اپریل ۲۰۲۴

موت اس کی ہےکرے جس پہ
زمانہ افسوس

فرحین عفت

انَّ لِلّٰہِ مَاأَخَذَ وَلَہ مَاأَعْطٰی، وَکُلُّ شَیْیٍٔ عِنْدَہ بِأَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِب

(اللہ ہی کا ہے جو کچھ اس نے لے لیا اور جو کچھ دیا وہ بھی اسی کا ہے، اور اس کے یہاں ہر چیز کا وقت متعین ہے ، آپ صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔)انا للہ وانا الیہ راجعون!
موت،ایک اٹل حقیقت،یہ دنیاوی زندگی کی ایک حتمی منزل ہے،یہ مومن کے لیے وصال الٰہی اور جنت کا دروازہ ہوتی ہے۔
موت کی حقیقت کچھ بھی ہو، لیکن یہ زندوں اور مردوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دیتی ہے، اور اسی وجہ سے موت پر غم ایک فطری امر ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا ،تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ بھی رورہے ہیں ؟تو آپ نے فرمایاکہ یہ تو رحمت ہے، کسی کی موت پر آنسو جاری ہونا اورغم کا ہونا یہ فطری چیز ہے،اس پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا ، مگر مسلمان کا غم دنیا کی تمام دوسری قوموں کے غم سے مختلف ہے، اس لیےکہ مسلمان اس کائنات اور کائنات سے ماوراء کے متعلق ایک خاص نظریہ اور تصور رکھتا ہے، وہ موت کو زندگی کا خاتمہ نہیں سمجھتا، بلکہ ایک نئی زندگی کا آغاز سمجھتا ہے۔

لائی حیات آئے ،قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

 باری باری ہم سب کو وقت متعین پر جانا ہے۔ کیوں کہ خلاق ازل نے اس دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ کل نفس ذائقة الموت ( ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔) کی حقیقت ہر ایک پر صادق آکر رہے گی، اس سے کوئی بھی فرد بشر حتیٰ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ذات بھی مستثنیٰ اور علیٰحدہ نہیں ہے۔نہ صرف انسان، بلکہ دنیا کی ہر چیز کو ایک نہ ایک دن فنا ہو جانا ہے، کسی کو بھی یہاں دوام نہیں۔
حکایت ہستی کے دوہی اہم واقعات ہیں،پیدائش اور موت۔ہر آنے والی صبح اور ڈھلتی ہوئی شام ہمیں یہی خبر دیتی ہے، آنے جانے کا یہ سلسلہ روز اول سے ہی جاری ہے، لیکن ان ہی جانے والوں میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے وداع سے آنکھیں اشک بار اور دل بے قرار ہوجاتا ہے،جن کے رخصت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خلا ءشاید كبھى پر نہ ہو سكے، اور جب وہ رخصت ہونے والا اپنا ہو، اپنا خون ہو، جس كے ساتھ جانے كتنى ہى یادیں وابستہ ہوں،جس کی موت کا صدمہ خود موت جیسا تکلیف دہ ہو، اور جس کے لیے غموں کے پل صدیوں پر محیط ہو جاتے ہوںتو ظاہر ہے ایسی متاسف کن خبرکےاثر کااندازہ کیا جا سکتا ہے۔
وہ بھی جمعہ كى صبح تھى، جب والد محترم نے آج سے تقرىباً 23 سال قبل اس دنىا سے رخت سفر باندھا تھا۔ اس كے بعد ان كى اولاد مىں سے دو بہن اور دو بھائى بھى اس ابدى سفر پر روانہ ہوئے،اور اب یکم مارچ 2024 ءکو میری پیاری بہن تسنىم نزہت آپی نے رب کریم کی طے کردہ مہلت عمل پورا کرکے اس عارضى دنىا سے منہ موڑ لیا۔اللہم اعفر لہا ونور قبرہا!
آہ! آج بڑی بہن کا خلوص اور ماں جیسی شفقت دینے والی ان ہستی کی زندگی کا سفر ختم ہوا۔ 22 دن ہو چکے ہیں، مگر آج بھی ذہن ان کی جدائی کے صدموں سے باہر نہیں آسکا،زندگی بھر کی رفاقتوں کے سائے دل دماغ کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔
یکم مارچ صبح پونے نو بجے اطلاع ملی کہ میری شفیق بہن ہم سب کو چھوڑ کر اس داعئ اجل کو لبیک کہہ گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
ہم نے فوراً چلنے کی تیاری کی ، دل اندر ہی اندر ڈوب رہا تھا اور سفر تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔سفر کیسے ختم ہوا؟ ناقابل بیان، ناقابل برداشت، آنکھیں اشک بار اور زبان پہ دعائیں جا ری تھیں۔ ساڑھے چار بجے ہم سب پہنچے۔ ان کو ان کی آخری آرام گاہ کے لیے تیار کیا جا چکا تھا اس آخری منظر کی مجھ میں تاب نہ تھی۔
ابھی تین ماہ پہلے میری بہن نے مجھے اسی گیٹ سے مسکراتے ہوئے رخصت کیا تھا اور یہ وعدہ لیا تھا کہ بیٹی کی شادی میں مجھے ضرور بلا لینا۔ بظاہر وہ ٹھیک اور مطمئن نظر آرہی تھیں، لیکن میرے دل میں ایک خدشہ برابر اٹھ رہا تھا کہ کہیں ان سے میری یہ آخری ملاقات نہ ہو،اور ہوا بھی یہی۔
الفاظ جذبات كا روپ دھاریں یا جذبات الفاظ كا،اس كیفیت كو آپ سب اچھى طرح سمجھ سكتى ہىں۔بہر حال، ٹوٹے پھوٹے سے الفاظ كے ساتھ كچھ یادیں، کچھ باتیں قلمبند كرنے کی كوشش كروں گی۔

زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیراسفر

آپی کی عمر تقریباً 60 کے قریب تھی، ان کی جائے پیدائش رام پور ضلع، اتر پردیش تھی۔ترتیب کے حساب سے بڑے بھائی جان اور پانچ بہنوں کے بعد ان کا ساتواں نمبر تھا، ان کے بعد دو بھائی پھر میرا نمبر ہے۔انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا تھا اور سائیڈ سے عربی کی بھی تعلیم حاصل کی تھی۔بلا مبالغہ اللہ رب العزت نے میری بہن کے اندر بہت سی خصوصیات ودیعت فرمائی تھیں۔وہ ہم سے رخصت ہو چکی ہیں، لیکن ان کی یادیں تا زندگی ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی،ان کی زندگی ایک کھلی کتاب
کی مانند تھی،وضع داری کا پیکرتھیں، تواضع و انکساری کے ساتھ اپنے تمام ملنے جلنے والوں میں ممتاز تھیں۔ان کا مسکراتا ہوا روشن چہرہ ہمارے دلوں کو امید اور یقین کی روشنی سے بھر دیتا تھا۔ حالات خواہ کیسے ہوتے؟ وہ ہمیشہ پر امید رہتیں ، ہم تمام بہنوں کے مقابلے میں ان کا مجھ سے زیادہ ساتھ رہا، وہ میرے یہاں گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے رہیں ،حتیٰ کہ میرے بچوں کی تربیت میں ان کا اہم رول ہے، خود مجھ کو تحریک سے وابستہ کرنے میں وہ پیش پیش رہیں،گھریلو ذمہ داریوں میں مجھے مطالعے کا ٹائم نہیں ملتا تھا مگر جب تک وہ یہاں موجود ہوتیں مجھ کو تمام ذمہ داریوں سے آزاد رکھتیں۔ جہاں کہیں بھی کوئی دشواری پیش آتی وہ میری بھرپور مدد کرتیں،میری ہمت بندھاتیں،حوصلہ افزائی کرتیں۔انھوں نے کبھی اپنے وقت کا ضیاع نہیں کیا، کوئی بھی محفل ہوتی وہ شریک رہتیں ،لیکن ان کے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ کام ضرور ہوتا ۔وہ کہا کرتیں تھیں کہ مجھے خالی بیٹھنا بالکل پسند نہیں، ایسا لگتا ہے جیسے اب مجھے موت کا ہی انتظار ہے ،اکثر کہتیں کہ مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ کو مجھے وقت کا حساب آسان دینا پڑے گا۔رب العالمین ان کے ہر ہر مرحلے میں آسانی فرمائے،آمین!
دنیا کی چکا چوند سے وہ کبھی متاثر نہیں ہوئیں، آج کی تیز رفتار دنیا جہاں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، وہ دنیا کی تمام آسائشوںا ور لوازمات کی حرص سے خود کو حتی الامکان دور رکھتی تھیں۔
انھوں نے اپنے تمام سامان جو ابا محترم نے انھیں دیے تھے، سب کے سب وقتا ًفوقتاً لوگوں کو دے ڈالے تھے۔ نومبر میں میرا ان کے یہاں جانا ہوا تھا ، کافی نقاہت کے سبب وہ جاڑے کی چیزوں کا انتظام نہیں کر پا رہی تھیں، وہاں جا کر میں نے دیکھا کہ ان کی زندگی ایک مسافر کی طرح ہے ، جہاں چند کپڑے اور چند برتنوں کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا، ان کے اس طرز زندگی نے میرے دل پر بڑا گہرا اثر ڈالا۔
واقعی ان کے گھر اور ساز و سامان نے اس بات کو ثابت کر دیا تھا کہ دنیا کے بجائے آخرت کی کامیابی ہی ان کا اصل مقصد اور مطمح نظر ہے۔صدقہ و خیرات کا جذبہ جنونی حد تک تھا، خاص طور پر پوشیدہ طریقے سے لوگوں کی مدد کرنے کا بےحد جذبہ تھا، اس طور پر مدد کرتیں کہ دائیں ہاتھ سے دی ہوئی چیز بائیں ہاتھ کو اس کی خبر نہ ہو۔ اپنے سارے زیورات انھوں نے کب اور کس کو اور کیسے دیے؟ اس کا کسی کو علم نہیں۔
جب میں لکھیم پور گئی تھی تو ایک صاحبہ ملاقات کے غرض سے آئیں، انھوں نے مجھے بتایا کہ آج سے لگ بھگ پانچ چھ سال قبل میرے گھر میں چھت اور باتھ روم نہیں تھا ،رفع حاجت کے لیے مجھے باہر جانا پڑتا تھا، باجی نے اپنے کنگن بیچ کر مجھ کو غالباً 60, 70 ہزار کی رقم دی تھی۔ ان کے بتانے پر ہم لوگوں کے علم میں یہ بات آئی ۔میرے بہنوئی نے کہا کہ کم از کم تم مجھ کو بتا دیتیں، کہنے لگیں کہ میں نے دنیا میں اس کی چھت کا انتظام کیا ہے، آخرت میں اللہ میرے لیے چھت کا انتظام کرے گا۔دنیا سے زیادہ ان کی آخرت پر نظر رہا کرتی تھی،اللہ ان کے صدقات و اخلاص کو قبول فرمائے، آمین!
خودداری ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی، کوئی چیز بھی لینا پسند نہیں کرتی تھیں، اگر ہم لوگ کچھ دیتے تو وہ دوسرے طریقے سے اس کو لوٹانے کی پوری پوری کوشش کیا کرتیں۔کسی کام کو بھی چھوٹا اور حقیر نہیں سمجھتی تھیں، جس کسی کے گھر جاتیں خود آگے بڑھ کر کام کیا کرتیں ، رشتہ داروں عزیز و اقارب کسی سے کوئی شکوہ نہیں ،اگر کوئی بات ناگوار بھی لگتی تو بس خاموش ہو جایا کرتیں، کبھی کسی بات پر انھوں نے تکرار کیا ہی نہیں۔
ان کی ازدواجی زندگی الحمدللہ قابل اطمینان تھی۔اسلم بھائی (اپنے شوہر) کا بہت خیال رکھتی تھیں ،دنیا سے زیادہ ان کی عاقبت کے لیےفکرمند رہتیں،صبح سویرے ان کو نماز کے لیے جگاتیں تاکہ ان کی جماعت نہ چھوٹنے پائے اور ان کے نماز سے واپس آنے سے پہلے وہ قرآن شریف رکھ دیا کرتی تھیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تساہل میں تلاوت نہ کریں۔ان کی نماز با جماعت کی ادائیگی لیے بہت زیادہ متفکر رہتیں ،ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی ان کا یہ پہلا سوال ہوتا تھا کہ آپ نے نماز جماعت سے ادا کی یا نہیں ؟اگر نماز قضا ہوجاتی توان کی حساس طبیعت اتنی متاثر ہوتی گویا خود انھیں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اگر وہ فیض آباد میں ہوتیں تو یہاں سے بھی رنگ کر کے ان کو فجر کے وقت جگانا کبھی نہیں بھولتی تھیں۔سسرال کے لوگوں سے بھی ان کے تعلقات بہتر تھے ۔ انھوں نے اپنی ذمہ داریاں لوگوں کی تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بحسن و خوبی انجام دیں۔ اپنے شوہر کو بھی ان کے والدین اور اہل خانہ کے حقوق کی جانب توجہ دلایا کرتیں، اور خود بھی تعلق با للہ کی اہمیت کےساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے پوری طرح سرگرم عمل رہتیں اور دوسروں کو بھی ابھارتیں۔
ان کے سسر جو خود رکن جماعت تھے ،آپی کا بہت ادب کرتے۔ ان کو اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز رکھتے تھے۔گھر کے تمام مسائل میں ان سے مشورہ لیتے۔ جماعت کے کام کے لیے انھوں نے ان کو پوری آزادی دے رکھی تھی، اور حتی الامکان ان کا تعاون بھی کیا کرتے تھے۔
آپی خدمت گزاری کے جذبوں سے سرشار تھیں ۔لوگوں کی بے لوث خدمت کیا کرتیں، خواہ چھوٹا یا بڑا، ہر ایک کا خیال رکھتیں ۔والد محترم چاہتے تھے کہ ہم بہنوں میں سے کوئی نہ کوئی ان کے پاس موجود ہو ،مگر بچوں کی مصروفیات کے سبب ہم بہنوں کو کم ہی موقع مل پاتا تھا ،پر ان کو اللہ تعالی نے موقع دیا تھا ،چوں کہ ان کے بچے نہیں تھے، اس لیے وقتاً فوقتا ًابا جان کے پاس جا کر
ان کو خدمت کا شرف زیادہ حاصل رہا۔ ابا جان ان سے بہت خوش رہتے تھے۔اپنے آخری ایام میں جب ابا جان کی صحت اتنی زیادہ گر چکی تھی کہ لکھنے پڑھنے میں نقاہت محسوس کرتے ،تو وہ ضروری خطوط کے جوابات اور اپنی کتاب کے کچھ اجزاء تسنیم آپی سے ہی نقل کروایا کرتے تھے۔امی اور ابا جان کی ایک آواز میں یہ حاضر ہو تیں ۔ یہ خصوصیت ہم سبھی بہنوں سے زیادہ ان کے اندر تھی۔ ان کی اس عادت سے خوش ہو کر ایک بار امی نے ان سے کہا :
’’تسنیم !ایسا لگتا ہے کہ اگر مجھ پر پہاڑ گر پڑے تو بیٹا تم مجھے بچا لوگی۔‘‘
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کا حج بدل ادا کرکے آپی نے امی مرحومہ کے لیے توشۂ آ خرت روانہ کر دیا ۔
سب کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھتیں ،ہر طرح سے سلجھانے کی کوشش کرتیں ، چھوٹے بچوں کے ساتھ نہایت شفقت اور محبت کا معاملہ رکھتی تھیں۔ کھیل کھیل میں انھیں دینی احکام سکھاتیں، دعائیں یاد کرواتیں۔میری بچیوں سے ان کو گہرا لگا ؤ تھا، ان کے رشتوں کے لیے مجھ سے کہیں زیادہ فکر مند رہا کرتی تھیں اور کوششیں بھی جاری رکھتیں ۔ اللہ کی بہت شکر گزار اور اس کے احکام کو بجا لانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتیں۔ رات کے جس پہر بھی آنکھ کھل جاتی، وہ مجھے انتہائی خضوع و خشوع کے ساتھ مصلے پر نماز ادا کرتی نظر آتیں، ہم سب کو تاکید کیا کرتیں کہ دیکھو !نماز کو اول وقت پر ادا کرو ،خود بھی اول وقت نماز کو اپنا شعار بنا رکھا تھا۔ اپنی زندگی کے اوائل ہی سے انھیں قرآن و سنت سے گہرا لگاؤ تھا۔ نماز سے والہانہ عشق تھا، بیماری کے دوران اور غشی کے حالت میں بھی وہ نیت باندھ لیتی تھیں۔ آخری ایام میں نقاہت کے باعث ان کی آنکھ فجر میں دیر سے کھلتی تھی، تو جگانے کی ذمہ داری مجھے دے دی تھی۔ اگر کبھی میں بھول جاتی اور ان کی نماز قضا ہو جاتی تو مجھ پر بہت خفا ہوتی تھیں، ان کی تاکید تھی کہ مجھے تم تہجد کے ٹائم ضرور جگا دیا کرو ۔ آخری دن بھی انھوں نے اسلم بھائی کو نماز کے لیے جگایا ،خود تہجد بھی ادا کی، فجر بھی ادا کی، تلاوت بھی کی، اس کے بعد اپنے ایمان و عمل کا صلہ حاصل کرنے کے لیے اپنے رب کی جوار رحمت میں جا پہنچیں۔اللہ تعالیٰ ان کی عبادات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، آمین!
ان کی زندگی کا ایک نمایاں وصف ان کا غیر معمولی صبر تھا، بیماری میں بھی کبھی حرف شکایت نہیں آنے دیا۔ ان کی نگاہ ہر وقت منزل پہ لگی ہوتی ،اثناء سفر کی دقتوں اور پریشانیوں کو بھی کبھی خاطر میں نہیں لاتیں، اپنے دین کی خدمت کے لیے انھوں نے کسی رکاوٹ کو رکاوٹ نہیں سمجھا،آخری وقت تک تحریک اسلامی کے لیے فکر مند رہیں، انھوں نے زندگی کو ایک بڑے مقصد پر قربان کر دیا اور زندگی کے مطالبوں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔پوری یک سوئی اور شرح صدرو انہماک کے ساتھ جماعت کے کام میں لگی رہیں۔ وہ سراپا تحریک تھیں، وہ ایک عرصہ تک حلقہ ٔ خواتین کی ناظمہ رہیں،بیت المال کی رقم ان کے پاس ہوتی تھی اور وہ ایک ایک پیسے کا حساب و کتاب صاف رکھتی تھیں، نرم خوئی اور محبت کی وجہ سے تحریک کے حلقے میں بڑی مقبول رہیں، ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، حتی الامکان ہر ایک کی ممکنہ مدد کرنا، کسی کا مسئلہ ہو اس کے لیے فکر مند رہنا، اور اس کو حل کرنا، یہ ان کی فطرت تھی۔ مطالعہ کی بہت شوقین تھیں، ان کی تحریریں ادبی اور اصلاحی ہوا کرتی تھیں ، مزاج میں شگفتگی تھی ، شاعرہ تو نہیں تھیں، لیکن اشعار سے بڑی انسیت تھی، موقع کے مناسبت سے برجستہ شعر فٹ کرتی تھیں، علامہ اقبال رحمہ اللہ ان کے پسندیدہ شاعر تھے، اپنی تقاریر میں زیادہ تر ان کے شعر کوٹ کیا کرتیں تھیں۔
نام و نمود اور شہرت حاصل کرنے کے جذبے سے بہت دور تھیں، گم نام رہ کر تحریک اسلامی کے کاموں کو انجام دینے میں خوشی محسوس کرتی تھیں، اور ہمیشہ سرگرم اور تیار رہتیں۔ اللہ نے انھیں بچوں کی مصروفیت سے فراغت دے رکھی تھی، گھر کے لوگوں کا بھی تعاون تھا ،چنانچہ سن 1998 ءسے جو تحریک کی سرگرمیوں میں ہمہ وقت مصروف ہوئیں، تو تاحیات ایک ایک لمحہ جماعت اسلامی کے لیے وقف کر دیا۔
جب بھی جہاں بھی ضرورت ہوتی وہ تیار رہتیں، شدید بیماری کی حالت میں بھی وہ تن تنہا گھر سے نکل جایا کرتی تھیں،اور بارہا فون کر کے مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ تم جب بھی کہیں پروگرام میں جایا کرو مجھے ساتھ ضرور لے لیا کرو۔
انھیں جماعت سے دیوانہ وار محبت تھی،کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دین کا کام کرتے کرتے موت دینا۔

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ

ان کی جماعت سے دلی وابستگی اور اطمینان کی یہ کیفیت اس بات کی گواہ تھی کہ انھوں نے رب العالمین سے ستائش اورصلے کی تمنا کے بدلے اپنی میٹھی نیند،اپنا آرام اور سکون سب کچھ قربان کر ڈالا۔ خدا ہم سب کو رسول برحق کے پیغامات اور میری بہن کے مشن کو بڑھانے کا عزم، حوصلہ، ہمت اور استقلال عطا کرے۔ ان کی خدمات کو بار الٰہی قبولیت کا عظیم درجہ عطا فرمائے!

یوں تو سب مسافر ہیں ساتھ چلتے ہیں
ہو گئے سب ہی تنہا منزلوں کے آنے سے

 اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول کرتے ہوئے انھیں ہمارے لیے مشعل راہ بنائے، اور ان کے حق میں دی گئی ساری گواہیوں کو شرف قبولیت بخشے، آمین یارب العالمین!

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رُستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے

٭ ٭ ٭

آہ! میں تجھ سا کہاں سے لاؤں؟

شاہدہ آفرین

میری رہ نما،میری شفیق بہن، میری دوست، میری غم گسار تسنیم آپا آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔میری ان سے پہلی ملاقات ماہ اگست 2002 ءمیں خیر آباد کے پہلے پروگرام میں ہوئی۔وہیں انھوں نے جی آئی او کی یونٹ قائم کی،میں بھی بطور ممبر شریک ہوئی۔ دوبارہ جب آپ آئیں تو پروگرام کے بعد ایک میٹنگ کی اور ہم تین بہنوں کو فارم بھرنے کی طرف توجہ دلائی۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ میرے والد بھی رکنِ جماعت تھے، تو بہت خوش ہوئیں، کہنے لگیں کہ ہم دونوں کو تحریک وراثت میں ملی ہے۔
میرے بھائی نے رکن کی حیثیت سے جو ذمہ داری کا نقشہ کھینچا تھا ،اس سے میں بہت ڈرتی تھی، لیکن آپ نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھیں۔ محبت و اخلاص کا پیکر تھیں۔ بے شک تسنیم آپا اخلاق کی بلند ترین مرتبے پر فائز تھیں۔بہت عظیم تھیں۔ آپ کا قول و فعل یکساں تھا۔آپ کا صبرمثالی تھا، صبر و تحمل کے ساتھ اپنے رب کی رضا پر راضی رہنے والی تھیں۔ان کی ایک اور بات جو تحریکی رہ نما کی حیثیت سے بہت ممتاز ہے ،وہ ہے ان کے اپنی دینی بہنوں سے تعلقات۔ہر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ آپ سب سے زیادہ اسی سے محبت کرتی ہیں۔ان کی زندگی اسلامی اصولوں کا مکمل نمونہ تھی ۔
تحریک کی سربلندی کے لیے میں نے ان کے اندر ایک جنون، ایک دیوانگی دیکھی تھی۔ کہتی تھیں کہ میرا اوڑھنا بچھونا سب تحریک ہے ۔وہ تحریک کی توسیع و استحکام کے لیے فکرمند رہتی تھیں۔وہ اکثر کہتی تھیں کہ جو لوگ تحریک سے وابستہ ہونے کے باوجود بھی اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے، ایسے لوگ مجھے پسند نہیں ہیں اور یہ شعر پڑھتی تھیں:

ذرا دیر کا درد سر یہ نہیں
جنون وفا مستقل چاہیے

معیاری اور اصلاحی شعروں کو بہت پسند کرتی تھیں ۔میرے لکھے ہوئے شعروں کو بہت پسند کرتی تھیں،کہا کرتی تھیں کہ آپ کے شعر پائے کے ہوتے ہیں۔ ان کا یہ حسن ظن میرا حوصلہ بڑھاتا تھا۔ان کے حوصلہ بڑھانے کی وجہ سے میری دو تحریریں اور ایک غزل حجاب اسلامی میں شائع ہوئی۔انتقال سے دس دن قبل جب میری آپ سے فون پر بات ہوئی توپوچھاکہ آپ کی کوئی تازہ غزل؟میں نے کہا:’’ نہیں آپا! ابھی تو کوئی تازہ غزل نہیں لکھی۔‘‘
ہائے! ان کی بات لکھتے ہوئے بھی بار بار دل پر ہاتھ پہنچ رہا ہے۔آنکھیں بھیگ رہی ہیں۔ یا اللہ! تو مجھے صبر جمیل عطا فرما۔ میں نے ان کے ساتھ دورے بھی کیے ہیں، لمبے سفر کے باوجود بھی بوریت نہیں ہوتی تھی۔جب پہلا دورہ میں نے ان کے ساتھ کیا، رات لکھنؤ دفتر میں قیام ہوا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کھاؤ گی؟ میں نے کہاکہ روٹی سالن منگوا لیجیے۔آپ نے کہاکہ سالن نہیں ،روٹی دہی منگوا لیتے ہیں،جماعت کا پیسہ بچ جائے گا۔
بہت ساری یادیں ان سے وابستہ ہیں۔ان کی سخاوت ،فراست، نفاست ،ان کی تحریک کے ساتھ سپردگی؛ یہ ساری چیزیں صفحۂ قرطاس پر لانا چاہتی ہوں ،لیکن خوف طوالت دامن گیر ہے۔ دوروں کے درمیان انھوں نے میرا جھوٹا کھایا اور پانی پی کر کہتیں کہ مومن کا جھوٹا شفا ءہوتا ہے۔ اپنے ایک جملے سے انھوں نے مجھے اپنا اسیر کر لیا، اور بس اسی لمحے وہ میرے دل کے نہاں خانے کی مکین ہو گئیں۔
تسنیم آپا چلی گئیں، ان کی سعید روح اپنے مالک حقیقی سے جا ملی۔ جب ان کی یاد آئے گی، ہماری آنکھیں بھیگیں گی، مگر کیا آنسو بہانا ہی ان کی یاد کا صحیح طریقہ ہے؟ ان کو یاد کرنے کا بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ ہم بھی تحریک کی خاطر اپنی زندگی، اپنا وقت، اپنا مال وقف کر دیں، جس کی خاطر انھوں نے اپنی تمام زندگی لگا دی۔ میری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ تسنیم آپا کی دینی خدمات کو قبول کرے اور ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔

ان کے جانے کا منظر تماشہ نہیں
دور تک دیکھیے دیر تک سوچیے

٭ ٭ ٭

وہ مسافر جو اس راہ سے گزرگئے

عطیہ صدیقہ

یکم مارچ 2024 ءکو باجی تسنیم نزہت صاحبہ کے انتقال کی اندوہناک خبر سنی،انا للہ و انا الیہ راجعون!
دل انتہائی مغموم ہوگیا،اور دماغ میں ماضی گھوم گیا، جب ان کے ساتھ کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے تھے۔
مرحومہ انتہائی متقی اور نیک خاتون تھیں۔ طبیعت میں ملنساری اور مزاج میں سادگی بہت تھی۔ اپنےاو پر دوسروں کو ترجیح دیتی تھیں، جماعت کے اخراجات کم سے کم کرنے کی کوشش کرتیں۔
تسنیم نزہت صاحبہ سے ہماری پہلی ملاقات سن 2007 ءمیں ہوئی تھی۔2007 ءمیں مرکز جماعت اسلامی ہند نے خواتین کا مرکزی نظم قائم کرنے فیصلہ کیا تھا۔ ہر ریاست سے تین تین خواتین کو مدعو کیا گیا تھا ،جن میں سے کل ہند ناظمہ کی ذمہ داری میرے کم زور کندھوں پر آئی۔ اس وقت خواتین کی مرکزی مشاورتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس کمیٹی میں تسنیم نزہت صاحبہ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ پورے ملک کو چار حصوں میں تقسیم کر کے اس کے ذمہ دار بنائے گئے تھے۔ تسنیم نزہت صاحبہ کو شمالی ہند کی ذمہ داری دی گئی تھی، جس میں یو پی ،پنجاب اور دلی حلقے شامل تھے۔
الحمدللہ، باجی کا تربیتی انداز بہت اچھا ہوا کرتا تھا۔باجی کے اندر جذبۂ خیر خواہی نیز خواتین کو تحریک سے قریب کرنے کی تڑپ اوراس کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھراہوا تھا۔ وہ بہت خوش مزاج بھی تھیں۔انھیں ادب سے بڑا لگاؤ تھا۔ شعراء کے اشعار کو بروقت برمحل پیش کیا کرتیں۔ خاص طور سے مولانا الطاف حسین حالیؔ کی شرک کے خلاف درج ذیل مشہور نظم کو مرحومہ اکثر اجتماعات میں پڑھا کرتی تھیں:

کرے گر غیر بت کی پوجاتو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

باجی تحریک اسلامی کے برگزیدہ اور بنیاد گزار قائدین میں سے ایک قائد، مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب کی صاحبزادی تھیں۔ مولانا کی تصنیفات کا رنگ باجی کی تقریروں میں صاف جھلکتا تھا۔
2019 ءتا 2023 ءکی میقات تک بھی مرحومہ ناظمۂ حلقہ یو پی مشرق
رہیں۔ حلقے کے تمام مقامات کا دورہ کرتیں، خطابات عام کرواتیں، جماعت اسلامی سے خواتین کو متعارف کرواتیں۔ یو پی میں بیگم قیصر نیازی صاحبہ کے بعد آپ نے جماعت اسلامی ہند کی توسیع و استحکام میں متحرک رول ادا کیا۔باجی اس وقت سے تحریکی ذمہ داریاں نبھاتی رہیں، جب آمد و رفت اور ذرائع ابلاغ کی وہ سہولیات میسر نہیں تھیں، جو آج ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ باجی مرحومہ کے حسنات کو قبول اور فرو گزاشتوں کو معاف فرمائے اور انھیں اعلیٰ علیین میں بلند درجات بخشے۔آمین!

٭ ٭ ٭

کل نفس ذائقۃ الموت

ناصرہ خانم

یکم مارچ کو یہ افسوس ناک خبر پہنچی کہ ہماری مخلص بہن تسنیم نزہت فاطمہ (ناظمہ یوپی مشرق) اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ مرحومہ سے بڑے دیرینہ مراسم تھے۔ تحریکی سفر میں ہم ایک ساتھ تھے۔ اس موقع پر چند تاثرات پیش کررہی ہوں۔ مرحومہ بہت ہی نرم مزاج، اپنائیت، عجز و انکساری اور صبر و استقامت کاپیکر تھیں۔ مزاج میں سادگی، تحریک سے بڑی محبت، ہمیشہ تحریک کے لیے فکرمند رہتیں۔ تحریکی ذمہ داریوں کو بڑی خوبی کے ساتھ ادا کرتیں۔ تحریک سفر میں آنے والی رکاوٹوں اور اڑچنوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کر لیتیں۔ مایوسی کو کبھی پھٹکنے نہیں دیتیں۔ تمام مشکلات و پریشانیوں کو اللہ پر بھروسہ و توکل کے ساتھ جھیلتے ہوئے آگے بڑھتی رہتیں۔ اسلام کی شیدائی، فداکاری کے ساتھ اسلام پر مر مٹنے کا جذبہ کار فرما تھا۔ دین کا صحیح فہم،نظم و ضبط کی پابند، سب کے ساتھ حسن ظن۔ ان ہی اعلیٰ اخلاق و اوصاف کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیتی رہیں۔ ان صلاتی ونسکی و محیای و مماتی کے مطابق اپنے شب و روز کو ڈھالنے کے لیے بے چین رہتیں۔
اپنے والد محترم کی تربیت تھیں۔ انھیں مطالعہ کا بڑا شوق اور ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ محترمہ کی زندگی آج نوجوان لڑکیوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے تمام حسنات اور اس کی دوڑ دھوپ کو قبولیت کا شرف بخشے۔ اس کا ایک ایک لمحہ ان کے لیے ذخیرۂ آخرت بن جائے ،کروٹ کروٹ انھیں جنت عطا فرمائے ،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،اللہ ان سے راضی ہو جائے، ان کا شمار صالحین، صدیقین میں ہو، ان کی قبر کو نور سے منور کر دے اور حد نگاہ تک کشادہ کر دے، ان کے تمام افراد خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے،آمین!

٭ ٭ ٭

یادیں تسنیم باجی کی

‌ڈاکٹر فاطمہ تنویر

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
بلبل نو رستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے

یہ خبر دل کو بہت ہی رنجیدہ کر گئی کہ محترمہ تسنیم نزہت صاحبہ انتقال فرما گئیں۔ان سے میری ملاقات حیدرآباد کے ایک اجتماع میں ہوئی تھی، اگرچہ پہلے سے ہی وہ میرے والد کو جانتی تھیں ۔تسنیم باجی سے جب ملاقات ہوئی تو بہت ہی مخلص بہت ہی خوش اخلاق اور بہت ہی اچھا ادبی ذوق رکھنے والی خاتون کی حیثیت سے ان کا نقشہ میری نظروں کے سامنے آیا۔ بہت ہی د ل کش اندراز تھا بات کرنے کا،بڑی علمی اور ادبی گفتگو کرتیں ۔ لوگوں سے بات کرتیں تو ایک گروپ بن جاتا ،بہت سی بہنیں گرد جمع ہو جاتیں اور سب سے ملنا جلنا ،ایک دوسرے سے محبت و قربت دیکھ کرایسا لگتا کہ کتنی پرانی ملاقات ہے۔
پہلی بار حیدرآباد کے اجتماع میں جب میں باجی سے ملی تو بڑی اچھی ملاقات رہی، ایسا لگا کہ بہت قریبی دوست ہوں، پھر ان سے برابر بات چیت ہوتی رہی، فون پربھی ہوتی رہی۔ ایک مرتبہ میں فیض آباد کے قریب ایک اونچے گاؤں اپنے ننیہال میں گئی تھی، تو وہاں پر پتہ چلا کہ قریب کے گھر میں ایک اجتماع ہے اور شام کو جب ہم اجتماع میں پہنچے تو پتہ چلا کہ تسنیم صاحبہ اپنے گروپ کے ساتھ وہاں دورے پر آئی ہیں۔ میں چونک گئی، میری خوشی کی انتہا نہ رہی، ہم ایک دوسرے سے گلے مل گئے، بہت ہی یادگار ملاقات رہی، انھوں نے میرا خیر مقدم کیا میں نے ان کا تعارف ایک تحریکی ساتھی اور بہن کی حیثیت سے کروایا ۔
پروگرام شروع ہوا، اور باجی نے اپنی جگہ مجھے ہی بٹھا دیا۔ میں نے بہت اصرار کیا کہ آپ کا پروگرام ہے، آپ کیجیے، میں سنوں گی یا میں مختصر تذکیر کر دوں گی، لیکن باجی بضد ہو گئیں اور انھوں نے ایک مختصر تذکیر کے بعد میری ہی تقریر کروائی اور کہا کہ آپ بیان کیجیے!
پورے پروگرام میں وہ بیٹھی رہیں، میری باتوں کو سنتی رہیں اور آخر میں انھوں نے مجھےبہت ہی زیادہ حوصلہ دیا اور کہا کہ آپ نے بہت اچھا پروگرام کیا، یعنی وہ مہمان تھیں لیکن انھوں نے مجھے مہمان بنا دیا تو مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا کہ لوگ تواپنا منصب و مقام کسی کو نہیں دیتے۔ میں نے کہا بھی کہ باجی آپ کا دورہ ہے ،آپ کیجیے، لیکن انھوں نے کہاکہ نہیں، میں تھوڑا سا درس دے دوں گی، پھر اس کے بعد خطاب آپ کیجیے۔پھر میں نےحکم کی تعمیل میں خطاب کیا، بعد میں بہت خوش ہوئیں کہ آپ نے بہت اچھا خطاب کیا۔ خواتین میں سے سب سے جان پہچان ہوئی ،بات چیت ہوئی، گاؤں میں ہم گھومے پھرے، بڑی ہی اچھی یادگار تھی یہ ملاقات ،ایسی تھی جو بڑا سبق دے گئی ۔
شاید وہ آخری ملاقات تھی ۔اس کے بعد سے باجی سے ملاقات نہیں ہوئی ۔یو پی میں میرا آنا جانا بھی کم ہی ہوتا تھا اور باجی سے دوبارہ ملنا نہیں ہوا۔ بہت لمبا لاک ڈاؤن چلا، اس کی وجہ سے ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور ان سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی۔ادھر بہت عرصےسے تو کوئی خبر بھی نہیں رہی،پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ بیمار ہیں ۔ کسی پروگرام میں مرکز میں بھی ان کاآنا نہیں ہوا۔ اکثر بڑی فکر رہتی تھی کہ کیا ہوا؟ تسنیم باجی دکھ نہیں رہی ہیں ،لیکن کسی سے پوچھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ بس اچانک یہ خبر ملی کہ ان کا انتقال ہو گیا اور پھر ان کی تعزیتی نشست میں جو لوگوں کے تاثرات آئے، انھیں کو سن کر تو ایسا لگ رہا تھا کہ واقعی وہ کتنی بڑی شخصیت تھیں، کتنا ایثار و قربانی کا جذبہ تھا ان کے اندر، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، اللہ کی راہ میں لوگوں کے کام آنا، لوگوں سے ملنا ،اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے جتنا وہ کر سکتی تھیں وہ ایکٹو ہی رہیں۔
ایسے مخلص لوگ اب ہمارے درمیان سے اٹھتے جا رہے ہیں، جن کے اندر واقعی خلوص تھا ،سادگی تھی، دکھاوا نہیں تھا۔ یہ تمام چیزیں ان کی زندگی سے سبق ہے ہمارے لیے کہ ہم اسے اپنے اندر اپنائیں۔ آج تحریک اسلامی کے قافلے میں ان چیزوں کی بڑی کمی نظر آتی ہے۔ لوگوں کے اندر خلوص نہیںہے، محبت کا جذبہ نہیں ہے، ایک دوسرے سے ہم دردی نہیں ہے، ذرا ذرا سی باتوں پر بدگمانی ہے، یہ تمام چیزیں بڑی ہی تشویش ناک ہیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم ان کی زندگی سے سبق حاصل کرکے اپنے اندر نکھار پیدا کرسکیں۔ اپنے اندر ایسی تبدیلی لائیں کہ تحریک اسلامی کے قافلے کو جلا بخش سکیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں بہترین مقام عطا فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں بہترین گھر عطا فرمائے،آمین!

٭ ٭ ٭

محترمه تسنیم نزهت اعظمی صاحبہ:یادیں اور باتیں

سنجیدہ عالم

متحدہ اتر پردیش اور بعد میں تقسیم اتر پردیش کے بعد یوپی مشرق کی کئی میقات ناظمہ رہیں۔ ان سے میری سب سے پہلی ملاقات شاید میرٹھ میں دوران اجتماع ہوئی، اور ان کو دور سے اسٹیج پر دیکھا تھا۔ اس کے بعد تقریباً 22,23سال قبل رام پور میں جامعۃ الصالحات میں ایک پروگرام کے دوران ملاقات ہوئی تھی، اس وقت میں تحریک کی ایک کارکن ہوا کرتی تھی، بہت متاثر ہوئی تھی میں ان سے۔
ہنس مکھ ، ملنسار بہترین شخصیت کی مالک تسنیم باجی اپنی تقریر کے دوران برجستہ اشعار استعمال کر رہی تھیں، چوں کہ مجھے بھی اشعار پڑھنے کا شوق تھا، اسی لیے ان کی تقریر مجھے بہت پسند آئی۔ اس وقت کا ان کا ایک جملہ مجھے آج تک یادہے: ہندو یعنی Non Muslim کھڑے پوجتے ہیں اور ہم پڑے پوجتے ہیں یعنی مزارات کو۔ عقائد کی پختگی کے ضمن میں یہ ان کی بہترین تقریر تھی۔
ایک مرتبہ بدایوں (ککرالہ) میں خاندانی مہم کے دوران جب وہ یوپی کی ناظمہ تھیں، تشریف لائی تھیں تو ذمہ داران نے کہا کہ ان کا قیام بدایوں میں میرے گھر پر رہے گا۔ میں نے ان کے قیام کا انتظام اپنے یہاں کر دیا مگر پتہ چلا انھوں نے وہیں قیام گاہ میں دوسری خواتین کے ساتھ رکنا پسند کیا۔ ان کے بارے میں ہمیں یہ بات بتائی گئی کہ دوران پروگرام ان سے پوچھا جاتاکہ آپ کا بستر کہاں رہے گا؟ تو کہتیں:
’’ ارے نہیں! بستر کی کیا ضرورت؟ ایک چٹائی دے دیجیے، اسی پر سوجائیں گے۔‘‘
مرکز میں کئی بار ملاقات رہی۔ آخری ملاقات بھی مرکز میں ہوئی تھی، کچھ بیمار دکھائی دے رہی تھیں ،ہم نے پوچھاکہ باجی طبیعت ٹھیک ہے؟ کہنے لگیں:
’’ اللہ کا شکر ہے۔‘‘
کافی دیر بات ہوتی رہی ،کیا پتہ تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے۔یکم مارچ کو جیسے ہی صبح موبائل آن کیا، ان کے انتقال پر ملال کی خبر دیکھی۔ کچھ دیر یقین نہیں آیا، پھر ان کے ساتھ جو یادیں تھیں، دماغ میں چلنے لگیں۔ جیسا کہ بہنوں کے تاثرات ان کی وفات کے بعد آرہے ہیں، پتہ چل رہا ہےکہ مرحومہ بڑی خوبیوں کی مالک تھیں ۔کچھ مزاحیہ مزاج بھی رکھتی تھیں۔ اس کا تجربہ میں نے بھی کئی مرتبہ کیا ۔دوران علالت تحریک کے کاموں میں سرگرم رہتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے ،جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی تحریکی خدمات کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، آمین!

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴