سماجی طور پر دیکھیں تو دنیا کا سب سے سنجیدہ مسئلہ گھریلو تشدد ہے۔ کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں۔ تمام سماجوں، نسلوں اور طبقات میں یہ عام ہے۔ مجموعی طور سے دیکھا جائے تو دنیا کی ایک تہائی عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ آج ذات پات، طبقے، مذہب، عمر، اور تعلیم کو بالائے طاق رکھ کر گھریلو تشدد(Domestic violence)پورے ہندوستان میں ایک وسیع پیمانے پر ہونے والا واقعہ ہے۔یہ ایک حقیقت ہے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاندانوں(Families) کا جائزہ لیا گیا سروے (Survey)کہتا ہے کہ معاشرے میں 24 قسم (Category)کے گھریلو تشدد خواتین پر کیے جاتے ہیں۔گھریلو تشدد کی مختلف صورتیں بتائی گئی ہیں جسمانی، جنسی، مالی،سماجی،جذباتی اور نفسیاتی وغیرہ یہ تمام صورتیں گھریلو تشدد کے دائرے میں آتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نیشنل فیملی ہیلتھ سروے- 5ریاستوںاور707 اضلاع میں سے مرکز کے زیر انتظام 8 علاقوں میں تقریباً 6.37 لاکھ گھرانوں میں سروے کیا گیا، جس میں 724115 خواتین اور 101839 مردوں کا احاطہ کیا گیا تاکہ ضلعی سطح پر مجموعی تخمینہ فراہم کیا جا سکے۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں تقریباً ایک تہائی (32 فیصد) خواتین کو ازدواجی زیادتی،جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔شادی شدہ خواتین میں سے 29 فیصد خواتین کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور 14% کو جذباتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جسمانی تشدد کی کارروائیوں میں سب سے عام قسم تھپڑ مارنا، تذلیل و تحقیر کرنا،ڈرانا دھمکانا، دھکیلنا، لات گھونسہ مارنا،ڈنڈے سے پٹائی کرنا،بندوق یا کسی دوسرے ہتھیار سے نقصان پہنچانا، ہلانا یا ان پر کوئی چیز پھینک کرزخمی کردینا ہے ، جس کی% 25خواتین نے رپورٹ کی ہے۔ خواتین کی شائستگی کو مجروح کرنے اور چھیڑ چھاڑ کے معاملات میں رپورٹ کے مطابق تقریباً6% اضافہ ہوا۔ شہری علاقوں کی خواتین 24%اور ان کے مقابلے میں دیہی علاقوں کی خواتین34%یصد زیادہ جسمانی تشدد، کی ایک یا زیادہ شکلوں کا سامنا کرتی ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB)کی رپورٹ کے مطابق، Acid attack, Dowry death, Rape خواتین کے ساتھ ان کے شوہروں یا رشتہ داروں کی جانب سے زیادتی کے واقعات، خواتین پر تشدد کے واقعات، اور خواتین پر ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی نیت سے حملوں کے واقعات میں اضافہ رونما ہوا ہے۔ COVID-19وبائی مرض پر قابو پانے کے لیے قومی لاک ڈاؤن نے خواتین کو گھریلو تشدد کی کارروائیوں نے زیادہ متاثر کیا۔تین سال کے اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سال 2020 ءکی بنسبت سال 2021ءمیں گھریلو تشدد کی شکایتوں میں26% اضافہ ہوا۔
کرناٹک میں،سب سے زیادہ خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئی ہیں 48 فیصد، اس کے بعد اتر پردیش، بہار، تلنگانہ، منی پور، تمل ناڈو میں 40-41%واتین تشدد کا شکار ہوئیں۔ لکشدیپ میں گھریلو تشدد سب سے کم 2.1% ہے۔ اسی طرح قومی فیملی ہیلتھ سروےNFHS-5کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی 12ریاستوں میں 70فیصد خواتین ایسی ہیں جواپنے او پر کیے جانے والے تشدد کے ازالے کیلئے کوئی مدد نہیں لے رہی ہیں۔
گھریلو تشدد محض اس ملک کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ دنیاکے تمام ممالک اس تشویش ناک صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ ان میں وہ ممالک بھی ہیں جن کے باشندوں کاتہذیبی و سماجی شعور زیادہ بلند نہیں ہے اور وہ ممالک بھی ہیں جنہیں عصر حاضر میں تہذیب و تمدن کا امام سمجھا جاتا ہے۔ ہرجگہ عورتیں بری طرح ظلم و تشدد کا شکار ہیں اور ان پر ظلم ڈھانے والے کوئی اور نہیں ان کے قریبی افراد ہیں۔89 ممالک نے عورتوں کے خلاف تشدد کے سلسلے میں Legislative Provisions بنائے ہیں، ان میں سے 60 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے Special Domestic violence Laws نافذ کیے ہیں، اس کے علاوہ بہت سے ممالک نے گھریلو تشدد ختم کرنے کے لیے National Plan of Action تیار کیے ہیں۔
گھریلو تشدد کی سنگین صورت حال کی روک تھام کے لیے ہر ملک اپنے طور پر بااثر قوانین نافذ کر رہا ہے، لیکن عورتوں کی غالب اکثریت کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ وہ اب بھی تشدّد کا شکار ہیں۔ تشدد کو روکنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بین المذاہب حالات کا تقابلی جائزہ اور صحیح تجزیہ کیا جائے ،تاکہ معاشرے کے امراض کی صحیح تشخیص اور صحیح علاج کیا جاسکے۔ اور اگر یہ نہ ہوا تو مرض کی شدّت اور خطرناکی میں بھی اضافہ ہوگا۔ گھر اور معاشرے کی تشکیل نو اسلامی طریقہ پر کی جائے کیونکہ اسلام ہی نے اخلاقی اقدار کو فروغ دیا اور عورتوں کو علیٰ ازدواجی، سماجی، معاشرتی، مالی، جذباتی و نفسیاتی حقوق دئیے ہیں۔
COVID-19وبائی مرض پر قابو پانے کے لیے قومی لاک ڈاؤن نے خواتین کو گھریلو تشدد کی کارروائیوں نے زیادہ متاثر کیا۔
تین سال کے اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سال 2020ءکی بنسبت سال 2021ءمیں گھریلو تشدد کی شکایتوں میں26% اضافہ ہوا۔
0 Comments