ھادیہ تحریری مقابلہ(اول انعام یافتہ تحریر) حجاب ضروری کیوں؟(شرعی، عقلی اور قانونی دلائل کی روشنی میں)

حجاب کے لغوی معنی : ہر وہ چیز جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو۔
اور شریعت کی اصطلاح میں: پردہ اور نقاب دونوں ہی معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔
حجاب عورت کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کسی جاندار کے لیے کھانا پینا اور سانس لینا۔ جس طرح ان چیزوں کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح پردے کے بغیر عورت کا تصور بھی عبث ہے۔ پردہ عورت کو وہ عزت اور وقار بخشتا ہے جو کہ بے پردہ عورتوں کے حصے میں نہیں آتا۔ باپردہ عورت ایک کامل اور معزز شخصیت معلوم ہوتی ہے ،جبکہ بے پردہ عورت محض ایک شوپیس کی صورت لگتی ہے ،جو راہ گیروں اور دکان داروں کی دل چسپی اور تسکین قلب کا باعث بنتی ہے،کہ جسے ہر راہ چلتا دیکھ کر اور گھور کر اپنی نگاہوں کو تسکین فراہم کرتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ راہ چلتے آوارہ اور بدمعاشوں کی چھیڑ چھاڑ کا نشانہ اکثر بے پردہ عورتیں ہی بنتی ہیں، جو اپنے نامکمل لباس اور ناز و انداز سے دعوت نظارہ دیتی ہیں ،جب کہ ایک پردہ دار عورت کا سارا بناؤ سنگھار اور زیب وزینت اس کی چادر اور برقعے کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے، جس سے وہ اذیت رسانی سے محفوظ ہوجاتی ہے۔ اکثر ستم رسیدہ خواتین کو یہ شکوہ کرتے ہوئے پایا جاتا ہے کہ میں خوبصورت ہوں تو اس میں میرا کیا قصور ہے جو مجھے اس طرح چھیڑ چھاڑ اور ہراس منٹ کا شکار بنایا جاتا ہے؟ تو اس کا سیدھا سادہ جواب ایک مصنفہ نے اپنے ناول میں اس طرح سے دیا ہے کہآپ خوبصورت ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے ،لیکن راہ چلتے لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ آپ خوبصورت ہیں تو اس میں آپ کا قصور ہے ۔ ایک عورت کو اگر اللہ تعالیٰ نے خوبصورت چہرہ اور پرکشش جسم عطا کیا ہے، تو اس خوبصورتی اور دلکشی کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے، جس حد تک کہ مذہب میں اجازت دی گئی ہے، اور اس کی خوبصورتی پر صرف اس کے شوہر کا حق ہے اس طرح راستہ چلتے لوگوں کو اپنے حسن سے مستفید کرنا کہاں کا چلن ہے؟

شرعی دلائل کی روشنی میں

مذہب اسلام میں باپردہ عورت کو اس کی قدر اور عزت بتادی گئی ہے کہ تم اپنے آپ کو پردے میں چھپا کر رکھو تو تمہاری عزت کی جائے گی، اور تمہیں اذیت نہیں پہنچائی جائے گی۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ(سورہ احزاب، آیت نمبر:59)

’اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور پھر ان کو ستایا نہ جائے گا ۔‘‘

جلباب کی تعریف

جلباب سے مراد وہ کپڑا ہے جو سر سمیت پورے بدن کو ڈھک لے، جسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے’’ رداء‘‘یعنی چادر کہا ہے، اور جسے عام لوگ ازار کہتے ہیں، یعنی اتنا بڑا ازار جو سر اور باقی بدن کو ڈھک لے۔ گھونگھٹ لٹکانے کی تفسیر حضرت عبیدہ رحمہ اللہ نے یہ کی ہے کہ عورت اپنی چادر کو سر سے اسی طرح لٹکائے گی کہ اس کی صرف آنکھیں ظاہر رہیں گی، نقاب بھی اسی طرح کی چیز ہے، چنانچہ اس وقت کی مسلمان عورتیں نقاب بھی پہنا کرتی تھیں۔ (مسلمان عورت کا پردہ اور لباس، صفحہ نمبر:۱۵)
ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪(سورہ نور:۳۱)

’’(اےنبی!) اور مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہوجائے اور وہ سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بگل مار لیا کریں ۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

”یرحم اللہ نساء المھاجرات الأول لما أنزل اللہ (ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن) شققن مروطھن فاختمرن بھا.“(بخاری، کتاب التفسیر:4758)

’’اللہ تعالیٰ شروع کی مہاجر عورتوں پر رحم فرمائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا کہ عورتیں اپنی چادر کے پلو اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر اوڑھنیاں بنالیں ‘‘
حافظ ابن حجر اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

”فاختمرن أی غطین وجوھھن“

یعنی اوڑھنیاں بنانے کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا ۔
(فتح الباری:80/490)
محدث عظیم علامہ محمد ناصر الدین البانیؒ نے اپنی کتاب’’حجاب المرأۃ المسلمۃ‘‘میں پردہ کی جو شرطیں ذکر کی ہیں ان کی روشنی میں کامل لباس کا نقشہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے:
لباس ایسا ہو کہ اس سے پورا بدن ڈھک جائے، جیسا کہ آیت احزاب اور گذشتہ احادیث سے واضح ہے۔ پردہ یا لباس خود آرائش کا سامان نہ بن جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ (سورہ نور، آیت نمبر:31)

’’اور (مسلمان عورتیں) اپنی زینتوں کو ظاہر نہ کریں ۔‘‘ یہ آیت اپنے عموم کے ساتھ جملہ ظاہری پوشاک کو شامل ہے جبکہ وہ آراستہ وپیراستہ ہوں، اور یہیں سے یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ مختلف قسم کے نقوش اور بیل بوٹوں سے مزین برقع، نقاب اور چادریں پردہ میں شامل نہیں۔ کپڑا دبیز اور موٹا ہو تاکہ جسم نظر نہ آئے کیونکہ لباس یا پردہ کا مقصد ہی یہی ہے کہ جسم کو چھپایا جائے، طبقات ابن سعد کے مطابق حفصہ بنت عبدالرحمٰن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک باریک اوڑھنی اوڑھ کر آئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے دیکھتے ہی پھاڑ دیا اور کہا کہ تمہیں سورہ نور میں اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا حکم معلوم نہیں؟ پھر دوسری اوڑھنی منگاکر انہیں دی۔ لباس ڈھیلا ڈھالا ہو، ایسا چست اور تنگ نہ ہو کہ اس سے جسم کی ساخت و بناوٹ نمایاں ہو، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کپڑے تحفے میں دیے تھے، ان میں گاڑھے کتان کا ایک کپڑا تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پہنا دیا تھا، میں نے وہی کپڑا اپنی بیوی کو پہنا دیا، آپ نے مجھے سے دریافت فرمایا تم نے کتان کا وہ کپڑا کیوں استعمال نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا، اسے میں نے اپنی بیوی کو پہنادیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مرھا فلتجعل تحتھا غلالۃ فإنی أخاف أن تصف حجم عظامھا‘‘

’’اسے کہہ دو کہ اس کے نیچے شلوکہ پہن لیا کرے، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کپڑا بدن کی ہڈیوں کو نمایاں کرے گا۔ ‘‘
مردوں کے لباس سے ملتا جلتا نہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔(بخاری، کتاب اللباس5546: وغیرہ)
سنن: ابی داؤد کی روایت میں ہے:

”لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الرجل یلبس لبسۃ المرأۃ والمرأۃ تلبس لبسۃ الرجل“

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لباس پہننے والے مرد پر اور مردانہ لباس استعمال کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔‘‘(کتاب اللباس:4098)
لباس کافر عورتوں کی پوشاک سے مشابہ نہ ہو، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”من تشبہ بقوم فھو منھم“

’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی اس کا شمار ان ہی لوگوں میں ہوگا۔‘‘
(ابوداؤد، کتاب اللباس:4031)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر دو زرد رنگ کے کپڑے دیکھے تو فرمایا:

”إن ھذہ من ثیاب الکفار فلا تلبسھا“

’’ یہ کافروں کے لباس میں سے ہے لہٰذا اسے نہ پہنو۔‘‘(مسلم:5434)
لباس یا پردہ شہرت کا باعث نہ ہو، یعنی اس کے استعمال سے لوگوں کے مابین ممتاز یا نمایاں ہونا مقصود نہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”من لبس ثوب شھرۃ ألبسہ اللہ ثوب مذلۃ یوم القیامۃ ثم ألھب فیہ النار“ (ابوداؤد ۔صحیح الجامع:6526)

’’جس شخص نے شہرت کے لیے لباس پہنا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت وخواری کا لباس پہنائے گا پھر اس میں آگ بھڑکادے گا۔‘‘
واضح رہے کہ ان میں سے پہلی چار شرطوں کا تعلق خصوصی طور پر گھر سے باہر نکلنے سے ہے، جب کہ بعد کی شرطیں گھر اور باہر دونوں جگہوں کے لیے ہیں۔
(پاکیزہ نسل اور صالح معاشرہ، کیوں اور کیسے؟صفحہ نمبر247-250)
حجاب کے تعلق سے یہ چند شرعی دلائل ہوگئے جن کی روشنی میں شریعت کی نظر میں حجاب کو سمجھا اور جانا جاسکتا ہے۔ اب آتے ہیں عقلی دلائل کی طرف۔

عقلی دلائل

حجاب کے تعلق سے چند عقلی دلائل پیش خدمت ہیں: جس طرح پھلوں اور سبزیوں پر جب تک چھلکے ہوتے ہیں وہ فریش اور تر وتازہ ہوتے ہیں، اور جیسے ہی چھلکا اترتا ہے ان کی رنگت تبدیل ہونے لگتی ہے ،اور اگر انہیں چھلکا اتار کر کچھ دیر یونہی کھلا رکھ دیا جائے تو کیڑے مکوڑے اور بھونرے ان کا برا حال کردیتے ہیں، اور پھر وہ کھانے کے لائق نہیں رہ جاتے۔ بالکل یہی مثال حجاب کی بھی ہے۔ جس طرح چھلکے پھلوں اور سبزیوں کو کیڑے مکوڑوں اور بھونروں سے بچانے کا باعث بنتے ہیں بالکل اسی طرح حجاب بھی عورت کو غیر مردوں کی نظروں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ حجاب کو ایک اور مثال سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ زیورات اور قیمتی اشیاءکو تجوری یا لاکر میں رکھا جاتا ہے جب کہ سارے سامانوں کی جگہ لاکر میں نہیں ہوتی، صرف وہی سامان رکھے جاتے ہیں جو قیمتی ہوں۔ یہی مثال حجابی عورت کی ہے وہ چونکہ شریعت کی نظر میں زیورات سے کہیں زیادہ قیمتی اور نایاب ہے، اس لیے شریعت نے اس کی سیکیورٹی اور تحفظ کا پورا پورا انتظام کیا ہے۔ ساری دنیا کی عورتیں بغیر حجاب کے پھرتی ہیں صرف مسلمان عورت حجاب استعمال کرتی ہے کیوں کہ وہ انمول ہے۔اسی طرح آپ دیکھتے ہوں گے کہ پھلوں کے باغات میں پھلوں کو بندروں یا دیگر ضرر رساں کیڑے مکوڑوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک ایک پھل پر احتیاط سے کپڑا لپیٹا جاتا ہے تاکہ وہ پھل کسی بھی قسم کی خراش اور تباہی سے محفوظ رہ سکے، اگر یہی کپڑا نہیں لپیٹا جاتا ہے تو پھر باغ کا کوئی بھی پھل صحیح سالم نہیں رہ جاتا ،جو بھی جانور یا کیڑے مکوڑے چاہتے ہیں اس کو توڑتے، کاٹتے اور سوراخ کرتے غرضیکہ جس طرح چاہتے ہیں برباد کرتے ہیں اور پھر وہ پھل مالکوں کے کسی کام کا نہیں رہ جاتا۔ مہینوں کی محنت ان کی شرارت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ مالکوں کی ذرا سی سستی اور غفلت کی وجہ سے پورا باغ تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔ اگر ایک ایک پھل پر احتیاط سے کپڑا لپیٹ دیا جاتا تو وہ محفوظ رہتا، بالکل یہی صورت حال عورت کے پردے کی بھی ہے۔ سالوں ماں باپ محبت وشفقت سے پالتے پوستے ہیں اور محنت مشقت کرکے ساری سہولتیں فراہم کرتے ہیں، لیکن بالغ ہونے کے بعد پردہ کی پابندی نہیں کراتے تو رنگین مزاج حضرات اور شرپسندوں کو موقع مل جاتا ہے اور وہ انہیں تنگ کرنے، چھیڑ چھاڑ کرنےاور بسا اوقات زندگی برباد کرنے کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ یوں ماں باپ کی برسوں کی محنت اور محبت سے سینچی اور پروان چڑھائی ہوئی اولاد شرپسندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے، اور ماں باپ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ اگر انہیں بھی نقاب میں چھپا کر رکھا ہوتا تو یہ بھی محفوظ رہتیں۔ لیکن وہی مثل صادق آتی ہے کہ ؎

اب پچھتائے کا ہوت
جب چڑیا چگ گئی کھیت

ہر مہذب اور شائستہ سماج میں خواتین کا مکمل لباس میں ملبوس رہنا اچھا سمجھا جاتا ہے ،اور ستر پوشی کے بغیر لباس کا تصور ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ خواتین کو ستر پوشی کا تاکیدی حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی عفت وعصمت پر کوئی حرف نہ آئے۔ جس طرح ملک کی اعلیٰ شخصیات کو بلٹ پروف گاڑی اور حفاظتی دستہ دے کر ان کو قید کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ان کی حفاظت مطلوب ہوتی ہے۔ اسی طوح ان گراں قدر موتیوں (خواتین) کو پردہ کے حفاظتی قلعہ میں قید نہیں کیا گیا بلکہ ان کی حفاظت کا سامان کیا گیا۔(آزادی نسواں اور میڈیا: (اسلام کے تناظر میں)، صفحہ نمبر:119)
لوگ اپنے قیمتی سامان، کپڑےاور زیورات وغیرہ کی حفاظت کا زبردست قسم کا بندوبست کرتے ہیں۔ گھروں میں تالے لگاتے ہیں، زیورات بینکوں میں جمع کرتے ہیں،گھروں پر چوکیداروں اور کتوں کا پہرہ بٹھاتے ہیں۔ تو کیا دنیا کی سب سے قیمتی شے خاتون جو ماں ہے، بیٹی ہے، بہن ہے، بیوی ہے، اس کے حسن اور عفت وعصمت کی حفاظت کا بندوبست کرنا ضروری نہیں؟ عفت وعصمت عورت کی سب سے قیمتی متاع ہوتی ہے۔ شرم وحیاء انسان کا انمول زیور ہے۔ کیا ان قیمتی سامانوں کی حفاظت ضروری نہیں؟ کیا اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو اوباشوں کی نگاہ سے بچانا ضروری نہیں؟
عوام الناس میں اکثر یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ انہیں گھر سے باہر کہیں جانا ہوتا ہے تو بیٹی کو اپنے ساتھ لے کر جانے کے بجائے پڑوسیوں کے یہاں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور وضاحت یہ دیتے ہیں کہ بھئی سالوں سے ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہیں، وہ بھلا کیوں ہماری عزت کی حفاظت نہیں کریں گے؟ سوچنے کی بات ہے کہ جس عزت کی حفاظت آپ خود نہیں کررہے اس کی دوسروں سے امید کیسے رکھ سکتے ہیں، ان ہی لوگوں سے اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا وہ اپنے قیمتی زیورات حفاظت کی غرض سے پڑوسی کے یہاں چھوڑ کر جاسکتے ہیں تو ان کا جواب فوراً سے پیشتر نفی میں آئے گا۔ تو بیٹی جو کہ ان روپیوں پیسوں اور سونے چاندی سے کہیں زیادہ قیمتی متاع ہے اس کی حفاظت میں کوتاہی کیوں؟

قانونی دلائل کی روشنی میں

26 جنوری 1950ء کو جب چھ بنیادی ہندوستانی آئین کا نفاذ عمل میں آیا تو ہندوستانی آئین کی رو سے تمام شہریوں کو چھبنیادی حقوق دیے گئے، جو اس طرح ہیں: (1)حق مساوات: یعنی کسی بھی شہری کے ساتھ اس کے مذہب وعقیدہ، ذات پات، رنگ ونسل یا کسی بھی دیگر بنیاد پر تفریق نہیں کی جائے گی۔ (2)حق برائے آزادی: یعنی کسی بھی شہری کویہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ کسی بھی شہری پر کسی طرح کی پابندی عائد کرے یا اس کو حاصل شدہ آزادی میں رخنہ ڈالے، انسانی اقدار کے ساتھ ایک باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کا حق بھی اسی حق میں شامل ہے۔ (3)ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو ہر طرح کے استحصال سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ (4)ہمارے ملک کا دستور تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کا حق فراہم کرتا ہے یعنی کوئی بھی شہری اپنی خواہش اور سمجھ کی بنیاد پر کسی بھی مذہب پر عمل کرسکتا ہے، مذہبی آزادی کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی مذہبی رسم ورواج پر عمل کرسکتا ہے ،نیز وہ کسی بھی مذہبی تعلیم یا عمل سے انکار بھی کرسکتا ہے۔ (5)ہمارا ملک زمانۂ قدیم سے متعدد ومتفرق تہذیب وثقافت کا گہوارہ رہا ہے، جو یہاں پر اپنی مختص تہذیب کے ساتھ ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں، چنانچہ ہمارے ملک کے دستور نے ان تمام ہی شہریوں کو یہ حق فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی تہذیب وتمدن کے تحفظ کے لیے اپنے تعلیمی وثقافتی ادارے، نیز رسم ورواج کی پابندی کرنے کا حق رکھتے ہیں نیز حکومت ان کو خاص مراعات فراہم کرنے کی مکلف بنائی گئی ہے۔ (6)اپنے دستوری حقوق کے تحفظ کے لیے ہمارا دستور تمام شہریوں کو قانونی چارہ جوئی کا حق بھی فراہم کرتا ہے، یعنی اگر کسی شہری کے دستوری حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو وہ قانونی چارہ جوئی بھی کرسکتا ہے۔ 1972ء میں 42 ویں ترمیمی قانون کے ساتھ دستور کے پریمبل (تمہید) میں لفظ سیکولر یعنی غیر مذہبی کا اضافہ کیا گیاتھا جس کا مطلب ہے کہ ہمارا ملک بحیثیت ریاست کے کسی بھی مخصوص مذہبی شناخت کا علمبردار نہیں ہوگا بلکہ ہمارے ملک میں تمام ہی مذاہب کو یکساں وبرابر قانونی اہمیت حاصل ہوگی، دستوری تحفظات تمام ہی مذاہب کو برابر یکساں فراہم کیے جائیں گے۔ دستور ہند کے آرٹیکل 25 سے لے کر 28 تک مذہبی آزادی اور اس سے متعلق امور پر مبنی ہیں، جن میں آرٹیکل 25 کی اہمیت سب سے زیادہ ہے جس کے بارے میں ہر شہری کو جاننا ضروری ہے۔ آرٹیکل 25 کے مطابق ہر شہری کو مافی الضمیر کو ماننے کی پوری پوری آزادی ہوگی، یعنی یہ فرد واحد کا ذاتی معاملہ ہوگا کہ وہ اپنے اور اپنے خالق ومالک کے درمیان مذہبی رشتہ کس طرح کا رکھنا چاہتا ہے، یعنی ہر شہری خود یہ طے کرے گا کہ اس کو کس مذہب کی اور اس مذہب کی کن تعلیمات پر عمل کرنا ہے، جب کہ آرٹیکل 25 کا دوسرا حصہ فرد واحد کو اپنے مذہب پر علی الاعلان مخصوص مذہبی شناخت ولباس کے ساتھ عمل کرنے، ذاتی وسماجی زندگی میں مذہبی رسومات وعبادات کو ادا کرنے نیز مذہبی تعلیمات کو عام کرنے کی پوری پوری آزادی فراہم کرتا ہے۔ مثلاً سکھ مذہب کو ماننے والے سر پر پگڑی اور ساتھ میں کرپان رکھ سکتے ہیں، ہندو مذہب کے ماننے والے تلک لگا سکتے ہیں، گیروا لباس پہن سکتے ہیں، اسی آئین کی رو سے مذہب اسلام کے ماننے والے بھی اپنا مخصوص مذہبی لباس پہن سکتے ہیں۔ تو پھر حجاب معاملہ پر یہ شور کیسا؟

بے حجابی پر مصر ابلیس ہے
چھپ سکے حوا کی بیٹی کب تلک

کرناٹک میں حجاب معاملہ پر جو اتنی شرانگیزی اور فساد برپا کرنے کی کوششیں کی گئیں ان کانقطۂ نظر سمجھ سے باہر ہے۔ پورے ملک میں سکھ پگڑی باندھ کر ہاتھ میں کرپان لے کر گھوم سکتے ہیں، ہندو تلک لگا کر بھگوا لباس پہن سکتے ہیں حتی کہ وزیر اعلیٰ گیروا لباس زیب تن کرکے ہر جگہ فخر کے ساتھ جاسکتے ہیں تو اسلامی طالبات اپنا اسلامی شعار اپنا کر تعلیم کیوں نہیں حاصل کرسکتیں؟

ہماری عزت ہماری رفعت ہمارا پردہ حجاب میں ہے
ہمیں جو بھارت نے حق دیا ہے نہ چھینو ہم سے یہ حق ہمارا
سکون دل آبروئے نسواں جسد کا پردہ حجاب میں ہے
جو بے حیائی کے ہیں پجاری انہیں خبر کیا حجاب میں ہے

زیورات اور قیمتی
اشیاءکو تجوری یا لاکر میں رکھا جاتا ہے جب کہ سارے سامانوں کی جگہ لاکر میں نہیں ہوتی، صرف وہی سامان رکھے جاتے ہیں جو قیمتی ہوں۔ یہی مثال حجابی عورت کی ہے وہ چونکہ شریعت کی نظر میں زیورات سے کہیں زیادہ قیمتی اور نایاب ہے، اس لیے شریعت نے اس کی سیکیورٹی اور تحفظ کا پورا پورا انتظام کیا ہے۔ ساری دنیا کی عورتیں بغیر حجاب کے پھرتی ہیں صرف
مسلمان عورت حجاب استعمال کرتی ہے کیوں کہ وہ انمول ہے

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ٢٠٢٢