جبریہ شادی
والدین کی بھی ذمے داری ہے کہ جہاں اپنی لڑکی کا رشتہ طے کریں، اس کے بارے میں کسی ذریعہ سے اس کی مرضی معلوم کرلیں ،لیکن اگر اس کی مرضی نہ ہو اور وہ صراحت یا اشارہ سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے توانہیں وہاں اس کا رشتہ کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ یہی دانش مندی کا تقاضا ہے اور اسی کی اسلام نے تعلیم دی ہے۔
سوال:

ہماری ایک سہیلی کا نکاح ہوا۔ وہ رضامند نہیں تھی۔ والدین نے زبردستی اس کی شادی کروادی۔ نکاح کو کافی وقت گزرجانے کے بعد بھی وہ رضامند نہیں ہے۔ اب وہ ڈپریشن کا شکار ہوگئی ہے۔
اس کا سوال یہ ہے کہ اس عرصے میں شوہر سے اس کا جو جنسی تعلق ہواہے، کیا وہ زنا میں شمار ہوگا؟
براہِ کرم اطمینان بخش جواب سے نوازیں۔

جواب:
نکاح زندگی بھر ساتھ نبھانے کے ارادہ سے کیاجاتاہے، اس لیے اس میں لڑکا اور لڑکی دونوں کی آزاد مرضی کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ والدین اپنی اولاد کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کی لڑکی کا رشتہ اچھی جگہ ہو، جہاں وہ خوش وخرّم اور مطمئن رہ کر اپنی آئندہ زندگی گزارسکے۔ وہ بہت تحقیق اور چھان پھٹک کرکے ہی کہیں رشتہ لگاتے ہیں۔ اس لیے عام حالات میں لڑکیوں کو اپنے والدین کی پسند کو ترجیح دینی چاہیے اور ان کے ذریعہ طے کیے گئے رشتے کو خوش دلی سے قبول کرلیناچاہیے۔ والدین کی بھی ذمے داری ہے کہ جہاں اپنی لڑکی کا رشتہ طے کریں، اس کے بارے میں کسی ذریعہ سے اس کی مرضی معلوم کرلیں ،لیکن اگر اس کی مرضی نہ ہو اور وہ صراحت یا اشارہ سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے توانہیں وہاں اس کا رشتہ کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ یہی دانش مندی کا تقاضا ہے اور اسی کی اسلام نے تعلیم دی ہے۔
حدیث میں ہے کہ ایک انصاری خاتون حضرت خنساء بنت خِذامؓ کے باپ نے ان کا نکاح اپنے بھتیجے سے طے کردیا۔انہیں یہ رشتہ پسند نہیں تھا۔ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔آپؐنے ان کے باپ کو بلاکر ان کی ناپسندیدہ جگہ نکاح کرنے سے منع کردیا۔(بخاری:۵۱۳۸،۶۹۴۵)
حضرت جعفرؓ(بن ابی طالب) کے خاندان کی ایک لڑکی کو اندیشہ ہوا کہ اس کے باپ اس کا نکاح ایسی جگہ کردیں گے جہاں اس کی مرضی نہیں ہے۔ اس نے انصار کے دوبزرگوں سے مشورہ کیا کہ وہ کیاکرے؟انہوں نے اسے اطمینان دلایا کہ اگر تمہاری مرضی نہیں ہے توتمہارے باپ وہاں جبراً تمہارانکاح نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مثال دی کہ خنساء کے باپ خذام اس کا نکاح ایسی جگہ کرنا چاہتے تھے جہاں اس کی مرضی نہیں تھی تواللہ کے رسول ﷺ نے اس نکاح کو ردکردیاتھا۔ (بخاری6969:)
ایجاب وقبول نکاح کی شرائط میں سے ہے۔ عموماً پہلے لڑکی سے ایجاب کروایا جاتاہے۔بعدمیں نکاح کی مجلس میں شوہر قبول کرتاہے،تب نکاح مکمل ہوتاہے۔ اگرلڑکی کو وہ رشتہ پسند نہیں ہے جہاں اس کے والدین نے طے کیاہے تو وہ ایجاب ہی نہ کرے۔ لیکن اگراس نے ایجاب کرلیاہے، چاہے اپنے والدین کے دبائو کے نتیجے میں تواس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نکاح اس کی مرضی سے ہواہے،خواہ بادل ِ ناخواستہ ہو۔ اس بناپر اس کا شوہر کے ساتھ رہنا اور اس سے جنسی تعلق قائم کرنا بالکل جائز ہے۔
کسی لڑکی کانکاح ایسے شخص سے ہوگیاہو جو اسے پسند نہ ہو، اس کے باجود عام حالات میں اسے نباہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔دنیا میں کوئی شخص مکمل (Perfect) نہیں ہے۔ ہر ایک میں خامیاں بھی ہوتی ہیں اور خوبیاں بھی۔زوجین آپسی تعلقات میں خوش گواری لانے کی کوشش کریں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور کوتاہیوں کو نظرانداز کریں توپُرمسرت ازدواجی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔لیکن اگر کوئی لڑکی اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن نہ ہو اور وہ مسلسل ذہنی اذیت محسوس کرتی ہو، جس کا اثر اس کی صحت پر بھی پڑرہاہو توشریعت نے اسے علیٰحدگی حاصل کرنے کا حق دیاہے۔وہ اپنے اس حق کو استعمال کرسکتی ہے۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

2 Comments

  1. ام مسفرہ

    جواب بہت ہی اچھے انداز میں دیا گیا ہے۔ والدین اور بیٹیوں (دونوں) کے لیے نصیحت۔

    Reply
  2. Mrs Shahbaz

    بہت بہترین جواب

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ٢٠٢٢