حجاب کے لغوی معنی : ہر وہ چیز جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو۔
اور شریعت کی اصطلاح میں: پردہ اور نقاب دونوں ہی معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔
حجاب عورت کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کسی جاندار کے لیے کھانا پینا اور سانس لینا۔ جس طرح ان چیزوں کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح پردے کے بغیر عورت کا تصور بھی عبث ہے۔ پردہ عورت کو وہ عزت اور وقار بخشتا ہے جو کہ بے پردہ عورتوں کے حصے میں نہیں آتا۔ باپردہ عورت ایک کامل اور معزز شخصیت معلوم ہوتی ہے ،جبکہ بے پردہ عورت محض ایک شوپیس کی صورت لگتی ہے ،جو راہ گیروں اور دکان داروں کی دل چسپی اور تسکین قلب کا باعث بنتی ہے،کہ جسے ہر راہ چلتا دیکھ کر اور گھور کر اپنی نگاہوں کو تسکین فراہم کرتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ راہ چلتے آوارہ اور بدمعاشوں کی چھیڑ چھاڑ کا نشانہ اکثر بے پردہ عورتیں ہی بنتی ہیں، جو اپنے نامکمل لباس اور ناز و انداز سے دعوت نظارہ دیتی ہیں ،جب کہ ایک پردہ دار عورت کا سارا بناؤ سنگھار اور زیب وزینت اس کی چادر اور برقعے کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے، جس سے وہ اذیت رسانی سے محفوظ ہوجاتی ہے۔ اکثر ستم رسیدہ خواتین کو یہ شکوہ کرتے ہوئے پایا جاتا ہے کہ میں خوبصورت ہوں تو اس میں میرا کیا قصور ہے جو مجھے اس طرح چھیڑ چھاڑ اور ہراس منٹ کا شکار بنایا جاتا ہے؟ تو اس کا سیدھا سادہ جواب ایک مصنفہ نے اپنے ناول میں اس طرح سے دیا ہے کہآپ خوبصورت ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے ،لیکن راہ چلتے لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ آپ خوبصورت ہیں تو اس میں آپ کا قصور ہے ۔ ایک عورت کو اگر اللہ تعالیٰ نے خوبصورت چہرہ اور پرکشش جسم عطا کیا ہے، تو اس خوبصورتی اور دلکشی کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے، جس حد تک کہ مذہب میں اجازت دی گئی ہے، اور اس کی خوبصورتی پر صرف اس کے شوہر کا حق ہے اس طرح راستہ چلتے لوگوں کو اپنے حسن سے مستفید کرنا کہاں کا چلن ہے؟
شرعی دلائل کی روشنی میں
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ(سورہ احزاب، آیت نمبر:59)
’اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور پھر ان کو ستایا نہ جائے گا ۔‘‘
جلباب کی تعریف
جلباب سے مراد وہ کپڑا ہے جو سر سمیت پورے بدن کو ڈھک لے، جسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے’’ رداء‘‘یعنی چادر کہا ہے، اور جسے عام لوگ ازار کہتے ہیں، یعنی اتنا بڑا ازار جو سر اور باقی بدن کو ڈھک لے۔ گھونگھٹ لٹکانے کی تفسیر حضرت عبیدہ رحمہ اللہ نے یہ کی ہے کہ عورت اپنی چادر کو سر سے اسی طرح لٹکائے گی کہ اس کی صرف آنکھیں ظاہر رہیں گی، نقاب بھی اسی طرح کی چیز ہے، چنانچہ اس وقت کی مسلمان عورتیں نقاب بھی پہنا کرتی تھیں۔ (مسلمان عورت کا پردہ اور لباس، صفحہ نمبر:۱۵)
ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪(سورہ نور:۳۱)
’’(اےنبی!) اور مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہوجائے اور وہ سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بگل مار لیا کریں ۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”یرحم اللہ نساء المھاجرات الأول لما أنزل اللہ (ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن) شققن مروطھن فاختمرن بھا.“(بخاری، کتاب التفسیر:4758)
’’اللہ تعالیٰ شروع کی مہاجر عورتوں پر رحم فرمائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا کہ عورتیں اپنی چادر کے پلو اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر اوڑھنیاں بنالیں ‘‘
حافظ ابن حجر اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
”فاختمرن أی غطین وجوھھن“
یعنی اوڑھنیاں بنانے کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا ۔
(فتح الباری:80/490)
محدث عظیم علامہ محمد ناصر الدین البانیؒ نے اپنی کتاب’’حجاب المرأۃ المسلمۃ‘‘میں پردہ کی جو شرطیں ذکر کی ہیں ان کی روشنی میں کامل لباس کا نقشہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے:
لباس ایسا ہو کہ اس سے پورا بدن ڈھک جائے، جیسا کہ آیت احزاب اور گذشتہ احادیث سے واضح ہے۔ پردہ یا لباس خود آرائش کا سامان نہ بن جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ (سورہ نور، آیت نمبر:31)
’’مرھا فلتجعل تحتھا غلالۃ فإنی أخاف أن تصف حجم عظامھا‘‘
’’اسے کہہ دو کہ اس کے نیچے شلوکہ پہن لیا کرے، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کپڑا بدن کی ہڈیوں کو نمایاں کرے گا۔ ‘‘
مردوں کے لباس سے ملتا جلتا نہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔(بخاری، کتاب اللباس5546: وغیرہ)
سنن: ابی داؤد کی روایت میں ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لباس پہننے والے مرد پر اور مردانہ لباس استعمال کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔‘‘(کتاب اللباس:4098)
لباس کافر عورتوں کی پوشاک سے مشابہ نہ ہو، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی اس کا شمار ان ہی لوگوں میں ہوگا۔‘‘
(ابوداؤد، کتاب اللباس:4031)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر دو زرد رنگ کے کپڑے دیکھے تو فرمایا:
”إن ھذہ من ثیاب الکفار فلا تلبسھا“
’’ یہ کافروں کے لباس میں سے ہے لہٰذا اسے نہ پہنو۔‘‘(مسلم:5434)
لباس یا پردہ شہرت کا باعث نہ ہو، یعنی اس کے استعمال سے لوگوں کے مابین ممتاز یا نمایاں ہونا مقصود نہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”من لبس ثوب شھرۃ ألبسہ اللہ ثوب مذلۃ یوم القیامۃ ثم ألھب فیہ النار“ (ابوداؤد ۔صحیح الجامع:6526)
’’جس شخص نے شہرت کے لیے لباس پہنا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت وخواری کا لباس پہنائے گا پھر اس میں آگ بھڑکادے گا۔‘‘
واضح رہے کہ ان میں سے پہلی چار شرطوں کا تعلق خصوصی طور پر گھر سے باہر نکلنے سے ہے، جب کہ بعد کی شرطیں گھر اور باہر دونوں جگہوں کے لیے ہیں۔
(پاکیزہ نسل اور صالح معاشرہ، کیوں اور کیسے؟صفحہ نمبر247-250)
حجاب کے تعلق سے یہ چند شرعی دلائل ہوگئے جن کی روشنی میں شریعت کی نظر میں حجاب کو سمجھا اور جانا جاسکتا ہے۔ اب آتے ہیں عقلی دلائل کی طرف۔
عقلی دلائل
اب پچھتائے کا ہوت
جب چڑیا چگ گئی کھیت
ہر مہذب اور شائستہ سماج میں خواتین کا مکمل لباس میں ملبوس رہنا اچھا سمجھا جاتا ہے ،اور ستر پوشی کے بغیر لباس کا تصور ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ خواتین کو ستر پوشی کا تاکیدی حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی عفت وعصمت پر کوئی حرف نہ آئے۔ جس طرح ملک کی اعلیٰ شخصیات کو بلٹ پروف گاڑی اور حفاظتی دستہ دے کر ان کو قید کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ان کی حفاظت مطلوب ہوتی ہے۔ اسی طوح ان گراں قدر موتیوں (خواتین) کو پردہ کے حفاظتی قلعہ میں قید نہیں کیا گیا بلکہ ان کی حفاظت کا سامان کیا گیا۔(آزادی نسواں اور میڈیا: (اسلام کے تناظر میں)، صفحہ نمبر:119)
لوگ اپنے قیمتی سامان، کپڑےاور زیورات وغیرہ کی حفاظت کا زبردست قسم کا بندوبست کرتے ہیں۔ گھروں میں تالے لگاتے ہیں، زیورات بینکوں میں جمع کرتے ہیں،گھروں پر چوکیداروں اور کتوں کا پہرہ بٹھاتے ہیں۔ تو کیا دنیا کی سب سے قیمتی شے خاتون جو ماں ہے، بیٹی ہے، بہن ہے، بیوی ہے، اس کے حسن اور عفت وعصمت کی حفاظت کا بندوبست کرنا ضروری نہیں؟ عفت وعصمت عورت کی سب سے قیمتی متاع ہوتی ہے۔ شرم وحیاء انسان کا انمول زیور ہے۔ کیا ان قیمتی سامانوں کی حفاظت ضروری نہیں؟ کیا اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کو اوباشوں کی نگاہ سے بچانا ضروری نہیں؟
عوام الناس میں اکثر یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ انہیں گھر سے باہر کہیں جانا ہوتا ہے تو بیٹی کو اپنے ساتھ لے کر جانے کے بجائے پڑوسیوں کے یہاں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور وضاحت یہ دیتے ہیں کہ بھئی سالوں سے ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہیں، وہ بھلا کیوں ہماری عزت کی حفاظت نہیں کریں گے؟ سوچنے کی بات ہے کہ جس عزت کی حفاظت آپ خود نہیں کررہے اس کی دوسروں سے امید کیسے رکھ سکتے ہیں، ان ہی لوگوں سے اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا وہ اپنے قیمتی زیورات حفاظت کی غرض سے پڑوسی کے یہاں چھوڑ کر جاسکتے ہیں تو ان کا جواب فوراً سے پیشتر نفی میں آئے گا۔ تو بیٹی جو کہ ان روپیوں پیسوں اور سونے چاندی سے کہیں زیادہ قیمتی متاع ہے اس کی حفاظت میں کوتاہی کیوں؟
قانونی دلائل کی روشنی میں
بے حجابی پر مصر ابلیس ہے
چھپ سکے حوا کی بیٹی کب تلک
ہماری عزت ہماری رفعت ہمارا پردہ حجاب میں ہے
ہمیں جو بھارت نے حق دیا ہے نہ چھینو ہم سے یہ حق ہمارا
سکون دل آبروئے نسواں جسد کا پردہ حجاب میں ہے
جو بے حیائی کے ہیں پجاری انہیں خبر کیا حجاب میں ہے
زیورات اور قیمتی
اشیاءکو تجوری یا لاکر میں رکھا جاتا ہے جب کہ سارے سامانوں کی جگہ لاکر میں نہیں ہوتی، صرف وہی سامان رکھے جاتے ہیں جو قیمتی ہوں۔ یہی مثال حجابی عورت کی ہے وہ چونکہ شریعت کی نظر میں زیورات سے کہیں زیادہ قیمتی اور نایاب ہے، اس لیے شریعت نے اس کی سیکیورٹی اور تحفظ کا پورا پورا انتظام کیا ہے۔ ساری دنیا کی عورتیں بغیر حجاب کے پھرتی ہیں صرف
مسلمان عورت حجاب استعمال کرتی ہے کیوں کہ وہ انمول ہے
0 Comments