اپریل ۲۰۲۴

چند دن پہلے اپنے کمرے میں بنی چھوٹی سی لائبریری کی صفائی کرتے وقت اچانک میری نگاہ اس کتابچے پہ پڑی۔یہ کتابچہ موٹی سی کتاب کے نیچے دبا ہوا تھا۔میں نے آہستہ سے اسے نکالا۔ فرنٹ کور پر علامہ یوسف القرضاوی کے نام پر میری نگاہ تھم سی گئی۔اتنے بڑے مصنف، مدبّر اور قابل احترام لیڈر کاکتابچہ! میرے منہ میں پانی آنے لگا۔جیسے وہ کتابچہ نہیں، گلاب جامن ہو۔خیر ہمیں گلاب جامن سے کیا لینا دینا۔ہم جیسے بھوکے قارئین کو تو صرف اچھی کتابوں کا ہی حرص رہتا ہے۔میں نے الماری کے پٹ کھلے چھوڑتے ہوئے بیڈ پر پھیلی کتابوں کو ہٹا کر جگہ بنائی اور بیڈ کے کارنر پر بیٹھ گئی۔یہ کتابچہ محض 43 صفحات پر مشتمل تھا۔
’’چلو اچھا ہے، پل بھر میں پڑھ لوں گی۔پھر کروں گی باقی کی صفائی۔‘‘ میں نے خود کو کہتے ہوئے ساتھ کمرے میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی کتابوں کو بھی مخاطب کیا تھا،جو منت بھرے انداز میں مجھ سے واپس الماری میں صفائی کے ساتھ رکھنے کی گزارش کررہی تھیں۔ ان کی گزارش کو میں نے اس طرح نظر انداز کیا جیسے بلّی دودھ پیتے وقت آنکھ بند کرکر ہمیں نظرانداز کرتی ہے۔
یہ کتابچہ مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے پبلش کیا گیا تھا،اور اس کی اشاعت 1995 ءمیں ہوئی تھی۔میں حیران ہوئی،اتنی پرانی کتاب!
پرانی کتابیں عموماً کچھ گاڑھی اردو میں لکھی جاتی تھیں،اس لیے مجھے کچھ خاص پسند نہیں آتیں یا یوں کہوں کہ سمجھ میں ہی نہیں آتیں، لیکن یہ کتاب مجھے کچھ منفرد لگی،اس کا انداز ، الفاظ نہایت سادہ اور عام تھے، میری دلچسپی بڑھی، میں کتاب پکڑے صفحے پلٹنے لگی۔
یہ کتاب لفظ بہ لفظ بغور پڑھنے کے قابل ہے ویسے، اور ظاہر ہے میں یہاں ساری باتیں بیان بھی نہ کرسکوں۔ میں وہی لکھ رہی ہوں جو مجھے اسے پڑھ کر سمجھ آیا۔
اس کتابچےمیں مولانا نے مسلم نوجوانوں کو سات نصیحتیں کی تھیں۔میں غور سے پڑھنے لگی۔
پہلی نصیحت تھی’’امتیاز اور تخصّص کا احترام‘‘، تخصّص کہتے ہیں specialization کو۔کسی چیز میں ماہر ہونا۔ اور امتیاز کہتے ہے Discrimination کو۔ایسا کام جس میں آپ ماہر نہ ہوں،جس کاعلم نہ ہو،اس معاملے میں نہ پڑنا۔جیسے کوئی وکیل کسی بیمار کا چیک اپ نہیں کرسکتا،اسی طرح کوئی غیر علم والا کسی کو اپنے دل یا کم علمی کی مدد سے کوئی فتویٰ نہیں دےسکتا۔جس طرح بیمار کے چیک اَپ کےلیے ایک ڈاکٹر ہی کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح مسئلے کے حل کےلیے بھی کسی جاننے والے کی ہی ضرورت ہوگی۔یہاں مولانا نے کئی علماء دین کا نام لےکر جیسے امام مالکؒ، خلفاء راشدینؓ، حضرت سعیدبن المسیبؒ وغیرہ کی مثالیں دےکر بتایا کہ کس طرح وہ کثیر علم رکھنے کے باوجود بھی فتویٰ دینے سے ڈرا کرتے تھے اور کثرت سے مغفرت کی دعائیں کرتے تھے۔
دوسری بات ہے علم کا حاصل کرنا فرض بھی ہے اور دینِ اسلام کی ضررت بھی ہے۔مولانا کہتے ہیںکہ موجودہ دور میں مسلمان اور ان کے مخالفین کے درمیان سخت مقابلہ چل رہا ہے۔ایسے وقت میں اگر کوئی خلوص و گہرائی کے ساتھ دین و دنیا کا علم حاصل کررہا ہے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ وہ عبادت اور جہاد میں لگا ہوا ہے۔ میں پڑھ کر کافی متاثر ہوئی۔ لکھاوٹ کا انداز، لفظوں کا سحرانگیز استعمال۔مجھے یہ لگ رہا تھا یہ الفاظ سیدھے روح میں اتررہے ہیں،اور روح ان کرشماتی الفاظ سے تازگی حاصل کررہی ہو۔
میں صفحہ پلٹتی اورپڑھتی گئی۔ وہاں دوسری نصحیت میری منتظر تھی، جس کا نام تھا ’’مُتقی اور اعتدال پسند رہ نما‘‘،یہاں مولانا گفتگو فرماتے ہیں کہ مسلم نوجوان اپنے لیے رہ نماکس طرح پسند کرے؟ کن خصوصيات کو ترجیح دے؟مسلمان بننے کے بعد ہر مسلم کو رہ نما کی ضرورت ہوتی ہی ہے،اور ظاہر ہےمسلم شخص کی رہ نمائی کوئی عام شخص تو نہیں کرسکتا،اس لیے مولانا نے اس شخص کو رہ نما بنانے پر زور دیا ہے جو علم کی گہرائی کے ساتھ تقویٰ اور اعتدال کی راہ پر گام زن ہو۔آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ علماء دھواں دھار تقریریں کرکے، جذباتی انداز میں چیخ کر، آنسوؤں سے رورو کر اپنے علم کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں۔ان کے مواد میں کوئی تحقیق نہیں ہوتی، کوئی سچائی ہمیں نہیں دکھائی دیتی،ان کے علم کی دلیلیں کتاب و سنّتِ رسولؓ سے کسی شرمیلی دوشیزہ کی طرح پردہ کرتی نظر آتی ہے،لیکن ہمارے نوجوان ان کے جذباتی انداز کو سچ مان کر ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔اسی کو اصل دین سمجھ کر دین کے حقیقی کاموں سے کنارہ کر لیتے ہیں۔جس سے نوجوانوں کے جذبات تو ٹھنڈے پڑتے ہیں، لیکن علم کی اصل پیاس بجھ نہیں پاتی۔ان نوجوانوں کےلیے ضروری ہےکہ وہ ایسے علماء کو اپنا رہ نما بنائیں جو علم کے ساتھ ساتھ عمل والا بھی ہو،اور جس کے وجود میں تقویٰ کی رمق دکھائی دیتی ہو۔تقویٰ دراصل حقیقی علم کا پھل ہوتا ہے، کیوں کہ اللہ قرآن میں خود فرماتا ہے:
’’حقیقت یہ ہےکہ اللہ کے بندوں میں صرف علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الفاطر : 27)
دوسری خصوصيت جو ایک رہ نما میں ہونی چاہیے،وہ ہے اعتدال کا ہونا۔ اعتدال لفظ عدل سے نکلا ہے۔ایسا رہ نماجو عدل کرنا جانتا ہو۔ہم دیکھتے ہیںکہ کئی علماء بہت سارے دینی معاملات میں سختی و شدت پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہیں،اور کئی علما ءبلاوجہ ڈھیل دیتے ہیں۔ وہ ناجائز چیزوں پر بھی اپنے فتووں کا جادو کرکے اسے جائز بنادیتے ہیں، جب کہ ہم جانتے ہیںکہ اسلام نہ شدت پسند ہے نہ آزاد۔ اسلام کی اصل شکل ہی اعتدال ہے۔ وہ لوگوں کو آسانی بھی مہیا کرتا ہے اور احتیاط کے نام پر اللہ کے بندو ںکی زندگی جہنم بھی نہیں بناتا ہے۔ ہمیں ایسا ہی رہ نمااپنے لیے ڈھونڈنا ہوگا،جو اسلام کی روشنی میں عملی زندگی میں پائے جانے والے بگاڑ کو روکنے کی ہمت رکھتا ہو۔
’’کتنی منفرد باتیں تھیں ناں مولانا کی!‘‘ میں سوچنے لگی۔مجھے پڑھ کر بہت مزہ آرہا تھا۔ منفرد باتیں مجھے ہمیشہ سے بہت ہی دل چسپ لگتی تھیں،اور مولانا نے جس طرح ایک آئیڈیل لیڈر کا نقشہ کھینچا، میری نگاہوں کے سامنے جماعت اسلامی ہند کے صدر سید سعادت اللہ حسینی صاحب کا نورانی چہرہ گھومنے لگا تھا۔ ایسا لگا جیسے مولانا نے یہ باتیں ان ہی کو نظر میں رکھ کرلکھی ہیں۔ میں سعادت اللہ حسینی صاحب کےلیےلمبی صحت مند زندگی کی اور مولانا کےلیے مغفرت کی دعا مانگتی آگے پڑھنے لگی۔
وہاں تیسری نصیحت منتظر تھی،جس کانام تھا ’’دشواریاں نہیں، آسانیاں‘‘، مجھے یہ نصیحت کافی پسند آئی۔ مولانا فرماتے ہیںکہ مسلم نوجوانوں کو غلو (جس کے معنی زیادتی کے ہیں)اور سختی سے خود کو الگ رکھنا چاہیے۔نوجوانوں کو اپنے وجود میں اعتدال اور نرمی پیدا کرنی چاہیے۔ آج کے نوجوان مستقبل کے لیڈرز ہیں،ان کا ہر عمل دینِ اسلام کی فلاح کے لیے ہوگا،تو جب بھی انھیں زندگی میں سختی اور نرمی یا آسان اور مشکل عمل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتو وہ آسانی اور نرمی کو ہی منتخب کریں،کیوں کہ یہ رسولﷺ کی سنّت ہے۔ موجودہ دور میں جب کہ اسلام پر عمل کرنا نہایت مشکل بنادیا گیا ہے، ان حالات میں یہ ہمارا فرض ہےکہ ہم لوگوں کو وہ آسانیاں بتائیں جو اللہ نے ان کےلیے دین میں رکھی ہیں،تاکہ وہ اسلام کے نور سے خود کو چمکا سکیں۔
چوتھی نصیحت بڑی دل فریب اور حیرت انگیز ہے،اور وہ ہے ’’اچھائی و دانائی کی راہ‘‘، ہم جس کام کے لیے نکلے ہیں وہ ہے اقامت دین کا فریضہ۔ یہ کام انبیاء کا کام ہے،تو ظاہر ہے اسے کرنے کے لیے بھی انبیاءکرام کا طریقہ ہی استعمال کرنا ہوگا۔ اقامت دین کی راہ میں کس طرح کا رویہ اختیارکیا جائے؟ اس کےلیے قرآن آپﷺ کو مخاطب کرکے کہتا ہے:
’’اے نبی! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو، حکمت اور عمدہ نصیحت کےساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔‘‘ (سورۃالنحل: 125)
یہ آیات بتاتی ہیںکہ لوگوں کو دین کی طرف تلخ باتیں، قیامت اور جہنم کا ڈر یا ترش الفاظ نہیں لےکر آسکتے،بلکہ ان لوگوں کو حق کی راہ پر لانے کےلیے صرف ایک چیز کارآمد ثابت ہوسکتی ہے اور وہ ہے بہترین اخلاق سے کی گئی گفتگو۔ موجودہ ماحول میں امت کے نوجوانوں کو ہندوستانی بھائیوں سے مباحثہ کےلیے اس طریقے کو اپنانے کی ضرورت ہے۔یہی وہ طریقہ ہے جس سے موسیٰ کے خدا نے اسے فرعون سے مخاطب ہونے کی تاکید کی تھی۔اوپر کی آیات میں بہترین اندازسے گفتگو کرنے کی اللہ نے تلقین نہیں کی ہے، بلکہ حکم دیا ہےکہ جتنا ہوسکے اتنا بہتر طریقہ اختیار کیا جائے۔ یہاں یہ بات پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اللہ نے کفار کے لیے اتنےبہتر طریقے سے مباحثے کا حکم دیا ہے اور ہم لوگ مسلمان بھائیوں سے کس طرح کا سلوک کرتے ہیں؟ ان کی کوتاہیوں، گناہوں کو دیکھ کر خود ہی حاکم بن کر انھیں دوزخ میں جانے کا فرمان سنادیتے ہیں۔ان کے گناہوں کو قیامت کی نشانیاں قرار دےکر نفرت آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں ،جب کہ ہم کوئی عام لوگ نہیں ہیں،ہم اقامت دین کا فریضہ لےکر اٹھے ہیں،ہماری تو ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں اور ہم زیادہ احتیاط کے مستحق ہیں۔ میں خیالوں کو جھٹکتے آگے کی سطروں پر نگاہ دوڑانے لگی۔بہت ساری مثالوں کے ذریعے مولانا نے دین کی تبلیغ کےلیے نرم اور بہترین اخلاق کا کس طرح استعمال کیا جائے؟ اس بارے میں بتایا تھا۔
پانچویں نصیحت بھی مجھے کچھ کچھ چوتھی نصیحت جیسی ہی لگی۔خیر، میں پڑھنے لگی۔وہاں ’’دعوت اور گفتگو کے آداب‘‘ لکھا تھا۔دعوت کا کام گفتگو کے آداب سیکھنے کے بغیر ممکن نہیں ہے،اور سب سے پہلے اسلام کی دعوت کا حق دار دعوت دینے والے کے گھر والے ہوتے ہیں۔اگر وہ مشرک ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اعلیٰ اخلاق و احترام کے ساتھ انھیں دین کی دعوت دینی چاہیے۔اس دعوت کا طریقہ اللہ نے سورۂ مریم میں ابراہیمؑ کو نمونہ بناکر بتایا ہے کہ کس طرح انھوں نے اپنے والد سے احترام کے ساتھ مثالی گفتگو کی تھی۔مومن کے اعلیٰ اخلاق کےسب سے پہلے محتاج اس کاگھر، خاندان اور پڑوسی ہوتے ہیں۔آپ نے وہ حدیث تو سنی ہوگی جس میں آپ ﷺ نے فرمایا :
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا، بڑوں کی عزت نہیں کرتااور علماء کا حق نہیں پہنچاتا۔‘‘
اسلام ایک مکمل مذہب ہے۔یہاں چھوٹے بڑے ہر کسی کے حقوق کو دوسرے کا فرض بناکر پیش کیا گیا ہے،تاکہ حقوق بھی پورے ہوجائیں اور فرض بھی ادا ہوجائے۔ اس لیے دعوت کے کام کےلیے لوگوں کے حقوق کو امانت سمجھ کر ادا کرنا ایک مسلمان پر فرض قرار دیا گیاہے۔
’’افف!‘‘ چھٹی نصیحت واقعی دل چسپ تھی۔اتنی گہرائی سے، اتنی اہم بات کو مولانا نے بتایا تھا کہ میں ان کی گہری سوچ کی داد دیئے بنا نہ رہ سکی۔اس نصیحت کا نام تھا ’’عام لوگوں میں گھل مل کر رہو!‘‘، جی! نام جتنا سادہ ہے مطلب اتنا ہی آسان ہے،اور کرنا اتنا ہی مشکل۔ آج کے نوجوانوں نے اپنے سامنے افلاطون کے مثالی جہاں کا خواب سجا رکھا ہے۔جہاں ہر کوئی پرفیکٹ ہوگا،جس میں ہر چیز خود بہ خود ہوگی،غریبی خود بہ خود ختم ہوجائےگی، ظلم و فساد خود بہ خود مٹ جائےگا، رشوت خوری خود بہ خود اس جہاں فانی سے رخصت ہوجائےگی وغیرہ،لیکن ہم جانتے ہیںکہ ایسا ممکن نہیں ہے۔کسی کو یہ کام ختم کرنے کے لیے آگے تو آنا ہوگا،لیکن کیا وہ ’’کوئی‘‘ آسمان سے آنے والا ہے؟ نہیں ناں۔تو پھر ظاہر ہے یہ کام کرنے کےلیے ہمیں خود کو آگے بڑھانا پڑےگا،اور اس کے لیے ہمیں افلاطون کا خیالی غبارہ پھوڑ کر حقیقت کی زمین پر تشریف لانا ہوگا۔گلیوں میں، غریبوں کے درمیان بیٹھ کر ان کے مسائل سننے ہوںگے،ان کی مدد کےلیے امیر لوگوں سے نکلی زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے استعمال کرکے ان کی مدد کی اسکیمیں بنانی ہوںگی۔یہ کام ملت کے نوجوانوں کے کرنے کے کام ہیں،کیوں کہ تاریخ گواہ ہے چاہے عیسیٰؑ کے حواری ہوں یا محمدﷺ کے صحابہؓ، شروعات میں غریب طبقہ ہی سب سے پہلےاسلام کی طرف راغب ہوتا ہے۔ہمیں ان کی مدد کرکےان کی توجہ اپنی طرف کھینچنی پڑےگی۔یہ کام آسان کام نہیں ہے۔اس کے لیے مولانا مسلم نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں:
’’نوجوانو! اپنی قوم کو چھوڑ کر صرف اپنی ذات کو اپنی توجہ کا مرکز نہ بناؤ۔‘‘ بگڑتے حالات میں کم زور طبقے کو مسلم نوجوانوں کے سہارے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر نفع بخش اجتماعی کام کو بہترین عبادت میں شمار کرتا ہے۔یہ کام کسی کو دیکھ کر مسکرا کر بات کرنا بھی ہوسکتا ہے یا راستے سے پتھر ہٹانا جیسا معمولی کام بھی ہوسکتاہے۔جس کی جتنی سکت ہو، جتنا وقت ہو، جتنی فراغت میسر آئے؛ اس کام کی طرف دھیان دینا ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے۔
ساتویں و آخری نصیحت میں مولانا نے تین نصیحتیں کی ہیں۔پہلی ہے لوگوں کو ان کی غلطیوں کے لیے معاف کرنا،ہم جانتے ہیںکہ انسان نور سے نہیں سڑی ہوئی مٹی سے بنا ہے،اس کی فطرت میں گناہ کرکے پلٹ آنا ہے۔لغزش تو انسان کے باپ آدم سے بھی ہوئی تھی،لیکن اللہ نے انھیںمعاف کردیا۔یہ ہمارا کام ہےکہ ہم لوگوں کی غلطیوں اور گناہوں پر انھیںمعاف کردیا کریں،ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑدیں۔اگر کسی سے کوئی گناہ سرزرد ہوچکا تو اسے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے دیں۔اسے ہمت و حوصلہ دے کر واپس صحیح راستہ دکھائیں۔ہم لوگوں کو صحیح راستہ دکھانے کےلیے ہی اس دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔
دوسری نصیحت بڑی شان دار تھی۔ لوگوں کے باطن کا فیصلہ نہ کریں۔ہمیں اللہ نے لوگوں کے ظاہر کا فیصلہ کرنے کا اختیا دیا ہے، لیکن دلوں کی باتیں اللہ ہی جانتاہے،اس لیے وہ اللہ پر ہی چھوڑ دیں۔اگر کوئی ہم سے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کررہا ہے اور دل میں ہمیں لگ رہا ہےکہ وہ ہمیں نا پسند کرتا ہے تو دل کی حالت کو اللہ پر چھوڑ دیں اور اس کی خوش اخلاقی کا بہترین بدلہ دیں۔
تیسری اور آخری نصیحت مجھے کھانے کے بعد کھائےجانے والے اس میٹھے کی طرح لگی جسے آخر میں تھوڑا تھوڑا مزے لےکر اہتمام سے کھایا جاتا ہے،اور اس آخری نصیحت کا نام ہے ’’جج مینٹل نہ بنیں!‘‘دنیا میں کئی لوگ گناہوں سے گھرے ہوئے ہیں، اور جو لوگ دین دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ انھیں اُن نگاہوں سے دیکھتے ہیں ،جیسے وہ چور ہیں اور یہ حضرات پولیس،جب کہ قرآن اور آپﷺ کی سیرت ہمیں جج مینٹل نگاہوں سے اور ان گناہ گاروں سے نفرت کرنے سے منع کرتی ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے جہاں کم زوروں کو شفقت و محبت کی نگاہ سے دیکھا، وہی گناہ گاروں کو بھی رحم کی ہی نگاہ عنایت فرمائی۔ وہ رحم جو ڈاکٹر کی آنکھوں میں جھلکتا ہے ،جب وہ مریض کی حالت پر غور کرتا ہے۔ اچھا ڈاکٹر ہمیشہ مریض سے محبت اور مرض سے نفرت کرتا ہے۔اس کی ساری فکر یہ ہوتی ہےکہ وہ کس طرح اپنے مریض کی جان اس مرض سے آزاد کرے۔ہمیں بھی اللہ کے گناہ گار بندوں کو ان ہی نگاہوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔اللہ کے رسول ﷺ کا وہ قول تو آپ کو پتہ ہی ہوگا،انھوں نے فرمایا تھا:
’’اپنے بھائی کے مقابلے میں شیطان کے مددگار نہ بنو!‘‘
ہم دراصل اپنے بھائی کے گناہوں کی لسٹ دیکھ کر ان پر لعنت بھیج کر اپنا دامن ان سے الگ کر لیتے ہیں،اور شیطان اس آسانی کا فائدہ اٹھاکر اس بھائی کو مکمل دبوچ لیتا ہے۔میرے ذہن میں سوال آیاکہ پھر ہمیں اب کیا کرنا چاہیے؟ مولانا کو جیسے میرے ذہن میں امڈنے والے سوال کا علم برسوں پہلے ہی ہوچکا تھا۔میں نے سطریں پڑھی۔وہاں جواب مسکراکر مجھے دیکھ رہا تھا،جس کاعام الفاظ میں مطلب یہ تھاکہ جب تک انسان موت کی آغوش میں نہ چلا جائے، تب تک اس کے پاس راہ راست پر لائے جانے کا وقت ہوتا ہے۔اللہ نے تو عمر فاروقؓ جیسے انسان کو معاف کرکے انھیں دین کا خلیفہ بنالیا تھا ،جو تلوار لےکر نعوذباللہ آپؓکو قتل کےارادے سے نکلے تھے۔اللہ تو وہی ہے ناں،وہ پھر آج بھی ان گناہ گار بندوں کو معاف کرکے انھیں دین کی وہ سمجھ بھی عطا کرسکتا ہے ،جو شاید ہمیں بھی نہ نصیب ہو۔بس ضرورت ہے ان لوگوں کو اللہ کی راہ کی طرف واپس لانے کی۔مجھے یاد آیا کہ ایک دانش مند نے کسی موقع پر کیا خوب کہا تھا کہ تاریکی پر لعنت بھیجنے سے زیادہ بہتر ہے کہ ایک شمع جلادو۔وہ راستے کو روشن کردے گا، کیوں کہ لعنت بھیجنے سے نہ راستہ روشن ہوگا نہ کسی کو فائدہ ہوگا، بلکہ عین ممکن ہےکہ ہماری لعنتیں ان لوگوں کو اسلام سے اور دور کردےگا،اور شیطان انھیں مکمل اچک لےگا۔
یہ نصیحتیں ان سارے مسلم نوجوانوں کےلیے ہیں، جن کا دل اللہ کی محبت سے بھرا ہے،جو حالات بدلنے کی چاہ رکھتے ہیں،اور سب سے بڑھ کر وہ لوگ جن پر اللہ نے رحم کیا ہے،کیوں کہ دینِ اسلام کی ہدایت اور اس پر چلنے کی نصیحت ملنے سے زیادہ اہم کوئی اور شے نہیں ہوتی۔
یہ کتاب مکمل ہوچکی تھی۔میں کتنی دیر بیٹھی مولانا کی کہی باتوں پر سوچتی میکانیکی کیفیت واپس لائبریری سیٹ کرنے لگی تھی۔واقعی کتابچہ ہوتو ایسا! جو پل بھر میں انسان کی سوچ کا زاویہ بدل دے۔یہ کتابچہ مختصر الفاظ میں بہت گہرائی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ میں نے اپنی ادنیٰ سی کوشش کی ہے کہ جو مجھے سمجھ آیا وہ میں آپ کو بتاسکوں۔اگر آپ اسے خود پڑھیںگے تو اس کی گہرائی سے موتیوں کی شکل میں اور کئی معلوماتی باتیں معلوم کرسکیںگے،تو پڑھیے گا ضرور!

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴