پناہ گاہ (قسط:۳)
سمیرا تو اس کے خواب دیکھنے لگی تھی۔ خوبصورت خواب اس آنکھوں کی دہلیز پر خوش رنگ پروں والے پرندوں کی مانند آبیٹھے تھے ۔پھر وہ خوابوں سے نکل کر اس کے سامنے بھی آبیٹھا تھا ۔ پتہ نہیں وہ کیسے خواب دیکھتا تھا، اسے علم نہ تھا۔
اس روز چھٹی تھی۔ امی صبح سے ہی ملازمہ کے ساتھ مل کر گھر کی صفائی میں مصروف تھیں۔ ڈرائنگ روم کے پردے بدلوائے گئے ،صوفوں کے استری شدہ کور ڈال دیے گئے ۔گھر کے چھوٹے سے لان کی صفائی کروائی گئی ۔ اس تبدیلی پر وہ حیران ہوئی تھی۔
’’امی آج کوئی خاص دن ہے جو صبح سے محنت ہورہی ہے ؟“سمیرا نے ناعمہ بھابھی کو مسکراتے دیکھ کرکہا
’’تمہیں کچھ مہمان دیکھنے آرہے ہیں۔‘‘ ناعمہ بھابھی شوخ ہوئیں۔
’’مہمان…!!مجھے کیوں دیکھیں گے؟ کیا میں عجائب گھر کا پراڈکٹ ہوں؟‘‘ اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا پھر بھی لاپرواہی سے بولی۔
’’میری سمی..! لڑکا تمہارے ابو کو پسند آگیا ہے پچھلے ہفتے ہی وہ اس سے مل کر گھر بھی دیکھ آئےہیں …! ! ‘‘ امی اسے قریب لے کر پیار سے بولیں۔
’’تین بھائی تین بہنیں ہیں ،بڑی بہن کی شادی ہو گئی ہے، بھرا پرا گھر ہے والد ٹھیکے دار ہیں ۔‘‘ وہ خاموش رہی تو امی نے مزید کہا
’’لڑکا تمہاری ہی کمپنی میں جاب کرتا ہے مسعود…مسعود ظفر۔‘‘ناعمہ بھابھی چٹکی لے کر بولیں تو ایکدم جیسے کسی پنجرےسے وہ آزاد ہوگئی تھی۔ زندگی اتنی آسانی سے مہربان ہوگی، اس نے سوچا نہیں تھا۔
’’تمہیں منظورِ تو ہے ناں؟‘‘ امی نے تصدیق چاہی تو اس کی زبان تالو سے چپک گئی۔
’’ ارے خالہ جان !! آپ دیکھ نہیں رہیں اس کے چہرے کا رنگ ..!!‘‘ناعمہ بھابھی
کھل کھلاکرہنستے ہوئے بولیں تو وہ اندر کی جانب دوڑ پڑی ۔
’’ وہ دوپہر کو آرہے ہیں اچھے سے تیار ہوجانا۔‘‘ می نے پیچھے سے کہا۔
شاور لے کر اس نے گہرے جامنی رنگ کے سفید کڑھائی والے والا سوٹ زیب تن کیا۔ بڑی بڑی آنکھوں میں کاجل بھرا، نیچرل لپ اسٹک لگائی ا ور اپنے گھنے بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑ دیا۔
ناعمہ بھابھی نے آکر بتایا کہ مہمان آگئے ہیں اور انہوں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا ہے۔
وہ ٹرالی لیےجو بھابھی نے سجائی تھی ،سلام کرتے ہوئے اندر داخل ہوئی تو اسے لگا جیسے اس کے قدم من من بھر کے ہو رہے تھے۔ وہ تو خود کو بہت با اعتماد سمجھتی تھی مگر شاید یہ موقع ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہر لڑکی کی خود اعتمادی ہوا ہو جاتی ہے ۔مسعود کی والدہ نے حسب روایت اسے پیار سے اپنے قریب بلایا تو وہ ان کے پاس چلی گئی ۔مسعود کی بہن فہمیدہ اٹھ کر اس سے ملی۔
’’ بہت پیاری ہے سمیرا‘‘ اب پتہ نہیں انہوں نے امی سے کہا تھا یا مسعود سے ،وہ کچھ جان نہ سکی ۔مسعود بھی وہیں قریب بیٹھا تھا اور سمیرا سے پلکیں بھی اٹھا ئی نہیں جا رہی تھیں۔ امی کے کہنے پر اس نے سب کو چائے سرو کی اور پھر رکی نہیں، کمرے میں گھس گئی۔
پھر اسے زیادہ پتہ نہ چلا کہ گھر میں کیا کیا کاروائیاں ہوئیں۔ امی نے اس کی چھٹیوں کے حساب سے منگنی اور شادی کی تاریخیں ابو کو بتا دیں اور یوں سادگی سے اس کی منگنی مسعود کے ساتھ ہوگئ۔ وہ اپنے خوابوں کی تکمیل پر جتنی خوش ہوئی اتنی تو کبھی نہیں ہوئی تھی۔
مسعود نے کمپنی کی جاب چھوڑ کر قریبی بینک میں سکینڈ آفیسر کی پوسٹ پر سروس جوائن کر لی تھی ۔
مسعود کے پاس شروع سے ہی بائیک تھی ۔وہ خاص سمیرا کے بس اسٹاپ کے پاس بائیک پارک کرتا اور اسی کے ساتھ آفس جاتا، اور واپسی پر اس کے ساتھ اسٹاپ پر اترتا اور بائیک لے جاتا تھا۔ یہ عقدہ منگنی کے بعد کھلا تھا جب دوسرے ہی دن وہ بائیک لے کر اسے پک کرنے پہنچا تھا۔
سمیرا نے منع کر دیا تھا۔ شادی سے پہلے ہی اتنی بےباکی اسے اچھی نہیں لگی تھی۔
پہلے جب اسے تنخواہ ملتی تھی تو وہ ببھتیجے بھتیجیوں کے لئے کچھ نہ کچھ لے آتی تھی ،اور کچھ رقم سے اپنے لیے نئے کپڑے اور ضروریات کی چیزیں لے لیتی تھی۔ گھر میں کبھی ایک روپیہ بھی نہیں دیا تھا، مگر اب پوری تنخواہ ماں کے حوالے کردیتی تھی۔ وہ بھی کچھ نہیں کہتی تھی، وہ سمجھتی تھی اس کا مقصد کیا ہے۔ انہوں نے اس کی رقم بینک میں رکھنا شروع کر دیاتھا۔ باپ بھائی اتنا کما لیتے تھے کہ اسے بہترین جہیز دے کر رخصت کرتے، اور واقعی دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس کے جہیز میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی ۔اوپرسے ابو نے چیک بھی دیا تھا ،اس کی جتنی رقم اس عرصہ میں بینک میں جمع ہو ئی تھی،انہوں نےاتنی ہی اور رقم دی تھی۔
شادی بھی خوب دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو پا کر بہت خوشی تھے۔ سسرال والے بھی بہت چاہتے تھے کہ وہ مسعود کی پسند تھی۔ وہ اگر کھانا کھانے دسترخوان پر نہ آتی تو سلمیٰ بیگم اس کے لئے اور مسعود کے لئے صدف کے ہاتھ کھانا کمرے میں بھیج دیتی تھیں۔ صدف بہت خوش اخلاقی سے پیش آتی تھی ،بہت سمجھدار اور سلیقہ شعار تھی، وکالت پڑھ رہی تھی۔
’’ امی..!!ہم آہی رہے تھے آپ نے کھانا کیوں بھجوایا!‘‘ مسعود شرمندہ سا ہو جاتاتھا
’’دلہن نئی ہے ، اسے ایڈجسٹمنٹ میں تھوڑا وقت لگے گا پتہ نہیں مارے شرم کے پیٹ بھر کر کھاتی بھی ہے یا نہیں۔‘‘ سلمیٰ بیگم دلار سے بولیں۔
’’ خود سے دشمنی کرے گی۔‘‘مسعود نے لاڈ سے بانہیں ماں کی گردن میں ڈالیں۔
’’ جب خود پکانے لگے گی، پھر جھجک بھی اترے گی ‘‘ وہ پیار سے بولیں۔
’’ تو پکوائیں ناں …!‘‘ مسعود نے جھٹ کہا۔
’’ ابھی آرام کرے ،ساری زندگی پڑی ہے کچن میں جانے کے لئے ،عورت کی آدھی عمر تو کچن میں ہی گزر جاتی ہے ۔‘‘ وہ سادگی سے بولیں ۔
’’ امی بے فکر رہیں، میکے میں اس نے کوئی کام نہیں کیا ،اب کام لیں۔‘‘ مسعود شوخی سے اسے دیکھ کر بولا۔
’’ اچھا جب وقت آئے گا تو کر لے گی، تم کیوں پیچھے پڑے ہو ؟‘‘ انہوں نے ڈانٹا۔
مسعود کی باتوں پر سمیرا کو غصہ تو بہت آرہا تھا، لیکن وہ خاموش بیٹھی رہی تھی ۔جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا وہ شروع ہوگئی
’’ میں تمہیں کمرے میں اچھی نہیں لگتی جو کچن میں بھگا رہے ہو ؟‘‘ وہ غصہ سے تنک کر بولی اور سوچنے لگی کہ وقت بہ وقت وہ مسعود کو ایسی باتوں پر ٹوکے گی نہیں تو ساس صاحبہ اس کے سر چڑھ جائیں گی۔
’’ یار میں تو مذاق کر رہا تھا … انجوائے کیا کرو ۔‘‘ مسعود نے جلدی ہی اسے بہلا لیا ،مگراس کے رویے سے وہ حیران تو بہت تھا ۔
ان دونوں کی چھٹیاں ختم ہو گئی تھیں، اگلے روز دونوں کو آفس جانا تھا ۔
’’ سمی! تم امی سے آفس جانے کی اجازت لے لو ۔‘‘ مسعود نے پیار سے کہا۔
’’ کیوں ؟‘‘ وہ تیوری چڑھا کر بولی۔
’’ وہ خوش ہو جائیں گی۔‘‘ مسعود نے ہنوز لہجے کو نرم رکھا۔
’’ انہیں پتہ نہیں کہ میں شادی سے پہلے بھی جاب کرتی تھی اور تمہیں بتایا بھی تھا ،تم نے انہیں نہیں بتایا ؟‘‘ وہ ہتھے سے اکھڑ گئی۔
’’ بتایا تو ہے،مگر پوچھنے میں کیا حرج ہے؟‘‘وہ حیران ہوا۔
’’ میں صرف تم سے پوچھوں گی ،گھر کے ایک ایک فرد کے سامنے مجھے ڈی گریڈمت کرو۔وہ چڑ کر صاف بولی۔
’’ اس میں تمہاری کونسی ہتک ہے؟‘‘مسعود بھی چڑ گیا۔
’’ ہے ناں…میں بس تمہاری پابند ہوں کسی اور کی نہیں …اور رہا میری نوکری کا معاملہ ،تو شادی سے قبل اس بارے میں بات ہو گئی تھی۔‘‘وہ کہتی ہوئی واش روم میں گھس گئی ۔
مسعود کو سمیرا کا یہ نیا انداز پریشان کر گیا تھا، اس کا یہ جارحانہ رویہ دیکھ کر وہ تشویش میں مبتلا ہو گیا تھا ۔
پھر اس نے اپنی طرف سے سلمیٰ بیگم سے سمیرا کےنوکری کرنے کے بابت بات کی، انہیں بھلا کیا اعتراض تھا
’’ کرے نوکری…آخر اس نے اتنا پڑھا کس لیے ہے۔‘‘سلمیٰ بیگم بولیں۔
’’ آپ کو اعتراض تو نہیں ناں امی؟‘‘مسعود ان کا ہاتھ تھام کر عقیدت سے بولا۔
’’ مجھے اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘وہ محبت سے بولیں تو ہاتھ چومتا اٹھا تھا۔
’’ امی کو تمہارے جاب کرنے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘وہ سمیرا کو دیکھ خوشی سے بولا۔
’’ تم نے ان سے پوچھا!؟‘‘وہ حیرت سے اسے دیکھ کر بولی۔
’’ ہاں حرج ہی کیا ہے، اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘مسعود مسکرا کر سمجھانے لگا۔
“’’ دیکھو مسعود !میں اپنے معاملات میں کسی کی بھی مداخلت برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘وہ سختی سے بپھری ۔
’’ وہ کسی نہیں ،میری ماں ہیں۔‘‘مسعود نے برجستہ برہمی سے کہا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گئی ۔بولی کچھ نہیں۔ ابھی شادی کو ایک ماہ ہی ہوا تھا۔ اس عرصہ میں اس نے اندازہ لگایا تھا کہ مسعود ماں کی بہت مانتا ہے،ایک بات نہیں ٹالتا، اور یہ بات اسے اچھی نہیں لگتی تھی۔ مگر اس نے اظہار نہیں کیا تھا، کرتی تو بھی کوئی وجہ موجود نہیں تھی۔
وہ اور مسعود آفس جانے کے لیے اکٹھے نکلتے، مسعود اسے چھوڑ کر بینک چلا جاتا اور واپسی پر لیتا بھی آتا تھا۔ زندگی معمول پر آگئی تھی۔ سلمیٰ بیگم نے گھر کا کام بانٹ دیا تھا۔ اسے رات کے پھلکے بنانے کا کام لگایا اور مسعود نے کہا تھا کہ وہ اس کے لئے ناشتہ بنایا کرے۔ اب وہ مسعود کے لئے ناشتہ بناتی تو سب کے لئے بنانا پڑ جاتا۔ اسے خوب غصہ آتا ۔وہ کڑھ کر سارا کچن اوندھا کر دیتی اور آفس کو نکل جاتی۔ اس کے جانے کے بعد سلمی بیگم پورا کچن سمیٹتیں، صفائی کرتیں، صدف ان کی مدد کرکے پھر کالج چلی جاتی تھی۔ سمیرا غصہ میں کئی بار ناشتہ بھی نہیں کرتی تھی۔
چند مہینوں میں سمیرا نے اپنے پر پرزے نکالنے شروع کردیے۔ وہ یہ سب اپنے دماغ سے پلاننگ کر کے ہی کر رہی تھی ۔پہلے تو صبح ناشتہ بنانے سے انکار کیا ۔
’’ ناشتہ بنانے میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ آفس جانے کی تیاری بڑی مشکل سے ہوتی ہے۔کبھی کوئی فائل نہیں ملتی ،کبھی کوئی پیپر رہ جاتا ہے۔‘‘سمیرا نے پریشان لہجے میں مسعود سے کہا تھا۔
ناشتہ صدف اور سلمیٰ بیگم بنانے لگیں، ندرت بھی ان کی مدد کردیتی تھی۔ وہ دونوں سب کو ناشتہ کرواکر پورا کچن سمیٹتیں،پھر صدف سمیرا سے پہلے کالج کےلیے نکل جاتی تھی۔ مسعود دیکھتا تھا سمیرا کچن کو کیسے پھیلا دیتی تھی اور یہ نوعمر لڑکیاں کتنی صفائی سے کام کرتی ہیں۔
وہ اپنا اور مسعود کا ناشتہ بنا کر کمرے میں ہی لے آتی تھی اور جلدی جلدی آفس کی تیاری شروع کرتی تو گھنٹہ لگادیتی تھی۔ اس کی دانست میں وہ مسعود کو بتاتی تھی کہ وہ کام میںکتنا مصروف ہے، اس جلدی میں بھی مسعود کی فرمانبرداری بہت کھلتی تھی کہ وہ آفس نکلنے سے پہلے ماں سے سلام دعا کرتا۔ واپسی پر ان سے ملتا۔ یہ گھر میں سب کا ہی معمول تھا۔ لیکن سمیرا کو مسعود کا یوں صرف اپنی ماں کو اہمیت دینا بہت برا لگتا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی سمیرا کو بھی ساس کی جی حضوری کرنی پڑتی تھی۔ ندرت تو سمیرا کے قریب بھی نہیں پھٹکتی تھی ،جب کہ صدف اس کا خیال رکھتی تھی۔ مگر سمیرا کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ وجہ یہی تھی کہ وہ بہت سگھڑ اور پڑھنے میں بھی تیز تھی۔ اس کی تعریف آئے دن سمیرا کے سامنے ہوتی رہتی تھی، اس لیے وہ حسد میں مبتلا ہوگئی تھی۔ اور سب کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتی تھی۔ مگر بھول گئی کہ پروردگار ہر دل کی بات جانتا ہے، دل کے ذکر سے غافل ہوتے ہی شیطان کوے کی چونچ کی طرح دل کو پکڑ لیتا ہے، سمیرا کے ساتھ بھی وہی ہورہا تھا۔
ان کی شادی کو سال ہوا تھا سمیرا کو لگ رہا تھا وہ برسوں سے اس کی قید میں رہ رہی ہے ،اسے وہ گھر سوائے قید خانے کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا ۔اسے مسعود کا ماں، بابا اور بہن بھائیوں سے بڑھا ہوا التفات ذرا نہیںبھاتا۔ آج کل سمیرا کو مسعود کی کوئی بھی بات اچھی نہیں لگتی تھی۔(جاری)

مسعود کو سمیرا کا یہ نیا انداز پریشان کر گیا تھا، اس کا یہ جارحانہ رویہ دیکھ کر وہ تشویش میں مبتلا ہو گیا تھا ۔پھر اس نے اپنی طرف سے سلمیٰ بیگم سے سمیرا کےنوکری کرنے کے بابت بات کی، انہیں بھلا کیا اعتراض تھا
’’کرے نوکری…آخر اس نے اتنا پڑھا کس لیے ہے۔‘‘سلمیٰ بیگم بولیں
’’ آپ کو اعتراض تو نہیں ناں امی؟‘‘مسعود ان کا ہاتھ تھام کر عقیدت سے بولا
’’ مجھے اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘وہ محبت سے بولیں تو ہاتھ چومتا اٹھا تھا۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. شاذی احمد

    “می نے پیچھے سے کہا۔”
    امی کی الف چھوٹی ہوئی ہے۔
    پروف ریڈر خیال رکھا کریں!

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ٢٠٢٢