اپریل ۲۰۲۴

’’خاتون خالہ! میں نے آپ کو اب تک قریب ڈیڑھ سو بچیوں کی تصویریں دکھائیں ، مجال ہے جو آپ کو ایک عدد بچی پسند آئی ہو۔‘‘
’’ سلیمہ! لڑکی خوب صورت ہو،اس کے علاوہ ایک اور چیز چاہیے۔‘‘مشاطہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’تعجب ہے! اتتے فوٹوؤں میں ایک بچی بھی خوبصورت نہیں دِکھی ؟‘‘مشاطہ کا دکنی لہجہ بڑا خوبصورت تھا۔
’’ ارے ایسی بات نہیں ہے ما۔‘‘
’’پھر کیسی بات ہے خالہ؟‘‘مشاطہ چِڑ گئی۔
’’مجھے لڑکی میں ایک چیز لازمی چاہیے ۔‘‘
’’وہ کیا بھلا؟‘‘مشاطہ کی آنکھیں سکڑ گئیں اور ماتھے پر ناگوار شکنیں اُبھر آئیں۔
’’دیکھو! ایسا منہ نکّو بناؤ۔‘‘اب کی خاتون خالہ بھی چڑگئیں۔مشاطہ نے بے چینی سے پہلو بدلا اور ناک پُھلا کر دوبارہ گویا ہوئی:
’’آپ بتاؤ تو سہی خالہ!آخر آپ کو کیسی حور ، پری چاہیے؟‘‘کچھ توقف بعد گویا ہوئی۔
’’ حیدرآباد کا حُسن پوری دنیا میں مشہور ہے بولتے۔ عرب ملکاں سے شیخاں،حیدرآباد کو ایسیچ بھاگے بھاگے نیں آتے ،یہاں ایک سے بڑھ کر ایک تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی موجود ہیں۔تعلیم یافتہ لڑکیوں کے نخرے بہت ہوتے ہیں۔‘‘پتہ نہیں کیوں وہ تعلیم سے خائف تھیں۔
’’عورت تعلیم سے محروم رہے گی تو آنے والی نسلوں کا کیا ہوگا؟ظاہر بات ہے تاریک مستقبل۔‘‘ پہلی مرتبہ خاتون خالہ کے پروفیسر شوہر نے زبان میں لگے تالے کو کھولا تھا۔جواب میں خاتون خالہ کے چہرے پر ناگوار شکنیں پھیل گئیں۔
’’انسان کی بنیادی تربیت کا دارومدار ایک عورت سے جڑا ہوا ہے، اگر وہ دین دار، تعلیم یافتہ اور نیک صفت ہوگی تو قوم بھی عمدہ اور قابل، فہم و فراست سے بھرپور ہوگی۔‘‘
’’آپ خاموش رہیں۔‘‘ اب کی وہ جھلائی۔بے چارے پروفیسر چھتری اٹھائے دل میں قوم کی سدھار کا عزم لیے گھر سے نکل گئے۔
’’ہمیں ایسی لڑکی کی تلاش ہے،جس کو OCD ہو۔‘‘
’’اوسی ڈی؟ یہ کیا بلا ہے؟ کون سی ڈگری ہے خالہ؟‘‘مُشاطہ کی آنکھیں حیرت زدہ پھٹنے کی حد تک پھیل گئی تھیں۔
’’خالہ! یہ بہت کار آمد بیماری ہے۔‘‘ خاتون خالہ کی اٹھائیس سالہ بیٹی نے جواب دیا۔
’’بیماری،بیماریچ ہوتی ما،یہ کار آمد کیا بات ہوئی؟‘‘
’’تو کیا آپ کو بیمار بہو چاہیے؟ عجیب شوقاں ہیں۔‘‘مُشاطہ کے ماتھے کی شکنیں گہری ہوگئیں ۔پھر وہ خاتون خالہ کا پان دان اپنے قریب کھینچ کر پان کا بیڑا بنانے لگی ، چونا لگاتے ہوئے تجس سے پوچھا:
’’یہ کون سی بیماری ہے خالہ؟ جسے لوگاں ڈیمانڈ پر گھر لانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’Obsessive compulsive disorderخبط یا وہم کی بیماری کو او سی ڈیکہتے ہیں۔جو لوگ بہت زیادہ صفائی پسند، با سلیقہ اور ہر کام ایک خاص اصول اور اعلیٰ معیار کے مطابق کرنے والے ہوتے ہیں ،اُنھیں او سی ڈی کا مرض لاحق ہونے کے امکانات ہوجاتے ہیں ۔‘‘
’’وہم؟ کیساوہم؟‘‘
’’کچھ لوگوں کو یہ وہم ہوجاتا ہے کہ جو کام کرچکے وہ ادھورا یا نامکمل ہے۔دوبارہ برتن ،جھاڑو،صفائی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو سکون محسوس نہیں کرتے ، بےچینی انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ۔‘‘
’’کرے سو کاماں کرتے رہتے بولو۔‘‘خاتون خالہ نے آسان زبان میں خلاصہ کیا۔
’’ایسا۔ اچھی بیماری ہے ناں۔میرے کو یہ چیزاں پہلے معلوم نیں تھیں۔ورنہ میں بھی آرسی ڈی بہو لے آتی۔‘‘
’’اوسی ڈی۔‘‘لڑکی نے ہنستے ہوئے اصلاح کی ۔
’’ جو بھی ہو ۔ویسےاور کیا کیا ہوتا اس بیماری میں؟‘‘وہ پورے تجسس سے خالہ کی بیٹی کے نزدیک کھسک آئی۔
’’باورچی خانے میں پکاتیج رہنا۔ایسا بھی ہوسکتا کیا؟‘‘سرگوشی بھرا استفسار تھا۔
’’یہ بھی ممکن ہے۔‘‘اپنی عینک درست کرتی ہوئی لڑکی نے مسکرا کر جواب دیا تو اس نےہنستےہوئے زور سے تالی بجائی اور مسرت آمیز انداز میں کہہ اٹھی:
’’کاش یہ بیماری دنیا کی ہر بہو کو لاحق ہوتی تو سچ میں کِتتا مزہ آتا ۔گھراں چمکتے دیکھو ۔‘‘پھر کچھ توقف بعد پان کی پیک کا گھونٹ بھرتی گویا ہوئی:
’’خالہ!ہماری بہو بڑی مُرباسی ہے۔گھر کا چولہا جلانا بولے تو ہزار بار سوچتی۔ صداں محلے کی ہوٹل سے کباباں،پائے، حلیم ،بریانی ہونا بولتی۔‘‘اس سے پہلے کہ وہ اپنی بہو کا اعمال نامہ کھول بیٹھیں ،خاتون خالہ نے فوراً بات کاٹی اور گویا ہوئیں:
’’پکوان تو بڑی بہو سنبھالتی ہے۔بس چھوٹی بہو صفائی کرلے تو اچھا ہے ۔‘‘
’’کیا بڑی کو بھی کاماں کی بیماری لاحق ہے؟‘‘مشاطہ نے سرگوشی میں پوچھا تھا۔
جواب میں خاتون خالہ چہک کر بولیں:
’’ اُسے پکوان کرنا بہت پسند ہے۔مسئلہ بس گھر کی صفائی کا ہے۔‘‘
’’ہاں آج کل نوکرانیوں کے ہزار نخرے ہوگئے ہیں۔‘‘ مشاطہ نےپان چباتے ہوئے کہا۔
’’خاتون خالہ! یاد آیا،میری ایک پہچان کی خالہ ہے،اُن کی بڑی بیٹی کو یہ بیماری ہے شاید،کیوں کہ وہ صاف برتنوں کو مانجتی رہتی،ہر وقت دھونادھونا،یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں کی لکیریں تک مٹ گئی ہیں۔‘‘مشاطہ نے جانکاری دی۔خاتون خالہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’پہلے کیوں نہیں بتایا؟‘‘
’’پہلے مجھے کاں معلوم تھا کہ آپ کو نوکرانی کی تلاش ہے،بے کار میں چپلاں پھٹے ناں۔‘‘مشاطہ نے منہ بناکر ایک اور پان کا بیڑا منھ میں ٹھونس لیا۔
’’ رشتہ لےکر ابھی اُن کے گھر جاؤ۔‘‘
’’اس وقت ؟‘‘ مشاطہ نے دیوار پر آویزاں گھڑی میں وقت دیکھااور بڑبڑائی۔
’’حمید صاحب اب تک بیوی کو دواخانہ پہنچا کر جیل گئے ہوں گے ۔‘‘
’’ کیا مطلب ؟‘‘خالہ کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔
’’اِتّا کیوں گھبرا رہے ؟‘‘
’’توبہ توبہ! ہمیں ایسے گھرانے میں رشتہ کرنا نہیں ہے۔‘‘
’’خالہ! اُن کی بیگم نرس ہے اور وہ خود جیلر ۔‘‘
’’ تمھاری عادت، گھما کر باتاں کرنے کی جاتی نہیں،مجھے تو ڈرا ہی دیا۔‘‘خالہ دانتوں کی نمائش کرتی شرمندگی سے ہنس پڑیں۔
ایک ہفتے کے اندر شادی طے پائی اور
’’بہو ہماری او سی ڈی‘‘ گھر تشریف لائی۔منہ دکھائی میں خاتون خالہ نے ویکیوم کلینر دیا تھا۔دلہن کی آنکھیں چمکنے لگیں۔
’’آپ کو خوشی ہوئی؟‘‘
’’بہت۔‘‘
’’مجھے بھی۔‘‘خاتون خالہ نے چہک کر جواب دیا۔
صبح بیٹا باہر برآمدے میں اوندھے منہ لیٹا اپنے بال نوچتا نظر آیا اور بہو کمرے کے پردے ترتیب دیتی ہوئی کافی شاد تھی۔
’’بہو!اِتّی جلدی بھی کیا تھی؟دو دن تو آرام کرتے،پھر کاماں شروع کرتے۔‘‘
’’ممی! کمرے میں چیزوں کی بے ترتیبی نے مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دیا تھا۔ جب تک چیزوں کو اپنی ترتیب سے نہ رکھوں بے چینی سی رہتی ہے۔اس کے علاوہ خدشہ تھا کہ کہیں چادریں گرد سے آلود نہ ہوں جس کی وجہ سے بیکٹریا ہمیں نقصان نہ پہنچائیں ۔‘‘
’’پردوں کو ترتیب دینے کے علاوہ کچن کی صفائی میں دل چسپی رکھتی ہو یا صرف پردوں تک محدود ہو؟‘‘
’’ممی !میں کچن میں کوئی گندگی برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
’’ہائے !صدقے جاؤں۔‘‘اُنھوں نے پان چباتے ہوئے کہا تو خوشی سے ان کی بانچھیں کِھل گئیں اور پان کی پیک اُچھل کر دوپٹے پر پھیل گئی۔
’’ممی!‘‘بہو کے چہرے کی رنگت بدل چکی تھی۔خاتون خالہ نے فوراً وہاں سے کھسک جانے میں عافیت جانی۔
تین بیٹیاں ایک بیٹا، گھر ہرا بھرا۔بہو کے پاسOCD ڈگری تو تھی، جس سے کچن چمکا، صحن چمکا، گھر کی اشیاء کو وہ ترتیب سے سیٹ کرتی رہی مگر تعلیم کی کوئی ڈگری نہ ہونے کا اثر اولاد کی تربیت سے غفلت تو اپنی ہی اولاد بے ترتیب ہو کے بکھر کر رہ گئی۔ہمیں جاگنے کی ضرورت ہے۔بہو ہماری OCD نہیں ،بلکہ بہو ہماری پوسٹ گریجویٹ ہونی چاہیے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

2 Comments

  1. اریشہ تقدیس

    ہاہاہا۔بہت خوب۔
    بہت اچھے انداز سے آپ نے معاشرے کی براٸی پر توجہ دلاٸی۔

    Reply
  2. Saleha

    پڑھنے میں بہت مزہ آیا

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴