عالمی یومِ پناہ گزین درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگ

عالمی یومِ پناہ گزین

عالمی یوم پناہ گزین ایک بین الاقوامی دن ہے جسے اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے اعزاز کے لیے نامزد کیا ہے۔یہ ہر سال 20 جون کو منایاجاتا ہے۔ تاکہ ان مہاجرین کی طاقت و ہمت کی داد دی جاسکے، جو تنازعات یا ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے آبائی ملک سے دربدر ہونےپر مجبور ہوئے ہیں۔ پناہ گزینوں کا عالمی دن ان کی حالت زار کے لیے ہمدردی اور افہام و تفہیم پیدا کرنے اور ان کی زندگیوں کی تعمیر نو میں مدد کرنے کا ایک موقع ہے۔
پناہ گزین وہ لوگ ہیں جو نسل، مذہب، قومیت، سیاسی موقف، یا کسی خاص سماجی گروہ کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے تنازعات، تشدد، قدرتی آفات، یا ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے آبائی ملک سے نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق
84 ملین افراد2021ء کے وسط تک جبری طور پر بے گھر ہوئے۔48ملین اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والے افراد ہیں، اور 4.4 ملین لوگ نئے ملک میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔
آج دنیا میں اسّی سے نوّے ملین افراد مسلح تنازعات، جنگی حالات، قحط اور نامناسب صورت حال یا انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں سے بچنے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر مہاجرت پر مجبور انسانوں کی اس بہت بڑی تعداد کا نصف حصہ بچوں پر مشتمل ہے۔
یہ ایک پریشان کن صورت حال بھی ہے کہ ہتھیاروں کی تجارت عالمی سطح پر بڑھ رہی ہے۔ اور یہی ہتھیار مسلح تنازعات میں شدت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے بھی معمول کی زندگی کو متاثر کر رکھا ہے۔ اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے زمین کے درجۂ حرارت میں اضافے کے علاوہ کورونا وائرس کی وبا نے بھی انسانوں میں مہاجرت کے رجحان کو تقویت دی ہے۔
دنیا میں پیش آنے والے سب سے بڑے مہاجرین کے بحران پچھلی دہائی میں، عالمی پناہ گزینوں کی آبادی دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ جب سے United Nation High Commissioner for Refugee UNHCR)نے دنیا کے تاریکین وطن کے بحرانوں پر نظر رکھنا شروع کیا ہے، دنیا بھر میں زبردستی بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد تشویشناک شرح سے بڑھ رہی ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمیشنر برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کی بنیاد پر سب سے بڑے مہاجرین کے بحران اور حالات یہ ہیں:

1۔ ملک اریٹیریا :

کی% 10 سے زیادہ آبادی سماجی اور سیاسی عدم استحکام اور تشدد کی وجہ سے پناہ گزینوں کے طور پر زندگی گزار رہی ہے۔ اس چھوٹے سے مشرقی افریقی ملک میں انسانی ضرورت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

2۔مرکزی افریقی جمہوریت:

2012ء کے اواخر سے، وسطی افریقی جمہوریہ کے لوگوں کو فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا ہے۔ جس سے 10 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ دسمبر 2021ءتک، جس میں 713,000 سے زیادہ پناہ گزین شامل ہیں ۔ 2020ءکے مقابلے میں 100,000 سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔

3۔ صومالیہ:

اچھی خبر یہ ہے کہ دنیا بھر میں صومالی پناہ گزینوں کی تعداد، پچھلے کئی سالوں سے، آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔2017 ءکے آخر میں، 986,000 سے زیادہ تھے۔اب 2020 ءکے آخر میں،ایک اندازے کے مطابق 790,000 ہیں۔ افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح، صومالیہ بھی خشک سالی اور موسمیاتی تبدیلی کے دیگر اثرات سے دوچار ہے۔ بہت سے صومالی پناہ گزینوں نے ایتھوپیا، کینیا اور یہاں تک کہ یمن کو محفوظ متبادل پایا ہے۔

4۔روہنگیا بحران:

اگست 2017 ءسے، 1.1 ملین سے زیادہ روہنگیا مہاجرین میانمار میں جاری تشدد سے اپنے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ کے نام سے جانے والے بے وطن روہنگیا میں سے بہت سے لوگ بے سروسامانی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

5۔یوکرین:

24فروری سے8 مارچ2022ء کے درمیان روسی حملے کے آغاز سے اب تک 20,11,312 یوکرینی باشندے پناہ گزین بن چکے ہے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں، یوکرین کے بحران نے ملک کو عالمی پناہ گزینوں کی آبادی کے لیے دوسرا بڑا ملک بنا دیا ہے۔25 اپریل 2022 ءتک، 5.2 ملین سے زیادہ یوکرینی باشندے ملک سے منتقل ہو چکے ہیں، تقریباً 3 ملین نے سرحد کے بالکل پار پولینڈ میں پناہ لی ہے۔

6۔ شام :

10سالہ شامی بحران کے تناظر میں کل عالمی پناہ گزینوں کی25%سے زیادہ آبادی عالمی تارکین وطن کا حصہ ہے۔ 2021 ءتک، 6.7 ملین شامیوں نے بنیادی طور پر لبنان، اردن، عراق، مصر اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ (جو اس وقت پناہ گزینوں کی سب سے بڑی میزبان کمیونٹی ہے)۔ لبنان میںکوئی باضابطہ کیمپ نہیں ہے، جس کی وجہ سے اس کی آبادی 10 لاکھ سے زیادہ شامی باشندوں کی 2,000 کمیونٹیز میں رہتی ہے، جن میں اکثر عارضی پناہ گاہیں ہوتی ہیں۔ تنازعات کے باعث 6.6 ملین سے زیادہ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے۔ اور انہیں دوبارہ آباد ہونے پر مجبور کیا گیا ہے۔ 2.98 ملین شامی تارکین وطن اب بھی مشکل اور محصور علاقوں میں ہیں۔

7۔افغانستان:

بدستور مہاجرین کے لیے سرفہرست ممالک میں سے ایک ملک افغانستان ہے۔ تقریباً 2.6 ملین مہاجرین پیدائشی طور پر افغان ہیں، اور یہ تعداد پچھلی چار دہائیوں کے دوران مسلسل اتار چڑھاؤ آئی ہے۔88 فیصد سے زیادہ افغان مہاجرین پڑوسی ممالک بھارت، پاکستان اور ایران میں مقیم ہیں۔

پناہ گزین کے معاملہ میں بھارت کا کردار

اس وقت بھارت میں افغان، بنگلہ دیش اور روہنگیا مہاجرین پنا لیے ہوئے ہے۔ UNHCR کے مطابق بھارت میں تین لاکھ سے زائد پناہ گزین موجود ہیں۔ بھارت کی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی نہایت غیر واضح اور غیر موافق ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کے 1951ء کے پناہ گزین کنونشن اور 1967ء کے پناہ گزینوں کی حیثیت سے متعلق پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔ بھارت مختلف ممالک اور خطوں کے پناہ گزینوں کے ساتھ مختلف رویہ رکھتا ہے۔ اس کے مختلف سلوک کی بنیاد یا تو پناہ گزینوں کے ممالک کیساتھ تعلقات ہوتے ہیں ،یا وہ اپنی داخلہ پالیسی پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ کس ملک کے باشندوں کو پناہ کے متلاشی کی حیثیت دینی ہے ،اور کس کو نہیں۔ مثال کے طور پر بھارتی حکومت تبت اور سری لنکا کے باشندوں کی مدد کرتی ہے ،مگر روہنگیا مسلمانوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرتی ہے۔
1980ء کی دہائی سے 2000ء کی دہائی تک سری لنکا سے آنے والے افراد کے لیے بھارت کے دو جنوبی صوبوں میں واقع حکومت کے زیر انتظام کیمپوں میں مقامی نظام تعلیم اور سکونتی سہولتیں مہیا کی گئیں۔ علاوہ ازیں 2019ء میں حکومت ہند نے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والے غیر قانونی غیر مسلم مہاجروں کے لیے حصول شہریت کی شرط کو بارہ سال سے گھٹا کر چھ سال کر دیا ہے۔

تبتی پناہ گزین، بھارت میں جینے کے لیے کوشاں

بھارت ،تبتی لوگوں کے لیے غیر معمولی طور پر فیاض رہا ہے۔ اس نے تبتیوں کو بھارت میں داخل ہونے، اور آمد کی پہلی لہر کے حوالے سے بستیوں، اسکولوں اور طبی سہولیات کو تیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس کے باوجود بھارت میں مقیم تبتیوں کی بھاری اکثریت ایک متعین قانونی حیثیت سے محروم ہے۔ وہ کسی بھی قانون کے لحاظ سے مہاجرین کے طور پر اہل نہیں ہیں۔
ہندوستان مہاجرین کی حیثیت سے متعلق 1951 ءکے کنونشن یا اس کے 1967 ءکے پروٹوکول کا فریق نہیں ہے۔ نہ ہی اس نے مہاجرین کے تحفظ کے لیے قومی قانون سازی کی ہے۔ پناہ گزین کے عہدہ کے بغیر، بھارت میں تبتیوں کو ملکی قانون کے تحت غیر ملکی سمجھا جاتا ہے، قطع نظر اس سےکہ وہ بھارت میں کتنے عرصے سے مقیم ہیں۔ ایک ہی وقت میں، چند تبتی بھارتی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ،اور زیادہ تر شہریت کے لیے نااہل ہیں۔
اس کے باوجود ایک مشاہدہ کیا جا سکتا ہے،کہ تبتی پناہ گزینوں نے کامیاب آباد کاری کی ہے، جس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بھارت ان کے ساتھ تصادم میں نہ آئے۔

یہاں چند نکات قابل غور ہیں:

سب سے پہلے، ان تبتی بستیوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد اس طرح کیا گیا تھا کہ تبتی ثقافت بھارت کی ثقافت کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو۔ یہ بھارت اور تبتی (جلاوطن) حکومت کا نظریہ تھا۔
دوسرا، ان کے قیام کے بعد سے دو دہائیوں کے عرصے میں، یہ بستیاں خود کفیل ہو گئیں۔ چونکہ تبتی بنیادی طور پر تجارت کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے مقامی آبادی کو سارا سال زرعی کاموں کے لیے رکھا جاتا تھا، جیسے کہ کاشت کاری، بوائی،کٹائی وغیرہ۔ اس کے باوجود پیدا ہونے والے روزگار سے فائدہ اٹھایا، جو پہلے نہیں تھا۔ میزبان آبادی کے ارکان کو تبتی مہاجرین دوسرے شعبوں میں بھی ملازمت دیتے ہیں۔ نیپال میں متعدد مقامی نیپالی تبتی پناہ گزینوں کے قالینوں کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں، جو سیاحت کے بعد سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والے ہیں۔ مزید برآں، تبتی پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ثانوی پیشوں میں داخل ہو رہی ہے۔ جیسے سردیوں میں سویٹر بیچنا، ریستوران اور ہوٹل چلانا وغیرہ،جس میں مقامی مزدوروںکو کام دیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ دہلی، دھرم شالہ، دارجلنگ، کھٹمنڈو وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
میزبان معاشرے پر پناہ گزینوں کے اثرات کی دوسری فائدہ مند قسم میزبان آبادی تک تبتی سہولیات کی توسیع ہے۔تبت کی زیادہ تر بستیاں ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں واقع ہیں، جنہیں ترقیاتی فنڈز اور منصوبوں کے حوالے سے نئی دہلی کی طرف سے زیادہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔ ایسے علاقوں میں تبتی بستیوں کے قیام سے آس پاس کے ہندوستانی یا نیپالی دیہاتوں کو ضمنی فوائد ملنے لگے۔تبتی اسکول اور اسپتال میزبان آبادی کے لیے بھی کھلے ہیں۔تبتی پناہ گزینوں کے لیے ٹیوب ویل کھودنے یا آبپاشی کی نہریں بنانے کے دوران غیر ملکی خیراتی تنظیموں نے آس پاس کے مقامی گاؤں کے لیے بھی اسی طرح کی اسکیموں کو اسپانسرکیا ہے۔ہندوستان یا نیپال میں ایسے دور دراز اور غریب دیہاتیوں کے لیے، ان کے علاقے میں تبتی کالونی کے قیام کا مطلب نئی ملازمتیں، زیادہ کاروباری مواقع اور نئی جدید سہولیات ہیں۔
اکیسویں صدی میں چیزوں کی اسکیم مختلف ہے۔ اب تیسری نسل کے تبتی زیادہ توقعات رکھتے ہیں، اور زندہ رہنے کے بجائے جینا چاہتے ہیں۔ نوجوان اکثر ان پر متعدد شناختیں مسلط کرنے سے ناراض ہوتے ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ فری تبت کے مقصد پر قائم رہیں۔ اور مقامی آبادی کے سمندر میں اپنی ثقافت کی انفرادیت کو برقرار رکھیں۔ نیزدوسری طرف، ہندوستان سے ان کی وابستگی اور لگاؤ ان کی طرف سے اس وقت سے ظاہر ہوتا ہے جب وہ یہاں پلے بڑھے ہیں اور اسے اپنا گھر سمجھتے ہیں۔
تبتی پناہ گزین کی کامیابی کی وجوہات یہی ہیںکہ بھارت میں تبتی پناہ گزین کمیونٹی کے پاس پہلے سے ہی ایک منظم قیادت اور طاقت کی تقسیم کا طریقہ کار موجود تھا، جسے وہ بھارت میں کامیابی سے نافذ کرنے میں کامیاب رہے۔ جب دلائی لامہ نے ہندوستان کےدھرم شالے میں پناہ لی تو ان کے ساتھ ان کے وزیر اور مشیر بھی آئے۔ بھارتی حکومت کے ساتھ ساتھ این جی اوز اور مختلف امدادی گروپس(چاہے بھارتی ہوں یا بین الاقوامی)، ان کے لیے ہمیشہ ایک ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک دستیاب تھا۔ جو بدعنوانی سے پاک تھا اور آسانی سے کام کرتا تھا۔ مائیکرو لیول کی تنظیم پیچیدہ تھی اور ہر سطح پر ایسے منتخب یا نامزد رہنما تھے جو اپنے اعلیٰ افسران کے سامنے جوابدہ تھے،جو ہنر مند منتظم تھے اور انہیں تبت کی حکومت نے دھرم شالا میں جلاوطنی میں معمولی تنخواہ بھی دی تھی۔ تنازعات کے حل اور بینک قرضوں، ملازمت، اسکولنگ کے ساتھ ساتھ صحت اور تندرستی کے طریقۂ کار تھے۔ ان کے علاوہ وہ سادہ پیشوں کو اپنانے والے اور اتحاد و اتفاق سے جینے والے لوگ ہیں۔

شہرت ترمیمی بل

شہرت ترمیمی بل کے ذریعہ بھارت کے موجودہ شہریت قانون میں سن 1955 ءسے ترمیم کی جا رہی ہے۔ مجوزہ قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بودھ، جین، پارسی اور مسیحی مذہب کے لوگوں کو شہریت دی جائے گی۔ ایسے افراد کو اب بھارت میں صرف چھ برس رہنے کے بعد ہی شہریت مل جائے گی۔ اب تک اس کے لیے انہیں کم از کم گیارہ برس انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اس بل کی مخالفت کی بنیادی وجہ مذہب ہے۔سی اے بی میں مسلمانوں کو چھوڑ کر دیگر مذاہب کے لوگوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اسے مذہب کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرنے والا فیصلہ قرار دیا جارہا ہے،۔جب کہ بھارتی آئین کے مطابق بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں مذہب کی بنیاد پر تقسیم جائز نہیں ہے۔
جب سے شہریت ترمیمی بل راجیہ سبھا سے پاس ہوا ہے تب سے پورے ملک میں ہنگامۂ دار وگیر بپا ہے، یہ بل جس وقت صدر جمہوریہ کے دستخط سے قانون بنا اس وقت بھی پورا ملک صدائے احتجاج سے گونج رہا تھا۔ اس قانون میں چوں کہ صرف مسلمانوں کا استثناء کیا گیا ہے ،اس لیے بہت سے لوگوں کا یہ تاثر ہے کہ یہ قانون صرف مسلمانوں کے خلاف ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے،یہ قانون این آرسی سے مربوط ہے، اور این آر سی چور دروازے سے لائے جانے والے این پی آر سے مربوط ہے، اورسی اے اے + این آر سی (این پی آر) ہمارے دیش کے خلاف ہے،اور دیش کے سبھی باشندوں کے خلاف ہے، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ۔

آئیے! اس کو قدرے تفصیل سے سمجھتے ہیں:

یہ دیش کے خلاف اس لیے ہے کہ یہ دیش کے دستور کے خلاف ہے، ملک کی سالمیت کے خلاف ہے، یہ قانون دیش کی جگ ہنسائی کا باعث بنے گا، اس سے کرپشن اور بڑھے گا،نفرت کا بازار گرم ہوگا۔ یہ دستور کے خلاف اس لیے ہے کہ آرٹیکل 14،15 کے خلاف ہے، ان آر ٹیکلز کے تحت مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے کی اجازت نہیں ہے، جب کہ سی اے اے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو جواز دیتا ہے، مثلاََ آسام میں جو مسلمان این آر سی سے باہر ہوگئے، انھیں ڈیٹنشن بھیج دیا جائے گا، خواہ اس میں سابق صدر جمہوریہ کے گھر والے ہی کیوں نہ ہوں ، دوسری طرف جوغیر مسلم این آر سی سے باہر آئے ان کے لیے CAA کے ذریعہ شہری بننے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔اور یہ صرف آسام تک نہیں ہے ،بلکہ حکومت پورے دیش میں اس پر عمل درآمد کرنا چاہتی ہے۔ جس کی وجہ سے بھارتی شہریوں کو پناہ گزین بننے کا خطرہ ہے وہی CAA کے زریعے سے وہ بھارتی شہریت حاصل کر سکتے ہے۔
جب مخصوص مذہب کے لوگ این آر سی سے باہر ہوجائیں گے، تو وہ دیکھیں گے کہ CAA کس دھرم پر زیادہ مہربان ہے، جس پر اس کی مہربانی بڑھی ہوگی لوگ وہ دھرم قبول کریں گے،بھارت سیکولر دیش ہے، یہاں ریاست وسیاست میں مذہب کو دخل نہیں دیا جاتا، تقسیم کے وقت ایک ملک مذہب کی بنیاد پر بنا تھا ، اس وقت بھارت کے مجاہدین آزادی نے یہ طے کیا تھا کہ یہ ملک ایک سیکولر ملک ہوگا، حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا؛ البتہ ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی۔ CAA+NRC کے پیچھے جو سوچ کام کر رہی ہے وہ اس سیکولر دیش کو منووادی اور ہندو راشٹر بنانے کی سوچ ہے ،جو کہ اس ملک کے سیکولر ڈھانچے کے خلاف ہے۔ یہ قانون اس دیش کے سیکولر ڈھانچے کے خلاف ہے

پناہ گزینوں کا عالمی دن 2022ء کا موضوع UNHCRکے مطابق

UNHCR کے مطابق بھاگنے پر مجبور لوگوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا چاہیے۔ کوئی بھی تحفظ حاصل کر سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ کون ہیں یا کیا مانتے ہیں۔ حفاظت کی تلاش ایک انسانی حق ہے۔ وہ جہاں سے بھی آئیں، پناہ گزینوں کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ پناہ گزینوں کو تحفظ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ خطرہ کچھ بھی ہو،جنگ، تشدد، ایذا رسانی ؛ہر کوئی تحفظ کا مستحق ہے۔ ہر ایک کو محفوظ رہنے کا حق ہے۔
حفاظت کی تلاش کا کیا مطلب ہے؟
1. پناہ مانگنے کا حق ظلم و ستم، تنازعات، یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے فرار ہونے والے افراد کو کسی دوسرے ملک میں تحفظ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔
2. محفوظ رسائی نقل مکانی پر مجبور تمام لوگوں کے لیے سرحدیں کھلی رہیں۔ رسائی کو محدود کرنا اور سرحدوں کو بند کرنا حفاظت کے متلاشی لوگوں کے لیے سفر کو مزید خطرناک بنا سکتا ہے۔
3. کسی پر زبردستی نہ کریں۔ لوگوں کو کسی ملک میں واپس جانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، اگر ان کی جان یا آزادی خطرے میں ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممالک کو پہلے ان خطرات کا اندازہ کیے بغیر کسی کو پیچھے نہیں دھکیلنا چاہیے، جن کا انہیں گھر واپسی سےسامنا کرنا پڑے گا۔
4. کوئی امتیاز نہیں۔ سرحدوں پر لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ نسل، مذہب، جنس اور اصل ملک جیسے عوامل سے قطع نظر پناہ گزین کی حیثیت کے لیے تمام درخواستوں پر منصفانہ غور کیا جانا چاہیے۔
5. انسانی علاج ،بھاگنے پر مجبور لوگوں کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ وہ کسی بھی انسان کی طرح محفوظ اور باوقار سلوک کے حقدار ہیں۔ دوسری چیزوں کے علاوہ، اس کا مطلب ہے خاندانوں کو اکٹھا رکھنا، لوگوں کو اسمگلروں سے بچانا، اور من مانی حراست سے بچنا۔
پناہ گزینوں کا عالمی دن پناہ گزینوں کے حقوق، ضروریات اور خوابوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ سیاسی ارادے اور وسائل کو متحرک کرنے میں مدد کرتا ہے ،تاکہ مہاجرین نہ صرف زندہ رہ سکیں بلکہ ترقی بھی کر سکیں۔ جہاں ہر ایک دن پناہ گزینوں کی زندگیوں کا تحفظ اور ان میں بہتری لانا ضروری ہے، وہیں عالمی یوم مہاجرین جیسے عالمی دن تنازعات یا ظلم و ستم سے بھاگنے والوں کی حالت زار پر عالمی توجہ مرکوز کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ پناہ گزینوں کے عالمی دن پر منعقد ہونے والی بہت سی سرگرمیاں مہاجرین کی مدد کے مواقع پیدا کرتی ہیں۔

تارکین وطن کو درپیش مسائل

چونکہ پناہ گزین کا کوئی ملک نہیں ہوتا ہے۔ وہ ایسے افراد ہوتے ہیں جو حالات کی وجہ سے مجبوراً ہجرت کرتے ہے۔دوسرے ملکوں میں پناہ ڈھونڈتے ہے۔اس لیے انہیں کئی مسائل درپیش ہیں۔ جیسے غذا کی قلت اور نامناسب غذا کھانے کی وجہ سے امراض میں مبتلاء ہوجانا۔ اس کے علاوہ مناسب علاج میں دشواری، ڈاکٹرز کی کمی، شہریت میں مسئلہ،مہاجرین جن کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، عورتوں کا استحصال، ایسے کئی مسائل پناہ گزین افراد کو درپیش ہیں۔ قصۂ مختصر بے گھر شہری دنیا کے کسی بھی خطے سےان کا تعلق ہو، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، اور ان کی آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل انتہائی تاریک اور بالکل غیر یقینی ہے۔ وہ محض حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔حالات کے سیلاب کے تھپیڑے انہیں اور ان کی آنے والی نسلوں کو جس رخ پر بھی لے جائیں گے، انہیں اسی رخ پر جانا پڑے گا۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے فرائض ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے، اور دکھی انسانیت بے یارومددگار کسمپرسی کی حالت میں بری طرح تڑپ رہی ہے۔
مختصر یہ کہ انسانی حقوق کے نام لیوا علمبرداروں کی ساری پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔اسلام ان سب ناکام پالیسیوں سےمنزہ، مبراءوپاک ہے۔ اسلام قومیت اور مملکیت سے افراد کو تقسیم نہیں کرتا۔ بلکہ اسلام ہر انسان اشرف المخلوقات کے حقوق کو محفوظ کرتا ہے۔

ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
اقوام ميں مخلوق خدا بٹتي ہے اس سے
قوميت، اسلام کی جڑ کٹتي ہے اس سے

نیپال میں متعدد مقامی نیپالی تبتی پناہ گزینوں کے قالینوں کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں، جو سیاحت کے بعد سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والے ہیں۔ مزید برآں، تبتی پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ثانوی پیشوں میں داخل ہو رہی ہے۔ جیسے سردیوں میں سویٹر بیچنا، ریستوران اور ہوٹل چلانا وغیرہ،جس میں مقامی مزدوروںکو کام دیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ دہلی، دھرم شالہ، دارجلنگ، کھٹمنڈو وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

Comments From Facebook

2 Comments

  1. ۔

    ماشاءاللہ۔ بہت خوب پیاری بہن

    Reply
  2. مومنہ طیباتی

    ماشاء اللہ۔۔اللہ صلاحیتوں میں برکت عطا فرمائے ❤

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ٢٠٢٢