اپریل ۲۰۲۴

زندگی کی بھاگ دوڑ میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اس کی باگ ڈور ہاتھ سے چھوٹ گئی ہے، نہ ہی پکڑی جا رہی ہے اور نہ سنبھالی جا رہی۔ کامیابی جوتا قدم چوم نہیں رہی اور ناکامی کا جوتا موزہ ہمیں پہننا نہیں ہے۔ بس، اس ڈگر پر رُکی ہے کہ زیادہ جاگو تو لگتا ہے کہ بے وجہ جی رہے ہیں اور بے فکر ہو کر سوجاؤ تو خواب میں ہی کوئی آکر طعنہ دے رہا ہوتا ہے کہ کیسی بے شرمی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں۔‌زیادہ کھاؤ پیو ، خوش رہو تو رشتہ دار ٹوک دیتے ہیں کہ کیا بات ہے آج کل بڑی کِھلی کِھلی لگ رہی ہو اور جب کم کھانا شروع کرو تو گھر والے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ تم کو اس عمر میں کون سا روگ لگ گیا ہے جو تم نےکھانا پینا چھوڑ دیا ہے؟
سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ زندگی چاہتی کیا ہے مجھ سے؟ فکر مند رہو تو زندگی سنجیدہ ہونے نہیں دیتی اور بے فکر رہو تو وہ مجھے سنجیدگی سےلیتی ہی نہیں ہے ۔عجیب کش مکش ہے، لیکن غلطی زندگی کی نہیں اور میں اپنی مانوں گی نہیں۔ایسا‌لگتا ہے نہ رند ہے نہ ہی مے خانہ، بس ساقی ہی ساقی ہیں۔
پھرصدا آتی ہے :

واعظ مجھے جنت کا طلب گار نہ کر
جو بس میں نہیں تیرے وہ اقرار نہ کر

اب ان واعظ صاحب کو کیا پتہ ہمارے بس میں تو فون چلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ،لیکن اقرار بھی نہیں کر سکتے۔ بس آپ سمجھ لیجیے کہ لائف بالکل ٹریفک لائٹ کی طرح ہوئی ہے یا تو لال بتی جلتی ہے یا پیلی ، اس کے علاوہ فون کی سفید بتی منہ پر جلتی رہتی ہے، مطلب کوئی اعتدال کی راہ ہے ہی نہیں۔
اوہ ہاں ! فون چلانے سے یاد آیا کہ زندگی پھنسی کہاں ہے؟ کہاں کا جام اس کے ہاتھ لگا ہے ؟ خیر، تھوڑی چھان بین کے بعد معلوم ہوا یہ تو آج کل جام نگر میں امبانی کے حویلی کا جام پی رہی ہے، جیسا کہ آپ سب بھی زیادہ نہیں تھوڑا بہت ملوث تو ہوں گے۔ پتہ ہی ہوگا یہ وہی جام نگر والا امبانی جس کے بیٹے کی پری ویڈنگ پورے ملک میں تہلکہ مچا رکھاہے، جی وہی امبانی جس نے ہندوستان کو سب سے غریب کہنے والی ریحانہ کو 72 کروڑ پھینک کر بندر کا ناچ نچوا دیا اور اس کا ناچ دیکھ کر عقل یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ گاؤں میں مداری والے کو ہم پانچ روپے پھینکتے تھے تو گاندھی جی کے بندر اس سے اچھا ناچ کر چلے جاتے تھے۔ اور تو اور، 72 کروڑ پانے کے باوجود بھی وہ صاحب کی بہو رادھیکا مرچنٹ کا نام غلط لے کر چلی گئی۔ آپ یقین کریں! ہمارے یہاں کے بچوں کو پانچ روپیہ پکڑا کر کچھ بولنے کے لیے کہہ دیا‌ جائے ناں تو وہ ایک سیکنڈ میں 72 دفعہ صحیح بولیں گے۔
خیر،پیسہ ہے تو سب صحیح ہے۔ اب دیکھیے! تینوں خان کو امبانی نے سکون سے کھانے پینے نہیں دیا ،وہاں بھی ان تینوں کو کام پر لگا دیا۔ خیر وہ ریحانہ سے اچھا ہی ناچے ہوں گے۔ بہرحال ،مجھ سے ایک کہنے لگی کہ ہم کو صحیح سے جی ڈی پی کا فل فارم نہیں معلوم ہوگا اور نیشا امبانی نے ہندوستان کی جی ڈی پی سے زیادہ اپنے گلے میں ہار پہن رکھا ہے۔ میں نے کہاکہ بہن !تم اس جی ڈی پی وغیرہ میں پھنسی رہو گی اور دوسرے سی یو ٹی نکال کر چلے جائیں گے۔ ابھی ایک دُکھ سنا کر چپ ہی ہوئی کہ دوسری حسرت بھری نگاہوں سے بول پڑی کہ بہن! اصل ’’خواتین کا عالمی دن ‘‘تو اُن لوگوں کا ہے، ہم تو بس اس دن کے پروگرام میں شرکت کر کے تالی ہی بجا سکتے ہیں۔ میں نے کہا سڑی شکل درست کرو اور لڑکی ہو تو لڑکی ہی بنو، جام نگر کی خاتون بننے کا خواب نہ دیکھو۔ ابھی نصیحت کرنا بند ہی کیا تھاکہ تیسری ٹپک پڑی،کہنے لگی یار! دوسروں کی کامیابیوں پر تالی بجاتے اپنے ہاتھ سے اپنی کامیابی کی لکیر ہی مٹ گئی ہے۔
خیر، ایسی سہیلوں کا کوئی علاج نہیں، لیکن بتاتی چلوں کہ میں نے بہت سی کامیاب شخصیات پر تالیاں بجائی ہیں، لیکن امبانی کی شخصیت پر حسرت اور رشک کر کے تالی نہیں بجایا اور اگر بجا بھی دیں گے تو کون سا چالیس پچاس کروڑ مل جانا ہے۔
ہاں! سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ اس پری ویڈنگ میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں کو دعوت پر مدعو کیا گیا تھا، ایک ہم ہیں شادی کے دن اپنے پچاس رشتے داروں میں سے چار پانچ کو بھول جائیں تو پوری زندگی طعنہ دے دے کر تباہ کر دیتے ہیں، اب انھیں کیا پتہ کہ ہر کوئی امبانی نہیں ہے۔
خیر، یہ رہیںجام نگر کے امبانی کے بیٹے اننت امبانی کی شادی سے پہلے کی تقریبات، جن پر انھوں نے اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے بے تحاشہ دولت لُٹائی اور ایک ہمیں ہاسٹل نگر میں ہماری خوشی کے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ ہاسٹل میں کپڑے دھلنے کے بعد خالی رسی مل جائے ، ڈائننگ ہال میں بریانی کے ساتھ میٹھا مل جائے ، اتوار کووقت پر دھوبی بھائی مل جائیں ، پی ایچ ڈی والی علامہ باجیوں کی طرف سے ایک ہلکی سی مسکراہٹ مل جائے،ہاسٹل سے باہر گھومنے کے لیے دس بیس منٹ مزید وقت مل جائے ، مارکیٹ کا چکر لگاتے ہوئے تین ساڑھے تین سو والی اچھی کُرتی مل جائے اور پھر واپسی میں کرایہ کے لیے حجت کیے بغیر سکون سے ایک رکشہ مل جائے۔
اب آپ بھی حسرت کر رہے ہوں گے ہماری زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر، پھر حسرت نہیں حیرت کیجیے! ہم قناعت پسند لوگوں پر اور اللہ نے جتنا دے رکھا ہے اُس پر شکر منائیے ، زندگی کی باگ ڈور کو پکڑتے ہوئے ٹریفک لائٹ کی گرین بتی کے ساتھ اعتدال میں رہتے ہوئے دھیرے دھیرے کامیابی کی طرف بڑھیے اور بڑھتے رہیےکہ

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

8 Comments

  1. Nuzhat Fatima

    صحیح ہے ، زندگی کی مصروفیت اور بے فکری دونوں ہی کبھی کبھی بے معنی سے للگتے ہیں ۔۔۔۔۔

    اچھی تحریر ہے ۔۔۔ کچھ مزے دار سی ۔۔۔ جیسے کبھی کبھی زندگی بھی مزے دار سی محسوس ہوتی ہے ۔ ۔۔۔✨

    Reply
  2. انوار سلیم

    تبصرہ خوب لکھا ،مستیاں سر مستیاں سب کو ذکر کر دیا اور آئندہ لکھنے کے لئے ایک عنوان بھی فراہم کر دیا “ہاسٹل کی خالی رسی”

    “دوسروں کی کامیابی پر تالیاں بجانے اپنے ہاتھ سے اپنی کامیابی کی لکیر مٹ گئ”
    پرسنلی مجھے یہ جملہ پسند آیا

    Reply
  3. اقدس بن احسن

    ماشاء اللہ بہت خوب تحریر لکھی ہے آپنے پڑھ کر سچ کا خلاصا سامنے آ گیا۔۔۔جو ہم اپنی مصروفیات میں کبہی کبہی نظرانداز کر دیتے ہیں ۔۔۔

    Reply
  4. سعد

    بہت خوبصورت انداز میں لکھی گئی دلچسپ تحریر ہے!
    جیو اور خوب جیو تم، ❤️

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴