اپریل ۲۰۲۴

یہ کہانی ہے صبر کرنے والوں کی،دل کی خواہش کے آگے خداکے حکم کو مقدم رکھنے والوں کی،یہ کہانی ہے ٹوٹے دل کےبعدخودکو جوڑ کر ہیرا بننےوالوں کی،یہ کہانی ہے زندگی سے لڑکر جیتنے والوں کی،یہ کہانی ہے زائنہ اور عالیانہ کی۔
اس کہانی کو لکھنے کا مقصد لڑکیوں کے کچھ ایسے مسائل پر بات کرنی تھی ، جن کے بارے میں بات کرنا یا ان مسائل کو اہم جاننا معاشرے میں ضروری نہیں سمجھا جاتا۔جیسے جیسے آپ اس کہانی کو ھادیہ میں قسط وار پڑھیںگے ، آپ کو ان کرداروں کے درمیان اپنی کہانی گھومتی نظر آئےگی۔
یہ کہانی ہےان لڑکیوں کے لیے، جن کی زندگی میں پڑھائی کی اہمیت ہر چیز سے زیادہ ہوتی ہیں ۔ان کا بچپن کا خواب ہوتا ہےکہ وہ پڑھ لکھ کر دنیا کی اصلاح کے لیے فعال رکن بنیں،لیکن زندگی کی الجھنو ں میں،کم عمر کی شادی کے درمیان ، ان کا خواب آنکھوں کی پتلیوں کے درمیان ہی ٹوٹنے لگتا ہے،جس خواب کو سچ مان کر ایک معصوم لڑکی شدت سے بڑے ہونے کا انتظار کرتی ہے۔اسے بڑے ہونے پر پتہ چلتا ہےکہ اس کے خوابوں کی لوگوں کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔تو اس وقت وہ کیا کرے؟ کیا وہ خواب دیکھنا چھوڑ دے؟ یا اللہ کی نافرمان بندیوں کی طرح اس کے بنائے قوانین کی پاسداری کرنا چھوڑدے؟
یہ کہانی ہمیں ان سارے سوالوں کے جواب دےگی کہ کس طرح کچھ حوصلے اور ہمت کو ساتھی بناکر اندھیری راتوں کے راہی خدا کے قانون کے دائرے میں اپنے خواب کو کچھ اس طرح پورا کریں کہ نا کسی کا حق تلف ہو نہ ہمارا دل چھلنی۔
اس کہانی میں گھومتے کرداروں کی زندگیاں پڑھ کر آپ محّبت کے اصل چہرے سے واقف ہوںگے۔محبت،جسے سارے جذبات میں سب سے طاقت ورر جذبہ سمجھا جاتا ہے،جس کے صحیح وقت پر ہونے سے انسان مکمل ہوجاتا ہے اور غلط وقت پر ہونے سے ڈوب کر رہ جاتا۔اس جذبہ کو یہ کہانی قرآن اور نفسیات کی روشنی میں بتائےگی کہ کیا غلط وقت پر کی گئی کسی شخص کی محبت سے واپس آنا ممکن ہے؟ کیا کسی جاذبِ نظر شخص کو دل سے نکال کر آگے بڑھا جاسکتا ہے؟کیا خدا کے ساتھ باوفا بننے کے لیے محبوب کے لیے بے وفا بنا جاسکتا ہے؟
یہ کہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو زندگی کی خوب صورتی کو، اپنی الجھنو ںاور ناکام محبتوں کی وجہ سے دل برداشتہ ہوکر دیکھتاہے۔یہ کہانی آپ کی آنکھوں پر لگی گرد کو صاف کرےگی۔یہ آپ کو بتائےگی کہ اللہ کی بنائی ہوئی دنیا کا مقصد کسی محبوب کو حاصل کرنا نہیں ہوتا۔کچھ محبتیں امتحان ہوتی ہیں۔وہ امتحان کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں،کچھ محبتیں ادھوری رہ جاتی ہیں،اور وہ ادھوری محبت اللہ کے آپ کے ساتھ مکمل محبت کی وجہ بنتی ہے۔

٭ ٭ ٭

حیدرآباد ،جسے نوابوں کا شہر کہا جاتا ہے۔اس کی پررونق سی فضا ،ڈھیروں اشتہا انگیز خوشبوؤں سے مہک رہی تھی۔ یہ شہر کھانے کے شوقین لوگوں کا شہر کہلاتاہے،بلکہ ہندوستان کے دوسرے خطوںسے کئی لوگ حیدرآباد صرف منہ کےذائقے کے ہاتھوں مجبور ہوکر آتے ہیں۔
اس خوبصورت شہر میں سورج اپنی چلچلاتی دھوپ لیے نکل آیا تھا۔اس شہر کے مصروف علاقے میں لال باغ روڈ پر بنے آر جےکالج کے اطراف مئی کی دوپہر ہرسو بکھری ہوئی تھی۔ وہ اپنے کالج سے تھکی ہاری باہر نکلی۔ آج اس کا ایچ ایس سی کا آخری پیپر تھا۔مہینوں سے کی گئی محنت کا آخری دن۔ اطراف میں کئی خوش شکل چہرے تھکن اور خوشی کے ملے جُلے تاثرات لیے گزر رہے تھے۔
’’ افف! کتنی گرمی ہے آج۔‘‘ وہ سیاہ عبایا پر سنہرا دوپٹہ پہنے، کندھے پر بیگ لٹکائے پسینے سے تر گلابی چہرے پر تھکن لیے چلتی ہوئی بنچ پر پیچھے ٹیک لگاکر بیٹھ گئی۔وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے نیپکین سے چہرے پر آیا پسینہ بھی وقفے وقفے سے صاف کررہی تھی۔اس کا چہرہ گرمی سے لال ہورہا تھا۔ ابھی اسے بس کا انتظار بھی کرنا تھا۔ طلبہ کے رش میں راستہ بناکر پیچھے سے فریحہ اسے آوازیں دیتی اس کی طرف آنے لگی۔
“یار زائنہ !کب سے آوازیں دے رہی ہوںمیں۔‘‘ وہ اس کی طرح سیاہ عبایا اوڑھے گندمی رنگ چہرے پر ہلکی ناراضگی سجائے ہانپتے ہوئےساتھ بنچ پر بیٹھ کر سکون کا سانس لیا۔ وہ اس کو سکون سے بیٹھتا دیکھ کر گھورتی ہوئی کہنے لگی:
’’میرا چھوڑو، اپنابتاؤ! یہ تم نے کیا حرکت کی تھی یار کلاس میں؟ مطلب چِٹ لے کر آگئیں،آئی کانٹ بلیواِٹ یار۔میں چیٹینگ کروادیتی، کافی نہیں تھا؟ چِٹ لے کر آنے کی کیا ضرورت تھی۔خود کے ساتھ ساتھ مجھے بھی تم نے آج پھنسوادینا تھا۔‘‘ وہ اس پر آتے ہی برس پڑی تھی۔اطراف سے طلبہ کا تیز بولتا ہوا شور سنائی دے رہا تھا۔وہ اس کےکان کےقریب ہوکر کہنے لگی:
’’یار! تم تو پورا وقت صرف اپنا پیپر ہی لکھتی ہو۔ مجھے کب بتاتی؟ اور مِس راضیہ کو تو اللہ پوچھے، مطلب ایک چِٹ کے لیے اتنا ذلیل کیا مجھے، کیا تھا، بچی پاس ہوجاتی۔ مستقبل میں اچھی ڈاکٹر بن جاتی۔ دعائیں دیتی انھیں، لیکن نہیں ۔
پورے ایک گھنٹے کے لیے پیپر لے لیا میرا۔‘‘ وہ ڈرامائی انداز میں روتی ہوئی شہادت کی انگلی دکھاتی کہہ رہی تھی۔زائنہ کو ہنسی آنے لگی۔
’’ اتنی منّت کی میں نے تب واپس کیا پیپر۔ اللہ ان پر بھی وقت لائےگاجب اپنے کلینک میں انھیں میں نے ایک گھنٹے تک انتظار نہ کروایا تب بتانا مجھے۔‘‘وہ پیر لمبا کیے آرام سے ٹیک لگاکر بیٹھی،سامنے بہتے رش کو دیکھ رہی تھی۔بسوں کے ہارن کا شور اور طلبہ کی آوازوں نے عجیب سی گہماگہمی پیدا کردی تھی۔اس کی بات سن کر وہ جواباًاسی کے انداز میں کہنے لگی:
’’ہاں ہاں! بالکل کیوں نہیں۔ مِس راضیہ کو مستقبل میں پاگل پن کا دورہ پڑنے والا ہے ناں ،تبھی تو وہ تیرے پاس علاج کے لیے آئیںگی کہ فریحہ بی بی! میں اپنی جان لینے سے تو رہی ،تم ہی میرا علاج کرکے مجھے اس جہاں فانی سے کوچ کروادو۔ ‘‘وہ تمسخرانہ انداز میں اس کی نقل اتارنے لگی۔
’’زائنہ! بس کرو یار۔ویسے میں نہ بھی بنو ںڈاکٹر، لیکن میری بہن !تجھے میری دوستی کی قسم تو نہیں چھوڑے گی انھیں۔تیرے پاس کبھی وہ آئیں گی ناں ،اپنا یا اپنے بچوں کا علاج کروانے ۔تو تونے میری خاطر انھیں ایک گھنٹہ، پوراایک گھنٹہ بٹھانا ہے انتظار میں۔‘‘ وہ اس کی باتیں سن کر ہنستی جارہی تھی۔ایک اس کے بابا کو اور دوسرا اس کی عزیز سہیلی فریحہ کو اس کے ڈاکٹر بن جانے پر اتنا یقین تھا، جتنا شاید اسے خود بھی نہیں تھا۔
’’اوکے یار! تیری دوستی کے لیے کچھ بھی۔‘‘ وہ کچھ اور کہتی کہ اس کی بس کا ہارن سنائی دینے لگا۔اس نے نگاہیں موڑ کر سڑک کی طرف دیکھا۔اس کی بس رینگتی ہوئی آتی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ دونوں اپنے بیگ کے اسٹریپ کاندھے سے لٹکائےاٹھنے لگیں۔

٭ ٭ ٭

وہ بچپن ہی سے پڑھائی میں بہت ذہین تھی۔ شاید اسی وجہ سے اس کے بابا نے اسے ڈاکٹر بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ بچپن کی خواہش گزرتے وقت کے ساتھ ذہن میں پختہ ہونے لگی تھی۔ اب اس کی زندگی کا ہر کام اس ایک خواہش کے مدار میں گھومنے لگا تھا۔ کچھ سال پہلے اس کی ماں کے گزر جانے کے بعد اس کے بابا اور شانزے آپی ہی اس کو اس غم سے نکال کرواپس زندگی کی طرف لے کر آئے تھے، لیکن ماں کی کمی کا احساس بابا کے بے شمار لاڈ نے بھی پورانہیں کیا۔ ان کاتڑپتا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہمیشہ آجاتا جب وہ سوچتی کہ اس کی ماں کو ہارٹ اٹیک آیا تھا، اور وہ ان کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکی۔ اس خیال نے اس کے ڈاکٹر بننے کے جنون کو بھڑکایا تھا۔ اب اس کی زندگی کا مقصد صرف ڈاکٹر بننا تھا،تاکہ وہ کسی اور کی ماں کے لیے کچھ کرسکے،لیکن کچھ مقصد کبھی کبھار ادھورے رہ جاتے ہیں۔ ادھورے خواب کی طرح۔ ادھوری محّبت کی طرح۔ جس کو شاید بنایا ہی ادھورا رہنے کے لیے جاتا ہے،کیوں کہ کچھ خواب ادھورے رہ کر بھی مکمل ہوجاتے ہیں، کیوں کہ ہر ادھورا خواب کسی نئے مکمل خواب کی بنیاد ہوتا ہے۔

٭ ٭ ٭

اس ادھورے خواب کی دنیا سے بہت دور ممبئی شہر میں ،حسین رات کا چمکتا ہوا چاند کا عکس سمندر کی لہروں میں اتر آیا تھا۔ ممبئی ،جسے خوابوں کا شہر کہا جاتا ہے،جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر زندگی دیکھنا چاہتے ہو تو اسے دیکھ لو، کیوں کہ یہ ہندوستان کے امیر سے امیر اور غریب سے غریب شخص کی رہائش گاہ تھا۔ یہاں حیدرآباد کے برعکس صبح فجر سے ہی سڑکوں پر ہلچل سی مچ جاتی۔یہ سمندوروں سے گھری خوابوں کی نگری تھی۔
اس خوابوں کی نگری کے اوسط علاقے میں بنی دو منزلہ عمارت کی بالائی منزل پروہ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی ،کاندھے تک کمفرٹر اوڑھے، فون کان سے لگاکرلَب سُکیڑتی دوسری طرف کی بات سُن رہی تھی۔کمرے میں کھڑکیوں سے آتی نیم روشنی پھیلی تھیں۔ اس نیم روشنی میں بھی اس کی نیلی آنکھوں میں سمندر کا نیلا پانی تیرتا دکھائی دے رہا تھا،لیکن اس سےبے پرواہ وہ صرف اس بندے کی بات سن رہی تھی جو ان نیلی آنکھوں میں بہنے والے نیلے پانی کی وجہ تھا۔ وہ اس کی بات سن کر جذباتی انداز میں کہنے لگی:
’’فاخر! مجھے تم پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے۔‘‘ اس کی آواز بہت آہستہ تھی،ایسی جیسے کوئی رازکی بات کہہ رہی ہو۔
’’میں صرف تم سے یہ کہہ رہی ہوں کہ صرف رشتہ بھیج دو۔بھلے سے شادی تم اپنی پڑھائی اور جاب کے پانچ، سات سال بعد کرلینا، لیکن پلیز! ابھی صرف رشتہ بھیج دو۔‘‘ اس کا انداز منت کرنے والا تھا۔
’’میں اب اپنے لیے آنے والے رشتوں کو نہیں روک سکتی ہوں۔‘‘ اس کی آواز رونے سے بھیگ رہی تھی۔تبھی فون سے پریشان سی کم عُمر مردانہ آواز سنائی دی۔ کمرے کی کھڑکیاں شاید کھلی رہ گئی تھیں، جن سے ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے آرہے تھے۔اس نے ایک نظر کھڑکیوں کی طرف دیکھا،اوردوسری نظر سامنے لگے وال کلاک پر،جو رات کے تین بجنے کی اطلاع دے رہاتھا۔وہ پچھلے ایک گھنٹے سے اس کے ساتھ فون پر تھی۔اسے خیال آیا۔
’’عالیانہ !میں تمہاری پریشانی سمجھ رہا ہو ںیار،لیکن یقین کرو ،میں تم سے زیادہ مجبور ہوں۔ میرے بس میں ہوتا تو میں رشتہ کیا ابھی تم سے نکاح کرلیتا،لیکن میں کیا کروں ؟کس طرح اپنے والدین سے کہوں کہ میرا رشتہ میری تینوں بڑی بہنوں سے پہلے کروادیں؟‘‘ اس کی پریشان سی آواز عالیانہ کے دل کو اپنی مُٹھی میں لے رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ وہ واقعی اس سے بہت محبت کرتا ہے لیکن وہ محبت ہی کیا جس میں مجبوریاں نہ ہوں۔ جو کسی آزمائش سے نکل کر سُرخ رو نہ کی گئی ہو۔
’’تو پھر میں کیا کروں فاخر؟ممی میرا رشتہ کروانا چاہ رہی ہیں،اور اب مجھے نہیں لگتا وہ میری سنیں گی۔ میں تمھارے علاوہ کسی سے نکاح نہیں کرسکتی فاخر!تم سن رہے ہو ناں؟ میں نہیں کرسکتی۔‘‘وہ دبی دبی آواز میںچیختی ،بے چین ہوتی سانسوں کے ساتھ اٹھ بیٹھی تھی۔ اس کے اٹھتےہی اس کے لمبے بال کسی آبشار کی طرح اس کے کمر پر گرنے لگےتھے۔کمرے میں چھت سے لگے پنکھےکےگھومنے کی ہلکی ہلکی آوازیں بھی آرہی تھیں۔

’’عالیانہ پلیز !میری بات سنو۔ میں تمھیں کبھی بھی کسی اور سے شادی نہیں کرنے دوں گا۔ تم بس مجھ پر بھروسہ رکھو۔ میں بہت جلد اپنی امی سے بات کرنے والا ہوں، اپنے رشتے کے بارے میں۔ تم بس مجھ سے وعدہ کرو، تو کہیں بھی اپنا رشتہ پکا ہونے نہیں دوں گی۔ عالیانہ !میں کسی کا بھی نام تمھارے نام کے ساتھ برداشت نہیں کرسکتا۔ ‘‘ اس کا یہ جذباتی سا محبت بھرا انداز سن کر عالیانہ کو خود میں دوبارہ خون اترتا محسوس ہوا۔ محبوب کے منہ سے محبت کا اعتراف ،رات کے اس پہر کسی خوبصورت خواب کی تعبیر جیسا لگتا ہے۔ اسے اپنے خواب کی تعبیر ملتی دکھائی دینے لگی تھی۔
’’تم سچ کہہ رہے ہونا فاخر! تم بات کروگے انکل آنٹی سے؟‘‘ وہ بے یقینی سے پوچھنے لگی۔ اسے ابھی بھی اس کی بات پر مکمل یقین نہیں آیا تھا۔وہ دو سال بعد اپنے ماں باپ سے اس کے بارے میں بات کرنےکے لیے مان ہی گیا تھا۔ اس کی محّبت نے اس سے منواہی لیا تھا۔
’’ہاں! چاہے وہ میرے منہ پر تھپڑ ہی کیوں نہ ماریں، لیکن میں ان سے ضروربات کروں گا، لیکن تب تک ،تم پلیز اپنے ماں باپ کو سمجھاؤ،وہ تمھاری شادی کی ضد چھوڑ دیں ابھی۔ اس زمانے میں اتنی جلدی لڑکیوں کی شادی کون کرتا ہے عالیانہ؟‘‘ وہ حیران ہوا تھا یا تعجب کا اظہار کررہا تھا۔اسے سمجھ نہیں آیا۔
’’ہمارے خاندان میں اس عمر میں ہی شادی ہوتی ہے لڑکیوں کی۔تم چھوڑو ان باتوں کو۔ بس تم جلد سے جلد اپنے ماں باپ کو لے کر میرے گھر آجاؤ۔باقی میں سنبھال لوں گی۔‘‘ اپنی محبت پر یقین آنے سے اس کی بے ترتیب دھڑکن درست ہو نے لگی تھی۔
’’تم فکر مت کرو !میں جلد آؤں گا۔ کل کالج میں ملتے ہیں پھر۔آرہی ہو نا ںکل ؟ پھر پیپر ہے ،کالج آنا ممکن نہیں ہوگا۔‘‘وہ پوچھ رہا تھا۔
’’کل تو کوئی لکچر نہیں ہوگا۔‘‘وہ سوچتےہوئے کہنے لگی۔
’’لیکن میں آجاؤں گی۔‘‘اس نے جیسے فرمان سنایا۔وہ اس کی کہی کسی بات سے انکار نہیں کرسکتی تھی۔محبت انکار کرنے کہا ںدیتی ہے بھلا۔
’’اوکے، پھر کل ملاقات ہوگی۔ تم کسی بات کی فکر نہ کرو ،میں تمھارے ساتھ ہوں۔‘‘ اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔کسی اپنے کا یہ کہنا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں، دل کو سکون سا محسوس کرواتا ہے۔ اسے لگا اب واقعی کچھ بُرا نہیں ہوسکتا۔کوئی اب اس سے فاخر کو جداا نہیں کرسکتا ،کیوں کہ اب وہ خود اس کے ساتھ کھڑا تھا،لیکن ہر ساتھ کا پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ہر ساتھ پورا ہونے کےلیے نہیں بنایا جاتا۔کچھ ساتھ ادھورے رہ جاتے ہیں۔کچھ ہاتھ ادھورے رہ جانے کےلیے ہی ملائے جاتے ہیں،کیوں کہ کچھ ادھورا سا ساتھ ادھورارہ کر بھی مکمل ہوجاتا ہے، کیوں کہ ہر ادھورا ساتھ کسی نئے مکمل ساتھ کی بنیاد ہوتا ہے۔

٭ ٭ ٭

عالیانہ کی فاخر سے ملاقات گیارہویں جماعت کی پہلی مِس رابعہ کی انگلش کی کلاس میں ہوئی تھی۔ جب کلاس انٹروڈکشن میں اس نے اپنا انگریزی میں تعارف کروایا تھا۔
’’میرا نام فاخر احمد۔‘‘ یہ گہری گھمبیر سی آواز سن کر پین سے نوٹ بک پر بور سے انداز میں لکیریں کھینچتی عالیانہ کے ہاتھ تھم سے گئے تھے۔ اس نے نگاہیں پوری پھیر کر لڑکوں کے رومیں کھڑے اس لڑکے کی طرف دیکھا۔ دراز قد، دبلا سا، دل کش سی آنکھوں والا ،گندمی رنگت کا وہ لڑکا کسی ساحر کی طرح پہلی نگاہ میں ہی اس کے دل پر قبضہ جماکر بیٹھ چکا تھا۔ وہ نگاہیں جھکانا بھول گئی۔ وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی۔کچھ چہروں پر نگاہیں ٹھہرنے کے بعد پلٹنا بھول جاتی ہیں۔ جیسے اس دنیا میں اس چہرے کے علاوہ دیکھنے لائق کچھ بھی نہ بنا ہو۔ اس کی نگاہوں کو بنچ پر بیٹھتے ہوئے اس ساحر نے بھی خود پر محسوس کرلیا تھا۔ اس نے اس نگاہوں کے تعاقب میں اس کی طرف دیکھا اور عالیانہ کو لگا جیسے اس کے جسم کا سارا خون اس ایک نگاہ کے صدقے نکل گیا ہو۔کلاس میں دیگر طلبہ اپنا تعارف کروارہے تھے، اور وہ ان سے بے پرواہ ایک دوسرے پر نگاہیں جمائےبیٹھے تھے، جیسےوہ نگاہیںجھکانا بھول گئے تھے،اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا، کبھی کیفے ایریا میں ان کی نگاہیں ٹکراتیں تو کبھی کلاس میں ملاقات ہوجاتی۔ دھیرے دھیرے بات چیت ہونے لگی اور پھر راتوں کو لمبی لمبی فون کالز۔ یہ سب سلو پوائزن کی طرح اتنا آہستہ آہستہ ہونے لگا کہ کب وہ دونوں محّبت کے اس جال میں گِھر گئے انھیں احساس تک نہیں ہوا۔ کچھ چیزوں کا احساس نہ ہونا بھی بہت کچھ احساس کرواجاتا ہے۔ کچھ احساس وقت پر نہ ہوں تو روگ بن جاتے ہیں۔ایسا روگ جس کا علاج اس دنیا میں شاید ملنا ممکن نہیں ہوتا۔

٭ ٭ ٭

حیدرآباد شہر کے پوش علاقے میں سات منزلہ بلڈنگ کے پہلے فلور پر اس کی غصے میں ڈوبی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ نیلے سوٹ پر دائیں طرف دوپٹہ ڈالے بالوں کی ڈھیلی چوٹی بنائے اپنے کمرے میں بیڈ پربیٹھی سامنے آپی سے غصے میں کہہ رہی تھی۔
’’آپی ! آپ باباکو سمجھائیں، وہ میرے ساتھ ایسا نہ کریں۔‘‘ شہد رنگ کی آنکھیں ڈھیروں خفگی لیے سامنے بیٹھی آپی کو بے چینی سے دیکھنے لگیں۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بابا کو خود جاکر انکار کردے۔ وہ اس کےلیے گرما گرم دوپہر تھی۔ اتنی گرم کہ اسے لگ رہا تھا کہ اس کے سارے خواب اس گرمی میں جھلس کر رہ جائیں گے۔ وہ پچھلے دو گھنٹے سے آپی کے ساتھ ایک لاحاصل بحث میں مصروف تھی۔ آپی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب وہ اس کو کس طرح راضی کرے۔ انھوں نے پیار سے اسے بہلانا چاہا۔
’’میری جان! تم سمجھ نہیں رہی ہو۔بابا نے تمھاری شادی کا فیصلہ تمھاری بھلائی کےلیے ہی لیا ہے۔‘‘ اس سے چار سال بڑی اس کی شادی شدہ بہن لال چوڑی دار فراک ، ہاتھوں میں تین سونے کے کنگن پہنے جو شاید اس کی ماں کی نشانی تھی، گلے میں لمبی چین اور کان میں جھمکے لٹکائے،وہ نقش ونگار میں بالکل زائنہ جیسی ہی لگتی تھیں۔ صرف ان کی آنکھیں اس سے مختلف تھیں ،ان آنکھوں کا رنگ سیاہ تھا۔ جس میں اس وقت بہت اداسی بکھری تھی۔ وہ اپنی بہن کو سمجھانے کی ہر کوشش میں اب ناکام ہورہی تھی۔
’’آپی! ابھی میرا ایچ ایس سی مکمل ہوا ہے۔ابھی مجھے ڈاکٹر بننے کے لیے امتحان دینا باقی ہے۔اتنی سی عمر میں شادی کروانے میں میرا کون سافائدہ ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آتا۔‘‘ وہ دو گھنٹے سے سمجھائے جانے کہ بعد بھی سمجھ نہیں رہی تھی یا سمجھنا نہیں چاہ رہی تھی، شانزےکو سمجھ نہیں آیا۔ اس نے اداس سی سیاہ آنکھیں سرسری طور پر اطراف میں دوڑائیں۔
وہ دونوں اپنے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ یہ تین کمروں پر بنا خوبصورت سا فلیٹ تھا۔ اس کا کمرہ اس کی پرسنالٹی کی طرح بہت زبردست تھا۔ دائیں طرف بُک ریک بنا تھا، جس کے ساتھ ہی کھڑکی تھی،اور وہیں اسٹڈی ٹیبل رکھا تھا۔ بائیں طرف بیڈ اور کچھ فاصلے پر الماری ۔ دیواروں کا رنگ بھی پرپل اور ہلکا گلابی تھا ،جس پر سائنس کے کئی پوسٹرز ترتیب سے لگے ہوئے تھے۔ یہ کمرہ اس کی شخصيت کی عکاسی کرتا تھا۔ اس طرح اس کے خوابوں کو چھین کر شادی کے لیے منانا بہت برا لگ رہا تھا،لیکن مجبوری سی مجبوری تھی۔
’’زائنہ! بابا کو تمھاری فکر ہے۔تمھیں یاد ہے ناں ،ممی کے گزر جانے کے بعد بابا نے ہمارا کتنا خیال رکھا ہے۔تم سے کتنی محبت کرتے ہیں وہ۔اگر وہ تم سے تمھاری شادی کے بارے میں اجازت مانگ رہے ہیں تو اس میں بھی تمھارا کچھ فائدہ ہی سوچ رہے ہوںگے ناں۔‘‘ ان کی بات سن کر اس نے بے بسی سے سر جھٹکا ۔
’’ہر فائدہ دکھائی دینے والی چیز فائدہ مند ہی ثابت ہو ،یہ ضروری نہیں ،لیکن آپی کو یہ بات کون سمجھائے؟‘‘وہ من ہی من بڑبڑانے لگی ۔ کمرے میں کھڑکیوں سے باہر سڑک پر چلتی گاڑیوں کی آواز یں سنائی دے رہی تھیں۔اس علاقے میں گاڑیوں کا بہت شور سنائی دیتا تھا۔وہ دوبارہ بحث کرتی کہنے لگی:
’’آپی! بات محبت کی نہیں ہے ،آپ سوچیے، مجھے ڈاکٹر بننا ہے۔میں نے ساری زندگی ڈاکٹر بننے کاخواب دیکھاہے۔ساری زندگی اس خواب کو پورا کرنے میں لگا دی ، اب جب میری منزل میرے آنکھوں کےسامنے کھڑی ہےتو آپ لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیںکہ میں پیچھے ہٹ جاؤں۔‘‘اپنے خواب کے کرچی کرچی ہوجانے کے خیال سے ہی وہ کانپ گئی تھی۔اس کاچہرہ گلابی ہورہا تھا۔آپی اور بابا ایسا سوچ بھی کیسےسکتے تھے؟
’’ہاں میں سمجھتی ہوں، لیکن زائنہ !پڑھائی کی کوئی عمر نہیں ہوتی ۔عیان بھی ماشااللہ ایم بی اے ہے۔اس کااپنا فیملی بزنس ہے۔وہ تمھیں پڑھنے سے نہیں روکے گا۔میں بابا سے خود کہوں گی کہ وہ تمھاری پڑھائی کی گارنٹی لیں گے۔‘‘ ان کی بات سن کر وہ تلملا کر رہ گئی۔آخر یہ عیان کون ہوتا تھا اسے پڑھنے کی اجازت دینے والا؟وہ چڑ کر کہنے لگی:
’’ آپی آپی !! آپ سمجھتی کیوں نہیں ہیں؟شادی کے بعد دس ہزار ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔اس میں کون ڈاکٹر بن سکتا ہے؟‘‘اس کا انداز سر پیٹنے والا تھا،جسے سن کر آپی ایک پل کو چُپ سی ہوگئیں اوراس کا چہرہ دیکھنے لگیں۔وہ ماتھے پر بکھرے بالوں سے بے پرواہ ہتھیلی پر سر ٹکائے بیڈ پر پیر اوپر کیے ٹینشن میں چہرہ لٹکائے بیٹھی تھی۔ اسے اس طرح دیکھ کر وہ ہار مانتی اب جانے کےلیے اٹھی۔آپی نے دروازہ کی طرف جاتے ہوئے پلٹ کر اسے دیکھا۔ان کی سیاہ آنکھوں میں ڈھیروں کرب تھا۔ایسے جیسے وہ سمندر اپنے آنکھوں میں چھپائے بیٹھی ہوں۔
’’زائنہ ! اگر تم نے اپنے بابا کی آخری خواہش پر اپنی خواہش کو ترجیح دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہوتو،میں اور بابا جہاں تک ہوسکے ،تمھارا ساتھ ضرور دیں گے،لیکن اس کے بعد، اس گِلٹ کے ساتھ، کیا تم خوش رہ لوگی کہ تم نے اپنے بابا کی آخری سانسوں کا بھی لحاظ نہیں کیا؟‘‘یہ کہتے ہوئے انھیںمحسوس ہواکہ گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹکا ہے۔
’’سوچنا اس بارے میں۔‘‘ وہ بہتے آنسوؤں کو صاف کرتی وہاں سے چلی گئی،اور پیچھے ایک بے جان سے جسم کو لگا کہ کسی نے اس کے کانوں میں صور پھونک دیا ہو۔ایسا صور جسے سن کر ساری عالم انسانیت دوبارہ نیند کی آغوش میں چلے جاتی ہے۔اس کے دماغ میں آپی کا کہا ایک ایک جملہ ڈھول سے بھی تیز آواز میں گونج رہا تھا۔
’’بابا،بابا کو کیا ہواہے ؟‘‘ اسے لگا جیسے اسےسانس آنا بند ہوگیا ہو۔
’’آپی نے یہ کیوں کہا کہ بابا کی آخری خواہش ہے؟‘‘ اس کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں۔
’’میرے بابا! نہیں، میرے بابا کو کچھ نہیں ہوگا۔‘‘وہ ڈگمگاتے قدموں کےساتھ پلنگ سے نیچے اتررہی تھی۔
’’بابا کی آخری خواہش…میرے بابا!‘‘ آپی کے الفاظ گرم گرم سیسے کی طرح اس کے کانوں میں گھل رہے تھے۔وہ دروازے کی طرف بھاگنا چاہتی تھی۔ماں کی موت کا ایک ایک منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا۔وہ دروازے کے پاس پہنچ رہی تھی کہ اس کا پیر پھسلا۔
’’آآآں…بااابااا!‘‘ وہ اوندھے منہ زمین پر گر رہی تھی کہ پانی سے بھرا کانچ کا گلاس چھن کی آواز کے ساتھ ٹوٹا،اور اس کا سر زمین کو لگنےسے پہلے آپی کا ملائم ہاتھ اسے اپنی پیشانی پر رکھا محسوس ہوا۔
’’زائنہ!میری بچی ! ٹھیک ہو تم ؟‘‘ آپی پریشانی سے کہہ رہی تھیں۔گلاس کی کانچ ان کے ہاتھ میں لگی تھی، جس سے خون مسلسل رس رہا تھا۔وہ اس کی طرف دھیان دیے بغیر پریشان سی اپنی بہن کو دیکھ کر کہے جارہی تھیں۔
’’اٹھو!چوٹ تو نہیں لگی ناں تمھیں کہیں؟‘‘آنسو مسلسل ان کے آنکھو ں سے بہہ رہے تھے۔چھ مہینے سے جس بات کو انھوں نے راز سے بھی زیادہ سنبھال کر رکھا تھا، آج وہ راز کیسے ان کے منہ سے نکل گیا، انھیں پتہ نہیں چلا تھا۔
’’آپی آپی !میرے بابا…‘‘وہ کہہ رہی تھی۔یکایک اس کی آنکھوں کےسامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اسےدور سے آپی کی آوازیں محسوس ہورہی تھیں۔جیسے وہ چیخ رہی تھیں،اسے جگا رہی تھیں،شاید اور بھی بہت کچھ کہہ رہی تھیں،اور پھر ان کی آواز اسے دور جاتی محسوس ہوئی،بہت دور، پھر دھیرے دھیرے اس کی ساری دنیا اندھیرے میں ڈوب گئی۔
(جاری…)

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

3 Comments

  1. عنایہ صدیقی

    ماشاءاللہ
    بہترین کہانی
    اگلی قسط کا انتظار ہے ہمیں اب۔

    Reply
  2. Adrees jahan

    ماشااللہ زبردست انداز ہے آپکا لکھنے کا۔بہت خوب

    Reply
  3. آمنہ شیخ

    دلچسپ کہانی ہے۔جلدی جلدی وسط بھیجیے۔انتظار مشکل ہے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴