اپریل ۲۰۲۴

عالمی منظرنامہ

ہوسِ اقتدار

اقتدار کی بھوک اور ہمیشہ اس سے چمٹے رہنے کی لت لگ جانے کے بعد آمرانہ مزاج رکھنے والے خود پسند ’’بادشاہوں‘‘ کے لیے ان کے اقتدار کی راہ میں آنے والی دیوار ہی نہیں بلکہ روڑے بھی ٹھکانے لگائے جاتے ہیں۔لیکن اپنے سیاسی مخالفین کو نت نئے بہانوں کے ذریعہ منظر نامے سے غائب کرنے یا انھیں غیر مؤثر کرنے کی روش صرف اپنی ڈکٹیٹرشپ کےلیے مشہور بلکہ بدنام حکمرانوں کی ہی نہیں ہے،بلکہ اقتدار کی ہوس رکھنے والے ان ’’راجاؤں‘‘کا بھی وطیرہ ہے جو خود کو جمہوریت پسند اور ملک کو جمہوری کہتے نہیں تھکتے۔
گذشتہ دنوں روس میں صدارتی منصب کےلیے سہ روزہ انتخابات ہوئے،جس میں 24 سال سے چلے آرہے صدر ولادیمیر پوتن کو ہی پھر سے جیت حاصل ہوئی اوروہ ایک بار پھر روس کے صدر منتخب کر لیے گئے۔یہ خبر بلا شبہ درست ہے،مگر ناقص ہے،اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آدھا سچ کئی بار پورےجھوٹ سے زیادہ گم راہ کن ہو سکتا ہے۔دراصل پورا سچ یہ ہے کہ روس میں منعقد ہونے والے انتخابات کہنے کو تو جمہوری انداز میں ہوئے، مگر اس میں جمہوریت اور حق رائے دہی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔انتخابات کے دوران پوتن یا یوکرین میں جاری جنگ پر عوامی تنقید کی ممانعت تھی۔پوتن کے سیاسی مخالفین،جوپوتن کی ہوسِ اقتدار کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ بن سکتے تھے،انھیں چن چن کر پہلے ہی یا تو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا یا انھیں جلا وطن کر دیا گیا۔نتیجۃً اس انتخابی مقابلے میں کوئی حقیقی کمپٹیٹر سامنے رہا ہی نہیں،لہٰذا پوتن کو پھر سے کرسی حاصل ہو گئی۔اب یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں آمریت کا راج ہے کہ جواباً جھٹ انتخابات اور اس کے نتائج سامنے رکھ دیے جائیں گے،گویا سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی کوبھی صاف بچا لیا گیا۔
جمہوریت کے نام پر پوتن کے ذریعہ کی جانے والی اس آمرانہ دھاندلی کی روش پر ملک عزیز کے اہل اقتدار بھی گام زن ہیں،کوشش یہی ہے کہ عوام کے سامنے کوئی متبادل باقی ہی نہ رہے،اس لیے انصاف کےلیے اٹھنے والی ہر آواز کا گلا گھونٹنے اور سچ کے علم بردار ہاتھ کو جسم سے الگ کرنے میں بڑی جلدی سے کام لیا جا رہا ہے۔خدا نہ کرے کہ وطن عزیز کو وہی سب کچھ دیکھنا پڑے جو خواستہ یا ناخواستہ روس کی عوام کو دیکھنا پڑ رہا ہے،کہ یہ دیکھنا بہت افسوس ناک بھی ہوگا اور خوف ناک بھی!

ڈوبتےکو تنکےکاسہارا

اسرائیلی درندگیوں اور فلسطینی شہریوں کے خلاف کی جانے والی ظالمانہ کارروائیوں کو کئی مہینے ہو چکے ہیں،مختلف ممالک میں عوامی سطح پر بڑے بڑے احتجاجی جلوس بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں،مگر اسرائیل کی غنڈہ گردیوں پر قدغن لگانے کےلیے کوئی مضبوط آواز ہنوز سنائی نہیں دی۔عمر و جنس کی تفریق کے بغیر بےقصوروں پر مظالم کا بازار گرم رہا،مگر خصوصاً وہ جنھیں نام نہاد اسلامی مملکت کہا جاتا ہے،داد عیش دینے میں مست رہے۔فلسطینیوں پر ستم رانی ہوتی رہی،ان کی آہ و فغاں نے بے زبان حیوانوں تک کو ان کی مظلومیت سے آشنا کروا دیا،مگر بے شمار معدنیاتی ذخائر اپنی ملکیت میں رکھنے والی مملکتیں مظلومین کی کس مپرسی سے تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے اپنی اپنی کھال میں مست رہیں۔گویا رحمان فارس کی زبان میں:

خلقت شہر بھلا لاکھ دہائی دیوے
قصر شاہی کو دکھائی نہ سنائی دیوے

کا دل خراش منظر سامنے تسلسل کے ساتھ دیکھنے کو ملتا رہا،لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ حالیہ قرارداد سے مجروح آہوں اور سسکیوں کا پورے طور مداوا نہ سہی،مگر کسی حد تک ان کے گھاؤ پر لگنے والے چرکوں میں کمی ضرور واقع ہوگی۔
یہ خبر یقیناً اہل فلسطین اور ان کے ساتھ دھڑکنے والے ہر منصف مزاج اور حق پسند ذہن و دل کےلیے بہت تھوڑے ہی سہی،مگرسکون کا باعث ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد پیش کی،جس میں کہا گیا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کی جائے۔امریکہ نے اس قرارداد کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا،جب کہ 15 میں سے 14 ممالک نے جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا۔دوسری جانب اسرائیل نے امریکہ کی جانب سے اسے مسترد نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا اور امریکہ پر سابقہ موقف سے پیچھے ہٹنے کا الزام لگاتے ہوئے اسرائیلی وفد کے دورے کو منسوخ کر دیا ہے۔
اسرائیلی بھیڑیوں کی جانب سے کی جانے والی وحشت و بربریت سے پر حملوں کی مذمت مسلسل کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ حماس کے نام پر اور اس کی آڑ میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا قطعی درست نہیں ہے۔
توقع ہے کہ یہ قرارداد اپنی زمین اور اپنے ہی وطن میں اجنبیوں کی طرح اور ہر وقت خوف و دہشت کے حصار میں زندگی گزارنے پر مجبور فلسطینی شہریوں کےلیے خوش آئند ثابت ہوگی۔

ملکی منظرنامہ

چور دروازہ

سوئس بینک میں موجود ’’کالا دھن‘‘ واپس لانے اور ملک کے تمام شعبہ جات سے کرپشن کا خاتمہ کرنے کے انتخابی نعروں اور وعدوں کے ساتھ برسر اقتدار آنے والی پارٹی بدعنوانی کی سیاہی بلکہ کیچڑ میں اس قدر لت پت نکل آئےگی،اس کا اندازہ سیاست کے موسم کے اتارچڑھاؤ پر نگاہ رکھنے والوں کو ہو تو ہو،لیکن پارٹی کے ان کورچشم حامیوں بلکہ اندھے عقیدت مندوں کو بھی شاید نہیں تھا۔ایک وقت تھا کہ حزب مخالف کے طور پر اس پارٹی نے برسراقتدار حکومت پر کرپشن کے الزامات لگائے،ان کے خلاف احتجاج کےلیے کچھ نمایاں چہروں کو استعمال کیا تو کچھ گم نام چہروں کو میڈیا کے ذریعہ نمایاں کروا کر ان سے اپنے مطلب کےلیے برسر اقتدار پارٹی کے خلاف ملک گیر دھرنے اور بھوک ہڑتال جیسے ہتھکنڈے اپنائے۔پورے ملک کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ موجودہ حکومت انتہائی بدعنوان ہے،لہٰذا جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو شفافیت کی مثال قائم ہوگی،کرپشن کی جڑوں میں مٹھا ڈال کر اسے نابود کر دیا جائے،یہ اور اس جیسے ہزارہا دعووں کی ایک طویل فہرست ہے۔
لیکن شومی قسمت کہ جب ان کے اقتدار کا ستارہ عروج پر آیا،اور وہ ملک کے سیاہ وسفید کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوئے تو انھوں نے چوری چکاری اوربدعنوانی کےلیے نئے چوردروازے وا کیے،نیز دھمکی دے کر چندہ وصولی کی وہ روایت قائم کی کہ شاید اس سے پہلے اس قدر وسیع پیمانے پر ملک کی تاریخ میں اس کی مثال موجود نہ رہی ہو۔
الیکٹرول بانڈ کے ذریعہ کمپنیوں سے چندے ہفتہ وصولی کے انداز میں لیے گئے۔جن کمپنیوں نے چندے دیے،انھیں سود سمیت منافع لوٹانے کےلیے حکومت نے ہزاروں کروڑ کے ٹھیکے دیے،اور ان کی انتہائی ناقص کارکردگی کے باوجو ان سے کوئی پرسش نہیں کی گئی،تعمیرات میں ان کمپنیوں کے نہایت کم زور میٹیریل کے استعمال سے کئی عمارتیں چند مہینوں یا سالوں میں ہی ڈھے گئیں،لیکن حکومت کی نظر اپنے چندے پر رہی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کی جانیں تلف ہوتی رہیں،عوامی محصول کے پیسے کمپنیوں کے کھاتے میں منتقل ہوتے رہے اور وہاں سے الیکٹرول بانڈ کے ذریعہ بطور شکرانے کے حکومت کو اداکیے جاتے رہے،گویاروم جلتا رہا اورنیرو بانسری بجاتا رہا۔
چندہ دینے والی کمپنیوں نے یا تو سرکاری ٹھیکوں کے لالچ کے میں حکومت کی منہ بھرائی کی یا جن کی نکیل ان کے قبضے سے باہر ہوتی دکھی،ان پر ای ڈی کے ذریعہ ریڈ ڈلواکر انھیں قابو میں کرنے مذموم کوشش کی گئی،بد قسمتی سے سرکاری ایجنسیوں سمیت میڈیا نے بھی اپنے فرض منصبی سے کوتاہی برتی اور بالآخر حکومت اپنے مکروہ مقصد میں کامیاب ہوتی رہی۔
الیکٹرول بانڈ ڈیٹا کے پبلک کیے جانے کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے جس قدر فعالیت دکھائی،یقیناً اس کی ستائش کی جانی چاہیے،ہم اس پر پرامید تو ہیں مگر:

نکل جاتی ہے لب خنداں سے اک آہ بھی ساتھ

کہ کاش ملک کی اقلیت اور بالخصوص مسلم اقلیت کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور ان کی حق تلفیوں پر بھی عدالت عظمیٰ کے یہی تیور ہوتے تو شاید مجرمین کے حوصلے اتنے بلند نہ ہو پاتے،جتنے اب ہیں اور ہوئے جا رہے ہیں۔

قضیہ گوشت وسبزی کا

کھانے کے نام پر ہونے والے بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک کم از کم بھارت کےلیے کوئی نئی بات نہیں ہیں،بالخصوص ہندو مذہب کے پیروکاروں میں خود سے نیچی ذات والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا یا کسی کا جھوٹا پانی پینا بھی نہایت برا سمجھا جاتا ہے،اور اس سے احتراز کیا جاتا ہے۔چنانچہ کھانے کے نام پر برتا جانے والا امتیاز کہیں نہ ان کے مذہب کا حصہ ہے،یا پھر اس کی جڑیں ذات برادری کے اونچ نیچ کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔
اب حال ہی میں فوڈ ایپ ’’زوماٹو‘‘ کے ذریعہ اپنے صارفین کو ویج اور نان ویج کھانے الگ الگ ڈیلیوری ورکرز کے ذریعہ پہنچائے جانے کے اعلان کو خالص سبزی خور افراد کی شدت پسند ذہنیت پر مبنی مطالبہ کہیے یا اسلامو فوبیا کا ایک مظہر،بہر صورت یہ بات نہایت تعجب خیز ہے کہ گوشت کی بو سے بھی دور رکھ کر کھانے کے جانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔گوکہ زوماٹو کے اس اقدام کی سوشل میڈیا پر جم کر تنقید کی گئی،جس کے بعد فوڈ ایپ کے ذمہ داران کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔
دراصل وقتاً فوقتاً بھارت میں اس طرح کے غیر معقول مطالبات کے کیے جانے کی تہہ میں جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اسلامو فوبیا کا ہی شاخسانہ ہے۔ہندوؤں میں مسلمانوں کے تئیں پیدا کی جانے منافرت نے ان کو اس طرح کے فضول کاموں پر لگا رکھا ہے،وہ عقل و شعور کو ایک طرف رکھ کر محض عناد کی بنیاد پر ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں،جس سے اپنی قوم کی نگاہ میں وہ ہیرو بن سکیں،اور ان کی جے جے کار نعرے بلند ہو سکیں۔
اب یہی دیکھ لیا جائے کہ گوشت خوری کو بھارت میں ہمیشہ مسلمانوں سے جوڑا جاتا رہا ہے،جب کہ مسلمانوں کی کل آبادی یہاں کی بیس فی صد بھی نہیں اور ویکی پیڈیا کے مطابق بھارت میں رہنے والے تقریباً 75 فی صد شہری گوشت خور ہیں۔ان اعداد وشمار کے آئینے میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ گوشت خوری ہندوؤں میں بھی عام ہے،اس لیے ہندوؤں کو چاہیے کہ اسلامو فوبیا کا شکار ہو کر مختلف کمپنیز سے اول جلول مانگیں کرنے کے بہ جائے حقائق جان کر جییں اور واٹس ایپ فارورڈس پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کی عادت تیاگ کر معاملات کو درست انداز میں سمجھنے کا شعور پیدا کریں،تاکہ ہر کوئی انھیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اپنا الو سیدھا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴