شادی کی عمر اور موجودہ صورتِ حال

جس ملک کے عوام کی معاشی اور جسمانی حالت اس قدر پسماندگی کا شکار ہو، وہاں شادی کی عمر بڑھانے یا گھٹانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔لہٰذا سرکار کا یہ قانون محض دستاویز کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے اور اس کا ایک عورت یا اس کے بعد آنے والی نسل کی زندگی پر کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔

گزشتہ چند سالوں میں ہندوستانی دستور میں کئی تبدیلیاں ہوئیں ہیں۔حالیہ دنوں میں شادی کی عمر کو بڑھادینے کا فیصلہ چرچے میں ہے۔جہاں لوگوں کی ایک تعداد سرکار کے اس نئے قانون سے خوش ہے، وہیں کچھ لوگ اس پر سوال بھی اٹھارہے ہیں۔ اس قانون کو جاننے سے پہلے ہندوستان کے کچھ قوانین پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
آزاد ہندوستان سے پہلے ایسا کوئی قانون نہیں تھا، جو شادی کی عمر کا تعین کرتا۔ بچپن کی شادی یعنی ”بال ویواہ “ عام بات تھی۔جب انگریز اس ملک پر مسلط ہوئے تو انہوں نے 1860 میں دس (10) سال سے کم عمر لڑکی سے ازدواجی رشتے قائم کرنے کو مجرمانہ فعل قرار دیا۔اور پھر دھیرے دھیرے اس کو بارہ (12) سال کیا گیا۔لیکن اس کے لیے کوئی سنگین سزا یا جرمانہ عائد نہیں تھا۔سماج میں مزید بیداری آنے کے بعد 1992 میں ساردا ایکٹ (sarda act) کو پاس کیا گیا، جس کے تحت لڑکوں کی عمر 18 اور لڑکیوں کی 14 سال مقرر کی گئی۔اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ لوگوں کی ایک بڑی جماعت نے اس کو قبول نہیں کیا۔
ہندوستان آزاد ہونے کے بعد ہمارے دستور سازوں نے اس پر مزید تبدیلی کرتے ہوئے لڑکوں کی عمر 21سال اور لڑکیوں کی عمر 18 سال کردی اور اس پر جرمانہ بھی لگایا گیا کہ اگر کوئی کم عمر بچیوں کی شادی کرواتا ہے تو اسے 15 دن کی قید اور ایک ہزار روپے کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
کچھ مہینے پہلے حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جو کہ جیا جیٹلی کی سرپرستی میں تھی۔اس کمیٹی کا اصل مقصدmeternal mortality ratio(یعنی بچے کی پیدائش کے دوران زچہ کی موت) کو کم کرنا تھا ۔جو کہ رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ حاملہ عورتوں میں 130تھا۔اس میں مزید کامیابی پاتے ہوئے حالیہ ریکارڈ ایک لاکھ پر 110ہے۔ جسے 2030تک 70پر پہنچانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ اسی کے تحت زچہ اور بچہ کی صحت کے فروغ کے لیے شادی کی عمر پر بھی اس کمیٹی نے غور کیا۔ مردوں کی عمر 21 تھی، لہٰذا یہ فیصلہ ہوا کہ عورتوں کی عمر بھی 21 کردی جائے، تاکہ انھیں مردوں کے برابر مواقع ملے۔
ہندوستان کے علاوہ تقریباً ہر ملک میں شادی کی عمر 18 سال ہے جو کہ تقریباً ووٹ دینے کی بھی عمر ہے۔سرکار کے اس فیصلہ پر اسدالدین اویسی نے ٹویٹ کیا کہ’’ جب ایک عورت 18 سال میں وزیراعظم چن سکتی ہے تو شوہر کیوں نہیں؟‘‘
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں پر بھی یہ ایکٹ لاگو ہوگا؟ تو ایسا نہیں ہے۔ کیوں کہ ہندوستان میں مسلم پرسنل لا پر سرکار کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی۔ لیکن اس فیصلے سے ہندوستانی مسلمان متأثر ہوسکتے ہیں۔
کسی حد تک یہ فیصلہ احمقانہ بھی لگتا ہے۔جب گاڑی کے لائسنس کی عمر 18سال، مقابلہ جاتی امتحانات (competitive exams) میں شرکت کرنے کی عمر 18 سال اور اولمپکس (Olympics) میں حصہ لینے کے لیے 18 سال شرط ہے، تو پھر شادی کی عمر 21 سال کیوں؟ اگر گہرائی سے سوچا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اصل شادیوں کے کامیاب نہ ہونے کا غریبی اور بے روزگاری ہی ہے اور زچہ کی موت کم عمری کے باعث نہیں بلکہ کم خوراکی اور طبی امداد میں لاپرواہی کے سبب ہے۔
ہمارے ملک میں غریبی کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے۔تقریبا 3 کروڑ ہندوستانی بے روزگار ہیں، جس میں سب سے زیادہ نو جوان نسل متأثر ہے، جن کی عمر 15 سال سے29 سال کے درمیان ہے۔قابل غور بات ہے کہ ہندوستان کے 57% لوگوں کی ایک مہینے کی کمائی 10.000 روپے سے بھی کم ہے۔اب ایسے میں کوئی شخص اپنی بنیادی ضروریات بمشکل ہی پوری کرسکتا ہے۔ پھر وہ اپنے خاندان کی کفالت کیسے کرے؟ساتھ ہی ہمارے ملک کی میڈیکل حالت بھی خستہ ہے۔یہاں 1700 ہندوستانیوں پر محض ایک ڈاکٹر میسر ہےاور ہمارا محکمۂ صحت ایک ہندوستانی پر محض تین روپیہ خرچ کرتا ہے۔
ان چند رپورٹ اور ڈیٹا کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جس ملک کے عوام کی معاشی اور جسمانی حالت اس قدر پسماندگی کا شکار ہو، وہاں شادی کی عمر بڑھانے یا گھٹانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔لہٰذا سرکار کا یہ قانون محض دستاویز کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے اور اس کا ایک عورت یا اس کے بعد آنے والی نسل کی زندگی پر کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔

جب دل شکایتوں سے اٹا پڑا ہوتا ہے تو زبان شکایتیں اگلتی ہے اور پورا ماحول شکایتوں سے آلودہ ہوجاتا ہے۔ جب دل شکر کے جذبات سے لبریز ہوتا ہے تو زبان شکر کے نغمے سناتی ہے اور پورا ماحول شکر کی خوشبو سے معطر رہتا ہے۔
محی الدین غازی

Comments From Facebook

1 Comment

  1. آفتاب عالم

    مضمون نگار نے شادی سے متعلق عمر میں تبدیلی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور دیگر پہلوؤں سے اسے سمجھنے کی کوشش کی ہےکہ کیا سماج میں یہ تبدیلی کسی بہتری کی ضامن بن سکتی ہے ۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ٢٠٢٢