مستحق

عصر کا وقت تھا ۔ قہر برساتے سورج کو بادلوں نے اپنی آغوش میں ڈھانپ لیا تھا ۔کئی دنوں بعد ہوائیں مہربان ہوئی تھیں اور جسموں کو اپنی ٹھنڈک سے ایک سکون اور فرحت بخش احساس فراہم کررہی تھیں۔ ایسے میں پاکیزہ روڈ پر موجود برقی قمقموں سے سجے نواب ولا میں جائیں تو آج خلاف معمول بڑی چہل پہل تھی ۔مختلف قسم کے پکوانوں کی خوشبوؤں نے گھر کو معطر کر رکھا تھا ۔ مرد حضرات ہال میں بیٹھے گفت و شنید میں مصروف تھے ، خواتین کچن میں افطاری کی تیاری میں اور بچے صحن میں کھیل کود میں مصروف تھے۔ ایسے میں ایک خاتون جن کی عمر 40 ، 45 سال کے لگ بھگ ہوگی، سرخ و سیاہ ملاپ کے رنگ کا نفیس جوڑا زیب تن کیے عجلت میں کچن میں داخل ہوئیں اور خواتین کو مخاطب کیا
’’ چلو اگر بریانی تیار ہو گئی ہو تو ایک پلیٹ تیار کردو۔مسٹر اینڈ مسز ہمدانی کے گھر پہنچادوں ۔بعد میں مجھے وقت نہیں ملنا پھر۔ ‘‘انہوں نے اپنے نئے پڑوسیوں کا ذکر کیا جو چند ہفتے پہلے ہی کینیڈا سے وہاں شفٹ ہوئے تھے۔اور مہرالنسا بیگم کی اپنی باتونی طبیعت کے باعث بہت جلد ہی ان سے بہترین تعلقات قائم ہوچکے تھے۔
’’احمد!‘‘
’’ جی تائی امی!‘‘ ایک دس ، بارہ سالہ بچہ کچن میں داخل ہوا ۔
’’ذرا یہ افطاری ہمدانی انکل کے گھر دے آؤ ، اور ہاں دھیان سے لے جانا، ٹھیک ؟‘‘
’’جی!‘‘ اثبات میں سر ہلا کر جواب دیتے وہ کچن سے نکل گیا ۔ تھوڑی دیر بعد جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک باؤل تھا۔
’’یہ کیا لے آئے ؟‘‘کچن میں موجود خواتین میں سے ایک نے سوال کیا۔
’’امی! آنٹی نے حلیم بھیجا ہے۔‘‘احمد نے انہیں باؤل تھماتے ہوئے جواب دیا ۔ اور اشتیاق سے بتانے لگا ’’اور آپ کو پتا ہے اتنی بڑی بڑی دیگیں تھی چولہے پر ۔‘‘ اس نے اپنے ہاتھوں کو پھیلایا۔
’’ اچھا ! اس کی کیا ضرورت تھی بھلا؟ خیر تم جاؤ کھیلو۔‘‘ انہوں نے اسے جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔
اسی نواب ولا سے تھوڑی دور، فاصلے پر موجود گھر میں جائیں تو عصر کے وقت کے اس سحر زدہ ماحول میں چھت پر کھڑی دو معصوم آنکھیں اپنے اندر اداسی ، حسرت و سنجیدگی سموئے نواب ولا کو تک رہی تھیں ۔ چند سال پہلے تک ان آنکھوں میں کیا کچھ نہیں تھا ۔مسکراہٹیں ، خوشیاں ، شوخیاں ، چنچل پن؛اور آج ان تمام احساسات کی جگہ اداسی ، حسرت اور سنجیدگی نے لے لی تھی ۔ سچ کہتے ہیں لوگ کہ باپ ایک گھنے اور سایہ دار درخت کی مانند ہوتا ہے جو زمانے کی ہر قسم کی تکالیف سہہ کر اور قربانیاں دے کر اپنے سائے تلے رہنے والوں کی حفاظت کرتا ہے۔ انھیں ہر قسم کی خوشیاں دینے کی کوشش کرتا ہے اور جب یہ گھنا اور مضبوط سایہ سر سےہٹ جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ زندگی کتنی دشوار ہے ۔پھر زندگی کیا کیا قربانیاں نہیں مانگتی ۔
اس معصوم جان نے بھی14سال کی عمر میں اس مضبوط سائے کو کھودیا ۔ اور ماں ایک پرائیوٹ اسکول میں بطور معلمہ پڑھا کر اور محلےکے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر حاصل ہونے والی آمدنی سے ان تینوں بہن بھائیوں کو پال رہی تھی۔ زمانے کے اس نشیب و فراز نے اس معصوم کو اپنی عمر سے زیادہ سنجیدہ بنا دیا ۔
’’ عبداللہ ! ‘‘ماں کی آواز پر آنکھوں کی سنجیدگی کی جگہ نرمی در آئی اور اداسی و حسرت کے ساتھ نرمی کے امتزاج نے ان آنکھوں میں چمک بھر دی۔
’’عبداللہ بیٹا! کہاں گم ہو ؟ کب سے آوازیں لگا رہی ہوں تمہیں۔‘‘مریم نے اس کے قریب آتے ہی سوال کیا ۔
’’کہیں نہیں امی ، بس آج بہت دنوں بعد موسم اتنا اچھا ہے تو سوچا تھوڑی دیر یہیں چھت پر رک جاتا ہوں۔‘‘ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور دوبارہ اپنی نظریں برقی قمقموں سے سجے نواب ولا پر گاڑ دیں۔
’’ ہاں یہ بات تو ہے۔‘‘ مریم نے اس کی بات کی تائید میں سر ہلا کر جواب دیتےہوئے اس کی نظروں کے عقب میں دیکھا ،اور ایک لمبی سانس لی ۔
’’آپ کو پتا ہے آج امان کی روزہ کشائی ہے۔‘‘ اس نے انہیں بتایا ،نظریں ابھی بھی نواب ولا پر ٹکی تھیں۔
’’ اچھا ! ماشاءاللہ ، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ‘‘
مریم نے خوشی سے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ۔
’’اور اس کے پہلا روزہ رکھنے کی خوشی میں مہرو پھوپھو نے ایک دعوت رکھی ہے۔ ‘‘اس نے انہیں بتایا ۔ آنکھوں کے رنگوں میں تبدیلی ہوئی، دکھ اور تکلیف کےرنگ دوسرے رنگوں پر غالب آنے لگے۔
’’ بارک اللہ ! اللہ انھیں اور بھی خوشیاں دے۔‘‘مر یم نے کہا اور پھر جھجکتے ہوئے سوال کیا
’’ویسے …تمہیں یہ سب کیسے پتا؟“ جواب میں عبداللہ نے فٹ پاتھ کی جانب اشارہ کیا جہاں ایک عورت میلے کچیلے کپڑے پہنے الجھے بالوں میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی آنے جانے والوں کو پکار پکار کر روکتی ان سے پیسے مانگ رہی تھی اور لوگ اس کے حال کو دیکھتے، کچھ نہ کچھ جھولی میں ڈال دیتے۔
’’ آج نماز سے واپسی مسجد کے باہر وہ مجھے ملی تھی تب اس نے بتایا کہ آج رات اسےمیری پھوپھونے کھانے پر بلایا ہے ۔‘‘لہجے میں ہلکی سی تلخی در آئی۔
’’ اچھا ؟‘‘
’’امی ! امی ! بھیا ! ‘‘اسی دوران دو ننھے فرشتے انھیں پکارتے دوڑے چلے آئے ۔
’’ارے ! عبدالرحمٰن ، عائشہ ! بولا تھا نا نیچے ہی رہو ، ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے دونوں ،آں؟‘‘ مریم نے دونوں کو گھرکا۔
’’ آپ اور بھیا کب سے اوپر ہیں، اور ہمیں بھوک بھی لگی ہے ۔ اب تو روزہ کھولنے دیں ناں ۔‘‘عبدالرحمٰن نے معصومیت سے کہا ۔
اس کی بات پر مریم اور عبداللہ کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’ابھی نہیں کھولنا ، مغرب کی اذان ہوگی ناں تو ہم سب مل کر روزہ کھولیں گے ۔ ٹھیک ہے ؟ اور پہلے روزے میں ہی اتنے زور کی بھوک لگ گئی ؟ ابھی تو آپ نے اور بھی رکھنے ہے ناں؟‘‘ اس کے سوال پر عبدالرحمٰن سے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا ۔
’’ امی آج افطاری میں کیا بنایا ؟ ‘‘ننھی سی عائشہ نے سوال کیا۔
’’ آپ دونوں کے فیوریٹ آلو کے بھجیے اور تربوز ۔ ‘‘مریم نے اسے قریب کرتے جواب دیا۔
’’سچی !‘‘
’’ ہاں ‘‘
’’اور کھانے میں ؟‘‘اس بار سوال عبدالرحمٰن کی طرف سے آیا ۔
’’ارے بھئی اب افطاری پر آپ کی فیوریٹ چیز بنی ہے تو ظاہر ہے امی نے کھانے میں میری فیوریٹ چیز بنائی ہے، یعنی دالچہ اور چاول ۔‘‘ مریم کے بجائے عبداللہ نے جواب دیا جس پر مریم کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی در آئی ۔
’’ یہ چیٹنگ ہے ۔ دو دن سے آپ کی ہی فیوریٹ کھانا بن رہا ۔امی ہمارے پسند کا کھانا بھی تو بنائیے ناں !‘‘ دونوں نے منہ پھلا کر شکایت کی ۔
’’ان شاءاللہ ! ضرور بنائیں گے ابھی نیچے چلو فروٹ کاٹتے ہے۔ ‘‘مریم نے جواب دیا ۔
’’ ہاں امی چلیں ۔ اور امی آج مجھے زیادہ تربوز چاہیے، آپ نے کل اس پیٹوکو دے دیے تھے۔‘‘عائشہ اپنی عبدالرحمٰن کی جانب اشارہ کرتے اپنی ماں سے مخاطب ہوئی۔
’’ارے! ایسے نہیں بولتے بڑا بھائی ہے تمہارا ۔‘‘مریم نے عائشہ کو گھوری سے نوازتے ڈانٹا۔
’’جی امی ! تین منٹ بڑا بھائی ۔‘‘عائشہ نے جواب دیا اور فورا نیچے کی جانب بھاگی اور اس کے پیچھے عبدالرحمٰن۔ان کی اس حرکت پر عبداللہ اور مریم کا بے ساختہ قہقہہ گونجا ۔
سورج نے لمحہ بھر کے لیے بادلوں کی اوٹ سے جھانک کر دیکھا اور پھر دوبارہ بادلوں کی آغوش میں پناہ لےلی۔

سچ کہتے ہیں لوگ کہ باپ ایک گھنے اور سایہ دار درخت کی مانند ہوتا ہے جو زمانے کی ہر قسم کی تکالیف سہہ کر اور قربانیاں دے کر اپنے سائے تلے رہنے والوں کی حفاظت کرتا ہے۔ انھیں ہر قسم کی خوشیاں دینے کی کوشش کرتا ہے اور جب یہ گھنا اور مضبوط سایہ سر سےہٹ جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ زندگی کتنی دشوار ہے ۔پھر زندگی کیا کیا قربانیاں نہیں مانگتی ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ٢٠٢٢