اپریل ۲۰۲۴

وہ پوچھتے ہیں کہ ہم اور ہمارے بچے اتنے مختلف کیوں ہیں؟میں کہتی ہوں آپ مجھے یہ بتائیے کہ وہ کتنی تکلیفیں جھیل رہے ہیں؟پھر میں آپ کو یہ بتاؤں گی کہ وہ اس سے کتنا کچھ سیکھ رہے ہیں۔
آج آپ ایک پوری نسل کو دیکھ رہے ہیں،جس نے اپنی زندگی زیادہ سے زیادہ اسباب عیش و راحت کے حصول میں صرف کر دیا،اور جو بھی اس روش پر گام زن رہےگا وہ فوز و فلاح سے ہم رکاب ہونے کا استحقاق نہیں رکھےگا۔وہ تمام حصولیابیاں جنھیں وہ کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں،ان کی حقیقت سراب و وہم کے زرق برق ریپرز میں ملفوف چند ناکامیوں کےسوا کچھ بھی نہیں ہے۔مجھے بتائیے!اس کی کیا تک ہے کہ وہ اپنی ذہانت کے ذریعہ آپ کی شکست اور ہر اس شے کے حصول کےلیے زور لگا رہے ہیں ،جس کی انھیں چاہ ہے؟
بحیثیت مربی و معلم آپ کی کامیابی اسی وقت تسلیم کی جائےگی جب آپ اپنے بچے کی تربیت اس انداز میں کر سکیں کہ وہ ہر طرح کی کلفتیں برداشت کرنے کا اہل ہو جائے،آپ کی کامیابی تب یقینی ہوگی جب وہ پریشان کن حالات سے بخوبی نمٹ کر آپ کو مطلع کرے،آپ کی کامیابی تب متیقن ہوگی جب آپ کوئی ایسا کام اس کے سپرد کریں جو کرنا اسے پسند نہ ہو،تاہم وہ اسے پورا کرکے اس پر اپنی قدرت ثابت کر دے،اور یہ بتلا دے کہ اس طرح کے کام اس کی دست آپ کوئی ایسا کام اس کے سپرد کریں جو کرنا اسے پسند نہ ہو،تاہم وہ اسے پورا کرکے اس پر اپنی قدرت ثابت کر دے،اور یہ بتلا دے کہ اس طرح کے کام اس کی دست رس سے باہر نہیں ہیں۔

 ایک خاتون اپنے بیٹے کی بے پناہ قابلیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بچپن سے ہی اس میں موجود غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر میں حیران ہوں،مجھے نہیں پتہ کہ میں اس سے جو کچھ بھی چھپاتی ہوں،اسے اس کی کہاں سے خبر ہو جاتی ہے؟وہ انتہائی ذہین ہے۔وہیں دوسری جانب ایک خاتون اپنی بیٹی کی ضد کے آگے بے بس ہو جانے پر شکوہ کناں ہے،کیوں کہ اس کی چھوٹی بیٹی بڑی دلاری ہے،اس کے ایک اشارے پر اس کے تمام مطالبات پورے کرتی ہے،اور وہ جو کچھ مانگتی ہے اسے فراہم کر دیتی ہے،اس طرح بچے میں اپنی پسندیدہ اشیاء کے حصول کےلیے بہانہ بازی کی عادت پختہ ہوتی چلی جاتی ہے،پھر جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی جاتی ہے،تفریح کے گوناگوں اسباب اس کے سامنے ہوتے ہیں،مختلف النوع سامان راحت پر اس کی نگاہ پڑتی ہے،اگر بچہ اپنے والدین کے زیر سایہ ذمہ داریوں کا بار اٹھانا نہیں سیکھےگا اور مشکلات سے نمٹنا نہیں جانےگا تو اس کےلیے یہ سیکھنے اور جاننے کا مناسب موقع بھلاکب ہوگا؟
کامیابی کی اصل تصویر وہی ہے جو غزہ میں ہماری نگاہوں کے سامنے ہے،جہاں تکلیف کے مارے بچے موت تک نہیں بلکہ موت کی خواہش تک جا پہنچتے ہیں،ان کی آنکھوں کو بغور دیکھیں!کان لگاکر ان کی باتوں کو سنیں کہ جب ان کے اہل خانہ میں سے کوئی جام شہادت نوش کرتا ہے،تو ان کے چہروں پر پھیلے ہوئے تاثر اور غیظ و غضب سے بھرے ہوئے سخت خدوخال پر توجہ کریں!یہی وہ تکلیف دہ احساس ہے جو آسودہ حال بچوں کا شعور گم کر دیتا ہے،اور انھیں شکوہ کرنے،اکتاہٹ کا شکار ہونے اور والدین پر تنقید کےلیےیوں آمادہ کرتا ہے،گویا والدین اس کی خدمت پر مامور ہوں۔آپ اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ تکلیف سے دامن چھڑاتے ہیں،وہ کوئی سی بھی تکلیف ہو،وہ بس لذات و آسائش کے زیادہ سے زیادہ حصول کی خاطر بھاگے جا رہے ہیں۔
وہ غزہ جو نخوت کا سرچشمہ اور عظمت کا مینار ہے،وہاں آج نونہالوں کے درمیان حسرت و رنج کے کھلونے سمیٹنے کی بازی لگی ہوئی ہے،جو گنوا کر زیادہ صبر کا مظاہرہ کرےگا،اور جو زیادہ مزاحمت کرےگا،غلبہ و فتح پر اسی کا حق ہوگا۔
میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر انھیں کون سی کوکھ نے جنم دیا ہے؟
کن پرورش گاہوں میں ان کی نمو ہوئی؟ کون سا دودھ پلاکر انھوں نے وہ شیر نر تیار کیے،جن سے اس نامردی کے دور میں ہم جواں مردی سیکھ سکیں؟
یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک بچہ بہ یک وقت اپنے بھائی،اپنی ماں اور تین چچاؤں کی لاش پر ماتم کرتے ہوئے ہوش سنبھالے،اور ہوا میں اپنی انگلی لہرا کر پوری دنیا کے جی حضوری کرنے والوں کو چیلنج دیتے ہوئے کہے:
’’ہم اپنے آخری شہید تک ثابت قدم رہیں گے،غزہ جرأت و عزیمت کی سرزمین ہے،ہم کم زور نہیں پڑیں گے۔‘‘
اگر تربیت کرنے والوں کو یہ علم ہوتا کہ زندگی کی حقیقت مختلف النوع امتحانات میں ظاہر ہوتی ہے،اور بہتر نتیجہ بھی اسی کےلیے ہے جو ان سے بخوبی گزر جانے کا ہنر رکھتا ہے،تو وہ اپنی اولاد کی تربیت اس کے 180 ڈگری الٹ انداز میں کرتے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہم تمھاری آزمائش ضرور کریں گے،یہاں تک ہم جان لیں تم میں مجاہدین کو اور اس پر صبر کرنے والوں کو اور ہم پرکھ لیں تمہارے حالات کو۔‘‘
ہمیشہ سے غزہ پٹی میں بچوں کی زندگی نہایت مشکل ترین رہی ہے۔یہ چوتھی جنگ ہے،جس کا وہ سامنا کر رہے ہیں،ان کےلیے غزہ کے ارد گرد شاید ہی کوئی محفوظ مقام ملے،یہ یہیں ممکن ہے کہ سات برس سے بھی کم عمر کا بچہ اپنی ماں کےلیے پانی لانے کی خاطر دو تین کیلو میٹر پیدل چلتا ہے،کل جب وہ مرد بنے گا تو کیسا مرد ہوگا؟اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
یہ بچہ ابو عبیدہ کا بھائی اور اس کا بیٹا ہے، یہ وہی ہے جس نے بہادری و جواں مردی کا دودھ پی کر پوری دنیا کو یہ بتا دیا کہ صحت مند دور طفولیت وہی ہے جس میں ذمہ داریوں کا بار اٹھایا جائے اور مشکلات سے نبرد آزما ہوا جائے۔
یہ وہ نسل ہے جو ہماری اولاد سے پہلے ہماری استاذ ہے،ان سے ہم وقار،فخر،بہادری،شجاعت اور اس نشاۃ ثانیہ کے اسباب اکٹھا کرتے ہیں،جس کا ہم خواب دیکھتے ہیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴