اپریل ۲۰۲۴
زمرہ : النور

عن ابی الدرداء عن النبیّ قال مامن شیٔ اثقل فی المیزان من حسن الخلق (رواہ الترمذی و ابوداو‘د)

(ابودرداءؓسے روایت ہے، وہ روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا حسن اخلاق سے بڑھ کر میزان میں کوئی بھاری چیز نہیں ہوگی ۔)

عن جابر ؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال انّ من احبّکم الیّ واقربکم منی مجلسا یوم القیامة احسانکم اخلاقا
(رواہ الترمذی)

  ( جابرؓ سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے زیادہ پیارے اور قیامت کے دن میرے نزدیک ترین بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں اخلاق میں اچھے ہیں ۔)

عن عائشة ؓ انّ المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجة الصائم القائم (رواہ ابوداو‘د)

(حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہےکہ بے شک مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزہ رکھنے والے اور رات بھر عبادت کرنے والے کے درجہ کو حاصل کرلیتاہے ۔)
حسن اچھائی اور خوب صورتی کو کہتے ہیں ۔اخلاق جمع ہے خلق کی، جس کا معنی ہےرویہ ،عادت،برتاؤ ۔یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ کو حسن اخلاق کہا جاتا ہے۔
انسانی زندگی میں حسن اخلاق عظیم اہمیت کا حامل ہے ۔اسلام نے اپنی تعلیمات کے ذریعے اس جوہر سے امت کو روشناس کرایا ۔متعدد احادیث حسن اخلاق کے متعلق مروی ہیں جن سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ہر مذہب اور ہر دھرم کے لوگ ،بلکہ دنیا میں بسنے والا ہر انسان اچھے اخلاق وکردار اور اچھے برتاؤ کا قائل ہے ،یہ فطرت انسانی کا اہم تقاضہ ہے۔یہی وہ عظیم صفت ہے جس کےذریعے معاشرے میں آپسی بھائی چارہ، عفوودرگزر اور ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے ۔اسی طاقت کے ذریعے آپسی اختلاف وانتشار ، باہمی رنجش اور ہر طرح کے تضاد دور کیے جاسکتے ہیں ۔
اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں حسن اخلاق کی تعلیم دیتا ہے ،اور اس کی یہی خصوصیت حسن اخلاق کے حسن میں اضافہ کرتی ہے ۔ والدین، استاد ، بھائی بہن ، عزیز واقارب ، بیوی بچے ، یتیم ، مسکین ، مسافر ، قیدی ، پڑوسی اور غیر مسلم حتیٰ کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی حسن اخلاق کا حکم ہے ۔
زندگی کے تمام شعبوں میں اچھا رویہ اختیار کرنے والا ہی اچھے اخلاق کا حامل اور اس عظیم صفت سے متصف کہلانے کا مستحق ہوگا ۔اسلام جن اعلیٰ اعمال و اخلاق کی تعلیم دیتا ہے، محمد صلى الله عليه واٰله وسلم ان سب کا عملی نمونہ ہیں ۔اللہ کافرمان ہے:

 وانک لعلیٰ خلق عظیم (سورۃ القلم : 4)

(بے شک آپ اخلاق (حسنہ) کے اعلیٰ پیمانے پر ہیں ۔)

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة لمن کان یرجو اللہ والیوم الآخر وذکر اللہ کثیرا (سورۃ الاحزاب: 21)

(بےشک تمھارے لیے رسول محمد صلى الله عليه واٰله وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔)
آپ کی پوری زندگی اخلاق حسنہ کا عملی پیکر ہے، حتیٰ کہ آپ نے اخلاق حسنہ کی تعلیم اور اس کی دعوت و تبلیغ کو اپنی بعثت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا:

 بعثت لاتمم مکارم الاخلاق

(میری بعثت اس لیےہوئی ہےکہ میں حیات انسانی میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں ۔)
اپنے اہل وعیال،اعزہ واقارب سے لگاؤاور محبت تو فطری چیز ہے، حسن اخلاق کا اعلیٰ نمونہ یہ ہےکہ غیر اور دشمن بھی ہمارے رحم وکرم ، عفو درگزر اور خوش خلقی سے محروم نہ رہیں ۔قرآن اس سلسلے میں ہماری بہترین تربیت کرتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 ولا تستوی الحسنة ولا السیئة ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوة کانہ ولیّ حمیم (حمٓ السجدة: 34)

(برائی کو اس طریقے کے ساتھ ہٹاؤ جو سب سے اچھا ہے، پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے ۔)
اس آیت کا عملی نمونہ محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فتح مکہ پرعام معافی کا اعلان کے ساتھ ہماری ہدایت کے لیے پیش کیا ، چناں چہ فتح مکہ کے موقع پر جب آپ مکہ میں فاتحانہ انداز میں شان و شوکت کے ساتھ داخل ہوئے تو کفار ومشرکین جنھوں نے ہر قدم پر آپ کو اور آپ کے صحابہ کو تکلیفیں پہنچائی تھیں،جو آپ کے قتل کی تدبیریں اور سازشیں کرتے تھے، جنھوں نے اسلام دشمنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، وہ ڈرے اور سہمے ہوئے تھے ،
انھیں سزاو موت کا یقین تھا ،لیکن تاریخ نے دیکھا اور نوٹ کیا کہ محسن انسانیت کی شفقت جوش میں آئی اور زبان رسالت سے اعلان کر دیا:

 لاتثریب علیکم الیوم واذھبوا فانتم الطلقاء

( جاؤ آج تم سب آزاد ہو، تمھیںمعاف کردیا گیا ، تم پر کوئی جرم نہیں ہے اور تم سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائے گا ۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سلوک کی وجہ سےفتح مکہ کے موقع پر بکثرت لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ برتاؤ اور حسن سلوک ،جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔ہمارے اخلاق کی اصل آزمائش اس وقت ہوتی ہے جب ہمارا دشمن ہمارے قید میں ہو ۔دور جاہلیت میں قیدیوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑے جاتے تھے، اور آج کے دور میں قیدیوں کے ساتھ جو جنگی سلوک کیا جاتا ہے، وہ واضح ہے۔ اس کے برعکس اسلام قیدیوں کےحقوق بتاتا ہے اور ہماری اسلامی تاریخ اس کاعملی نمونہ پیش کرتی ہے ۔اس کی بہترین جھلک نعیم صدیقی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب محسن انسانیت میں پیش کی ہے ۔
لکھتےہیں :
’’محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے جاہلیت کے رسم و رواج کو توڑ کر قیدیوں کو ایک نیا مرتبہ دیا ۔ہدایت دی گئی کہ قیدیوں کو نہایت آرام سے رکھا جائے ۔بعض صحابہ نے اس کی تعمیل میں خود کھجوریں کھاکر اپنے چارج میں آئے ہوئے قیدیوں کو پیٹ بھر اچھا کھانا کھلا یا ۔خود ایک بدری قیدی ابو عزیر (مصعب بن عمیر کے بھائی) کا بیان ہےکہ جن انصاریوں کے ہاں مجھے رکھا گیا تھا ،وہ خود کھجوروں پر گزر کرتے اور مجھے اچھا کھانا لاکر پیش کرتے ۔اس سلوک کی وجہ سے میں سخت شرمسار ہوتا ۔جن اسیروں کے پاس لباس کم تھا ان کوکپڑے دیے گئے ۔حضرت عباس کے بدن پر لمبے قد کی وجہ سے کوئی کرتا پورا نہیں اترتا تھا ۔اس لیے ان کے لیے عبد اللہ بن ابی نے کرتا بھیجا ۔اسی احسان کے بدلے میں حضورمحمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے اس کے کفن کے لیے اپنا کرتا عطا کیا تھا ۔ قیدیوں میں سہیل بن عمرو بھی تھا جو اپنا پورا زور فصاحت حضور کے خلاف تقاریر کرنے میں صرف کرتا تھا۔حضرت عمرؓنے مشورہ دیا کہ اس کے سامنے کے دانت اکھڑوادیے جائیں، تاکہ آئندہ یہ جوش خطابت نہ دکھا سکے ۔کوئی اور ہوتا تو اپنے ایک بےبس قیدی کے ساتھ بدترین سلوک کرنے میں ذرا بھی تامل نہ کرتا، لیکن حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر میں اس کے کسی حصہ ٔبدن کو بگاڑوں گا ، اصطلاح میں اسے مثلہ کرنا کہتے ہیں ،تو میرے نبی ہونے کے باوجود خدا اس کی سزا کے طور پر میرے بھی اسی حصۂ بدن کو بگاڑے گا ۔‘‘(محسن انسانیت،از: نعیم صدیقی رحمةاللہ علیہ ،صفحہ : 429,430)
زید بن سعنہ یہودی سے ایک بار آپ نے قرض لیا، وہ وقت مقررہ سے تین دن پہلے قرض کا تقاضا کرنے لگا ۔بڑے گستاخانہ انداز میں اس نے شانۂ مبارک سے چادر کھینچی اور کہاکہ تم بنی عبد المطلب بڑے وعدہ خلاف ہو ۔آپ ﷺ اس کی اس گستاخی پر مسکراتے رہے ۔حضرت عمرؓ وہیں موجود تھے، ان سے برداشت نہ ہوا، اور انھوں نے جھڑک کر اسے روکنا چاہا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے عمر! تم نےوہ طرز عمل نہیں اختیار کیا جو ہم دونوں کے لیے مناسب ہوتا ۔بہتر یہ تھا کہ تم مجھے اداء قرض اور وعدہ پورا کرنے کی تلقین کرتے اور اسے جھڑکنے کے بجائے حسن طلب اور نرمی سے تقاضا کرنے کی ہدایت کرتے ۔یہودی آپ کے اس طرز عمل اور گفتگو سے بہت متاثر ہوا اور اسلام قبول کرلیا۔ یہ اور اس طرح کے بےشمار واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا ہے، بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ نے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا اور وہ قرآنی تعلیمات کے معترف ہوئے ۔
اسلام سراسر سلامتی کا مذہب ہے ۔سلامتی کی یہ نوید صرف انسانوں کے لیے نہیں ،بلکہ جانوروں اور درختوں کے لیے بھی ہے ۔اسلام نے انسانوں کی طرح جانوروں کے حقوق بھی معین کیے ہیں اور ان کےساتھ حسن سلوک کو اجر و ثواب کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔دوسری طرف ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے، انھیں تکلیف و اذیت میں مبتلا کرنے کو گناہ کی وجہ قرار دیا ہے ۔
ابوہریرہ ؓسے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک شخص جارہاتھا ،اس کوسخت پیاس لگی تو وہ ایک کنویں میں اترا، اور اس سے پانی پیا۔جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کی وجہ سے ہانپتے ہوئے گیلی مٹی چاٹ رہا ہے ۔اس شخص نے (دل میں)کہا کہ اسے بھی شدت پیاس سے وہی اذیت ہے جو مجھے تھی ۔اس نے اپنا موزہ پانی سے بھرا اور اسے منہ میں لےکر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا ۔اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام کی قدر دانی کرتے ہوئے اس کو معاف فرمادیا ۔صحابہؓ نے پوچھا کہ کیا ہمیں چوپایوں کی خدمت کرنے میں بھی اجر ملےگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہر وہ جگر جو زندہ ہے اس کی خدمت میں اجر ہے۔ (صحیح بخاری، باب فضل سقی الماء، 2363)
اسی طرح ابوہریرہؓسے ایک دوسری روایت میں مروی ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک عورت کو بلی کے معاملے میں عذاب دیا گیا۔اس عورت نے نہ اسے کھلایا ،نہ پلایا، اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے چھوٹے جانور کھا لیتی ۔(صحیح مسلم ، باب تحریم قتل الہرة،5855)
مادیت کے اس دور میں حسن اخلاق کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ہماری معاشرتی زندگی سے لےکر سیاسی و تمدنی زندگی تک اخلاق سے عاری ہے ۔
معاشرے کو ایسی ساس کی ضرورت ہے، جو بہو کی غلطیوں پر حسن اخلاق کا مظاہرہ کرے ،اس کی اصلاح کی کوشش کرے ۔بہو کو غلط تربیت کا طعنہ نہ دیا جائے ۔دوسری طرف بہو کا حسن اخلاق تقاضاکرتا ہےکہ وہ ساس سسر کی خدمت سے پہلو تہی نہ کرے ۔ایک معلم کا فریضہ ہےکہ اپنے حسن اخلاق سے نئی نسل کو تعلیم کی طرف راغب کرے ۔ایک ڈاکٹر اپنے مریض سے ہم دردی و شفقت کا رویہ اپنائے،بیماریوں پر صبر کی تلقین کرے اور شفایابی کی امید دلائے ۔مریض اگر خستہ حال ہے تو علاج میں رعایت کرے کہ طبیب کا اصل مقصد ہی خدمت خلق ہے ۔ایک جج عادلانہ فیصلہ کرے،خواہ اس کی زد میں اپنا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ آئے ۔غرض یہ کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام ہم سے حسن اخلاق کی تعمیل چاہتا ہے ۔ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ

 اللھم انت حسنت خَلقی فحسِّن خلقی (رواہ احمد)

(اے اللہ جس طرح تو نے مجھے بہترین صورت عطا کی ہے ،اسی طرح میرے اخلاق کو بھی اچھا بنادے۔)

٭ ٭ ٭


والدین، استاد ، بھائی بہن ،

عزیز واقارب ، بیوی بچے ، یتیم ، مسکین ، مسافر ،

قیدی ، پڑوسی اور غیر مسلم حتیٰ کہ جانوروں اور پرندوں کے

ساتھ بھی حسن اخلاق کا حکم ہے ۔زندگی کے تمام شعبوں میں

اچھا رویہ اختیار کرنے والا ہی اچھے اخلاق کا حامل اور

اس عظیم صفت سے متصف کہلانے

کا مستحق ہوگا ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴