اپریل ۲۰۲۴

ڈاکٹر عبد الکلام کا ایک بامعنی قول ہے :
’’اگر کسی ملک کو بدعنوانی سے پاک اور اعلیٰ خطوط پر معیاری قوم بنانا ہے تو مجھے شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ اس معاشرے کی جوتین شخصیات تبدیلی لا سکتی ہیں وہ ماں، باپ اور استاد ہیں۔‘‘
اس وقت ہمارے معاشرے میں غیر متوازن تبدیلی نے جس طرح کا ماحول پیدا کیا ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ کسی کے نزدیک معاشرے کی اخلاقیات و اقدار اب روبہ زوال ہو رہے ہیں اور کسی کے نزدیک یہ تبدیلی حسب توقع ہے، اب ہمیں انھیں کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ وقت کسی کے لیے نہیں رکتا اور نہ ہی اپنا رخ تبدیل کرتا ہے۔
سب سے پہلے تو ہم یہاں معاشرے کی موجودہ صورت حال کی زبوں حالی اور ارتقاء پذیری پر بات کریں گے، بےشک تبدیلی دنیاوی نظام کا لازمی جزو ہے، جیسا کہ اقبال نے بھی کہا ہے:

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

 بےشک یہ تبدیلی انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے، لیکن اس تبدیلی کےلزوم سے قطعی یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ ہم ان اصولوں اور اقدار سے بغاوت کرنے لگیں جو کہ انسانی فطرت اور صالح معاشرے کے تشکیل میں ایک اہم تقاضے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانی فطرت تجربات کے ذریعے زندگی میں بہتری لانے کی خواہش رکھتی ہے، ناکہ درست سمت کا تعین کیےبغیر خود کو کسی بھی راہ پر گام زن کر دیا جائے۔ بےشک یہ سچ ہے کہ تجربات سے ہمیشہ مثبت نتائج پیدا ہوں یہ ضروری نہیں، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ تبدیلی جو مثبت اقدار کو سامنے رکھ کر قبول کی گئی تھی، لوگ اپنی مخرب ذہنیت اور منفی خیالات کے ذریعے اس سے برائی کو فروغ دینے لگ جاتے ہیں۔ معاشرے میں خیر و شر کی کش مکش ہمیشہ سے رہی ہے، اس لیے صورت حال کو یکسر ایک رنگ میں دیکھنے کی خواہش رکھنا فضول ہے، بحیثیت انسان ہم سب اس کے پابند ہیں کہ ہم اپنے ارد گرد کے تاریک گوشے میں اپنے حصے کی شمع کو جلائے رکھنے کی جدوجہد کرتے رہیں، یہ چاہنا کہ جب میں چراغ جلاؤں تو ہواؤں کو تھم جانا چاہیے انتہائی فضول ہے، یہی اختیار و ارادے کی آزادی اور کش مکش ہی تو انسانوں کے لیے ذریعۂ آزمائش ہے۔

اب ہم بات کرتے ہیں ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کے اس قول کی، جس میں انھوں نے ماں باپ اور استاد کو تبدیلی کا سب سے بڑا محرک قرار دیا ہے۔بےشک اس سے کسی کو انکار نہیں کہ ہماری پرورش جس طرح کے ماحول میں ہوئی ہوتی ہے اس کا اثر واضح طور سے ہماری شخصیت میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
معروف مصنف اور موٹیویشنل سپیکر شیو کھیڑااپنی کتاب You Can Win میں لکھتے ہیں کہ تین es ہماری شخصیت کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں اول environment دوم education سوم experience۔یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہمارے ارد گرد کے ماحول اور تعلیمی نظام کے بعد جو چیز ہماری ذات کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے ،وہ ہمارے تجربے ہوتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم و ماحول پر تجربات کی بنیاد رکھی جاتی ہے، یہی بات عبدالکلام بھی کہتے ہیں۔ ماحول، ماں باپ اور گھر کے دیگر افراد کے تعاون سے بنتاہے، ماں باپ بچے کی ذہنیت کی تشکیل میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شروعاتی دور میں بچے کا ذہن بالکل سادہ سلیٹ کی طرح ہوتا ہے، اس پر جو کچھ بھی لکھنے کی کوشش کی جائے ،بآسانی لکھا جا سکتا ہے، ایسے میں ماں باپ کی یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف بچے کی ظاہری شخصیت پرتوجہ دیں، بلکہ وہ ان کو مثبت افکار و خیال کا حامل بنانے پر بھی توجہ دیں ،جس کو دوسرے لفظوں میں تربیت کہا جاتا ہے۔
بچوں کی تربیت ایک مکمل آرٹ ہے ،جسے باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے ،اس کے لیے بچے کی نفسیات پر گہری نظر رکھنی پڑتی ہے،یہ ضروری نہیں کہ والدین کے سارے بچے ایک جیسی نفسیات کے حامل ہوں ،ان کی مختلف ذہنیت کی وجہ سے انھیں بالکل ایک طرح سے ہینڈل نہیں کیا جا سکتا، ایک ماں نے اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ میرے کئی بچے ہیں اور مجھے اپنے ہر بچے کی تربیت کرتے ہوئے بالکل الگ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ،اور میں نے ان کی نفسیات کا مکمل دھیان رکھ کر ان کی تربیت کی، میرے خیال میں اگر وہ ایک لگے بندھے طریقے سے انھیں ہینڈل کرنے کی کوشش کرتیں تو یقیناً انھیں مزید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ،پھر انھیں کوپ اپ کرنا ان کے لیےاور بھی مشکل ہو جاتا۔
ڈاکٹر شفالی جو کہ پیرنٹنگ کوچ ہیں، وہ کہتی ہیں :
’’موجودہ تعلیمی نظام بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبادیتا ہے اور ان کی اندر موجود فطری جبلت کو نظر انداز کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے اضافی جدوجہد کرتے ہیں، لہٰذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی پیدائشی صلاحیتوں کو پہچانیں اور ان کی ابتدائی عمر سے پرورش کریں ۔‘‘
بےشک ڈاکٹر شفالی نے صحیح کہا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بچوں کی انفرادی شخصیت کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے، ایسے میں ماں باپ کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔
ہمارے یہاں بچوں کی تربیت میں سب سے زیادہ جس چیز پہ فوکس کیا جاتا ہے، وہ ہے انھیں اپنا تابع دار بنانا، یعنی بچے بلاچوں چراں وہی کریں جو وہ چاہتے ہیں ،جس میں عمومی طور پر والدین ناکام ہی ہوتے ہیں۔ موجودہ وقت میں تو اس حوالے سے اور بھی چیلنجز پیدا ہو گئے ہیں، وہ ا سکرین سے ایسی ایسی چیزیں سیکھتا اور اسے آزماتا ہے کہ ماں باپ ان کے رویوں کو لے کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر شفالی کہتی ہیں کہ ایک دائرے میں رہتے ہوئے بچوں کو اپنے فیصلے خود کرنے دیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہیں، انھیں کرنے دیں ،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ بچے کو ابتدائی عمر میں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہیں، پھر دھیرے دھیرے اسے خود کھانے کی ترغیب دیتے ہیں ،لیکن ساتھ میں آپ اسے سکھاتے بھی جاتے ہیں اور برابر نظر رکھتے ہیں ،اس کی وجہ سےتھوڑے وقت کے بعد بچہ اچھی طرح نفاست سے کھانا کھانا سیکھ لیتا ہے، بےشک فیصلہ سازی ایک بڑا عمل ہے لیکن اسے بھی سکھایا جا سکتا ہے، اگر یہ حق آپ انھیں نہیں بھی دیں گے تو ایک وقت کے بعد یہ حق وہ حاصل کر ہی لے گا ،لیکن اس وقت شاید صحیح تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی بھی ٹریک پرجا سکتا ہے۔ ڈاکٹر شفالی والدین کو مشورہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ والدین اپنے بچوں کی زندگی کے ہر فیصلے اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کریں ،اس کے بجائے انھیں اپنے بچوں کو انتخاب کرنے ، خطرات مول لینے، اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی آزادی دینی چاہیے، بچے کو اپنے فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی اجازت دے کر والدین ان میں آزادی اور خودمختاری کا احساس پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
والدین یہ سب کچھ بچوں کو تبھی سکھا سکتے ہیں جب ان کی شخصیت میں خود وہ سارے خصائص موجود ہوں گے ،جو وہ اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے والدین کو اپنی Self awareness اور Emotional intelligence پر کام کرنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے، کیوں کہ یہ ان کے بچوں کی نشوونما پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ بچوں کی فطری صلاحیت کی تربیت کرنا ہے اور اس کے مطابق انھیں عملی میدان کا انتخاب کرنا ہے ۔
اب ہم استاذ کی ذمہ داریوں کی طرف آتے ہیں، اس تیزی سے بدلتی کمپلیکیٹڈ دنیا میں ایک استاذ کی ذمہ داری معلومات کی فراہمی کی حد سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے، کیوں کہ آج کے بچے ہی کل کے معمار ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ اساتذہ اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے اندر تعمیری تبدیلی کو قبول کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔
سب سے پہلے اساتذہ کو شخصیت سازی کی اہمیت اور اس کے اصول و ضوابط کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، ہر بچہ اپنے خیالات و احساسات اور طرزعمل میں دیگر بچوں سے مختلف ہوتا ہے، یہ انفرادیت پیدائشی طور پرموجود ہوتی ہے۔ فرائڈ، ایرکسن کے نظریے کے مطابق ایک بچے کی شخصیت سازی جینیات، سماجیات، اور ماحول کے باہمی تعامل سے وجود پذیر ہوتی ہے، انسانی شخصیت کبھی متعین شدہ نہیں ہوتی، اس کی پرورش یا تشکیل کرنی پڑتی ہے۔ اس لیےایک استاذ کے لیے اس کے بنیادی عناصر کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔
بچے کے لیے موافق یعنی معاون ماحول پیدا کرنا بھی استاذکی ذمہ داری میں شامل ہے، تاکہ انھیں جسمانی و جذباتی ہراسمنٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے، نیز یہ کہ انھیں اس ماحول میں تعلق، قبولیت، اور حوصلہ افزائی حاصل ہو، ساتھ ہی ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں غلطیوں کو قابل سزا بنانے کے بجائے اس سے سیکھنے کی تحریک پیدا ہو، طلبہ کے مابین موجود تنوع کی افزائش کی جائے نا کہ کسی خاص معیار پہ پورے اترنے والے طلبہ کو دوسروں پر برملا سبقت دی جائے۔ بچوں کو بےجا پابندیوں میں جکڑنے کے بجائے اخلاقی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے کھل کر بات کرنے اور اتفاق و اختلاف کرنے کا حق دیا جائے، اس طرح بچے کی اصل شخصیت و صلاحیت کو پہچان کر انھیں صحیح رخ دینا آسان ہو جاتا ہے۔
اساتذہ کے لیے ایک جامع نقطۂ نظر اپنانا ان کی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں معاون ہوتا ہے، بچوں کو کارآمد انسان بنانے جیسا ایک کلیئر وژن بچے کی شخصیت کے ہر پہلو کو یکساں اہمیت دینے کی ترغیب دیتا ہے، کیوں کہ ہر بچہ کوئی نہ کوئی ایک ایسی صلاحیت ضرور رکھتا ہے جس میں وہ مہارت پیدا کرکے خود کو معاشرے کا کارآمد انسان بنا سکتا ہے، جس کا تعلیمی سرگرمیوں سے الگ ہونا بھی ممکن ہے، اساتذہ کی طرف سے ملنے والی سہولت اور معاون رویہ بچوں کی شخصیت کو منتشر اور ناکارہ بننے سے بچا لیتی ہے،اس سے جذباتی ذہانت، سماجی مہارت، جسمانی صحت اور اخلاقی اقدار کو بھی فروغ ملتا ہے۔ نصاب میں ٹیم اسپورٹس، ڈرامہ، مباحثے، اور کمیونٹی سروس جیسی سرگرمیوں کو شامل کرنے سے اساتذہ بچے کی شخصیت میں ہم دردی، تعاون، قائدانہ صلاحیتوں، اور اپنے اور دوسروں کے تئیں ذمہ داری کا احساس پیدا کر سکتے ہیں۔
اساتذہ کو چاہیےکہ وہ بچے کی خودمختاری کی ضرورت و اہمیت کو سمجھیں ،خود مختاری سے مراد یہ ہے کہ انھیں بےضرر شخصی آزادی فراہم کی جائے، کم از کم انھیں اپنی ذات سے جڑے ایسے فیصلے کرنے کا حق حاصل ہو جو کہ کسی کے لیےضرر رساں نہ ہوں، انھیں اپنا پابند اور حکم کا غلام نہ بنا کر انھیں اخلاقیات کی صحیح تعریف سے روشناس کرایا جائے، انھیں ذاتی ذمہ داری کے تصور کو سمجھنے میں مدد فراہم کی جانی چاہیے، ان کے سیکھنے کے طریقے کو سمجھ کر ان کی رہ نمائی کی جائے، جیسے کسی پروجیکٹ کے لیےموضوع کا انتخاب کرنا یا پریزینٹیشن کے طریقوں پر ان سے بات چیت کرنا، صرف نتائج کے بجائے کوششوں کے لیے بھی کمک فراہم کر کے ان کے خوداعتمادی کا لیول بڑھایا جا سکتا ہے، کیوں کہ تنقید کے بجائے تعمیری تاثرات اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچہ اپنی غلطیوں سے سیکھے اور چیلنجوں کو ترقی کے مواقع کے طور پر دیکھے۔
ماں باپ اور استاذ بچے کی تشکیل میں ایک ایسے ستون کا کردار ادا کرتے ہیں، جس کو کسی بھی معاشرے میں اور کسی بھی ترقی یافتہ دور میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یہیں سے اذہان کی تربیت کے راستے ہموار کیے جاتے ہیں، پھر یہی اشخاص آگے چل کر معاشرے کی اصلاح و تعمیر میں ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں، بقول اے پی جے عبدالکلام کے ،معاشرے کی بدعنوانی کا خاتمہ اور اعلیٰ اقدار کو فروغ دینا اسی صورت میں ممکن ہے۔

٭ ٭ ٭


بچے کے لیے موافق یعنی معاون ماحول پیدا کرنا بھی استاذکی ذمہ داری میں شامل ہے، تاکہ انھیں جسمانی و جذباتی ہراسمنٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے، نیز یہ کہ انھیں اس ماحول میں تعلق، قبولیت، اور حوصلہ افزائی حاصل ہو، ساتھ ہی ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں غلطیوں کو قابل سزا بنانے کے بجائے اس سے سیکھنے کی تحریک پیدا ہو، طلبہ کے مابین موجود تنوع کی افزائش کی جائے نا کہ کسی خاص معیار پہ پورے اترنے والے طلبہ کو دوسروں پر برملا سبقت دی جائے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴