آزمائشی حالات میں عید

ماہِ صیام تمام تر رحمتیں و برکتیں سمیٹے ہوئے عروج پر ہے۔ بس چند دنوں میں یہ ماہِ مبارک بھی رخصت ہونے کو ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ امسال مسلمانانِ عالم پر آزمائشیں کڑی ہیں، ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں، ان کی برداشت کا امتحان لیا جارہا ہے۔ ایسے میں ہم اور آپ جنھیں اللہ نے کڑی آزمائشوں سے محفوظ رکھا، بحیثیتِ مسلم ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خدا کا کروڑہا کروڑ شکر بجا لائے اور دربارِ حق میں ہمارے ان مظلوم بھائیوں، بہنوں اور معصوم بچوں کے حق میں گڑگڑا کردعا کریں، جو ظالموں کے دباؤ میں ہیں۔ ایسے حالات میں جب چہارجانب مسلمانوں کی مظلوم تصاویر ہماری آنکھوں کو حفظ ہورہی ہیں اور ہم شرمندگی کے احساس سے مرے جارہے ہیں، تو یہ بات ہر باشعور مسلمان کے لیے لازم ہے کہ ہم ہمارے ان ایمانی بھائی بہنوں کو اپنی عید کی خوشیوں میں فراموش نہ کربیٹھے، جو اپنے ایمان کی قیمت ادا کررہے ہیں، ہم ہرگز ہمارے ان معصوم پھولوں کو نہ بھولیں، جنھیں سفاک دلوں نے جارحیت کے ساتھ مسل ڈالا۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان کے غم میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی خوشی میں بھی انھیں ٹھیک ٹھیک یاد رکھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى

(مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے محبت، ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور ایک دوسرے کیساتھ مہربانی اور نرمی برتنے میں ایک جسم کی مثال ہیں، کہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم بھی بیداری اور بخار کے ساتھ اس کی وجہ سے بے چین رہتا ہے۔(البخاری: 2586)
رسول اللہﷺ کا یہ قولِ فیصل ہی ہمارے لیے کافی ہو۔

سب تحفظ کے بھرم ٹوٹ رہے ہیں جاناں!

 وہ مناظر ہماری آنکھوں سے کبھی رخصت نہیں ہوسکتے جب ہم نے ہمارے عزیزوں کے مکانوں کو زمین بوس ہوتے دیکھا۔ ان کے رحمت خانوں پر بےدردی سے بلڈوزر چلا دیے گئے۔ ان کی خون پسینے کی محنت، ان کی زندگی بھر کی کمائی، ان کا پیارا گھر ان کی بے بس آنکھوں کے سامنے آنسوؤں کی مثل بہہ گیا۔ وہ گھر جسے بنانے میں ایک باپ نے اپنی زندگی کھپا دی، وہ گھر جو اس خاندان کے لیے کسی جنت سے کم نہ تھا، وہ گھر جس میں ان کے جگر کے ٹکڑوں کے قہقہے گونجے تھے، اسی گھر کو ظالموں نے پلک جھپکتے ہی مٹی کا ڈھیر کردیا۔ رہائش گاہ سے ملبے تک کا وہ کرب ناک منظر جس کی گواہی ان آنکھوں نے دی جو کچھ دیر پہلے اس کے مکین تھے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ وہ بے گھر لوگ، وہ بے قصور لوگ عید کس طرح منائیں گے؟

ذکر مت چھیڑ ہلدوانی کا

یہ حقیقت ہے کہ ملک عزیز میں ہوئے اس واقعے کا ذکر کرتے ہی ہاتھ بے اختیار سینے پر چلا جاتا ہے۔ ظالم کا وہ چہرہ جو بے نقاب ہوا تو بے اختیار لوگوں کی گریہ و زاری کا ناقابلِ فراموش منظر ہم نے دیکھا۔ ہم اپنے ذہن سے جلتے ہوئے اور تباہ و برباد ہلدوانی کی تصویر کبھی نہیں نکال سکتے۔ ان معصوموں کو جو اپنی آنکھوں میں ننھے خواب بننے کی عمر میں آنسو لیے اپیلیں کیے جارہے ہیں کہ ان کے اسکول نہ توڑے جائیں ،وہ پھول سے چہرے جنھیںشیطانوں نے بری طرح رلایا، ہم نہیں بھول سکتے۔ وہ مظلوم چہرے جن کے آشیانوں کو بغیر سوچے نذرِ آتش کیا گیا اور ناانصافی کی نئی مثال قائم کی گئی۔ صرف یہی نہیں ،چھ نہتے مسلمانوں کو کھلے عام گولی مار کر قتل کیا گیا اور اسی کے ساتھ ایک بار پھر ملک میں دستورِ ہند کا جنازہ اٹھایا گیا۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہلدوانی کے وہ مسلمان عید کس طرح منائیں گے؟

نارِ نمرود بھڑکتی ہے براہیمی پر

سالِ نو کے شروعات ہی میں ہم نے دارلسلام کو دارالشیطان بنتے دیکھا‌۔ اس ملک کا ہر مسلمان چشم دید گواہ ہے ،خواہ وہ ایودھیا کا مسلم ہو یا گھر بیٹھے موبائل پر ’’پران پرتشٹھا‘‘ کا نظارہ کرنے والا ہم جیسا انسان۔ ہم نے 22 جنوری کو قتلِ جمہوریت کی گواہی دی۔ ہمارے دل آج بھی یہ سوچتے ہوئے کہ خانۂ خدا ہم سے چھین لیا گیا، غم سے پھٹ پڑتے ہیں۔ کیا اس کیفیت میں ہم عید کی خوشیاں تصور کر سکتے ہیں؟ نہ صرف بابری بلکہ ملک کے متعدد علاقوں میں فرعونی قوتوں نے خدا کے گھر کو نشانہ بنایا۔

یہاں جو بھی ہے ،سب باطل نظر کا ایک دھوکا ہے

لوک سبھا الیکشن جیسے جیسے قریب آرہے ہیں، ملک کے سیاسی موسم میں تبدیلی آرہی ہے۔ کہیں پر جھوٹے وعدوں اور نعروں کا بازار گرم ہے، تو کہیں فسادات کروانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہیں۔ اس خوف و حزن کے ماحول میں جن علاقوں میں تناؤ زیادہ ہیں اور وہاں مسلم باشندے رہتے ہیں ،کیا ہم نے سوچا کہ ایسے کش مکش کے ماحول میں وہ عید کیسے منائیں گے؟ ایسے علاقوں میں خوشی کے موقعوں پر بھی حددرجہ احتیاط برتی جاتی ہے کیوں کہ یہ امن کا تقاضا ہے ،ورنہ زعفرانی نشہ جب سر چڑھ کر بولتا ہے، تو وہ رنگ میں بھنگ ڈالنے کو دوڑے چلے آتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے وہ مسلم خاندان جو ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، الیکشن کے اس کبھی بھی بھڑک جانے والے شعلے کے خدشے میں عید کیسے منا پائیں گے؟

قتل ہے انسانیت کا وہ مرے یا ہم مریں

ان تمام حالات میں جن کا ذکر اوپر کیا گیا، ان میں سب سے زیادہ اہم مسئلہ اور جس نے غم کا خنجر ہمارے دلوں میں گھونپ دیا ہے ،وہ ہے اہلِ فلسطین کا مسئلہ۔ انسانیت کا قتل!
ہم میں سے شاید ہی کوئی غفلت میں اس حد تک ڈوبا ہوا ہو کہ وہ مسئلۂ فلسطین سے ناواقف ہو۔ یہ وہ مسئلہ ہے کہ گذشتہ تقریباً پانچ مہینوں سے اس کی پے در پے ضربیں ہمارے دلوں پر لگ رہی ہیں۔ کچھ مناظر ایسے ہیں کہ بس تاب نہیں نظارے کی۔ ہماری آنکھوں نے اس منظر کی بھی گواہی دی، جس میں معصومیت کا بےدردی سے قتل کیا گیا، ہماری یہ بےبس بہتی ہوئی آنکھیں گواہ ہیں کہ کس طرح غزہ کے پھول سے بچے جن کی مسکراہٹ سے، جن کے قہقہوں سے رونق تھی انھیں خون میں نہلا دیا گیا، انھیں اس قدر زخمی کیا گیا کہ زخموں کو دیکھنے کی سکت ہم میں نہیں، سرزمین غزہ کے یہ قمقمے جن سے چہار جانب وہاں جنت کا سماں تھا، انھیں جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کا بھی سامنا ہے۔ جو بچے کثیر تعداد میں شہید ہوئے ،ان مناظر نے دنیا کو خون کے آنسو رلادیا مگر جنھیں اس حال میں بھی حیات تحفۃً ملی،ان پر بھوک حملہ آور ہوگئی۔ غزہ کے وہ پیارے جو معصوم عن الخطا تھے، جنھوں نے نہ دنیا دیکھی نہ جرم کیا، ماں کی گود ہی سے رخصت ہوگئے۔ وہ کلیاں جن کو کھلنے کا حق تھا ،ایٹم بم کی آوازوں سے یوں مرجھا گئیں کہ روح نے بھی جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ وہ شاہین بچے، جنھوں نے سربکف ہوکر آخری حد تک علَم حق بلند رکھا، بالآخر بھوک کی تاب نہ لاتے ہوئے ابدی سفر پر روانہ ہوئے۔ یہ وہ بچے ہیں جو خونِ جگر سے تاریخ لکھ کر چلے گئے۔ جن کے حوصلے اور فولادی استقامت نے ہمیں ایمانی احتساب پر مجبور کردیا۔ ہم بے بسی کے اس مقام پر ہیں کہ دعا کے علاوہ ہمارے پاس بس شرمندگی بچتی ہے۔ ایسے میں کیا ہم نے سوچا کہ وہ بچے جو اس قیامت خیز ماحول میں بھی بچ گئے وہ عید کیسے منائیں گے؟

بس اک وعدہ کرو ہم سے
دعائے نیم شب میں تم ہمیں یاد رکھو گے

 مندرجہ بالا تمام تر آزمائشی حالات کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ ہم وہ غم تازہ رکھیں، جب تک صبحِ کاذب صبحِ صادق میں نہ بدل جائے‌۔ بےشک ہم سر تا پا رب تعالیٰ کی نعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ،لہٰذا شکرگزاری تو ہم پر لازم ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ ہمارے ان مظلومین کو بھی ہم نہ بھولیں۔ یہ ہماری امداد کے منتظر ہیں۔ اگرقوت بازو سے ہم کچھ کرسکتے ہیں، تو ضرور بالضرور کریں، لیکن اگر طاقت نہیں ہے تو کم از کم دعاؤں میں انھیںلازمی یاد رکھیے۔ یہ ہماری دعاؤں کے حق دار ہیں۔ ہم یہ ہرگز نہ بھولیں کہ روزِ قیامت ہم خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے اور اس روز کوئی سفارش قبول نہیں کی جائے گی۔ ہم یہ بھی نہ بھولیں کہ ہم امتِ وسط ہیں کم از کم مظلومین کے لیے وہ کرجائیں کہ اس دن جو انصاف کا دن ہوگا،رسولﷺ ہم سے رخ نہ موڑیں۔ رسولﷺ کی ناراضگی،اللہ کی ناراضگی! کیا آپ اس روز جو کبھی نہ ختم ہونے والا دن ہوگا، جو لازوال زندگی ہوگی، اس میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا تصور کرسکتے ہیں؟ اس سوال پر ہماری روح لرز اٹھتی ہے۔ بندۂ مومن کا دل خوفِ خدا سے کانپ اٹھتا ہے ،اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو ابل پڑتے ہیں۔ لہٰذا، مقصدِ تحریر یہی ہے کہ ہم ہماری عید کی خوشیوں میں انھیںفراموش نہ کرجائیں۔ ہم اپنی ہر دعا میں انھیںیاد رکھیں۔

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

 اگر ہم غور کریں تو عید کا موقع ہمارے لیے محبت کے پیغام کو عام کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اولاً ہمیں چاہیے کہ بحیثیتِ مسلم ہم متحد ہوجائیں اور باہمی محبتوں کو بڑھاوا دیں۔ رب تعالیٰ سورۃ البروج میں اپنی دو صفات کا ذکر کرتے ہیں، ’’ھوالغفور الودود‘‘( وہ بہت بخشنے والا اور بہت محبت کرنے والا ہے۔) گویا تقاضائے دین یہی ہے اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کے اخلاقِ جمیلہ میں رنگ جائیں،کیوں کہ یہی کمال بندگی ہے۔ ہم اتحاد کی وہ مثالی تصویر پیش کریں کہ باطل ہڑبڑا اٹھے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مخالفین کا سب سے بڑا مقصد ہمیں آپس میں توڑنا ہے۔ جب ہم آپسی اتحاد سے ان کے اس مقصد کو ناکام کریں گے، وہیں سے متحد ہونے کی اور یک جماعت ہونے کی برکتیں ہم دیکھیں گے۔ نفرت کی فضا میں محبت کے پھول کھلا کر ہم لوگوں کو مسحور کردینے کا عزم لیں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ٹھان لیں۔ نظریات بدلنے کے لیے منظر بدلنا ضروری ہے۔ دعوتِ کردار کے اثرات دیرپا اور زیادہ مؤثر ہوتے ہیں، اور یہ کوشش ہم سے ہی شروع ہوتی ہے۔

بے خبر تو جوہرِ آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Maisra Takreem

    حقیقتاً جھنجوڑ دینے والا مضمون۔۔
    ہم انھیں اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیںنگے۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴