اصلاح معاشرہ منصوبہ بند عصری طریقے
اصلاح معاشرہ پر یوں تو آپ نے بے شمار کتابیں پڑھی ہوں گی، لیکن اس عنوان پر یہ سب سے منفرد کتاب ہے۔اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے اصلاح معاشرے کے کام کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے منصوبہ بند عصری طریقےکیا ہیں ؟اس پر مدلل، مربوط و مبسوط بحث کی ہے ۔
دل پذیر اسلوب، آہستہ آہستہ گرہ کھولتا ہوا انداز ہے ۔ادھر کتاب مکمل ہوگی ادھر ایک خوشی کا احساس کہ واقعی ہم نے اصلاح معاشرہ کے لیے نئے طریقے سیکھے ہیں،یا جوش و ولولہ پیدا ہوگا۔
اس کتاب میں کل چھ ابواب ہیں، ہر ایک کا دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ہر مضمون کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھیں،کتاب مکمل ہونے تک اصلاح معاشرہ کی منصوبہ بندی کا خاکہ واضح ہوجاتاہے ۔
پہلے باب میں اصلاح معاشرہ سماجیاتی اپروچ واضح کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
’’اس بات سے انکار نہیں کہ گزرے دنوں میں اصلاح معاشرہ کے کام کی نوعیت اُس زمانے کے لیے نتیجہ خیز رہی ہے تاہم موجودہ زمانے میں سوشل انجینئرنگ( سماجی تبدیلی) کے مطلوبہ تقاضوں کو پیشِ نظر رکھ کر ہی ہم کاموں کو نتیجہ خیز بناسکتے ہیں ۔‘‘
اصلاح معاشرہ کا کام ہر دور میں ہر وقت باشعور افراد کے درمیان مسلسل جاری رہنے والا عمل رہا ہے ۔ انسان نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں وقت کے ساتھ تبدیلی کو قبول کیا ہے،تاہم اصلاح معاشرے کے پروگرام میں منصوبہ بندی کی کمی اسے اپنے متوقع ہدف سے دور رکھتی ہے۔
حکمتیں چونکہ با اختیار ہوتی ہیں اس لیے دیگر میدانوں میں سماجی تبدیلی کے لیے بہت آسانی کے ساتھ تمام وسائل کو استعمال کرتی ہیں،جن میں قابل ذکر سماجی ادارے ہیں ،مطلب پولیو ڈوز مہم ہو یا لڑکیوں کی تعلیم ہو یا صفائی مہم،سماجی اداروں جیسے خاندان،تعلیمی ادارے،سوشل سروس ادارے،میڈیاوغیرہ کا مؤثر استعمال کرکے تبدیلی کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔
اصلاحِ معاشرے کے کام میں ہم اپنے موجود وسائل کے ساتھ اس کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے قابل عمل پہلوؤں کو روبہ عمل لا سکتے ہیں۔
دیگر میدانوں میں سماجی تبدیلی کے لیے کی گئی منصوبہ بندی کا طریقہ ، متوقع سماجی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔سوشل انجینئرنگ کے طریقے کو اصلاح معاشرہ میں استعمال کرنے کے حوالے سے محترم نے لکھا ہے کہ
’’سوشل انجینئرنگ کے طریقوں کا سب سے زیادہ استعمال اس وقت بڑی تجارتی کمپنیاں اور ان کے مارکیٹنگ اور اشتہارات کے شعبے کررہے ہیں،تاکہ اپنی مصنوعات کی فروخت کے لئے لوگوں کے تصورات زندگی ،ان کے تہذیبی معیارات ، ان کے فطری جذبات، اخلاقی تصورات حتیٰ کہ ان کی حسیات کو بھی متاثر کیا جائے۔اس سے قبل ترکی میں اسلامی تہذیبی روایتوں کی جگہ مغربی طرززندگی کو عام کرنے اور سماجی رویوں اور عادتوں کو بدلنے کے لیے نہایت منظّم طریقے سے سوشل انجینئرنگ کا استعمال کیا جاچکا ہے۔(اب بعض عرب ممالک میں ان کو بڑے پیمانےپر استعمال کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں)‘‘
اصلاح معاشرہ کا کام انجام دینے والے افراد کا منصوبہ اسی طرح جدید تقاضوں کے ساتھ ہو ،کسی برائی کے خاتمے اور اچھائی کو رواج دینے کے لیے انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھنا چاہیے نیز طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے جدید عصری طریقوں کو کمپنیاں روبہ عمل لارہی ہیں انہی طریقہ کو اصلاح معاشرہ کے کاز میں بھی اپنانا چاہیے تاکہ کاموں کونتیجہ خیز بنایا جاسکے ۔
اصلاح معاشرہ کا خالص مقامی پروگرام بنانے کامشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’ معاشرے کی اصلاح کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ خالص سطح پر سوچا جائے اور حکمت عملی بنائی جائے۔قومی سطح پر موضوعات کا تعین کرکے تقریروں اور جلسوں کا سلسلہ،کسی زمانے کی ضرورتوں کےلیے یقیناً مناسب تھالیکن آج کے مسائل کے حل کےلیے یہ کافی نہیں ہے۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اصلاح معاشرہ کی حکمت عملی، ایک ایک مقام، شہر یا بستی پر توجہات کو مرکوز کرکے بنائی جائے۔ بستی کے مخصوص حالات پر غور کرکے وہاں کی خرابیوں کی تشخیص ، اُن خرابیوں کے اسباب کا تعین اور اس کے مطابق اصلاح کی حکمت عملی، پھر اس حکمت عملی کو اصلاح کا عمل مکمل ہونے تک صبر و استقلال کے ساتھ روبہ عمل لانا، ہمارے خیال میں اصلاح معاشرہ کے اس اپروچ کی اس وقت ضرورت ہے۔ ہر علاقے میں کچھ ایسی بستیوں کو ڈیولپ کرنے کی ضرورت ہے جو اسلام کی تعلیمات کی زیادہ سے زیادہ آئینہ دار اور عملی نمونہ ہوں اور دیگر بستیوں کے لیے بھی روشنی کا مینارہ بن سکیں۔ اس کام کے لیے مرکزی سطح پر ضروری ٹریننگ ، تحقیق ،غوروفکر اور عملی تعاون و رہ نمائی کا نظام ضرور ہو،لیکن منصوبہ بندی خالص مقامی سطحوں پر ہو۔ منصوبہ بندی کےلیے یہ ضروری ہے کہ زیر بحث برائی کے اصل سبب یا اس کی اصلاح کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا اندازہ لگایا جائے،اور ان رکاوٹوں کے حسب حال اسٹریٹیجی بنائی جائے۔
غلط عقیدے و تصورات
ہمارے ملک میں انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل کی بہت سی اصلاحی تحریکات(مسلم معاشرے میں اٹھنے والی بھی ،اور غیر مسلم معاشرے میں برپا ہونے والی بھی) کا نشانہ ایسی ہی برائیاں تھیں۔ ہندو سماج میں چھوت چھات ایک سماجی قدر تھی۔ معاشرہ ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے نظریے کا قائل تھا۔ اسی طرح بیوہ کی شادی ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا تھا۔ہندوسماج کے مصلحین نے اس سوچ کی اصلاح کا بیڑااٹھایا۔آریہ سماج ، برہمو سماج ، امبیڈکر، پھلے ،گاندھی وغیرہ نے ان غلط تصورات کی اصلاح کی منصوبہ بند کوششیں کیں۔

روایات

برائی کی دوسری بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ برائی یا غلط رویے کی مستحکم روایت کی حیثیت ہوجاتی ہے۔ ہر معاشرہ اپنی روایتوں کو پوری قوت سے تھامے رکھتا ہے، اورروایات کی تبدیلی ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ بہت سی برائیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے تعلق سے معاشرے میں کسی کو ان کے برائی ہونے پر کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ لیکن روایت کی گہری جڑیں تبدیلی کی راہ میں مزا حم ہوتی ہیں۔

روایتیں کیسے بنتی ہیں؟

اس پر محققین نے کافی کام کیا ہے۔ بعض روایتیں حکومتوں کے قوانین بناتی ہیں، بعض کسی زمانے کی مخصوص تمدنی ضرورتوں کے پیش نظر رواج پاتی ہیں ،اور پھر سماج میں گہری جگہ بنالیتی ہیں۔ لیکن اکثر روایتیں سماج کے بااثر افراد اور خاندانوں کے طور طریقے ہوتے ہیں۔یہ طور طریقے لوگوں کے ذہنوں پر بچپن سے نقش ہوجاتے اور ذہنی ماڈل بنادیتے ہیں۔لوگ ان طریقوں کی توقع کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ گہری روایت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔اگر کوئی شخص کسی روایت کو نہ اپنانا چاہے تو اس اسے بہت سے عزیزوں اور پورے سماج کی توقعات کو توڑکران کی دل شکنی کا سبب بننا پڑتا ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ اس لیے کم زور لوگ، روایت کو غلط سمجھنے کے باوجود اس کو اختیار کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں اور اس طرح روایت ختم نہیں ہوپاتی۔

عادات

عادتوں کا سرچشمہ انسان کا لاشعور ہوتاہے، اور عادت بدلنے کے لیے لاشعور کو ری پروگرام کرنا اور نئی عادتوں کی باربار مشق کرنا ضروری ہوتاہے، تاکہ وہ پرانی عادتوں کی جگہ لیں۔سماج کی عادتوں کو بدلنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، ان میں بھی جہد کاروں کا رول بہت اہم ہوتا ہے۔ وہ غلط عادت کے نقصان کو مختلف طریقوں سے واضح کرتے رہتے ہیں۔ ان عادتوں سے پاک مثالی بستیاں ، گلیاں یا کالونیاں تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں سے اجتماعی عہد لیتے ہیں اور نئی اچھی عادتوں کی مشق کراتے ہیں، اور ان کے فروغ کی منظم کوشش کرتے ہیں۔اس وقت عالمی طا قتیں معاشرے میں اپنی پسندیدہ قدروں کی ترویج کے لیے بہت منظم کوششیں کررہی ہیں، اور سرکاری مشینری کے ساتھ رضاکاروں اور رضاکار تنظیموں کی بھی ٹریننگ کررہی ہیں۔
مفادات
بعض برائیوں کے ساتھ سماج کے کچھ طبقات کے مادی مفادات وابستہ ہوجاتےہیں۔ اس لیے وہ اس برائی کی اصلاح نہیں چاہتےاور اصلاح کی راہ میں شدید مزاحم ہوجاتےہیں ، بلکہ برائی کے فروغ کی منظم کوشش بھی کرتے ہیں۔ زرعی اراضی کے مالکین اپنی زمینوں کی تقسیم کو پسند نہیں کرتے، اس لیے لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے۔ مسلکی تعصّبات کے ساتھ بہت سے مذہبی رہنماؤں کی عزت و توقیر اور دیگر مفادات وابستہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کا خاتمہ انہیں گوارا نہیں ہوتا۔ ان مفادات حاصلہ کو بے نقاب کیے بغیرمتعلقہ برائیوں کا خاتمہ آسان نہیں ہے۔
عملی مشکلات
بعض برائیاں اس لیے ختم نہیں ہوتیں کہ ان کے خاتمے کی راہ میں عملی مشکلات حائل ہوتی ہیں۔ جب تک ان مشکلات پر قابو نہیں پایا جائے گااس وقت تک ان کا حل ممکن نہیں ہے۔

شرعی مشکلات

کچھ مشکلات شرعی مشکلات ہیں۔ ان مشکلات کا اجتہادی بصیرت کے ساتھ حل ڈھونڈنا ضروری ہے۔ مثلاً بیوی کے لیے خلع حاصل کرنا یا نکاح فسخ کرانا، ہمارے ملک کے بیش تر علاقوں میں آج بھی نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ یہ مسئلہ خاندانوں میں بہت سی برائیوں کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے۔جب تک اس عمل کو آسان نہیں بنایا جائے گا، اس سے منسلک سماجی برائیوں پر تقریروں اور اجتماعات کاکوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یا معاشرے میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کی پھیلی ہوئی وباء کے درمیان مسلمان لڑکے اور لڑکیاں کس طرح باعفت زندگی گزاریں؟ ایسی کیا شکل ہوکہ وہ اپنی تعلیم بھی یکسوئی سے پوری کرسکیںاور جائزوحلال طریقے سے فطری جنسی تقاضوں کی تکمیل بھی کرسکیں؟ مغربی ملکوں کے فقہی اداروں میں اس سلسلے میں کچھ تدبیریں سوچی گئی ہیں۔ ایسے مسائل کے مناسب شرعی حل جب تک ڈھونڈے نہیں جائیں گے، یعنی ایسے حل جو جدید معاشرے کی ضرورتوں کو شریعت کے دائرے میں پوراکرسکیں، اس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
اخلاقی حساسیت

اخلاقی حساسیت کے لیے صرف معلومات یا تصور کا درست ہونا کافی نہیں ہے۔مسلم معاشرے کے اخلاقی تصورات میں نظریے کی سطح پر کوئی بگاڑ آسان نہیں ہے۔اس لیے کہ اخلاقی اصولوں کا دائمی سرچشمہ قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔ لیکن یہ عین ممکن ہے کہ بعض اخلاقی تصورات سوچ اور نظریہ کی سطح پر باقی رہیں، لیکن عملاً ان کے حوالے سے حساسیت ختم ہوجائے ،یا کم ہوجائے۔ مسلم معاشرے کے جائزے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بہت سے اخلاقی معاملات میں اخلاقی حساسیت زوال پذیر ہوئی ہے، اور یہ معاشرے کے بگاڑ کا ایک اہم سبب ہے۔
اخلاقی حساسیت کا زوال کے باب میں مصنف نے واضح کیا کہ کیسے اخلاقی حساسیت ختم ہوتی ہے اور انسان برائی کی ان ٹینسٹی کو ختم کردیتا ہے۔’’اسلام کا تصور اخلاق ‘‘کی تفصیل لکھتے ہوئے مصنف نے مدلل گفتگو کی ہے ۔بدلتے زمانے اورمادہ پرستانہ سوچ نے کس طرح ہمیں اخلاق سے عاری کرتے ہوئے معاشرتی اخلاقی حساسیت کو ختم کیا ہے ۔

سماجی معمول کو بہت تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’سماجی معمول ، اب علمی دنیا کی ایک اہم اصطلاح ہے اور متعدد ، یعنی سماجیات، سماجی نفسیات ، اخلاقیات ، بشریات ، معاشیات، سیاسیات، قانون اور علوم صحت عامہ وغیرہ میں اس کا کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے۔ مختلف علوم میں اس اصطلاح کے معنوں میں بھی بعض فرق واضح ہوجاتے ہیں ۔‘‘
’’سماجی معمول کیسے بنتے ہیں؟‘‘ واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اصلاح معاشرہ کے سماجی معمول Norm جو بن چکے ہیں اس کونئے سماجی سے ہم دفع کرنے کی کوشش کریں ۔ صحت مند تبدیلی کو شہرت دیں اور فرسودہ روایات و طریقے کو اَن لرن کریں ۔
سوشل انجینئرنگ کی تعریف کرتے ہوئے موصوف نے سوشل انجینئرنگ کا مغربی دنیا میں استعمال، استعماریت میں اس کی منصوبہ بندی کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے طریقۂ کار جہاں بہتر لگے ،اس تکنیک کو اصلاح معاشرہ کے لیے روبہ عمل لانے پر زور دیاہے ۔
آخری باب میں اصلاح کے ترجیحی بنیادوں پر بطور ہدف بنائے جانے والے اہم ایشوز کو ایڈریس کیا ہے ۔
اصلاح معاشرہ کی منصوبہ بندی میں بتدریج اقدامات کو ’’تدریجی سوشل انجینئرنگ ‘‘میں واضح کرتے ہوئے اسٹیپس پر لکھا کہ مسئلے کی اہم اصل شناخت ہے،اس مسئلے سے متعلق مشاہدہ موجود وسائل کے ساتھ اس کی اصلاح کی کوشش اس حد تک ہوکہ وہ سماجی معمول بن جائے، اور اصلاح معاشرہ کے کام کو نتیجہ خیز بنانے میں ہم کامیاب ہوسکیں ۔سوشل انجینیئرنگ کے لیے مرحلہ وار کس طرح کام ہو ،اس پر آسان نکاح کی مثال کو تواتر سے پیش کیا ہے۔جیسے وراثت کی نادرست تقسیم ۔اس کو درست کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات کی عملی مثالیں پیش کی ہیں ۔تجارت و مالی اور معاملات کی خرابیوں کو دور کرنے کے ممکنہ اقدامات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔
بہرکیف، اصلاح معاشرہ کے عنوان سے اس سے بہتر جامع اور جدید تقاضوں کے تحت کی گئی عملی گفتگو ہے پر یہ پہلی کتاب ہے ۔ ہر فرد جو اصلاح معاشرہ کے لیے سعی و جہد کررہا ہے اسے ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ وہ اپنا منصوبہ بناسکے اور اپنے کام کو نتیجہ خیز بناسکے ۔

اس راہ میں درپیش مسائل کو مصنف نے عرق ریزی کے ساتھ شناخت کرتے ہوئے واضح کیا ہے ۔اس مزاحمت کو دور کرنے کی عملی صورتیں بھی پیش کی ہیں۔سوشل انجینیئرنگ کے لیے لازم ہے کہ ان رکاوٹوں پر گہری نظر ہو۔ جیسے غلط عقیدے و تصورات جو کسی بھی نئی بات کو قبول کرنے میں مانع بنتے ہیں ۔اسی طرح روایات کا شکنجہ اتنے گہرے پنجے گاڑ لیتا ہے کہ وہ روایات سوشل معمول کی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں ،اس نکلنا محال ہوتا ہے۔اس شکنجے سے نجات کی بابت لکھتے ہیں کہ سماج مؤثر شخصیات کو روایت شکنی کی بنا ڈالنی ہوگی اور دوسر روایت کے خلاف لڑنے والے جہد کاروں کی مستقل کوشش۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

2 Comments

  1. نام *دارالکتاب

    اس کتاب کو آنلاین آرڈر کرنے کے لیے کال کریں

    ? 9112055843

    To purchase this book online please call us

    Reply
  2. نام۔محمود علی

    مجھے یہ کتاب درکار ہے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ٢٠٢٢