فکرِ اسلامی کے فروغ میں مرد و خواتین کا کردار

فکر اسلامی کو عمومی طور پر یوں سمجھ لیں کہ اسلام کا گہرائی سے ظاہری و باطنی طور پر مطالعہ کرنا اور اسے زندگی میں نہ صرف ایک مذہب کے طور پر بلکہ ایک فکر اور نظریہ کے طور پر مختلف پہلوؤں سے اسے سمجھ کر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔
ویکیپیڈیا کے مطابق’’ اسلامی فکر عمومی طور پر فکر کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے اور اس کا مطلب ہے اسلام میں گہرائی اور اس کا ظاہری و باطنی مطالعہ کرنا۔ مثال کے طور پر اسلامی مفکر اس مذہب کے مطالعے سے مطمئن نہیں ہوتا، بلکہ عظیم ترین اسلامی مفکرین کے علم کی طرف اٹھتا ہے۔ مثلاً نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ۔
اسلامی مفکرین وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی اسلام کے مطالعے کے لیے وقف کردی ہے۔ نہ صرف ایک مذہب کے طور پر جو کہ ہر شخص کے پاس ہونا چاہیے۔ مختلف پہلوؤں سے ،یعنی اسلامی فکر زندگی کے تمام پہلوؤں کے نظریات کا مجموعہ ہے۔‘‘
جب ہم فکر اسلامی کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد اسلام کی پیروی کا طریقہ، اسے قائم کرنے کا طریقہ کیا ہوگا؟ زندگی میں دینی احکام کو عملی جامہ پہنانے کا طریقہ، ہر دور کے نئے چیلنجز کے مطابق یا نئے چیلنجز کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے مسائل، مشکلات اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے نیا لائحہ عمل تیار کرکے لوگوں کو اس راہ پر آمادہ کرنا، فکر اسلامی اور اس کی دین ہے۔
اب ہم یہ دیکھیں کہ بیسوی صدی، جو کہ ایک انقلابی صدی کہلاتی ہے، اس میں مذہب اپنے ارتقائی دور میں تھا۔ اسلام کا احیاء ہورہا تھا۔ ایسے ارتقائی دور میں یا کسی بھی ایسے دور میں جب کہ بہت سی سیاسی اور سماجی اتھل پتھل جاری ہو، اس وقت مخصوص تہذیبی ثقافتی اور سیاسی پس منظر کا اثر مذہب پر بھی پڑتا ہے۔ اگرچہ کہ مذہب انسانی فلاح اور نجات کا ذریعہ ہوتا ہے، فکری تشفی کا سامان لے کر آتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہر دور میں اس کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخصوص طرز کے باوجود کیسے اور کیوں کر خود کو ماورانیت کی اس سطح پر لے جائے جہاں سے اس کا پیغام آفاقیت سے ابدیت میں ڈھل جائے اور اس کے لیے ہونے والی تمام فکری کاوشیں، جس سے مذہب کی آفاقیت کا بھی احساس ہو اور زمانے کے لحاظ سے تغیر اور تبدل سے پیدا شدہ حالات اور مسائل کا حل بھی، مذہب کے اصول و ضوابط کے تحت نکالا جاسکے۔یہ ہے وہ اہم فکری کاوش جسے ہم اجتہاد کہتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ مذہب کی بنیاد پائیدار ،غیرمتزلزل اور ناقابل تبدیل و ترمیم اصولوں پراستوار ہوتی ہے اور ان اصولوں کو ناقابل تغیر و تبدل مانا جاتا ہے۔ اسے مذہب میں مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔یہ اس کی بنیاد اور اکائی ہوتے ہیں۔ مثلاً توحید، رسالت، آخرت وحی و کلام الٰہی۔ یہ چند ایسے عقائد اور اصول ہیں کہ ان کے بغیر مذہب اپنی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا، بلکہ وہ اپنی انفرادیت کھو دیتا ہے۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسی کے ساتھ انسانی زندگی کے اندر تغیر اور تبدیلی اور اجتہاد بھی ایک اہم پہلو ہے۔ اس کی بھی ایک اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اس اجتہاد کے دروازے کو بند کردیا جائے یا اس کی راہیں مسدود کردی جائیں ، اس کے اندر تغیر کو نظر انداز کردیا جائے اور اسے اس کے سابق پس منظر میں دیکھنے کی ہی کوشش کی جائے تو مذہب انسانی زندگی میں وہ رول ادا نہیں کرسکے گا، جیسا کہ مطلوب ہے۔ لہٰذا ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ مذہب کی بقاء کے لیے لازمی اورضروری ہے کہ زمانے اور حالات کے مطابق فکری اجتہاد کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کے مواقع دیے جائیں۔
اب آگے ہم دیکھتے ہیں کہ فکر اسلامی کی اساس،اس کا مآخذ قرآن و سنت ہی ہے۔ اسی کی روشنی میں تمام فکری و عملی فلسفیانہ اورسائنس پر مبنی رجحانات فروغ پاسکیں گے اور ان کی تشکیل جدید ہوگی۔ آگے اب ہم یہ بات زیر بحث لانے کی کوشش کریں گے کہ فکر اسلامی کو تشکیل نو کے ساتھ جدید فکر دیکر آگے بڑھانے اور اسے فروغ دینے میں نمایاں کردار اداکرنے والے کون لوگ تھے؟
ہر دور میں اسلام کے احیاء کے لیے زمانے کی ہم آہنگی کے ساتھ جو تحریکیں اٹھیں، اس کے چلانے والے وقت کے وہ تمام مفکرین (مردوخواتین) تھے، جنہوں نے اس کام کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ یہاں چند مثالیں پیش کی جائیں گی۔
سب سے پہلے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بیسوی صدی میں فکر اسلامی کے ارتقاء اور اس کے فروغ میں علامہ اقبال نے ایک نمایاں کردار ادا کیا اور امت کو اسلام کے احیاء اور اس کی تشکیل نو کی راہیں دکھائیں۔انھوں نے زمانے کے حالات کو جس باریکی سے سمجھا اور مغرب کے تمام فرسودہ اور فیلور سسٹم کی اصلیت وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کھول کر رکھ دی۔ انہوں نے نوجوانوں کو ایک بہترین کردار کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے اور ابھرنے کا موقع دیا۔
علامہ اقبال کے متعلق ڈاکٹر سید عبدالباریؒ اپنی کتاب’’ کاوش نظر‘‘کے ایک مضمون ’’اقبال شخص و شاعر ‘‘میں رقم طراز ہیں:
’’کسے معلوم تھا 1873ء میں عین اس وقت جب کہ انگریزی اقتدار کا سورج پر صغیر میں نصف النہار پر تھا، کہیں سے مغربی تہذیب کے جلال و جبروت سے گلوخلاصی کے سلسلے میں امید و آرزو کی کوئی کرن نمودار نہیں ہوئی تھی۔کشمیر سے قریب ہمالیہ کے دامن میں آباد ایک خاموش پرسکون شہر سیالکوٹ میں ایک کشمیری نثراد نو مسلم سپرد برہمن خاندان میں ایسا ستارہ طلوع ہوگا، جو مشرق و مغرب کے افق کو تابناک بنادے گا اور مغربی فکر و فلسفہ و ثقافت کے تاریک و ہلاکت خیز پہلوؤں سے اہل مشرق کو آگاہ کرکے خود اعتمادی کی چنگاریوں سے ان کے وجود کو مستنیر کردے گا۔‘‘
انھوں نے آگے چل کر فلسفہ خودی کے علمبردار بن کر اہل مشرق کو یہ پیغام دیا کہ ایسے لقمہ سے انسان کو پرہیز کرنا چاہیے، جو اس کی عزت و وقار کو نیلام کرنے کا سبب بنے۔

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

علامہ اقبال نے 1905ء سے 1908ء تک قیام یورپ کے دوران وہاں کے تمام اہل فکر سے استفادہ کیا اور مغربی تہذیب کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو غور و فکر کرکے اپنے مشاہدہ میں لاکر پیش کیا۔ انھوں نے مغربی فکر و خیال کی ان بنیادوں کو جن کے تصور میں مشرق کی غلامی تھی آگاہ کیا۔ گر چہ کہ وہ مغرب کے تجربے، مشاہدے، تحقیق و انکشاف، آزادی فکر اور بلندئ نگاہ کی قدر کرتے ہیں۔ لیکن یورپ کی ظاہری چمک دمک انہیں متأثر نہ کرسکی، وہ وہاں کی اخلاق سے عاری اور روحانیت سے محروم تہذیب سے شکوہ کناں ہی رہے۔انہوں نے کہا ؂

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

یورپ سے لوٹنے کے بعد اقبال ایک حکیم ،دانشور اور مفکر کی حیثیت سے نکھر کر سامنے آئے۔ انہوں نے ایسے انسان کا آئیڈیل دنیا کے سامنے رکھا، جو کہیں شاہین، کہیں طائر لاحوتی، کہیں مرد و مومن یا مرد مسلماں، کبھی قلندر، کبھی وہ فولادی خودی رکھنے والا شعلہ و شبنم بن کر دنیا کے سامنے آیا۔انھوں نے صا ف کہا کہ ؂

یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں مردوں کی شمشیریں

جناب مجتبیٰ فاروق اپنے ایک مقالے’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید اورعلامہ اقبال ‘‘ میں رقمطراز ہیں ’’ علامہ اقبال ان ممتاز مفکرین و مصلحین میں سے ہیں، جنھوں نے بیسوی صدی میں مشرق و مغرب کو اپنے فکر و خیالات سے ہلا کر رکھ دیا۔ وہ صرف انقلابی و فکری شاعر ہی نہ تھے ،بلکہ وہ تو ایک ایسے جدید اسلامی مفکر اور اسکالر تھے، جن کو بہت سارے علوم و نظریات پر بھی اچھی نگاہ اور درک حاصل تھا۔ فقہی مسائل سے لے کر سیاسی مسائل تک ان کی نگاہ ژرف نگاہی اور اسکالر شپ بہت وسیع تھی۔ انہوں نے مغربی علوم، قرآن و حدیث فقہ اور تاریخ کا براہ راست مطالعہ کرکے اپنی فکری جہت کو وسعت دی۔‘‘
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بیسوی صدی ایک انقلابی صدی تھی۔ اس میں جن انقلاب آفریں شخصیتوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے اس میں ایک بڑی اہم اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ایک مفکر عالم اور دانشور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی شخصیت ہے۔ انہوں نے بحیثیت مفکر اپنے فکر و عمل سے مسلمانوں کے موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک نیا رخ اور ایک بہترین لائحہ عمل پیش کیا۔ جو کہ اس صدی کے حالات سے نبرد آزماہونے کی فکر لوگوں کے اندر پیدا کرنے کی قوت رکھتا تھا۔ مولانا کے احکام و نظریات پوری دنیا اور خصوصاً بر صغیر پر چھا گئے اور بہت سی بڑی بڑی شخصیات عالمی پیمانے پر مولانا سے متاثر ہوئیں۔ چنانچہ بیسوی صدی اور اس کے بعد کی تاریخ میں ہم مولانا کے رول کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر اسلامی کو دیکھ کر ہم انہیں امام غزالی، امام ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کی صف میں کھڑا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے امت مسلمہ وقار کو بلند کیا اور اس کے زوال کو ارتقاء میں تبدیل کرنے کی جرأت کی۔ وہ کسی مجدد الف ثانی ،سید احمد شہید اور اسماعیل شہید سے کم نہ تھے۔ انہوں نے اس وقت جب کہ یہ امت ایسے مقام پر کھڑی تھی، جہاں مغربی فکر و فلسفہ، سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی، نظریات ہر طرف فتنہ و فساد برپا کررہے تھے۔ ہندوستانی عوام بد حالی اور پستی کی طرف ڈھکیلی جارہی تھی،ایسے حالات میں مولانا مودودیؒ نے امت کے ماضی اس کے حال اور مستقبل کی فکر کرتے ہوئے، انہیں زندگی کا سلیقہ اور اسلامی فکر عطا کی۔ ملت اسلامیہ کو ایک قائدانہ صلاحیت نوجوانوں کو ہمت اور حوصلہ عطا کیا۔ اس وقت حالات ایسے تھے کہ ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا تھا، حالات ناساز گار ہوتے جا رہے تھے، لوگوں کے ذہن اور دماغ پر ایسا خمار چھایا ہوا تھا کہ وہ اپنی سمت نہیں طے کر پارہے تھے۔حالانکہ ان حالات میں بھی کچھ ایسے جلیل القدر نوجوان انسانوں کی اس بھیڑ میں ایسے بھی پیدا ہوئے جنہوں نے ماحول کو سازگار کیا اور فضا کو بہترین بنانے میں اپنا اہم کردار نبھایا۔ اس میں علامہ شبلی نعمانی اور مولانا حالی کا نام بھی سر فہرست ہے۔اس کے علاوہ مولانا آزاد اور حسرت موہانی جیسے ولولہ خیز نوجوانوں کا نام بھی سامنے آتا ہے۔ ان حضرات نے مغرب کی فکر اور تجربہ کو سامنے رکھ کر اس سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی اصولوں پر قائم رہنے کی تلقین کی۔
اسی زمانے میں مولانا مودودیؒ کو علامہ اقبالؒ نے لاہور آنے کی دعوت دی تاکہ وہاں مستقل قیام کریں اور اسلامی قوانین کی تدوین نو کے کام میں ان کے ساتھ تعاون کریں۔ علامہ اقبال مولانا مودودی کی غیر معمولی صلاحیتوں اور ان کی فکر سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کا رسالہ ترجمان القرآن ان کے مطالعے میں تھا۔ ان کی کتاب الجہاد فی الاسلام کا بھی انہوں نے مطالعہ کیا اور دوسرے مغرب زدہ لوگوں کو بھی مطالعے کے لیے دی ۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ جب مولانا مودودیؒ لاہور پہنچے تو علامہ اقبال اپنے سفر آخرت کے لیے روانہ ہوگئے۔
مولانا نے وہاں قدم جمایا اور 1937 سے 1939 تک مستقل مضامین اور کتابیں لکھیں۔ انہوں نے ان مضامین اور کتابوں میں مسلم قوم پرستی پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی پالیسیوں کا تجربہ بھی پیش کیا اور لوگوں کی آنکھیں کھول دی۔انھوں نے مسلمانوں کے داعیانہ منصب کی وضاحت کی اور ایسی صالح جماعت کا نقشہ کھینچا جو ایسا نظام قائم کرنے کی جدو جہد کرے، جہاں انسان کا سر انسان کے سامنے جھکنے کے بجائے صرف اللہ کے آگے جھک گے۔ چنانچہ مولانا کا قلمی جہاد وقت کےجاہلانہ اور فاصد نظام کے خلاف جاری رہا۔ انہوں نے زمانے کے مسائل کو موضوع بنا کر مسلم دنیا اور مغرب کے تجربات کو سامنے رکھ کر قرآن و سنت کی تعلیمات پر مبنی فکری معیار پر تیار کردہ ایک نقشہ دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ ایک مفکر کی حیثیت سے وہ اس عہد کے سب سے زیادہ practical رہنما اور قائد کہلانے کے حق دار بنے۔
مولانا کے ہی دور میں اور ان کے بعد ان کی فکری کاوشوں کو جلا بخشنے والی ایک مفکرہ خاتون کا نام دنیا بہت اادب و احترام سے لیتی ہے، وہ شخصیت ہے محترمہ مریم جمیلہ کی۔ یوں تو ان کی پیدائش امریکہ میں ہوئی، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے پاکستان کو اپنا وطن بنایا۔انھوں نے مغربی تہذیب کو بہت نزدیک سے دیکھا تھا، اسی میں پلی بڑھی تھیں، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد جب ان پر اسلامی تعلیمات نے سہی راہیں کھولیں تو انھوں نے مغربی تہذیب کو اپنے تجربے اور تجزیے کا موضوع بنایا۔مغرب کا رد کیا اور اسے ثابت کیا کہ وہ کس طرح سے مکمل طور پر فیل ہے۔وہ خود فرماتی ہیں:
’’تیسری دنیا کی فکری و سیاسی قیادت جن عناصر کے ہاتھ میں ہے ان کو یہ بات اچھی طرح سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مغربی تہذیب ترقی کی علمبردار تہذیب نہیں ہے، بلکہ تنزل سے بستی کی طرف لے جانے والی ہے ۔اس تہذیب کا ہر پہلو انسانوں کے لیے مضر ہے۔ خواہ وہ معاشی و سیاسی پہلو ہو یا تہذیبی و ثقافتی یاروحانی۔اگر مشرقی قیادت کی سمجھ میں یہ بات آجائے تو مغرب کی نقالی کا رجحان اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔‘‘
آگے فرمایا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا پر عہد تاریک دوبارہ مسلط نہ ہوتو ہمیں مغربی تہذیب کو مکمل طور پر رد کرنا ہوگا۔سچی مذہبیت پر اپنے تمدن کی بنیاد رکھنی ہوگی۔اس سچی مذہبیت کی بنیاد وہ آفاقی تصورات ہیں جو الٰہی ہدایات میں ہمیں ملتے ہیں۔(بحوالہ مغرب زدگی اور انسانی فلاح و بہبود کا مسٔلہ ۔)
محترمہ مریم جمیلہ نے آگے چل کر مغربی سائنس پر بھی قلم اٹھایا۔مریم جمیلہ اسلامی تحریک سے متأثر تھیں۔ اسے وہ بہت اچھے انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اس کا ایجنڈا کن بنیادوں پر ہے، اس کو واضح کرتی ہیں۔انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ اسلامی لیڈر شپ کے تعلق سےیہ بات سمجھائی کہ اسے مغرب کے چیلنج کا کس طرح مقابلہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے اس کام کے لیے باہمی اتحاد و اتفاق کو بھی لازمی قرار دیا۔انھوں نے اپنے اندر سے احساس کمتری کو ختم کرکے اسلامی تاریخ کی روشنی میں سفر طے کرنےاور اسےتاریخ کے روشن ابواب سے جلا حاصل کرنے کا ہنر بھی بتایا۔ ان کی تمام تخلیقات اور مضامین کا اگر خواتین مطالعہ کریں تو انھیں ایک نئی فکر اور حوصلہ ملے گا۔ انھوں نے اپنے والدین کو ایک خط لکھا۔ اسمیں لکھتی ہیں کہ
’’اگر زندگی ایک سفر ہے تو کیا یہ حماقت نہیں ہوگی کے بندہ راستے میں آنے والی منزلوں پر آرام دہ ایام اور خوشگوار ٹھکانوں کی فکر تو کرے، لیکن سفر کے اختتام کے بارے میں کچھ نہ سوچے؟ آخر ہم کیوں پیدا ہوئے تھے؟اس زندگی کا کیا مطلب ہے؟کیا مقصد ہے؟آخر ہمیں مرنا ہے ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ موت کے بعد کیا معاملہ ہونا ہے؟۔‘‘(امریکہ سے ہجرت، ص ۲۵،۲۰)
اسی طرح اسلامی مفکرین نے انسانوں کو ایک نئی فکر اور اجتہاد کی روشنی میں جینے کا حوصلہ دیا اور فکر اسلامی کے لیے راہیں ہموار کیںاور آگے بھی یہ راہیں کھلی رہیں گی،انشاءاللہ۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. انعام

    خواتیں کا کردار کہ کر ایک خاتوں کا نام لیا وہ بھی امریکہ سے ۔۔کیا مسلم دنیا میں ایک بھی خاتوں نہیں ملا؟

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ٢٠٢٢