اپریل ۲۰۲۴

’’ریاست کرناٹک میں پانی کا بحران، بنگلور میں 3 ہزار بورویل خشک، فروری کے مہینے میں شدید گرمی کی وجہ سے ریاست کرناٹک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کرناٹک کے نائب وزیراعلی ڈی کے شیوکمار نے کہا ہےکہ بنگلور میں تین ہزار سے زیادہ بورویل سوکھ چکے ہیں، خود میرے گھر کے بورویل میں بھی پانی نہیں ہے ۔‘‘ (روزنامہ’’انقلاب‘‘، 7 مارچ، 2024 ء)
یہ صورت حال ہے ملک عزیز کی ، صرف کرناٹک نہیں بلکہ خود مہاراشٹر کے ممبئی و اطراف کے علاقوں کے متعلق یہ خبر آئی ہے کہ آئندہ مہینوں میں 10 فی صدپانی کی کٹوتی عوام کو برداشت کرنی پڑ سکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے پانی ناگزیر ہے۔ پانی، اللہ عزوجل کی عظیم نعمت ہے ، نہ صرف انسانوں کی زندگی کا دارومدار اس پر ہے، بلکہ ہر شے کی بقا ءو حیات کا راز بھی اسی قیمتی نعمت پر موقوف ہے ۔پانی کی اسی قدر و اہمیت اور حیات کی بقا ءکے سلسلے میں اس کے کردار کی وجہ سے اس کا تذکرہ قرآن مجید میں 63 مقامات پر آیا ہے، سورۂ زمر میں اللہ سبحانہ ‘و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
الم ترى ان الله انزل من السماء ماء فسلكه ينابيع فی الارض ثم يخرج به زرعا مختلفا الوانه ثم يهيج فتره مصفرا ثم يجعلہ حطاما، انا في ذلك لذكرى لاولي الالباب
(کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا ، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعہ وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں ،پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں ، پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئی، پھرآخر کار اللہ تعالیٰ ان کو بھس بنا دیتا ہے، درحقیقت اس میں ایک سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے۔)
یہ اور اس طرح کی مختلف آیات میں اللہ عزوجل نے پانی کا تذکرہ کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری زمین پر 21 فی صد خشکی اور 79 فی صد پانی ہے، اگرچہ زمین پر پانی کی مقدار خشکی سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے، لیکن اس 21 فی صد میں صرف تین فی صد پانی قابل استعمال ہے اور یہ تین فی صدانسانی ضروریات کے لیے کافی ہو سکتا ہے، لیکن ہم دوسری چیزوں کی طرح پانی کے استعمال میں بھی افراط و تفریط کےشکار ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں ایسے بہت سارے علاقے ہیں جہاں چار پانچ دن میں صرف ایک مرتبہ پانی آتا ہے۔ کچھ علاقوں میں کئی میل پیدل چل کر پانی حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس بڑے شہروں کے شاپنگ مالس ،فائیو اسٹار ہوٹلس اور وی آئی پی جگہوں پر بے تحاشہ پانی کا ضیا ع ہوتا ہے ، اسی افراط و تفریط کا نتیجہ ہے کہ گرمی شروع ہوتی نہیں اور پانی کی کٹوتی کی خبریں گردش کرنے لگتی ہیں۔
اسلام ایک ہمہ پہلو مذہب ہے، چناں چہ پانی کے تعلق سے بھی اسلام میں ہدایات دی گئی ہیں ۔ اسلام ہمیں افراط و تفریط کو چھوڑ کر اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں وضو کے لیے اعضا ءکو ایک مرتبہ بھی دھونا کافی ہے، اسی طرح پانی نہ ہو تو تیمم کی اجازت ہے۔ دراصل زندگی کی شروعات اور اس کی بقا کا دارومدار ہی پانی ہے۔
خلیفہ ہارون رشید کے واقعے کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس سے پوچھا گیا کہ اگر اسے پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے گا؟ تو ہارون رشید پانی حاصل کرنے کے لیے اپنی آدھی سلطنت دینے پر تیار ہو گیا۔
اسلامی تاریخ میں کئی ایسے واقعات ہیں جو پانی سے جڑے ہوئے ہیں۔ جیسے خلیفہ ہارون رشید کا واقعۂ زمزم کا معجزہ ، غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ کے حکم سے بارش اور اس کی وجہ سے مومنوں پر سکینت طاری ہونا، واقعہ ٔکربلا میں سیدنا حضرت حسین اور آپ کے اہل بیت پر پانی کا بند کرنا، یہ تمام واقعات وہ ہیں جن کا سلسلہ پانی سے جڑا ہے۔
پانی کی اسی اہمیت کے پیش نظر 22 مارچ کو عالمی سطح پر یوم آب منایا جاتاہے، جب کہ اسلام نے ہمیں نزول قرآن کے وقت ہی اس کی اہمیت،افادیت اور ضرورت سے آگاہ کر دیا تھا ، لیکن غیروں کے ساتھ ساتھ ہم مسلمان بھی آج رب تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کابے دریغ استعمال ،کارخانوں اور فیکٹریوں کے غلیظ اور خراب مواد کے اخراج کی وجہ سے صاف پانی کی قلت ہوتی جا رہی ہے، اور ہم خود بھی اس کے ضیاع کے محرک بن رہے ہیں۔
ہم پانی کی حفاظت کے لیے صرف 22 مارچ کو یوم آب منا کر اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے ، بلکہ یہ ہماری ہمہ وقت ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے قول و عمل اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے اعتدال کا رویہ دنیا کے سامنے لائیں ، اور اقوام عالم کے لیے نمونہ اور رہنما بنیں۔ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ ہمیں اپنی تمام نعمتوں کی قدر کرنے والا بنائے ،آمین!

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴