اپریل ۲۰۲۴

بہتے دریاؤں میں ہم نے جو قدم رکھا ہے
راستے بنتے گئے، حق میں یہ دم رکھا ہے
مٹ گئے ظلمت و باطل کے یہاں سارے نشاں
اہل ایماں نے جب ایماں کا بھرم رکھا ہے
رفتہ رفتہ گئی وہ شان اور عظمت اپنی
جب سے مےخانے میں ناداں نے قدم رکھا ہے
ہل اٹھی ارض جہاں عرش بھی مبہوت ہوا
اہل باطل نے روا ظلم و ستم رکھا ہے
خس و خاشاک کی مانند اڑے جسم بشر
اندھے ظالم نے جو غزہ میں قدم رکھا ہے
روح بھی کانپ اٹھی دیکھ کے یہ ظلم و ستم
ہر طرف دل میں اک طوفان الم رکھا ہے
امت واحدہ کا پاس بھی ہے اہل عرب؟
نام کیوں تو نے نگہ بان ِحرم رکھا ہے
عنبرؔ آواز اٹھا ظلم کے ایوانوں میں
عدل و انصاف کا تو نے ہی بھرم رکھا ہے

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴