ہمارے گھر میں کسی بھی پالتو جانور کو پالنے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر بھی چھوٹا بھائی سعید اپنے کسی دوست کے گھر سے کتے کا پلا لے آیا اور اس کو گھر میں پالنے کی ضد کرنے لگا۔ امی نے اسے بہت پیار سے سمجھایا کہ بزرگوں کی ہدایت ہے کہ گھر میں کتا نہیں پالنا چاہیے ۔ جس گھر میں کتا ہوتا ہے اُس گھر میں فرشتے نہیں آتے ہیں ۔ پاکی اور صاف صفائی کے اعتبار سے بھی کتے کا گھر میں پالنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے کیونکہ اس کے جسم پر بالوں کے ذریعہ بیماری پھیلانے والے جراثیم گھر میں آ سکتے ہیں۔ کرونا اور اومیکرون جیسی وبا میں تو اور بھی ہمیں ہر طرح سے صحت کا خیال رکھنا ہے ۔ تمہارے ابو بھی گھر میں کتا پالنے کے سخت مخالف ہیں۔
سعید نے ایک اچھے بچے کی طرح اپنی ماں کی پوری بات بہت غورسے سنی اور ایک سعادت مند بیٹے کی طرح پلے کو اپنے دوست کے گھر واپس دے آیا۔ امی نے خدا کاشکر ادا کیا کہ ان کے چھوٹے بیٹے نے اپنی ماں کی بات مان لی ورنہ آج کل کے بچوں کو تو سمجھانا بہت مشکل ہو گیاہے۔
کچھ دنوں کے بعد ، چھوٹی بہن نفیسہ اپنی سہیلی کے یہاں سے بلی کا بچہ گھر لے کرآگئی۔ ماں نے اسے سمجھایا کہ وہ ادھر ادھرمیاؤں میاؤںکرتے اچھلتی پھرے گی۔ کہیں بھی پیشاب پا خانہ کر دے گی۔ اسکے کھانے پینے کا انتظام کون کرے گا؟ اس کو صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری کون لے گا؟
نفیسہ نے ہر بات کی ذمہ دار ی خود لینے کا وعدہ کیا لیکن امی نے پھر بھی اجازت یہ کہہ کر نہیں دی کہ ابھی کرونا کے اثرات باقی ہیں ۔ اسکے بعد دیکھیں گے۔
لیکن نفیسہ بھی کہاں ماننے والی تھی ۔اس نے امی کو یہ بتا کر منانے کی کوشش کی کہ اسکول میں اسلامیات کے پیریڈ میں استاد صاحب نے ایک دن بتایا تھا کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے ایک قریبی صحابی تھے جن کے گھر میں بہت سی بلیاں تھیں۔عربی میں بلی کو ہُریرہ کہتے ہیں ۔ بلیوں سے از حد محبت کی وجہ سے انہیں ابو ہُریرہ یعنی بلیوں کے ابو جان کہاجانے لگے۔
ہمارے حضو ر ﷺ کو بھی بلیوں سے لگائو تھا۔انہیں اپنی بلی سے بہت انسیت تھی۔ آپ نے اسکا نام مُعزہ رکھا تھا ۔ آپ کا فرمان تھا کہ بلیوں کے ساتھ پیار و محبت اور حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے۔
ابھی امی کچھ کہنا چاہتی تھیں کہ وہ سانس روکے بغیر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی: مسلم ملک ترکی میںبلی کو بڑی چاہت اور شوق سے پالا جاتا ہے۔زیادہ تر گھروں میں بلی پالی جاتی ہے۔بلی وہاں کا پسندیدہ پالتوجانور ہے۔ لوگ سفر میں بھی بلی اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔یہاں تک کہ ہوٹلوں میں بھی مہمانوں کے ساتھ آنے والی بلیوں کے لیے مخصوص کمرہ ہوتا ہے جہاں انہیں بڑے اہتمام سے رکھا جاتا ہے ۔ مہمانوں کی طرح ان کا بھی خیال رکھنا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ سب میں نے یو ٹیوب پر باقاعدہ ویڈیو میں دیکھا ہے۔
امی اس کی باتوں کو بڑے غور سے سُن رہی تھیں۔دل ہی دل میں اس کی معلومات پر خوش بھی ہو رہی تھیں۔لیکن مسئلہ پاکی اور صاف صفائی کا تھا جو کسی بھی مسلمان کے لیے نصف ایمان ہے۔نفیسہ نے جب دیکھا کہ امی ابھی بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہیں تو اس نے اپنی دونوں باہیں ماں کی گردن میں ڈال دیں اور دلار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ اپنی بلی کا ہر طرح سے خیال رکھے گی۔
امی نے سوچا کی نفیسہ نہ صرف ضدی مزاج کی ہے بلکہ وہ اپنے باپ کی بہت لاڈلی بھی ہے ۔کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اس کے ابو کو اس معاملہ میں شامل کیا جائے کیونکہ ان کا یہ مانناہے کہ شوہر باہر کی دنیا سے جُوجھ کر گھر آتا ہے۔ اسے گھر میں سکون اور آرام ملنا چاہیے۔ گھر کے معاملات اور بچوں کی ذمہ داری گھر کی عورت کو سنبھالنا چاہیے۔ یہ سب سوچ کر امی نے نفیسہ کو اس شرط پر اجازت دے دی کہ وہ ایک مہینہ تک دیکھیں گی کہ وہ سبھی شرطوں کے ساتھ بلی کی دیکھ بھال کر رہی ہے یا نہیں۔
نفیسہ نے امی کی ساری شرطیں قبول کر کے اپنی بلی کی سبھی ذمہ داریاں نبھانا شروع کردیں ۔ آج گھر میں بلّی کو رہتے ہوئے پور۱ ایک مہینہ ہوچکا تھا۔ نفیسہ نے اپنے وعدہ کے مطابق ہر بات کا خیال رکھا تھا۔اِس لئے دونوں بہن بھائی ، نفیسہ اور سعید بہت خوش تھے۔ دونوں نے ابو اور امّی سے کچھ پیسے اکھٹا کئے اور وہ اپنی بلی کے لئے ایک پھولوں کا ہار اور اپنے دوستوں میں تقسیم کرنے کے لیے مٹھائی لائے۔بلّی کو ہار پہنایا اور دونوں نے اس کا نام بلی رانی رکھنے کے بعد اپنے دوستوں میں مٹھائی تقسیم کی۔ جب سارے دوست چلے گئے تو سعید کو نفیسہ نے ایک آئیڈیا دیاکہ بلی رانی کو آج شہر کانپور کے مشہور گارڈن: پھول باغ کی سیر کرادی جائے۔ سعید کو یہ آئیڈیا پسند آیا۔ چنانچہ دونوں نے امی سے اجازت لی اور ا پنی بلی رانی کے ساتھ پھول باغ پہنچے۔دونوں نے بلّی رانی کو ہرے بھرے درخت دکھائے اور نیلے پیلے و گلابی سرخ پھولوں کی خوشبو سونگھائی۔ اس کے بعد دونوں کھیلنے میں مشغول ہو گئے۔ وہ کھیلتے کھیلتے دور نکل گئے۔
اچانک نفیسہ کو بلّی رانی کی یاد آئی تو اس نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
’’ایں! بلّی رانی کہاں ہے ،بھیا؟‘‘
نفیسہ نے لگ بھک چلاتے ہوئے پوچھا۔ سعید بلّی رانی کو اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
ایک دم اس کی نظر سامنے والی پگڈنڈی پر پڑی۔ وہ وہیں اُچک پھاند رہی تھی۔سامنے سے ہی ، بلّی رانی کی طرف ایک کتّا دوڑتا ہوا چلا آرہا تھا۔ سعید بھی تیزی سے بلّی رانی کی طرف لپکا۔ وہ کُتا بلّی رانی کے کافی نزدیک آچکا تھا۔’’اے اللہ!‘‘ سعید کی فکر اور پریشانی بڑھ گئی۔ہڑبڑاہٹ میں، سعید بلّی رانی کے پاس ٹھوکر لگنے سے گرپڑا۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری ۔ سعید نے تیزی سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور بلّی رانی کو دبوچ کر اپنے سینے کے نیچے چھپالیا۔ کُتّے نے سعید کی پیٹھ پر منہ مارا ۔ اس نے اس حملہ کو بڑے صبر سے برداشت کیا ۔اِتنے میں کسی نے کُتّے کے منہ پر چھڑی جمائی۔ وہ اس کُتّے کا مالک تھا۔
پھر اس بزرگ نے سعید کے سر پر بہت شفقت اور پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’بیٹا، تمہیں اپنی بلی سے کتنا لگاؤ ہے!۔ تم کس قدر بہادر،رحم دل اور سمجھدار ہو! شاباش بیٹا، تم نے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر کتنی ہوشیاری سے اپنی بلی کی جان بچالی!!‘‘
اِس پر سعید بولا’’شکریہ انکل ۔ یہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی ہدایت ہے ۔ وہ فرماتے ہیں:ہر جاندار پر رحم کرنا چاہئے۔ پالتو جانوروں کو تو بالکل اپنی طرح ہی سمجھنا چاہئے۔ ان کی خو ب دیکھ بھال کرنی چاہئے۔ انکا ہر طرح سے بہت خیال رکھنا چاہئے ۔ان کی جان کو اپنی جان سمجھنا چاہئے ۔ ان کی ہر طرح سے حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ ! !!‘‘
سعید نے ایک اچھے بچے کی طرح اپنی ماں کی پوری بات بہت غورسے سنی اور ایک سعادت مند بیٹے کی طرح پلے کو اپنے دوست کے گھر واپس دے آیا۔ امی نے خدا کاشکر ادا کیا کہ ان کے چھوٹے بیٹے نے اپنی ماں کی بات مان لی ورنہ آج کل کے بچوں کو تو سمجھانا بہت مشکل ہو گیاہے۔
کچھ دنوں کے بعد ، چھوٹی بہن نفیسہ اپنی سہیلی کے یہاں سے بلی کا بچہ گھر لے کرآگئی۔ ماں نے اسے سمجھایا کہ وہ ادھر ادھرمیاؤں میاؤںکرتے اچھلتی پھرے گی۔ کہیں بھی پیشاب پا خانہ کر دے گی۔ اسکے کھانے پینے کا انتظام کون کرے گا؟ اس کو صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری کون لے گا؟
نفیسہ نے ہر بات کی ذمہ دار ی خود لینے کا وعدہ کیا لیکن امی نے پھر بھی اجازت یہ کہہ کر نہیں دی کہ ابھی کرونا کے اثرات باقی ہیں ۔ اسکے بعد دیکھیں گے۔
لیکن نفیسہ بھی کہاں ماننے والی تھی ۔اس نے امی کو یہ بتا کر منانے کی کوشش کی کہ اسکول میں اسلامیات کے پیریڈ میں استاد صاحب نے ایک دن بتایا تھا کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے ایک قریبی صحابی تھے جن کے گھر میں بہت سی بلیاں تھیں۔عربی میں بلی کو ہُریرہ کہتے ہیں ۔ بلیوں سے از حد محبت کی وجہ سے انہیں ابو ہُریرہ یعنی بلیوں کے ابو جان کہاجانے لگے۔
ہمارے حضو ر ﷺ کو بھی بلیوں سے لگائو تھا۔انہیں اپنی بلی سے بہت انسیت تھی۔ آپ نے اسکا نام مُعزہ رکھا تھا ۔ آپ کا فرمان تھا کہ بلیوں کے ساتھ پیار و محبت اور حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے۔
ابھی امی کچھ کہنا چاہتی تھیں کہ وہ سانس روکے بغیر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی: مسلم ملک ترکی میںبلی کو بڑی چاہت اور شوق سے پالا جاتا ہے۔زیادہ تر گھروں میں بلی پالی جاتی ہے۔بلی وہاں کا پسندیدہ پالتوجانور ہے۔ لوگ سفر میں بھی بلی اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔یہاں تک کہ ہوٹلوں میں بھی مہمانوں کے ساتھ آنے والی بلیوں کے لیے مخصوص کمرہ ہوتا ہے جہاں انہیں بڑے اہتمام سے رکھا جاتا ہے ۔ مہمانوں کی طرح ان کا بھی خیال رکھنا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ سب میں نے یو ٹیوب پر باقاعدہ ویڈیو میں دیکھا ہے۔
امی اس کی باتوں کو بڑے غور سے سُن رہی تھیں۔دل ہی دل میں اس کی معلومات پر خوش بھی ہو رہی تھیں۔لیکن مسئلہ پاکی اور صاف صفائی کا تھا جو کسی بھی مسلمان کے لیے نصف ایمان ہے۔نفیسہ نے جب دیکھا کہ امی ابھی بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہیں تو اس نے اپنی دونوں باہیں ماں کی گردن میں ڈال دیں اور دلار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ اپنی بلی کا ہر طرح سے خیال رکھے گی۔
امی نے سوچا کی نفیسہ نہ صرف ضدی مزاج کی ہے بلکہ وہ اپنے باپ کی بہت لاڈلی بھی ہے ۔کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اس کے ابو کو اس معاملہ میں شامل کیا جائے کیونکہ ان کا یہ مانناہے کہ شوہر باہر کی دنیا سے جُوجھ کر گھر آتا ہے۔ اسے گھر میں سکون اور آرام ملنا چاہیے۔ گھر کے معاملات اور بچوں کی ذمہ داری گھر کی عورت کو سنبھالنا چاہیے۔ یہ سب سوچ کر امی نے نفیسہ کو اس شرط پر اجازت دے دی کہ وہ ایک مہینہ تک دیکھیں گی کہ وہ سبھی شرطوں کے ساتھ بلی کی دیکھ بھال کر رہی ہے یا نہیں۔
نفیسہ نے امی کی ساری شرطیں قبول کر کے اپنی بلی کی سبھی ذمہ داریاں نبھانا شروع کردیں ۔ آج گھر میں بلّی کو رہتے ہوئے پور۱ ایک مہینہ ہوچکا تھا۔ نفیسہ نے اپنے وعدہ کے مطابق ہر بات کا خیال رکھا تھا۔اِس لئے دونوں بہن بھائی ، نفیسہ اور سعید بہت خوش تھے۔ دونوں نے ابو اور امّی سے کچھ پیسے اکھٹا کئے اور وہ اپنی بلی کے لئے ایک پھولوں کا ہار اور اپنے دوستوں میں تقسیم کرنے کے لیے مٹھائی لائے۔بلّی کو ہار پہنایا اور دونوں نے اس کا نام بلی رانی رکھنے کے بعد اپنے دوستوں میں مٹھائی تقسیم کی۔ جب سارے دوست چلے گئے تو سعید کو نفیسہ نے ایک آئیڈیا دیاکہ بلی رانی کو آج شہر کانپور کے مشہور گارڈن: پھول باغ کی سیر کرادی جائے۔ سعید کو یہ آئیڈیا پسند آیا۔ چنانچہ دونوں نے امی سے اجازت لی اور ا پنی بلی رانی کے ساتھ پھول باغ پہنچے۔دونوں نے بلّی رانی کو ہرے بھرے درخت دکھائے اور نیلے پیلے و گلابی سرخ پھولوں کی خوشبو سونگھائی۔ اس کے بعد دونوں کھیلنے میں مشغول ہو گئے۔ وہ کھیلتے کھیلتے دور نکل گئے۔
اچانک نفیسہ کو بلّی رانی کی یاد آئی تو اس نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
’’ایں! بلّی رانی کہاں ہے ،بھیا؟‘‘
نفیسہ نے لگ بھک چلاتے ہوئے پوچھا۔ سعید بلّی رانی کو اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
ایک دم اس کی نظر سامنے والی پگڈنڈی پر پڑی۔ وہ وہیں اُچک پھاند رہی تھی۔سامنے سے ہی ، بلّی رانی کی طرف ایک کتّا دوڑتا ہوا چلا آرہا تھا۔ سعید بھی تیزی سے بلّی رانی کی طرف لپکا۔ وہ کُتا بلّی رانی کے کافی نزدیک آچکا تھا۔’’اے اللہ!‘‘ سعید کی فکر اور پریشانی بڑھ گئی۔ہڑبڑاہٹ میں، سعید بلّی رانی کے پاس ٹھوکر لگنے سے گرپڑا۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری ۔ سعید نے تیزی سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور بلّی رانی کو دبوچ کر اپنے سینے کے نیچے چھپالیا۔ کُتّے نے سعید کی پیٹھ پر منہ مارا ۔ اس نے اس حملہ کو بڑے صبر سے برداشت کیا ۔اِتنے میں کسی نے کُتّے کے منہ پر چھڑی جمائی۔ وہ اس کُتّے کا مالک تھا۔
پھر اس بزرگ نے سعید کے سر پر بہت شفقت اور پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’بیٹا، تمہیں اپنی بلی سے کتنا لگاؤ ہے!۔ تم کس قدر بہادر،رحم دل اور سمجھدار ہو! شاباش بیٹا، تم نے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر کتنی ہوشیاری سے اپنی بلی کی جان بچالی!!‘‘
اِس پر سعید بولا’’شکریہ انکل ۔ یہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی ہدایت ہے ۔ وہ فرماتے ہیں:ہر جاندار پر رحم کرنا چاہئے۔ پالتو جانوروں کو تو بالکل اپنی طرح ہی سمجھنا چاہئے۔ ان کی خو ب دیکھ بھال کرنی چاہئے۔ انکا ہر طرح سے بہت خیال رکھنا چاہئے ۔ان کی جان کو اپنی جان سمجھنا چاہئے ۔ ان کی ہر طرح سے حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ ! !!‘‘
مسلم ملک ترکی میںبلی کو بڑی چاہت اور شوق سے پالا جاتا ہے۔زیادہ تر گھروں میں بلی پالی جاتی ہے۔بلی وہاں کا پسندیدہ پالتوجانور ہے۔ لوگ سفر میں بھی بلی اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔یہاں تک کہ ہوٹلوں میں بھی مہمانوں کے ساتھ آنے والی بلیوں کے لیے مخصوص کمرہ ہوتا ہے جہاں انہیں بڑے اہتمام سے رکھا جاتا ہے ۔ مہمانوں کی طرح ان کا بھی خیال رکھنا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ سب میں نے یو ٹیوب پر باقاعدہ ویڈیو میں دیکھا ہے۔
Comments From Facebook
0 Comments