اپریل ۲۰۲۴

أَعُوذُ بِاللَهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَافَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَاوَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا(سورۃ الشمس : 7 تا 10)

(اور نفس انسانی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا، پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس
پر الہام کر دی، یقینا ًفلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا ،اور نامراد ہوا جس نے اسے دبا دیا۔)

عربی: نفس
اردو :خود اپنی ذات، شخصیت
انگریزی :سیلف/self
تزکیہ کے لغوی معنی :پاکی ،صفائی اور نشونما
تزکیۂ نفس: اپنے آپ کو آلائشوں سے پاک کرنا، نیکی کی نشونما کرنا اور اس کو ترقی دینا
گویا قرانی مفہوم کے مطابق تزکیہ ٔنفس کے معنی ہیں نفس کو تمام مکروہ اور قبیح عناصر سے پاک کر کے نیکی، خدا خوفی اور تقوی ٰجیسی خوبیوں سے خودکوآراستہ و پیراستہ کرنا، رذائل اخلاق سے بچنا اور فضائل اخلاق سے منور ہو کر بندگی خالق کائنات کو درجۂ کمال تک پہنچانا ہے ۔اس کے اندر کردار ،اطوار، اعمال،مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ احکام کی تعمیل بھی ہیں۔ارشاد ربانی ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍۢ (سورۃالتین: 4)

(ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔)
روئے زمین پر جتنی بھی خلقت ہے، اس میں انسان سب سے اشرف و افضل ہے، انسان کے اندر اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے خیر و شر کا داعیہ ودیعت کررکھا ہے، اور انتخاب کی آزادی بخشی ہے ،نیز تقویٰ و فجور میں تمیز کی صلاحیت بخشی ہے۔
جس طرح سے اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے ہماری جسمانی ارتقاء کے پیش نظر زیست کے لیے ہوا ،غذا اور پانی کا نظم فرمایا دیگر سامان زیست فراہم کیا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے روحانی ارتقاء کے پیش نظر روز اول سے ہی انبیاء و رسل کے بعثت کا اہتمام کیا، تاکہ تقویٰ و فجور کا فرق واضح ہو سکے، جس طرح کسی طالب علم سے ا گر کہہ دیا جائے کہ عنقریب امتحان شروع ہونے والا ہے، لیکن اس کے لیے نہ ہی کسی معلم کا نظم کیا جائے نہ ہی نصاب متعین کیا جائے ،توتصور کیجیےکہ اس کے لیے تیاری کس قدر دشوار ہوگی،ایسی صورت میں کامیابی ممکن ہے کیا؟
بالکل اسی طرح اگر خالق کائنات صرف اعلان فرما دیتے کہ نیکو کار کامیاب اور فجار ناکام ہوں گے، تو نیکی اور بدی کا واضح تصور کس قدر مشکل ہو جاتا، لیکن اس کے برعکس انسان کی روحانی ارتقاء کے لیے نیکی و بدی کے تصور کو واضح کرنے کے لیے روز اول سے انتظام فرما دیا ہے، اور وہ ہے خدا کا کلام اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔
روحانی وجود کے ارتقا ءکے لیے کلام ربانی اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مؤثر کوئی ذریعہ ہو ہی نہیں سکتا،کیوں کہ تمام انبیاء کرام کی بعثت ا ورتمام آسمانی کتابوں کے نزول کا اصل مقصد و ہدف تزکیہ ٔنفسہ ہی رہا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنينَ إِذْ بَعَثَ فيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُواعَلَيْهِمْ آياتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِنْ كانُوا مِنْ قَبْلُ لَفي ضَلالٍ مُبينٍ (سورہ آل عمران: 164)

(یقینا ًاللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا، جب ان میں ایک رسول بھیجا خود ان ہی میں سے، ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے، انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے وہ کھلی ہوئی گم راہی میں تھے۔)
گویا تمام غیر اللہ کی نفی کر کے صرف اللہ وحدہ‘ کے احکام کی پیروی کرنا ،ان احکامات کی پیروی جو اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انسان کی ہدایت اور تزکیہ کے لیے دیے ہیں۔جو شخص جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرق کو اپنائے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ کی محبت و معرفت حاصل کرے گا ،جیسا کہ عربی کا مشہور مقولہ ہے:

مَن عرف نفسَه فقد عرف ربَّه

(جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔)
اس مقولے کی ترجمانی علامہ اقبال کے اس شعر سے ہوتی ہے :

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اس شعر میں علامہ اقبال نے خود کا تزکیہ کرنے یعنی بہترین صفات و اخلاقیات سے آراستہ کرنے کا درس دیا ہے، تاکہ انسانیت بلند ترین مقام پر پہنچ کر اللہ رب العزت کی محبت کی حق دار بن سکےاور دنیا و آخرت میں کامیابی و سرفرازی حاصل کر سکے۔
تزکیۂ نفس کو مولانا امین احسن علیہ الرحمہ نے تزکیۂ ارض تشبیہ دی ہے۔جس طرح سے کسان زمین پر کھیتی کرنے سے پہلے اسے جھاڑ جھنکاڑ سے صاف کرتا ہے، نا ہموار زمین پر کدال چلا کر اسے ہموار کرتا ہے، کنکر پتھر چھانٹ کر باہر نکالتا ہے، آب رسانی کے ذریعے مٹی کو نم کرتا ہے، پھر اس کے اندر بیج بوتا ہے ،بیج کی صلاحیت پوری طرح بروئےکار لانے کے لیے کھاد فراہم کرتا ہے، جانوروں ،پرندوں سے حفاظت کرتا ہے۔ اس پورے عمل کے بعد بیج اپنی کامل استعداد کو پہنچ کر سایہ دار درخت بن جاتا ہے اور پھل پھول فراہم کرتا ہے۔بالکل اسی طرح سے لازم ہے کہ تزکیۂ نفس کے لیے سب سے پہلے ہمارا دل وحدانیت کی آماج گاہ ہو، کسی بھی درجے میں اندرون قلب شرک کا شائبہ نہ ہو۔بعدہ‘ ہر طرح کے اخلاقی رذائل (جھوٹ غصہ چغل خوری، حسد، نفرت، بغض )سے اپنے آپ کو پاک کیا جائے۔اعلیٰ اخلاق و کردار (حسن سلوک، احسان، ایثار ،وفا، عفو درگزر) کو اختیار کیا جائے،جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا لازمہ تھے، جن کو اپنا کر ہم دونوں جہاں میں سرخ رو و کامیاب ہو سکتے ہیں، گویا انسانی سیرت و شخصیت کی تعمیر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تزکیہ کے لیے ناگزیر ہے۔
قران شاہد ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام خانۂ کعبہ تعمیر کر رہے تھے اور ان کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی خانۂ کعبہ کی تعمیر میں شریک تھے تو ان کے لب پر یہ دعائیہ کلمات جاری تھے:

رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ۞(سورۃ البقرہ: 129)

(اے پروردگار! ان (لوگوں) میں انھیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو، جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک صاف کیا کرے۔ بےشک تو غالب اور صاحبِ حکمت ہے۔)
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’ زندگیاں سنوارنے سے مراد خیالات، عادات ،اخلاق، معاشرت، تمدن غرض ہر چیز سنوارنا ہے۔ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد تعلیم و تزکیہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مشن کو پورا کرنے کی جدوجہد میں لگے رہے تو یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی ہمارے لیے تزکیۂ نفس کے سلسلے میں رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
فرمان باری تعالیٰ ہے:

لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنۡ كَانَ يَرۡجُوا اللّٰهَ وَالۡيَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا ۞(سورۃ الاحزاب: 21)

(درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا ، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواباً سوال کیا کہ کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا؟کان خلقہ القرآن۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور اخلاق عالیہ میں ایمان داری، صداقت، عدالت، شجاعت، سخاوت، صبر، شکر ،رزق حلال، پابندی وقت، نماز کی محافظت ،ایفاء عہد، شرم و حیا،عفودرگزراور صلہ رحمی سر فہرست تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تزکیۂ نفس کے لیے ازحد ضروری ہے کہ ہم نیکی ،خدا خوفی، اور فضائل اخلاق سے خود کو آراستہ و پیراستہ کریں۔

احوال نفس

باعتبار نفس دو اقسام کے لوگ پائے جاتے ہیں:
(1) پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے نفس نے ان پر غلبہ پا لیا ہو اور وہ نفس ہی کے غلام بن کر رہ گئے ہوں۔
(2) دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنھوں نے نفس کو اپنے قابو میں کر کے خود کو اس کی غلامی سے آزاد کر لیا ہو۔
اقسام نفس
قرآن مجید کے اندر اللہ تعالیٰ نے نفس کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں:
(1) نفس امارہ

إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ

(بے شک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہے۔)
غرض یہ کہ نفس امارہ تمام منکرات کا حکم دیتا ہے۔
(2) نفس لوّامہ

وَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَةِؕ ۞

(اور نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔)
اللہ تعالی کی عبادت و اطاعت کے معاملے میں جب بندہ کوتاہی کا شکار ہوتا ہے تو نفس لوامہ اس پر ملامت کرتا ہے۔
(3)نفس مطمئنہ

یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُ
ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً
(سورۃ الفجر: 27,28)

(اے نفسِ مطمئن!چل اپنے رب کی طرف اِس حال میں کہ تُو (اپنے انجامِ نیک سے) خوش ( اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔)
جب انسان کا نفس امارہ برائیوں کے لیے اکساتا ہے تو نفس لوامہ اس پر سرزنش کرتا ہے، اس گناہ پر ملامت کرتا ہے، اور جب انسان اپنے نفس امارہ کو دبا دیتا ہے اور نفس لوامہ کی ملامت پر چوکنا ہو جاتا ہے تو اطمینان قلب کے ساتھ صراط مستقیم پر گام زن ہو جاتا ہے، ایسے نفس کو اللہ رب العزت نے نفس مطمئنہ قرار دیا ہے۔

تزکیہ ٔنفس کے ذرائع

(1)قرآن سے خصوصی شغف
(2)تہجد
(3)انفاق
(4) انسانیت سے شفقت و محبت
روزے کے دوران ہم سحر سے لے کے افطار تک سب کچھ کھانا پینا ترک کر دیتے ہیں، کھانے پینے کی چیزیں،خواہ کتنی ہی لذیذ ومرغوب کیوں نہ ہوں،بھوک و پیاس کی شدت کیوں نہ ہو۔ یہ اللّٰہ پر ہمارا ایمان اور قیامت کے دن کے خوف کے سوا کچھ نہیں ہے، جو ہمیں رضاکارانہ طور پر ایسی سختیوں سے گزرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن یہ سختیاں اور مشکلات بے مقصد نہیں ہیں،یہ ایک مشق اور تربیت ہےجن کا مقصد اصلاح اور تزکیۂ نفس ہے۔ یہ درحقیقت اخلاقیات کا ایک تربیتی کورس ہے، جو انسان کو کامل اور فاتح بناتا ہے۔روزے کو اللہ رب العزت نے تزکیۂ نفس اور تقویٰ کا عمل قرار دیا ہے۔ حقیقت واقعی یہ ہے کہ اگر انسان ایک مہینہ میں آداب ظاہری و باطنی کو بجالاتے ہوئے روزے رکھ لے تو پھر اس کی برکات سے بندہ ٔمومن کی سیرت و کردار میں صدق و اخلاص، زہدو ورع، صبرو استقامت، تحمل وبرداشت، عبادت و ریاضت جیسے اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں ،جو پورےسال انسان کو ضلالت میں بھٹکنے سے بچائے رکھتے ہیں اور انسان استقامت کے ساتھ نیکی و طہارت کی راہ پر چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ پھر رمضان مبارک کا مہینہ آجاتا ہے ،جس میں پھر وہ ایک ماہ کی روحانی ورکشاپ میں تربیت لے کر رحمت خداوندی کے سائے میں نئے سال میں قدم رکھتا ہے۔

تزکیہ ٔنفس کے لیےدعائیں

اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أنتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا أنتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلاَهَا

(اے اللہ! میری روح کو طاقت دے اور اسے پاک کردے، تو اس کو پاک کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے، تو ہی اس کا محافظ اور نگہ بان ہے۔)

رَبِّ اجْعَلْنِي لَكَ شَكَّارًا، لَكَ ذَكَّارًا، لَكَ رَهَّابًا، لَكَ مِطْوَاعًا، إِلَيْكَ مُخْبِتًا أَوَّاهاً مُنِيبًا

(اے میرے رب!تو مجھے ایسا بنادے کہ میں تیرا شکر گزار، تیرا ذکر کرنے والا، تیرا خوف کرنے والا، تیری فرماں برداری کرنے والا، تجھ سے پوشیدہ، تجھ سے عاجز اور توبہ کرنے والا ہو جائوں۔)
آخری اور اہم بات یہ ہے کہ تزکیےکےلیےآمادگیِ قلب ضروری ہے۔تزکیۂ نفس اسی وقت ممکن ہے جب انسان آمادگی قلب ساتھ اس اہم کام کی جانب متوجہ ہو۔

حوالہ جات :

تفہیم القرآن (مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ)
نفس کا تزکیہ فرد کا ارتقاء ( انجینئر ایس امین الحسن)
مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی (یو ٹیوب)

٭ ٭ ٭


روزے کے دوران ہم سحر سے لے کے افطار تک سب کچھ کھانا پینا ترک کر دیتے ہیں، کھانے پینے کی چیزیں،خواہ کتنی ہی لذیذ ومرغوب کیوں نہ ہوں،بھوک و پیاس کی شدت کیوں نہ ہو۔ یہ اللّٰہ پر ہمارا ایمان اور قیامت کے دن کے خوف کے سوا کچھ نہیں ہے، جو ہمیں رضاکارانہ طور پر ایسی سختیوں سے گزرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن یہ سختیاں اور مشکلات بے مقصد نہیں ہیں،یہ ایک مشق اور تربیت ہےجن کا مقصد اصلاح اور تزکیۂ نفس ہے۔ یہ درحقیقت اخلاقیات کا ایک تربیتی کورس ہے، جو انسان کو کامل اور فاتح بناتا ہے۔روزے کو اللہ رب العزت نے تزکیۂ نفس اور تقویٰ کا عمل قرار دیا ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴