اپریل ۲۰۲۴

ٹرین نے سیٹی دے دی تھی، گارڈ صاحب کو ہری جھنڈی بھی مل گئی تھی، سبھی مسافر اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ چکے تھے ۔یہ ٹرین کا ایک صاف ستھرا اے سی کوچ تھا۔ تیز جھٹکے کے ساتھ ٹرین کے پہیے پٹریوں سے لگ کر چرچرائے ہی تھے کہ مجھے اپنی برتھ والی کھڑکی سے ایک سایہ تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا محسوس ہوا،برق رفتاری سےکوئی اندر آیا تھا ،مانو ایک پل کا فرق رہا ہوگا گاڑی چلنے میں ۔میں نے اپنی عینک ذرا نیچے کرکے دیکھا ،برق رفتاری سے اندر آنے والا سایہ ایک نوجوان لڑکی کا تھا ۔ہانپتی کانپتی ایک چھوٹا سا ہینڈ بیگ اور ٹکٹ ہاتھ میں لیے وہ بالکل میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گئی تھی۔ گاڑی نے اپنی رفتار پکڑ لی تھی، اب میں نے بغور اس کے چہرے کو دیکھا تھا ،وہ انتہائی خوبصورت قد کاٹھی والی ایک حسین لڑکی تھی، اس کے پہناوے اور ہاؤ بھاؤ سے اتنا اندازہ تو میں نے لگا لیا تھا کہ یہ ایک غیرمسلم شادی شدہ لڑکی تھی۔
ٹرین چلنے کے ٹھیک 5 منٹ بعد ہی اس نے بیگ سے فون نکالا تھا اورکسی سے بات کر رہی تھی۔ بات کیا کر رہی تھی، جھگڑ رہی تھی لڑ رہی تھی، زار زار اس کی آنکھیں بھی بہہ رہی تھیں ،جنھیں چھپانے کی کوشش میں وہ بار ہا اپنا چہرہ کھڑکی کی طرف کرچکی تھی ،پھر بھی ناکام تھی ۔سبھی مسافر اپنے اپنے ایئر فونز کانوں میں لگا کر مگن تھے، میں نے بھی کوشش کی اپنے آپ کو مصروف کرنے کی اور کتاب کے ورق پلٹنے لگی، لیکن کوئی ایک حرف پڑھتی اور پھر اس کی گفتگو کا کوئی جملہ میرے کانوں میں آ گرتا ۔
’’میں نہیں آؤں گی اب۔‘‘
’’انتظار نہ کرنا!‘‘
’’سب کچھ ختم ہےاب ۔‘‘
اب مجھے یہ اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ فون کی دوسری جانب یقیناً اس کا شوہر تھا۔
’’اب معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
اس نے یہ جملہ بولتے وقت ایک بار نظر اٹھا کر مجھے دیکھا تھا، اور میں نظریں چرا گئی تھی۔ دو اسٹیشن گزر چکے تھے ،وہ مسلسل فون پر تھی، اسے اپنے ارد گرد اور آس پاس والوں سے کوئی غرض نہیں تھی ،میں اپنی فطرت سے مجبور تھی اور اس کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی، کئی بار یہ خیال آیا کہ اس سے کچھ پوچھ لوں، پھر سوچا ان جانی راہ کے ان جا نے مسافروں سے کیا بات کرنی؟ تبھی اچانک میرے فون پر زینت کی رنگ بجنے لگی ۔زینت میری کلیگ تھی، گوکہ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹی تھی، لیکن ہم دونوں کے درمیان دوستانہ رویہ تھا، زینت کی زندگی کے بھی کم مسائل نہ تھے اور وہ ہر بار اسی طرح اپنا کوئی مسئلہ لے کر میرے فون پر حاضر ہو جاتی ۔سلام علیک کے بعد میں نے خیریت جاننی چاہی تو وہ بھی بغیر سانس لیے شروع ہو گئی:
’’ آپ کہتی ہو ناں کہ زینت! حوصلہ رکھو ۔ زینت برداشت کرنا سیکھو۔ کب تک برداشت کروں؟ بس اب نہیں رہوں گی میں اس شخص کے ساتھ ،میری زندگی اجیرن کر دی ہے، آپ مجھے خلع کا کوئی راستہ بتائیں!‘‘
مجھے اچانک یوں محسوس ہوا جیسے سامنے والی لڑکی میرے فون پر آ گئی ہے، کیوں کہ زینت کا عالم بھی بالکل اسی لڑکی کی طرح تھا ۔
اب میں نے اسے سمجھانا شروع کیا :
’’دیکھو زینت! بات کی نزاکت کو سمجھو، جو ہو چکا ہے اسے بدلا نہیں جا سکتا، لیکن جو اللہ نے دیا ہے، جو آگے ہونے والا ہے، اسے ہم بدل سکتے ہیں ۔تم تو اتنی پیاری ہو، اتنی نیک ہو، تم اپنی عادت سے اپنے شوہر کو اپنا تابع بنا لو، ہمارا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا ،تم خلع کی حد تک کیوں جانا چاہتی ہو؟ …‘‘اس نے میری بات بیچ میں کاٹ دی تھی، اور پھر یہ جملہ کہا تھا:
” آپ مجھے ہر بار ایسا ہی سمجھا دیتی ہیں اور پھر میں رک جاتی ہوں، لیکن اب برداشت کی حد ہو گئی۔‘‘
میں نے پھر اسے سمجھانا شروع کیا کہ تم سمجھ دار ہو، بچہ تمھارا معصوم ہے ،اس کا کیا قصور ہے؟ تم اگر علیٰحدگی لے لو گی تو بچے کے مستقبل کا کیا بنے گا؟ سب سے بڑی بات یہ کہ ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ بڑا پیارا مذہب ہے، ہمارے مذہب میں ہر چیز میں اعتدال سکھایا گیا ہے۔ بس آخری بار میری بات مان لو اور ایک بار پھر سے سمجھوتہ کرو، ان شاءاللہ تمھارے تعلقات اچھے ہو جائیں گے۔ان باتوں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی کی نگاہیں بار بار میری طرف اٹھ رہی تھیں، اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں جو اس کے حسن کو اور زیادہ بڑھا رہی تھیں، فون پر وہ اب بھی تھی ۔
’’اچھا ٹھیک ہے ،ایک بار پھر سے آپ کی بات مان لیتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر زینت نے فون منقطع کر دیا، زینت کی طرف سے میں مطمئن تھی کہ وہ پھر سے میری بات مانے گی اور یقینا ًوہ سمجھ گئی تھی ۔
اب میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ لڑکی بھی اپنا فون بند کر چکی تھی ،اب وہ تھوڑا کانپ بھی رہی تھی اور مسلسل مجھے دیکھ رہی تھی۔ اسی دوران تیسرا اسٹیشن بھی گزر چکا تھا۔ چوتھا اسٹیشن آنے میں ابھی 15 منٹ باقی تھے ،وہ اچانک مجھ سے مخاطب ہوئی :
’’سسٹر! آپ اپنا فون نمبر دیں گی؟ برا نہ مانیں تو پلیز اپنا نام بھی بتا دیں۔‘‘ میں نے نہایت اجنبیت کے ساتھ اس کی طرف دیکھا اور کچھ سوچ کر تھوڑی دیر ٹھہر کر اپنافون نمبر اپنے نام کے ساتھ ایک پرچی پر لکھ کر اسے دے دیا۔ میں نے اس سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہا اور نہ ہی اس نے مجھ سے ۔پھر کچھ اور کہا نہ پوچھا ،ٹرین کی رفتار ہلکی ہوئی، اسٹیشن پر ریڑھی والوں اور چائے والوں کی آوازیں گونجنے لگیں ،وہ جتنی تیزی سے اور دوڑتے ہوئے ٹرین کے اندر داخل ہوئی تھی، اس سے کہیں زیادہ عجلت میں اسٹیشن پر اتر گئی۔ پانچ منٹ کے وقفے کے بعد ٹرین پھر سے چل دی، میری نظریں اسے تلاش کرتی رہیں، لیکن وہ نہیں لوٹی تھی، بہت دیر میں اس کے بارے میں سوچتی رہی اور پھر یہ سوچا کہ شاید یہیں تک اس کا سفر ہوگا ۔
مسافر اپنی اپنی منزلوں پر اتر رہے تھے، میں بھی اپنی منزل تک پہنچ گئی تھی، رات کو بستر پر لیٹتے ہوئے بھی مجھے اس کا خیال آیا تھا۔ پتہ نہیں کون تھی؟ کہاں سے آئی تھی؟ کیا مسئلہ تھا ؟اس طرح کے خیالات آتے رہے اور پھر بات آئی گئی ہو گئی ۔
آج اس بات کو پورا ایک سال گزر گیا۔ صبح میرے فون پر ایک رنگ بجی۔ یہ صرف نمبر تھا، کیوں کہ میرے فون میں محفوظ ناموں کی لسٹ میں سے کوئی نام نہیں آیا تھا ،میرے ’’ہیلو !‘‘کہنے پر ادھر سے ایک آواز آئی۔ اس نے میرے نام کی تصدیق کی اور پھر بولی :
’’جی! میں ہرشا بات کر رہی ہوں۔‘‘
’’کون ہرشا؟‘‘ میں نے دماغ پر زور دیا ،پھر اس نے ٹرین والا سارا واقعہ جسے بیتے اب سال گزر چکا تھا، مجھے یاد دلایا ،کہنے لگی:
’’ سسٹر! آپ نے میری زندگی بدل دی۔‘‘
میں حیران ہوئی تو کہنے لگی :
’’میں اس روز ٹرین میں آپ کی وہ باتیں جو آپ اپنی کسی دوست یا بہن سے فون پر کر رہی تھیں، سن رہی تھی، اور میں نے سوچا تھا کہ آپ کا ریلیجن کتنا پیارا ہے! آپ کے دھرم میں کس طرح باتوں کو سمجھایا جاتا ہے۔ سسٹر !میں ایک غلط قدم اٹھانے جا رہی تھی، مگر آپ کی باتوں نے مجھے روک لیا اور میں اسی اسٹیشن سے اپنے گھر واپس لوٹ آئی تھی۔ اب میں اپنے ہسبینڈ کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ آپ کو کئی بار یاد کرتی ہوں، میرا دل کرتا ہے ایک بار پھر سے آپ سے ملاقات ہو تو اپ کو گلے لگاکر شکریہ ادا کروں۔‘‘ اس بار فون رکھتے ہوئے اس نے مجھ سے گھر کا پتہ بھی مانگا تھا۔ میں بھی خوش تھی کہ ہمارا ایک عمل جانے ان جانے میں اگر کسی کے لیے خیر کا باعث بن جائے تو یہ اللہ تعالی ٰکا انعام ہی ہے اور آج مجھےقرآن کریم کی اس آیت کا صحیح معنوں میں صحیح مفہوم سمجھ آیا تھا:
وَ نَکۡتُبُ مَا قَدَّمُوۡا وَ اٰثَارَہُمۡ ؕ وَکُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡۤ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ
( سوره یاسین : 12)
ُ( اور ہم لکھ رہے ہیں جو کچھ انھوں نے آگے بھیجا اور جو اثرات وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔)
انسان مرنے سے پہلے اپنی زندگی میں جو اچھے برے اعمال آگے بھیجتا ہے، وہ ساتھ ہی ساتھ اس کے اعمال نامے میں درج ہوتے رہتے ہیں، لیکن انسان کے کچھ اعمال و افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی اس دنیا میں رہتے ہیں۔ چناں چہ یہاں پر ’’آثار‘‘سے مراد انسان کے ایسے ہی کام ہیں ۔ بہ ہر حال انسا ن کو آخرت میں ان ’’آثار ‘‘کا بدلہ بھی دیا جائے گا۔ مثلاً اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں کسی ایسے نیک عمل کی بنیاد ڈالی جس کے اثرات دیر پا ہوں، تو جب تک اس نیک کام کا تسلسل اس دنیا میں رہے گا،اس کا اجر و ثواب اس شخص کے حساب میں لکھا جاتا رہے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے گناہ اور بے حیائی کے کسی کام کی بنیاد رکھی تو جب تک اس کام یا منصوبے کے منفی اثرات اس دنیا میں رہیں گے،اس میں سے متعلقہ شخص کے حصے کے گناہوں کا اندراج اس کے اعمال نامے میں مسلسل ہوتا رہے گا۔اور ہر چیز کا احاطہ ہم نے ایک واضح کتاب میں کررکھا ہے۔گویا کہ ہمارا ہر ہر عمل ہمارے لیے خیر کا باعث بن سکتا ہے، اللہ کی مصلحت بھی سمجھ میں آ رہی تھی ۔کہ ایک فون کال سے دو زندگیاں آباد ہوئی تھیں ۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. بشریٰ زیدی

    خوبصورت تحریر کےلئے مبارک باد کی مستحق ہیں سسٹر

    رافعہ فرحت بارگاہٍ ا یزدی میں دعا گو کہ اسی طرح اپنا

    تحریری سفر طے کرتی رہیں اور اللہ توفیق عطا کرے

    ہمارے جو بھی عمل ہوں وہ ایسے ہوں کے نیکیوں سلسلہ
    جاری رہے ۔آمین !

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴