اپریل ۲۰۲۴

رمضان المبارک اور آج کی بدلتی سوچ

دروازے سے داخل ہوتی رمشاء کی نظر کونے میں پڑے صوفے پرسر جھکائے بیٹھی ہانیہ پر آ کر ٹھہر گئی۔ ہمیشہ مسکراتی، کھل کھلاتی ہانیہ کو اس طرح چپ اور اداس دیکھ کر رمشاء کو بہت حیرانی ہوئی۔ ہانیہ کے چہرے سے پریشانی اور تناؤ صاف عیاں ہو رہا تھا۔ رمشاء نے ہانیہ سے پریشانی کی وجہ پوچھی۔ہانیہ نے فوراً ہی اپنی داستان سنانی شروع کردی۔پریشانی کی وجہ رمضان المبارک کے مہینے کے دوران آنے والے سالانہ امتحانات تھے۔ ہانیہ کے مطابق امتحانات کی وجہ سے وہ نا تو آرام سے اپنی نیند پوری کرسکے گی، نا ہی روزے کی حالت میں بھوکی پیاسی اس سے پڑھائی کی جائے گی۔ رمضان میں امتحانات کی تیاری اور محنت کے دوران اسے بھوک بھی بہت لگے گی۔ اس نے لذیذ پکوانوں کی لسٹ بھی تیار نہیں کی تھی ،جو اسے افطار میں امی سے فرمائش کر کے بنوانے تھے۔ وہ تو رمضان میں جمعہ اور دوسرے خاص دنوں میں پہننے کے لیے نئے نئے کپڑوں کا انتخاب بھی نہیں کر پائی تھی اور رمضان ہے کہ صرف دس دن دور کھڑا ہے۔ نہ ہی اس نےعید کی شاپنگ کی ہے اور نا ہی امتحانات کی مصروفیات رمضان میں اسے ایسا کرنے کی اجازت دیں گی۔ عید میں سب سے خوب صورت اور دل کش نہ دکھ پانے کے خوفناک احساس نے اسے اداس کر دیا تھا۔ اس کا دل نا تو پڑھائی میں لگ رہا تھا اور نا ہی دوسرے ضروری کاموں میں۔ ہانیہ کی زبانی اس کی پریشانی سن کر رمشاء دنگ رہ گئی۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہانیہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی تیاری کی بات کر رہی ہے یا کسی پارٹی اور کلچرل پروگرام کے تیاری کی، کیوں کہ کپڑے، شاپنگ اور دوسری دنیاوی اور عارضی چیزوں کی ضرورت تو کسی پروگرام یا پارٹی میں ہی ہوتی ہے۔ رمضان المبارک تو مغفرت کا مہینہ ہے۔اس مہینے میں اللّٰہ سے رحمت طلب کی جاتی ہے،جس کے لیے نا ہمیں اچھے کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے نا ہی اچھے زیورات کی۔ مغفرت اور رحمت طلب کرنے کے لیے صرف صاف دل اور نیک نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھے کپڑے اور دل کش زیورات کا انتخاب تو ہم کسی پروگرام یا فنکشن میں جانے کے لیے کرتے ہیں، لیکن رمضان المبارک تو ظاہری خوب صورتی کو درکنار کر کے خود کوباطنی طور پر آراستہ کرنے کا نام ہے۔ دنیاوی پروگرام اور پارٹیز کے برعکس رمضان میں اپنی ذات اور کردار کو پرنور اور دل کش بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
رمشاء آج کی بدلتی سوچ پر بے حد حیران تھی کہ کس طرح لوگوں نے رمضان کو نیکی اور خدا کی بندگی کے لیے وقف کرنے کے بجائے اس مہینے کو پوری طرح شاپنگ، اور لذیذ پکوانوں تک محدود کر دیا ہے۔ آج نہ جانے معاشرے میں ایسی کتنی ہانیہ ہوں گی جو رمضان المبارک کی فضیلت اور عظمت سے ان جان اس مہینے کو یوں ہی دنیاوی تیاریوں میں برباد کر دیتی ہوں گی۔ نہ جانے ہم سب کے درمیان ایسی کتنی ہانیہ ہوں گی جو اس مبارک مہینے سے فیض یاب نہیں ہوپاتیں،اللّٰہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔
ہم سب کو اپنی ذات، اپنے کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمارے دل کے کسی کونے میں ایسی ہی کوئی ہانیہ موجود تو نہیں ہے؟ کیا ہم بھی ایسی ہی کسی سوچ اور غلط فہمی کا شکار تو نہیں ہیں؟ کیا ہمارے ذہنوں میں رمضان المبارک کا مقصد، اہمیت، افادیت، فضیلت و عظمت واضح طور پر عیاں ہے یا اس پر غفلت اور کوتاہی کا پردہ پڑا ہوا ہے؟یہ فیصلہ ہمیں آج اور ابھی کرنا ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو کس طرح پاک کرنا ہے؟ کیا ہمیں ہانیہ کی طرح دنیاوی خواہشات کا پیچھا کرنا ہے یا پھر رمشاء کی طرح رمضان کی اصل افادیت کو پہچان کر اس پر عمل پیرا ہونا ہے؟
خلیل قدوائی نے کیا خوب کہا ہے:

اک زندگی عمل کے لیے بھی نصیب ہو
یہ زندگی تو نیک ارادوں میں کٹ گئی

رمضان المبارک کی اہمیت و فضیلت

زمین، آسمان، کائنات یہاں تک کہ عالم دنیا کے تمام دینوں میں سب سے عظیم و آفاقی دین اسلام ہے۔دین اسلام کو تمام ادیان پر فوقیت و فضیلت اور برتری حاصل ہے۔ دین اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک اہم ستون روزہ ہے۔ امت مسلمہ رمضان کے مبارک اور برکتوں سے پر نور مہینے میں روزوں کا اہتمام کرتی ہے۔ ہجری کیلنڈر کے تمام مہینے اپنے اپنے حساب سے اہمیت کے حامل ہیں، لیکن اہمیت و افادیت اور فضیلت کے معاملے میں رمضان المبارک کو باقی سارے مہینوں پر سبقت حاصل ہے۔ایک موقع پر حضرت جبرئیل علیہ سلام نے دعا کی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان المبارک کا مہینہ نصیب ہو اور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکے۔جبرئیل علیہ السلام کی اس دعا پر آنحضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ آمین!‘‘
رمضان المبارک پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کی یہ دعا اوراس پر آنحضرت محمد ﷺ کا آمین کہنا ،رمضان کی اہمیت اور فضیلت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔یہی وہ مقدس اور پاک مہینہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا۔ اسی پاک مہینے میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے نیکیوں پر ثواب کو ستر گنا بڑھا دیا ہے، اسی مقدس مہینے میں شیاطین قید کر لیے جاتے ہیں، اس مہینے میں اللّٰہ تعالیٰ نے ہم سے بے پناہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے رہائی کا وعدہ کیا ہے، بشرطیکہ ہم اس کے طلب گار ہوں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کی ایک عورت سے فرمایا کہ تمھیںہمارے ساتھ حج کرنے سے کس چیز نے روکا؟ اس نے کہاکہ ہمارے پاس صرف دو اونٹ تھے، جو ہم پانی لانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ چناں چہ میرےشوہر اور بیٹا ایک اونٹ پر حج کے لیے گئے تھے اور دوسرے اونٹ کا کام پانی لانا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان آئے تو عمرہ کے لیے جاؤ، کیوں کہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔ (البخاری)
ایک روایت کے مطابق ’’… میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔‘‘ (مسلم)

بےشمار نعمتوں میں سے ایک نعمت: روزہ

اللّٰہ تعالیٰ نے عبادت کے جتنے طریقے ہمیں بتائے یا ہم پر فرض کیے ہیں، ہر طریقے میں اللّٰہ رب العزت کی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ وہ ہی بہترین کارساز ہے جو غیب کا علم رکھتا ہے۔ ان عبادات کے بنیادی مقصد میں انسانی جسم کی بالیدگی اور روح کی اصلاح کا فلسفہ مخفی ہے۔ یوں تو زمین، آسمان میں موجود ہر شے چاہے وہ جاندار ہو یا بےجان، یہاں تک کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللّٰہ تعالیٰ کی حمدو ثنا میں مشغول رہتا ہے، لیکن عبادات کے جو احکام و فرائضِ انسانوں کو عطا کیے گئے ہیں ان سے دوسری مخلوقات محروم ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور برے کام نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے سے کوئی غرض نہیں۔‘‘ (البخاری)
روزہ، اللّٰہ سبحان و تعالیٰ کا عطا کردہ بیش قیمتی تحفہ ہے۔یہ ایک عظیم عبادت ہے جو ہر بالغ مسلمان پر فرض کردی گئی ہے۔ روزے کا مقصد طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک صرف کھانے پینے سے دور رہنا نہیں ہے بلکہ روزے کا اصل مقصد اپنی ذات میں تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا کرنا ہے، خود کو فحش کلامی، جنسی خواہشات، بدتمیزی، چغلی، جھگڑے فساد اور دوسری ناجائز چیزوں کی چاہ سے دور رکھنے کا نام روزہ ہے۔ روزے کی حالت میں ہماری نیت صرف یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنے رب کے لیے کھانے اور پینے سے دور رہیں گے ،بھلے ہی ہمارے سامنے کتنے ہی لذیذپکوان آ جائیں ،لیکن ایک منٹ کے لیے بھی من میں اس پکوان کو کھانے کی خواہش نہ آنا، یہ اصل روزہ ہے، اصل عبادت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے لیے اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانا ہی تقویٰ ہے۔ ایک حدیث کے مطابق :’’روزہ ایک ڈھال ہے، اس لیے روزہ دار کو فحش کلامی اور جاہلانہ رویے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑنے لگے تو اسے یہ کہنا چاہیے کہ میں روزے سے ہوں، میں روزے سے ہوں۔‘‘ (البخاری)
_ رمضان میں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بڑے بڑے ثواب عطا کیےجاتے ہیں۔ رمضان المبارک کا ہر لمحہ ہمیں اپنی غفلت میں سوئی ہوئی روح کو بیدار کرنے اور اسے اللّٰہ کی عبادت میںمشغول کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید میں رمضان المبارک کا بارہا ذکر اس کی اہمیت و افادیت میں اضافہ کرتا ہے۔

اس مہینے سے اللّٰہ رب العزت کا خصوصی اور گہرا تعلق ہے۔اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اگر ہم نے صحیح نیت اور اللّٰہ کی خوشنودی کی خاطر روزہ رکھا ہے تو روزے کی بھوک، پیاس اور شدت ہمیں محسوس نہیں ہوتی۔ روزہ رکھ کر بھی ہم اپنے روز مرہ کے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دے پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری عبادات ، نماز، قرآن کی تلاوت و تفسیر اور ذکر و اذکار وغیرہ بھی اپنے اپنے وقت پر پورے ہوتے ہیں۔یہ سب یوں ہی ممکن نہیں ہوتا، بلکہ اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت اور مدد شامل ہوتی ہے کہ روزے میں انسان کی قوت اور طاقت باقی دنوں کے مقابلے بڑھ جاتی ہے۔

روزہ: جذبات پر قابو پانے کا اہم ترین ذریعہ

اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی عبادات ہم پر فرض کی ہیں، ہر ایک اپنے حساب سے اہمیت کی حامل ہے، ہر عبادت کے اپنے فائدے اور ثواب مقرر ہیں، بہت سی عبادات جیسے کہ نماز، زکوٰۃ، حج وغیرہ ایسی عبادات ہیں جو آج ظاہری بڑائی، دکھاوے کا اہم ذریعہ بن گئی ہیں۔ اگر کوئی مہمان ہمارے گھر آجائے تو ہماری نمازیں اطمینان بخش اور سجدے طویل ہوجاتے ہیں،اگر کوئی شخص زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو کیمرے اور فوٹوگرافی کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے، حج پر جانے والے زیادہ تر لوگ اسے ایکPublicity Stunt کے طور پر پیش کرتے ہیں، ہر ایک جگہ کھڑے ہوکر سیلفیز کلک کی جاتی ہیں۔ ان سارے اعمال سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اسلامی عبادات آج لوگوں کے لیے محض شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔

نام نبی تو ورد زباں ہے ناؤ مگر منجدھار میں ہے
سوچ رہا ہوں اب بھی یقیناً کوئی کمی کردار میں ہے

اس کے برعکس روزہ جھوٹ، دکھاوے اور منافقت کی نفی کا نام ہے، یہ عمل خالصۃًاللّٰہ تعالیٰ کے لیے کیا جاتا ہے، روزہ میں دکھانے یا جتانے کا کوئی عنصر نہیں ہے، روزہ ایک ایسا طریق عمل ہے جو روزہ دار اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوتا ہے،اس میں کسی تیسرے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں انواع و اقسام کے لذیذ پکوان، مشروبات انسان کے سامنے موجود ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کوئی روکنے، ٹوکنے یا دیکھنے والا بھی نہیں ہوتا، لیکن روزہ دار محض اپنے رب کی اطاعت اور اس کی فرماں برداری کی خاطر غروب آفتاب تک بھوک، پیاس، گرمی وغیرہ برداشت کرتا ہے۔
روزہ اپنی ذات کا جائزہ لینے اور اپنے کردار میں تقویٰ، پرہیزگاری اور عاجزی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ ہر مسلمان کے لیے Training Periodکی مانند ہوتا ہے ۔اس ایک مہینے میں ہم جتنے بھی نیک اعمال کرتے ہیں، جس طرح اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں، جس طرح فحش اور برے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، سال کے باقی گیارہ مہینوں میں ہمیں اسی ٹریننگ کا استعمال کرنا ہے، جو کچھ ہم نے رمضان المبارک میں سیکھا اور جانا ہے، اسے باقی گیارہ مہینوں کے دوران بھی اپنی زندگیوں میں نافذ کرنا ضروری ہے۔ رمضان المبارک میں انسان کی سیرت، کردار، افکار، عبادات اور نفس میں بے شمار تبدیلیاںرونماہوتی ہیں۔ رمضان المبارک میں کی گئی اپنے کردار کی تربیت پر سال بھر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر ہم اپنی زندگی کا ہر دن رمضان المبارک کی طرح گزاریں تو ان شاء اللہ ہماری موت عید جیسی دل کش اور خوش نما ہوگی۔

کردار و گفتار میں غیر معمولی تبدیلی

انسان سماجی تشکیل نو کا بنیادی عنصر ہے، انسانوں ہی سے سماج اور معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اسی سماج میں امیر و غریب، آزاد و غلام، بڑے و چھوٹے، کمزور و طاقت ور ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ معاشرتی نظام میں پائے جانے والے بےشمار پیشوں کے باعث سماج میں لوگوں کی آمدنی اور درجہِ بھی کم اور زیادہ میں ناپا جاتا ہے۔کچھ لوگ پیدائشی امیر ہوتے ہیں، مطلب کہ وہ لوگ جن کے آباءو اجداد ان کے لیے وراثت کے نام پر اتنی دولت چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کی سات پشتیں بیٹھ کر کھا سکیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خود اپنے بل بوتے پر اپنا مستقبل بناتے ہیں،خود دن رات ایک کر کے ان تھک محنت اور کوشش کرتے ہیں، ان کے علاوہ کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی چیزوں کے لیے بھی مجبور ہوتے ہیں۔ سماجی نظام میں موجود اس فرق نے لوگوں کے بیچ اونچ نیچ کی ایسی دیوار کھڑی کر دی ہے، جسے چاہ کر بھی گرایا نہیں جا سکتا،اگر سماج میں اس اونچ نیچ کے درمیان توازن پیدا نہ کیا جائے تو نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔
روزہ ہمیں اپنے نفسیات پر قابو پانا سکھاتا ہے۔ روزے کی حالت میں انسان کو احساس ہوتا ہے کہ کھانا، پینا، دولت اور دوسری آسائشیں جو ہمیں میسر ہیں وہ اللہ رب العزت کی کتنی بڑی نعمت ہیں۔ روزے میں انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس دنیا میں نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں ،جو سال کے بارہ مہینوں میں نہ جانے کتنے دن بنا کچھ کھائے پیےگزارتے ہوں گے۔
روزہ سے انسان میں عاجزی اور شکر خداوندی پیدا ہوتی ہے، انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو نہ صرف محسوس کرنے لگتے ہیں ،بلکہ ان تکالیف اور درد کو دور کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ سماج میں پھیلی اونچ نیچ اور اعلیٰ وادنیٰ کے فرق میں بھی بڑی حد تک کمی آجاتی ہے۔دعوتوں، ہوٹلوں اور ریستورانوں وغیرہ میں امیر غریب، بڑا چھوٹا سب ایک جیسے ٹیبل پر بیٹھ کر ایک ساتھ افطار کرتے ہیں۔امت میں بھائی چارے کی فضا قائم ہوتی ہے۔ ماہ رمضان ہمیں وقت کی پابندی اور اس کی اہمیت و افادیت سے روشناس کرواتا ہے۔ ماہ رمضان میں ہمارے ہر کام متعینہ وقت پر عمل میں آتے ہیں،جس سے ہمیں وقت کی قوت کا احساس ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں انسان کے دل کشادہ اور سخاوت سے بھرپور ہوجاتے ہیں۔اس مبارک مہینے میں ہر استطاعت رکھنے والے شخص پر زکوٰۃ کی صورت میں غریب غرباء کی مدد لازمی کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ صدقۂ فطر کی شکل میں بھی لوگوں کی امداد کو ترجیح دی گئی، اس ماہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ دولت میں سے ذرا سا حصہ اللہ کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے صرف کرنے کا حکم ہے۔ روزہ سے انسان میں احساس ذمہ داری پروان چڑھتی ہےاور سماجی نظام میں توازن برقرار رہتا ہے۔

رمضان المبارک: آخرت میں سربلندی کا خاص موقع

بالآخر ہمیں یہ بات ازبر ہونی چاہیے کہ ہم اس نبی کریم ﷺ کی امت ہیں جنھیںصرف مسلمان، عورت، مرد یا اس دنیا کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے عالم وکائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا۔وہ رحمۃللعالمین ہیں۔ سارے جہانوں کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ ان کی قوم ہونے کے ناتے یہ ہم پر لازم و ملزوم ہے کہ ہم آں حضرت ﷺ کے بتائے گئے طریقے کے مطابق رمضان المبارک کا خیر مقدم کریں۔ اللہ رب العزت کے احکام اور رسول ﷺ کی سنتوں کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں۔ رمضان المبارک تو روحانی اور اخلاقی بیداری کا دوسرا نام ہے۔ روزہ کا اصل مقصد اپنی زندگی میں تقویٰ اور پرہیز گاری کو نافذ کرنا ہے۔ غریب غرباء کے درد، دکھ، تکالیف اور پریشانیوں کو سمجھنا اور ان کا مداوا کرنے کی کوشش کرنا رمضان المبارک کی نیکیوں میں سے ایک ہے۔ غریبوں، ناداروں اور یتیموں کی مدد کرنے سے ہماری دولت اور نعمتوں میں ذرا سی بھی کمی نہیں آتی، بلکہ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ ہمارے ساتھ سخاوت اور فیاضی کا معاملہ کرتا ہے۔
آج ہی ارادہ کریں کہ رمضان المبارک کا ایک لمحہ بھی کبھی ہم ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ہر ایک لمحے میں نیکی اور ثواب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، اصل معنوں میں ہر طرح کی برائی سے دور رہیں گے اور آگے بھی اسی نظم و ضبط کے ساتھ آنے والے سال میں ان ا چھے اور نیک اطوار کو اپنی زندگی میں پوری ایمان داری سے نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴