اپریل ۲۰۲۴
زمرہ : ٹی ٹائم

احتیاط

امیر جماعت اسلامی (پاکستان) سراج الحق کی بیٹی کا علاج پنڈی کے کسی ہسپتال میں چل رہا ہے ، امیر جماعت اسلامی اپنی بیٹی کی تیمار داری کے لیے بس پر گئے، جب کہ جماعت اسلامی کی طرف سے امیر کو لینڈ کروزر دی گئی ہے ، اس کو اپنے ذاتی مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا ، پھر بچوں کو بہن کی تیمار داری کے لیے بھیجا تو بھی بس پر ، جب رات بارہ بجے تک سیٹ نہیں ملی تو معتمد امیر جماعت نے کہا کہ میں گاڑی پر چھوڑ آتا ہوں ۔
امیر محترم نے کہاکہ یہ گاڑی میری نہیں ہے ،یہ جماعت اسلامی کے بیت المال کی ہے ، اگر شوریٰ گاڑی کے استعمال کا اجازت دے بھی دے تو میرے پاس پٹرول کے پیسے نہیں ۔
ڈرائیور نے کہا :
’’امیر محترم،  پٹرول ہم خود ڈلوا لیں گے ۔‘‘
تو امیر محترم کا جواب سن کر میرا سر فخر سے اونچا ہو گیا، امیر نے فرمایا :
’’یہ گاڑی میری نہیں ہے ،امیر جماعت اسلامی کی ہے ، کل جب میں امیر نہیں رہوں گا تو میرے پاس کوئی گاڑی نہیں ہوگی ، اس لیے میں نہیں چاہتا کہ بچوں کی عادتیں خراب ہوں ، ان کو بس پر ہی جانے دو۔‘‘

– زبیر منصوری

دعا

ایک بار ایک شخص نامور مزاح نگار حسین شیرازی صاحب کے پاس آیا اور زار و قطار روتے ہوئے ان کےپاؤں میں گڑ پڑا، اور گڑ گڑاتے ہوئے کہنے لگا:
’’ میری شراب چھڑوادیں۔‘‘
شیرازی صاحب نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا:
’’ فکر نہ کرو، میں دعا کروں گا ۔‘‘
اس شخص نے اسی طرح روتے ہوئے التجا کی:
’’ صرف دعا نہیں کرنی، آپ کو کسٹم والوں سے بات بھی کرنی ہے۔ ‘‘

حسنِ اطوار

‏جب عثمانی ترکوں کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس کے سامنے قہوہ اور سادہ پانی پیش کرتے،اگر مہمان پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا وہ سمجھ جاتے کہ مہمان کو کھانے کی طلب ہے ،پھر وہ بہترین کھانے کا انتظام کرتے،اور اگر وہ قہوے کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ جان لیتے کہ مہمان کو کھانے کی حاجت نہیں ہے۔
اگر کسی گھر کے باہر پیلے رنگ کے پھول رکھے نظر آتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض موجود ہے، آپ اس مریض کی وجہ سے گھر کے باہر شور شرابہ نہ کریں اور عیادت کو آسکتے ہیں،اور اگر گھر کے باہر سرخ پھول رکھے ہوتے تو یہ اشارہ ہوتا کہ گھر میں بالغ لڑکی ہے۔ لہٰذا، گھر کے آس پاس بازاری جملے نہ بولے جائیں،اور اگر آپ پیغامِ نکاح لانا چاہتے ہیں تو خوش آمدید.
گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل (گھنٹی نما) ہتھوڑے رکھے ہوتے،ایک بڑااور ایک چھوٹا۔اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ہے، لہٰذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا،اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے۔ لہٰذا، اس کے استقبال کے لیے گھر کی خاتون دروازہ کھولتی تھی۔
عثمانی ترکوں کے صدقہ دینے کا انداز بھی کمال تھا،کہ ان کے مال دار لوگ سبزی فروش یا دکان داروں کے پاس جا کر اپنے نام سے کھاتہ کھلوا لیتے تھے،اور جو بھی حاجت مند سبزی یا راشن لینے آتا، دکان دار اس سے پیسے لیے بغیر اناج ا ور سبزی دے دیتا تھا ،یہ بتائے بغیر کہ اس کا پیسہ کون دے گا؟کچھ دنوں بعد وہ مال دار پیسہ ادا کر کے کھاتہ صاف کروا دیتا۔
اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپ کی عمر کیا ہے؟تو وہ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی ہے،بلکہ یہ کہتا:
’’بیٹا ،ہم حد سے آگے بڑھ چکے ہیں۔‘‘

آسان

‏ایک گوری میم نے مجھ سے پوچھا کہ تمھارا نام کیا ہے؟
میں نے کہا:
’’ مستنصر۔‘‘
کہنے لگی:
’’ بڑا ہی مشکل نام ہے۔‘‘
میں نے کہاکہ تم لوگ انگریزی میں جو کہتے ہو ناں’’ Must Answer ‘‘
بس وہی ہے۔
کہنے لگی:
’’? Must Answer
یہ تو بہت آسان نام ہے۔‘‘

– مستنصر حسین تارڑ

کسی کے باپ میں اتنی ہمت نہیں

سابقہ نوکری پر ایک شخص سے شناسائی ہوئی، جس کا وزن خاصا زیادہ تھا ،اور جو کھانے پینے کا انتہائی شوقین تھا۔دوست یار اسے چھیڑتے مگر مجال ہے جو اس پر کوئی اثر ہو۔وہ اسی شوق اور جوش سے طرح طرح کے کھانے تناول کرتا،یہاں تک کہ اس کی گفتگو کا محور بھی اکثر مختلف پکوان یا ریسٹورنٹس کے تقابل کے گرد ہوتا۔ان ہی دنوں رمضان آیا تو یہ دیکھ کر مسلم و غیرمسلم سب حیران رہ گئے کہ وہ شخص جو ہر تھوڑے تھوڑے وقفے میں کھائے بنا رہ ہی نہیں سکتا تھا، اس نے نہ صرف پورے روزے رکھے بلکہ تراویح سمیت دیگر عبادات کا بھی بھرپور اہتمام کیا۔
دھیان رہے کہ ان دنوں انگلینڈ میں روزوں کا دورانیہ کم و بیش اٹھارہ سے بیس گھنٹے کا ہوا کرتا تھا۔کئی مسلم ایسے تھے جنھوں نے گھبرا کر روزے قضاء کیے مگر میرے اس بھائی کے ماتھے پر ایک شکن نظر نہ آئی۔ایک دن کسی نے اس کے طویل روزے رکھنے پر حیرت کا اظہار کیا اور چھیڑا کہ چھپ کر تو نہیں کھاتے؟ اس نے خلاف عادت اسے گھورا اور قدرے غصے سے جواب دیا کہ مجھے کھانے کا بہت شوق ہے اور میں کھانا صرف اللہ ہی کے کہنے پر چھوڑ سکتا ہوں،ورنہ کسی کے باپ میں اتنی ہمت نہیں کہ مجھے کھانے سے روک سکے۔
میں اس کا یہ جواب سن کر بے اختیار مسکرا دیا،کیسا دل چسپ مگر مضبوط تعلق ہے اس کا اپنے معبود سے!؟

– عظیم الرحمان عثمانی

جوتا

 ہجوم نے رخ بدلا اور سر گنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے،ایک نے منہ پر تارکول مل دیا، دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لیے آگے بڑھا، مگر پولیس آگئی اور گولیاں چلنی شروع ہوئیں۔
جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہو گیا، چنانچہ مرہم پٹی کےلیے اسے سر گنگا رام ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔

– سعادت حسن منٹو

چرچل کی تقریر اور ٹیکسی ڈرائیور

ایک بار سر ونسٹن چرچل کو تقریر کرنے جلد سے جلد ریڈیو اسٹیشن پہنچنا تھا،اس لیے وہ ایک ٹیکسی میں سوار ہو کر ڈرائیور سے بولے:
’’ برٹش براڈ کاسٹنگ ہاؤس چلو!‘‘
ڈرائیور ان کی طرف دیکھ کر بےپروائی سے بولا :
’’ مجھے افسوس ہے، میں اس وقت یہ جگہ نہیں چھوڑ سکتا ،کیوں کہ ٹھیک نصف گھنٹے بعد مسٹر چرچل کی تقریر نشر ہوگی، جسے کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کرسکتا، میں اپنے وزیراعظم کی تقریر ضرور سنوں گا۔‘‘
چرچل نے یہ سنا تو بہت خوش ہوئے اور اسی عالم میں ڈرائیور کو ایک پونڈ انعام دیا۔ ڈرائیور نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور بڑے شگفتہ لہجے میں بولا :
’’ آپ انتہائی اچھے اور نیک انسان ہیں۔ چلیے! میں آپ کو چھوڑ آؤں، چرچل اور ان کی تقریر کو جہنم میں ڈالیے۔وزیراعظم کی تقریر تو ہوتی رہتی ہے، آپ جیسے نیک دل انسان تو کبھی کبھی ملتے ہیں۔‘‘

خط اور پگڑی

ایک بار شیخ سعدی سر پر پگڑی باندھے کهیں جا رهے تھے که راستے میں انھیں ایک گاؤں کا رهنے والا ملا۔اس نے شیخ سعدی کو روک کر ایک خط دیا،اور کها:
’’اسے پڑھ دیجیے!‘‘
شیخ سعدی خط پڑھنے لگے، مگر خط کی عبارت اس انداز میں لکھی گئی تھی کہ
پڑھ نہ سکے۔دیہاتی نے غصے میں آ کر کہا:
’’اتنی بڑی پگڑی سر پر باندھ رکھی ہے اور خط بھی نہیں پڑھ سکتے۔‘‘
شیخ سعدی نے اپنی پگڑی اس کے سر پر رکھی اور بولے:
’’لو اب تم خود پڑھ لو!‘‘

رسی

محترم جمیل جالبی صاحب کے یہاں ایک مرتبہ کسی صاحب نے فرمایا کہ رسی پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے ہوئے تھے۔صدیقی صاحب مرحوم نے فوراً ٹوکا کہ اس کو رسی نہیں ،الگنی بولتے ہیں۔ پھر جمیل صاحب سے مخاطب ہو کر بولے:
’’ رسی کو بلحاظِ استعمال مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ مثلاً: گھوڑے یا گھوڑی کو جب چرنے کےلیے چھوڑا جاتا ہےتو اس ڈر سے کہ کہیں بھاگ نہ جائے، اس کی اگلی ٹانگوں میں رسی باندھ دیتے ہیں، اسے’دھنگنا‘ کہتے ہیں۔ گھوڑے کو جب تھان پر باندھتے ہیں تو گلے اور پچھلی ٹانگوں میں جو رسیاں باندھی جاتی ہیں وہ’اگاڑی پچھاڑی‘ کہلاتی ہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوار جو رسی پکڑتا ہے وہ’لگام‘ کہلاتی ہے اور گھوڑا یا گھوڑے تانگے اور بگھی وغیرہ میں جُتے ہوں تو یہ رسی’راس‘ کہلاتی ہے۔ اس لیے پرانے زمانے میں گھوڑے کی خرید و فروخت کےلیےجو رسید لکھی جاتی تھی اس پر یہ الفاظ لکھے جاتے تھے:’یک راس گھوڑے کی قیمت،اور ہاتھی کےلیےیک زنجیر ہاتھی‘ استعمال ہوتا تھا۔ گھوڑے کو جب ٹریننگ کےلیے سائسں پھراتا ہے اور جسے’کاوا پھرانا‘ بولتے ہیں، اُس رسی کو جو سائیں اس وقت پکڑتا ہے اسے’باگ ڈور‘ کہتے ہیں۔ ‘‘
پھر مرحوم نے کہا کہ بیل کے ناک کے نتھنوں میں جو رسی ڈالتے ہیں اس کو ‘’ناتھ‘ بولتے ہیں۔ (اسی لیے ایسے بیل کونتھا ہوا بیل بولتے ہیں۔ اس کے بعد ہی بیل کولھو یا ہل وغیرہ میں جوتنے کے کام میں آتا ہے۔) اونٹ کی ناک میں’نکیل‘ ہوتی ہے اور کنویں سے بڑے ڈول کو یا رہٹ کو بیل کھینچتے ہیں اس میں جو موٹا رسا استعمال ہوتا ہے اسے’برت‘ یا’برتھ‘ بولتے ہیں۔
چارپائی جس رسی سے بُنی جاتی ہے اسے’بان‘ اور چارپائی کی پائنتی میں استعمال ہونے والی رسی کو’ادوائن‘ کہتے ہیں۔ پھانسی کےلیے استعمال ہونے والی رسی’پھندا‘ کہلاتی ہے۔

– اقتباس:نذر الحسن صدیقی کے خط سے ،اضافہ: علیم امتیاز

پچیس لفظوں کی کہانی
ـــــــــــــ تکبیرِاُولیٰ ـــــــــــــ

اذان ہوچکی تھی،وقت بہت کم تھا۔جلدی جلدی دیسی گھی میں ڈالڈاملایااور مسجد کی طرف لپکاکہ کہیں تکبیراُولیٰ نہ فوت ہوجائے۔

– احمد بن نذر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۴