کہ ہمارے گھر کے مردوں کا سیاسی شعوربہتر ہو ،بلکہ خواتین کو بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے ۔
اپنے ہی ملک میں امور و معاملات سے بے نیاز اور لاپرواہ رہنا ذمہ دارانہ طرز عمل نہیں ہے ۔ہمیں اپنے سیاسی شعور کو بلند کرنا چاہیے اور آزاد ملک میں شہری کے حقوق سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے ۔ اس مضمون میں ہم ایک ہندوستانی کے جمہوری حقوق نیز جمہوریت کے اصول اور موجودہ حالات میںخواتین کے رول پر بات کریں گے ۔اپنے قارئین سے گزارش رہے گی کہ اس موضوع پر اپنے مطالعے کو بڑھائیں اور ملک کے سیاسی معاملات میں فعال رول کے لیےخود کو تیار کریں، کیوںکہ ایک ایمان دار شہری کبھی نظام و معاملات سے بے گانگی اختیار نہیں کرتا ۔
جمہوریت کیا ہے؟جمہوریت یونانی لفظ ’’ڈیمو‘‘ سے ماخوذ ہے اس کے معنی “لوگ ”جمہوریت میںیہ لوگ ہی ہوتے ہیں جو قانون ساز اور حکومت پر خود مختار طاقت رکھتے ہیں۔جمہوریت وہ حکومت ہے جس میں تمام شہری براہ راست یا اپنے آزادانہ طور پر منتخب نمائندوں کے ذریعے شہری حقوق کا استعمال کرتے ہیں۔جمہوریت ان اصولوں اور طریقوں کا مجموعہ ہے جو انسانی آزادی کی حفاظت کرتی ہے۔
جمہوریت سمجھتی ہے کہ اس کے بنیادی کاموں میں سے ایک بنیادی کام انسانی حقوق، جیسے آزادی اظہار اور مذہب کا تحفظ کرنا ہے۔ قانون کے تحت مساوی تحفظ کا حق اور معاشرے کی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی زندگی میں مکمل طور پر منظم اور حصہ لینے کا موقع فراہم کرنا ہے۔جمہوریت اپنے تمام شہریوں کے لیے کھلے عام آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرواتی ہے۔ جمہوریت میںعوام کی حمایت کے لیے مستند مقابلے ہوتے ہیں۔جمہوریت حکومتوں کو قانون کی حکمرانی کے تابع کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ تمام شہریوں کو قانون کے تحت مساوی تحفظ حاصل ہو، اور قانونی نظام کے ذریعے ان کے حقوق کا تحفظ ہو ،جمہوریت اپنے بنیادی اصولوں پر قائم ہے، یکساں طرز عمل پر نہیں۔جمہوریت میں شہریوں کو نہ صرف حقوق حاصل ہوتے ہیں، بلکہ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سیاسی نظام میں حصہ لیں، جو بدلے میں ان کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرتا ہے۔
جمہوری معاشرہ رواداری، تعاون اور سمجھوتہ کی اقدار کا پابند ہوتا ہے۔ جمہوریت تسلیم کرتی ہے کہ اتفاق رائے تک پہنچنے کے لیے سمجھوتے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا ،تاہم ایک سنجیدہ اور ذمہ دار شہری اس سے واقف ہوتا ہے ۔ مہاتما گاندھی کے الفاظ میں:’’عدم برداشت بذات خود تشدد کی ایک شکل ہے اور ایک حقیقی جمہوری جذبے کے فروغ میں رکاوٹ ہے۔‘‘
ہندوستان میں آزادی کے بعد سے چار دہائیوں تک کانگریس حکومت رہی، اگلی تین دہائیوں میں ملی جلی حکومت رہی اور 2014ء میں نریندر مودی کو وزیراعظم منتخب ہوتے دیکھا گیا ۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 2014 ءکے عام انتخابات میں 31 فی صد ووٹ حاصل کیے، جو کہ 282 سیٹیں حاصل کرنے کے لیے کافی ہیں ،ایک واضح اکثریت۔ 2019 ءمیں بی جے پی نے اپنی اکثریت میں اضافہ کیا، 37 فی صد ووٹ حاصل کیے اور 303 سیٹیں حاصل کیں۔چوں کہ اب 2024ء میں پھر الیکشن پیش نظر ہے، اور اس الیکشن مین ہمارا رویہ ہی طے کرے گا کہ ہم ملک کو کس جانب لے جائیں گے ؟

ہندوستان میں جمہوریت کو درپیش چیلنجز

  ہندوستان میں جمہوریت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ پچھلی چار دہائیوں کے دوران چین جیسے پڑوسیوں کی طرح پائیدار اقتصادی ترقی کی فراہمی میں ناکام رہی ہے۔
یہ انتہائی غربت کو ختم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔دہلی اور ممبئی جیسے زیادہ گلوبلائزڈ شہروں میں تعلیم یافتہ اشرافیہ ہندوستان کے غریب ترین شہریوں سے بالکل مختلف زندگی گزارتے ہیں۔
آزادی کے بعد سے ہندوستان میں کافی ترقی ہوئی ہے، لیکن یہ ناہموار رہی ہے۔کم اجرت، کم صلاحیت والی ملازمتوں کے در کھلے ہیں،لیکن ان کیاجرت اس درجے کی ہے کہ وہ غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔خاص طور پر غریب آبادی والی ریاستیں، جیسے: اتر پردیش ،اس سے غریب ،کم علم اورمایوس ووٹروں کی ایک بڑی آبادی پیدا ہوتی ہے۔
ہندوستانی قوم پرستی اور پاپولزم نے مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور دلتوں کو قربانی کا بکرا بنا کر اس عدم تحفظ کا شکار بنادیا ہے۔ ان اقلیتوں کے نوجوان اپنے مستقبل کے تئیں پریشان اور مایوس نظر آتے ہیں ،جب کہ بہت سے ہندوؤں کے لیے فخر میں اضافہ ہوا ہے۔وزیر اعظم مودی اور بی جے پی ہندو قوم پرست تحریک کی نمائندگی کرتی ہے، جس کا نظریہ – ہندوتوا – ایک صدی سے مستقل ہے۔ چونکہ آزادی سے پہلے قوم پرستوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ ہندوستان کو جنوبی ایشیا کے ہندوؤں کا وطن ہونا چاہیے، جیسا کہ پاکستان مسلمانوں کا تھا، یہ قطعا ًدرست خیال نہیں ہے اس کو جمہوری شفافیت کے برعکس ووٹ بینک پالیٹکس سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔موجودہ بی جے پی ہندو برادری کو مضبوط کرنے کی امید رکھتی ہے، حالاں کہ ہندوستان کی اقلیتیں اور اس ملک کا ڈھانچہ کچھ اس نوع کا ہے کہ ملک کبھی خالص ایک مذہب پر ترتیب نہیں پاسکتا ،کیوں کہ اس ملک کی اقلیتی آبادی کی تعداد جو ستر سالوں سے اعتماد کرتی آئی ہے ،اس کی تعداد مشرقی پورپ کے ملکوں کے مساوی ہے ۔ اتنے بڑے ملک میں یہ خواب دکھا کر ووٹ بینک جمع کرنا جمہوریت کا کھلا مذاق ہے ۔نئی حکومت کسانوں کے مسئلے میں بھی کوئی کامیاب اقدام نہیں کرسکی ۔ منی پور فساد کو رکوانے میں بھی یہ ناکام رہی ہے ۔
2014ءکے بعد سے علانیہ طور پر ناانصافی ، عدل میں کمی ، عدالتی فیصلوں پر حکومت کا کنٹرول ، مسلمان طبقے کے ساتھ علانیہ ناانصافی ، نوٹ بندی کے ذریعہ افراتفری ، شہریت بل میں ترمیم ، پرسنل لاز میں مداخلت ، میڈیا پر زبردست کنٹرول ، اظہار رائے کی آزادی کا خاتمہ ،اپوزیشن کو ابھرنے نہ دینے کے لیے الزامات لگا کر قید کرنا ، اپنی حکومت کو ترقیاتی کام کے بجائے منافرت کی سیاست اور نفرت بھرے بیانات دینےکی ایک طبقے کو کھلی اجازت ، نفرت پھیلانے کےلیے اقلیتوں کے مذاہب کو مستقل محاذ بناکر شہریوں میں تفریق ، جمہوریت میں ہر لیڈر کی یونیک شناخت ختم کرکے آٹوکریسی کی بنیاد رکھتے ہوئے صرف ایک لیڈر کو آئکن بنانا ہی دراصل ملک کی سالمیت کو اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے عوامل ہیں۔

ملک میں جمہوریت کی بقا میں خواتین کا رول

ہم جانتے ہیں کہ اس وقت ہمارا ملک اور سماج تاریخ کے اہم دور سے گزر رہا ہے۔ملکی سیاست کو درپیش چلینجز کو بھی ہم بہتر جانتے ہیں ۔ 2024ءکے عام انتخابات کے نتائج ملک کے مستقبل پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ ملک کی بہتر تعمیر وترقی میں ذمہ دار شہری کی حیثیت سے یہ ہماری بڑی اہم ذمہ داری ہے کہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر عام انتخابات کے حوالے سے ملک کے عوام میں بیداری لائیں ،ان کی رہ نمائی وقیادت کا فریضہ انجام دیں۔ ہم میں کا ہر فرد مندرجہ بالا نکات کو اپنا اہم فریضہ سمجھے ۔اپنے گھروں میں بڑوں اور بچوں کے درمیان ووٹ کی اہمیت پر خصوصاً خواتین گفتگو کریں ۔اس بات کو موضوع بنائیں کہ ووٹ ایک شہادت ہے، گواہی ہے، ہمیں اس گواہی کو سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے ۔

ووٹر رجسٹریشن

منصوبہ بند طریقے سے صد فی صد ووٹر رجسٹریشن کے ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اپنی ریاست میں الیکشن کمیشن کے شیڈول پر نظر رکھتے ہوئے جاری ہونے والی ووٹرلسٹوں پر گہری نظر رکھیں۔ ایک بار نام آنے کے باوجود اگلی لسٹ میں نام غائب ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہر لسٹ میں نظر رکھتے ہوئے جو نام لسٹ میں موجود نہ ہوں، ان کے اندراج کی مہم چلائیں ۔ BLO و دیگرمتعلقہ عہدیداران کے ساتھ رابطہ رکھیں۔ اپنے ملاقاتیوں میں گھر آئے مہمان کے سامنے ووٹ کا ذکر کریں ،اوران سے معلوم کریں کہ ان کےگھر اٹھارہ سال کے بچوں کے الیکشن کارڈ اور ووٹر لسٹ میں ان کے ناموں کا اندراج ہے یا نہیں ؟کبھی مذاق بناتے ہوئے یہ نہ کہیں کہ سیاست یہ مردوں کا کام ہے، ہمیں یہ سب سمجھ نہیںآتا ۔ نہ سمجھ آتاہوتو سمجھنے کی کوشش کریں، دل چسپی پیدا کرنے کی کوشش کریں ،گفتگو کا ماحول بناکر اس میں دل چسپی پیدا کریں۔
یاد رکھیں! خواتین اس معاملے میں بہت اہم رول ادا کرسکتی ہیں ۔ گھر کے مرد جسے کہیں گے ہم ووٹ ڈال دیں گے، یا ووٹ ڈالنے ہم نہیں جاتے، اس طرح کے جملے ہی ہماری سیاسی بے وزنی کی بڑی وجہ ہیں ۔مسلمانوں و دیگر محروم طبقات کے ووٹر رجسٹریشن پر زیادہ توجہ دی جائے۔سیاست میں اقدار پر مبنی سیاست کی بات کوئی سننا نہیں چاہتا ،لیکن ہمیں بولتے ہوئے کبھی تھکنا نہیں چاہیے کہ ہم اقدار کی بنیادپر سیاست کی بات کریں ۔غریب اور کم تعلیم یافتہ بستیوں میں ووٹ کو چند پیسوں کی خاطر بیچ دیا جاتا ہے، خواتین ایسی بستیوں میں جاکر بیداری پیدا کرسکتی ہیں، انھیں اپنے ووٹ کی اہمیت اور بے گانگی سے ہونے والے نقصان کو سمجھاسکتی ہیں ۔

صحیح تربیت اور انتخابی ایجنڈا

 کوشش کی جائے کہ انتخابات کے ایجنڈے کو ہم مناسب اور تعمیری رخ دے سکیں ۔ہمیں اس معاملے میں نہ مایوس ہونا چاہیے نہ ہی لاپرواہی برتنی چاہیے ۔ ہماری کوشش ہو کہ انتخابات حقیقی عوامی مسائل پر لڑے جائیں اور جذباتی، فرقہ وارانہ اور تفریق پیدا کرنے والے مسائل انتخابی مباحث کا اصل موضوع نہ بننے پائیں۔ اس کے لیے حقیقی مسائل کے سلسلے میں شعور کی بیداری کی کوشش کی جائے ،اور عوام کی اس طرح تربیت کی کوشش کی جائے کہ جذباتی مسائل پر وہ مشتعل نہ ہوں ۔مندرجہ بالا مضمون میں ہم نے ملکی سیاست کو درپیش چیلنجیز پیش کیے ہیں ،یہی ہمارے حقیقی مسائل ہیں۔ کوشش کی جائے کہ حقیقی مسائل سے آگاہی،مشتر کہ عوامی منشور کی تیاری، سوشل میڈیا کے ذریعے حقیقی مسائل کی تشہیر وغیرہ کا منظم طریقے سے اہتمام کیا جائے۔ کوشش یہ ہوکہ ہمارے ساتھ برادران وطن بھی اس منشور میں شامل ہوں ۔ بیانیہ کی تیاری اور میڈیا نیٹ ورکنگ پر بھی خصوصی توجہ دیں۔ کچھ خواتین فعال رول ادا کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین سے ملاقات کریں۔ کوشش کریں کہ سیکولر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد ہو جائے اور وہ ووٹوں کی تقسیم کا سبب نہ بنیں۔ یہ بھی کوشش کریں کہ عوام مینی فیسٹو کی زیادہ سے زیادہ چیزیں ان کےمینی فیسٹو میں شامل ہوں اور وہ حقیقی عوامی مسائل کو اپنی انتخابی مہم کا موضوع بنائیں۔ اقلیتوں اور کم زور طبقات کو مناسب نمائندگی دیں۔
یاد رہے! کہ ہم اپنے ملک میں عوام کے ساتھ رہتے ہیں، اس لیے اس ملک کے مسائل ہم سب کے مسائل ہیں، یہ کوششیں اس طرح انجام پائیں کہ انتخابات کے بعد بھی ان سے ربط و تعلق، اثر اندازی اور انھیں جواب دہ بنانا ممکن رہ سکے۔ سیاسی کارکنوں کی تیاری میں بھی خواتین کو دل چسپی لینی چاہیے، تاہم یہ خیال رہے کہ ہمارے گھروں کے نوجوان اور بچے کسی کا آلۂ کار نہ بنیں، پورے شعور کے ساتھ سیاسی محاذ پر جگہ بنائیں ۔

 زیادہ سے زیادہ ووٹنگ

انتخابات کے دن زیادہ سے زیادہ ووٹنگ ہو، اس کی خصوصی کوشش کی جائے۔ خصوصاً خواتین اور بزرگ حضرات پر توجہ دی جائے کہ وہ ووٹ ڈالیں۔ووٹنگ کے دن اپنی واٹس ایپ گروپس میں رشتہ داروں اور سوشل میڈیا پر لوگوں کو ووٹ دینے پر آمادہ کریں ۔یاد رکھیں! انتخاب میں عوامی بیداری ہی جمہوری نظام کی بقا ہے، اس لیے تبدیلی لانے کے لیے ہر فرد کو ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ 

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴