سورۃ العلق کی ابتدائی چند آیات ’’اِقْرَأْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ….‘‘ سے قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد آنے والی سورۃ القدر میں بیان کیا کہ قرآن کریم رمضان کی بابرکت رات میں اتراہے، جیساکہ سورۃ الدخان میں ہے:
إِنَّا اَنْزَلْنَاہٗ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ(سورۃالدخان : 3)
(ہم نے اس کتاب کو ایک مبارک رات میں اتارا ہے۔)
اور سورۃ البقرہ میں ہے:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ(سورۃالبقرۃ: 185)
(رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا۔)
ان آیات میں یہ مضمون صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ غرض قرآن وحدیث میں واضح دلائل ہونے کی وجہ سے اُمتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم لوحِ محفوظ سے سماء دنیا پر رمضان کی مبارک رات میں ہی نازل ہوا، اس طرح رمضان اور قرآن کریم کا خاص تعلق روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے۔
قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق حاصل ہے، چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رمضان المبارک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کا دور کرانا، تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہٰذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہیے۔ ماہِ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کا ماہِ رمضان میں نازل ہونا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک بابرکت رات میں اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسبِ ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً 23 سال کے عرصےمیں قرآن مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کے علاوہ تمام صحیفے بھی رمضان میں نازل ہوئے، جیساکہ مسند احمد میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ مصحف ابراہیمی اور تورات وانجیل سب کا نزول رمضان میں ہی ہوا ہے۔‘‘
قرآن مجید پڑھنا اور سمجھنا کسی دن کا محتاج نہیں، ہر روز ہی یہ اپنے قاری کےلیےہدایت کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کی ایک منفرد اہمیت ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ماہِ رمضان اور قرآنِ حکیم کا ایک گہرا تعلق ہے، یہ دونوں ابد تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ قرآن مجید کتابِ رحمت ہے جو رمضان یعنی ماہِ رحمت میں نازل ہوئی ہے۔
تلاوتِ قرآن کے کچھ آداب ہیں، جن کا تلاوت کے وقت خاص خیال رکھا جائے، تاکہ ہم عند اللہ اجر عظیم کے مستحق بنیں۔ تلاوت چوں کہ ایک عبادت ہے، لہٰذا ریا وشہرت کے بجائے اس سے صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ومقصود ہو، نیز وضو وطہارت کی حالت میں ادب واحترام کے ساتھ اللہ کے کلام کی تلاوت کریں۔ تیسرا اہم ادب یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور اچھی آواز میں تجوید کے قواعد کے مطابق تلاوت کریں۔ تلاوتِ قرآن کے وقت اگر آیتوں کے معانی پر غور وفکر کرکے پڑھیں تو بہت ہی بہتر ہے۔ قرآن کریم کے احکام ومسائل پر خود بھی عمل کریں اور اس کے پیغام کو دوسروںتک پہنچانے کی کوشش کریں۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس میں تدبر اورا س پر عمل کیاجائے، لیکن لوگوں نے اس کی تلاوت کوکام سمجھ لیا،بعض لوگوں کا کام بس یہ ہوگیاہے کہ بلاغوروفکراس کی تلاوت کرلیا،اس کی عمل کی طرف توان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی۔‘‘(مدارج السالکین )
ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
’’تدبرقرآن اورا س کی آیات پرتوجہ مرکوزکرنے سے زیادہ نفع بخش اورکوئی چیز نہیں ۔ ‘‘(نضرۃ النعیم )
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
ویل لمن قرأھا ولم یتفکر فیھا(صححہ البانی فی السلسۃ الصحیحۃ)
(ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا۔)
عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیداکردیاگیاہے کہ فہم قرآن صرف علماء کا کام ہے،عام لوگوں کا نہیں ،مگریہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسی کوئی تخصیص نہیں کی ،بلکہ صراحت کی ہے کہ قرآن کا نزول تمام لوگوں کے لیے ہے۔
مولانا مودودی رحمہ اللہ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں :
’’بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلم ِطب کی کوئی کتاب لےکرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہو جائےگی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجو اُسے پاگل خانے میں،اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے؟ مگر شافی مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔
آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے ،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوں سے پرہیز کی ضرورت ہے جن کویہ مضر بتارہی ہے۔پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے؟‘‘(خطبات، حصہ: اول)
ابن مسعودؓنے تدبرقرآن اوراس پر عمل کے سلسلے میں غفلت کا خدشہ ظاہرکرتے ہوئے فرمایا :
’’ہم لوگوں پر قرآن کا حفظ کرنا مشکل جب کہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوں پر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا، اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘(الجامع لاحکام القرآن)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
ویل لمن قرأھا ولم یتفکر فیھا(صححہ البانی فی السلسۃ الصحیحۃ)
(ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا۔)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’خبردار عن قریب ایک بڑا فتنہ سر اُٹھائے گا۔‘‘
حضرت علیؓ نے پوچھا: ’’اس سے نجات کیا چیز دلائے گی یارسولؐ اللہ؟‘‘
رسول اللہﷺ نےجواب دیا: ’’اللہ کی کتاب۔اس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے حالات ہیں۔ تم سے بعد میں ہونے والی باتوں کی خبر ہے، اور تمھارے آپس کے معاملات کا فیصلہ ہے، اور یہ ایک دوٹوک بات ہے، کوئی ہنسی دل لگی کی بات نہیں۔ جو سرکش اسے چھوڑے گا، اللہ اس کی کمر کی ہڈی توڑ ڈالے گا،اور جو کوئی اسے چھوڑ کر کسی اور بات کو اپنی ہدایت کا ذریعہ بنائے گا، اللہ اسے گم راہ کردے گا۔ خدا کی مضبوط رسی یہی ہے، یہی حکمتوں سے بھری ہوئی یاد دہانی ہے،یہی بالکل سیدھی راہ ہے، اس کے ہوتے ہوئے خواہشیںگم راہ نہیں کرتیں،اور نہ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں۔اہلِ علم کا دل اس سے کبھی نہیں بھرتا، اسے کتنا ہی پڑھو طبیعت سیر نہیں ہوتی۔ اس کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔جس نے اس کی سند پر کہا، سچ کہا۔جس نے اس پر عمل کیا، اجر پائے گا۔جس نے اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا، اس نے انصاف کیا۔جس نے اس کی دعوت دی، اس نے سیدھی راہ کی دعوت دی۔‘‘(مشکوٰۃ)
یہی وہ سیدھی راہ ہے، جس کی طرف قرآن ہم سب کو دعوت دے رہا ہے۔
٭ ٭ ٭
0 Comments