سیلانُ الرحِم (Leucorrhoea)[قسط:1]

لیکوریا آغاز میں عرض ہوتا ہے اور بعد میں بذات خود مرض ہو جاتا ہے، جس سے تمام اطبا کو مطب میں بارہا سابقہ پیش آتا ہے۔ اس لیے اگر سرسری طور پر اس مرض کو عرض کہہ کر گزر جائیں گے تو اکثر و بیش تر علاج میں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ اس لیے سیلان الرحم عرض بھی ہے اور مرض بھی۔

مردوں کی صحت مرضِ جریان سے جس طرح خراب ہوتی ہے، اسی طرح عورتوں کی صحت مرضِ سیلان سے خراب ہو جاتی ہے۔ نزلہ مُزمِن کی صورت میں جس طرح ناک کے اندر جھلیاں متأثر ہوتی ہیں، اسی طرح سیلان الرحم میں رحم کی غشاء مخاطیی متأثر ہوتی ہے اور جب یہ مرض مزمن صورت اختیار کر لیتا ہے تو ایسی صورت میں رحم کی قوت غازیہ بگڑ جاتی ہے۔عورتوں کی مہبل سے گاہے سفید گاڑھی رطوبت، گاہے زردی مائل خراش دار رطوبت، گاہے زردی رنگت لیے ہوئے بدبودار رطوبت، گاہے سفید چونے کی رنگت لیے ہوئے بالکل رقیق رطوبت، گاہے پنیر نما گاڑھی (زیادہ مقدار میں) رطوبت کا اخراج ہوتا ہے۔ اس رطوبت کا اخراج نابالغ بچیوں سے لے کر سن رسیدہ خواتین تک کو ہوتا ہے۔ اس طرح کی رطوبت کے اخراج کو سیلان الرحم (لیکوریا) کہتے ہیں۔ یہ مرض ہر عمر کی عورت میں رونما ہو سکتا ہے اور ہر عورت کو عمر کے کسی نہ کسی زمانے میں اس سے سابقہ پڑسکتا ہے۔
واضح رہے کہ کسی قدر مہبل سے اخراج رطوبت کو عام طور پر طبعی خیال کیا جاتا ہے۔ ’’لیکن جب اخراجِ رطوبت اس قدر زیادہ ہو کہ اعضائے تناسل سے متصل کپڑا خراب ہونے لگے یا مقامی تکلیف دہ علامات رونما ہو جائیں تو اس اخراج رطوبت کو سیلان الرحم کا نام دیا جاتا ہے۔‘‘
(تجربات طبیب، ص۳۸۵)
عام طور پر کچھ اطباء بلا جھجھک یہ بات کہہ گزر جاتے ہیں کہ لیکوریا عرض (Symptom)ہے ، مَرَض نہیں ہے۔ جب کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کی سیلان الرحم عرض بھی ہے اور مرض بھی ہے۔ اس بات کو جاننے کے لیے عرض اور مرض کے تعلق سے قدیم اطباء کے نظریے کو جاننا ضروری ہے۔ اس کو جاننے کے بعد یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ سیلان الرحم کو سرسری طور پر عرض کہہ کر گزر جانا کتنا صحیح ہے۔
’’عُرف اطباء میں علامت، دلیل اور عرض تینوں متقارب ہیں۔ (ذخیرۂ خوارزم شاہی، ج دوم، ص ۲۰) یعنی تینوں ہم معنی اصطلاح ہیں۔ جسے ہم انگریزی میں Symptom کہتے ہیں۔
’’عرض کو کبھی طبیب علامت بھی نام رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ وہ بعد مرض کے ظاہر ہوتا ہے۔ اور طابع مرض کے ہے۔‘‘
(ذخیرۂ خوارزم شاہی، ج دوم، ص۷)
’’ عرض،ایک حالت ہے کہ طبع بیمار پر ظاہر ہوتی ہے۔ مانند درد سر اور بے خوابی کہ تپ (بخار) سے پیدا ہوتی ہے۔ (ذخیرۂ خوارزم شاہی، ج ۴،ص ۴)
یعنی تپ (بخار) مرض ہے اور اس بخار کہ وجہ سے سر میں درد ہے اور نیند متأثر ہے۔یہاں سر میں درد اور نیند کا نہ آنا یہ عرض ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ عرض مطیع مرض ہوتا ہے۔ یعنی جب مرض ہوگا تبھی عرض ہوگا۔ ’’عرض کے لیے سبب مطلق بیماری ہے، اس واسطے کی عرض مطیع مرض ہوتا ہے۔ (ذخیرۂ خوارزم شاہی، ج ۲،ص ۴)
’’ جس طرح ہضم نہ ہونا طعام کا معدے میں عرض ہے اور مرض ضعیفی معدے کی ہے۔ (ذخیرۂ خوارزم شاہی، ج ۲،ص ۸)
عرض اور مرض کے سبب کو مثالوں سے سمجھیں: ’’ جسم انسانی میں عفونت ہو اور اس عفونت سے تپ (بخار) پیدا ہو اور نبض مختلف ہو۔ پس مرض اس میں تپ (بخار) ہے۔ عفونت(سڑا ہونا مواد کا) اس میں سبب ہے اور عرض اس میں اختلاف نبض ہے۔‘‘(ذخیرۂ خوارزم شاہی، ج ۲۔ ص۷)
کبھی عرض بذات خود مرض ہو جاتا ہے۔جیسے درد سر جو تپ میں عارض ہو جاتا ہے۔ بیش تر جب اس کو استقرار اور استحکام ہو جاتا ہے تو بعد زوال تپ کے بھی باقی رہ کر خود مرض ہو جاتا ہے۔ (القانون، حصہ اول، ص ۹۰)
’’ جس طرح درد سر کی مطیع تپ کے ہو جب مستحکم ہو جائے تو وہ مرض تصور کیا جائے گا۔ (ذخیرۂ خوارزم شاہی، ج دوم۔ص ۸)
لیکوریا آغاز میں عرض ہوتا ہے اور بعد میں بذات خود مرض ہو جاتا ہے، جس سے تمام اطبا کو مطب میں بارہا سابقہ پیش آتا ہے۔ اس لیے اگر سرسری طور پر اس مرض کو عرض کہہ کر گزر جائیں گے تو اکثر و بیش تر علاج میں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ اس لیے سیلان الرحم عرض بھی ہے اور مرض بھی۔
اقسامِ سیلان:بہ اعتبار اخراج رطوبت
بہ لحاظ اخراج رطوبت اس مرض کی حسب ذیل اقسام ہیں۔ ہم مریضہ سے خارج ہونے والی رطوبت کے رنگ اور گاڑھے پن سے بخوبی اندازہ لگا لیں گے کہ اس خارج ہونے والی رطوبت کاکس جگہ سے تعلق ہے۔
۱۔ سیلان فرجی:
یہ التہاب فرج کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بالعموم کمسن بچیوں میں یہ سیلان ہوتا ہے، جس میں اندام نہانی کے بیرونی حصے سے رطوبت خارج ہوتی ہے۔ یہ رطوبت لیس دار اور چمک دار ہوتی ہے۔جس سے اندام نہانے کے لب اکثر چپک جایا کرتے ہیں۔ یہ مرض باکرہ، ناکتخدہ عورتوں کو ہوا کرتا ہے۔
۲۔ سیلان مہبلی:
اس سیلان میں اندام نہانی کے اندرونی حصے سے رطوبت خارج ہوتی ہے۔ یہ مہبل کی بلغمی جھلی کے ورم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مزمن ورم کی وجہ سے بہنے والی رطوبت عموماً گاڑھی، دودھیا، سفید چھاچھ کی طرح ہوا کرتی ہے اور اس میں ناک کے اندر سے خارج ہونے والی رطوبت کی طرح لیس اور چکنا پن پایا جاتا ہے۔ اندام نہانی میں سوزش اور خارش ہوتی ہے۔ یہ رطوبت تیز ہوتی ہے جس کہ وجہ سے مریضہ خراش کی شکایت بھی کرتی ہے۔
۳۔ سیلانِ عنقی:
اس میں گردن رحم سے رطوبت خارج ہوتی ہے۔ اس میں اخراج کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ انڈے کی سفیدی کی طرح شفاف لیس دار رطوبت کبھی خون یا پیپ وغیرہ کی آمیزش کے سبب سرخی یا زردی رنگ کی رطوبت بھی خارج ہوتی ہے۔ یہ مرض اکثر بچے والی عورتوں میں ہوتا ہے۔ عنق الرحم میں متعدد خراشوں کے باعث ’سرایت‘ داخل ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے رطوبت مخاطیہ بہ مقدار کثیر پیدا ہو جاتی ہے اور سیلان الرحم کا باعث ہوتی ہے۔
۴۔ سیلان رحم:
اس میں رحم کے اندر سے رطوبت خارج ہوتی ہے۔ یہ رطوبت رحم کی بلغمی جھلی کے مزمن ورم کی وجہ سے خارج ہوتی ہے۔ اگر مرض پرانا ہو جائے تو رطوبت غلیظ اور رنگت گہری ہوتی ہے۔’اس میں رحم سے ایک سفید غلیظ رطوبت بہا کرتی ہے، اس لیے اس کو نزلہ رحمیہ کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ (مطب عملی، ص ۲۸۴)
۵۔ سیلان مبیضی:
اس میں بیضہ سے رطوبت خارج ہوتی ہے۔ خصیتہ الرحم کے استسقا میں کبھی کبھی زیادہ مقدار میں پانی جیسی رطوبت خارج ہوتی ہے۔ میرے اپنے مطب میں ایک عورت یہ شکایت لے کر آئی کہ اسے پانی کی طرح رقیق اور پانی ہی کے رنگ کی رطوبت ایک ایک گلاس کے قدر رطوبت خارج ہوتی ہے، ایسی صرف اب تک ایک ہی مریضہ میرے مطب میں آئی ہے اور اس کے علاج میں، میں ناکام رہا۔
اقسام سیلان: بہ اعتبار بو و رنگت
١۔ رحم سے متعفن رطوبت کا خارج ہونا:
“گاہے عورتوں کے رحم سے ہر۔وقت متعفن رطوبت جاری رہتی ہے۔ جس کا سبب تمام بدن میں فضلات کی زیادتی ہوتی ہے اور یہ فضلات استفراغ و تنقیہ کے طور پر رحم کی طرف دفع ہوتے ہیں۔ یہ فضلات یا بلغمی ہوتے ہیں یا صفراوی یا سوداوی یا دموی ہوتے ہیں۔ یا اس کا سبب خود رحم میں رطوبتوں کی تولید ہوتی ہے۔ جس کا باعث رحم کی قوت غازیہ کی کمزوری اور عروق حیض میں مادہ کی عفونت ہوتی ہے۔ (اکسیر اعظم،ص 835) سرطان رحم سرطان عنق رحم اور تعدیہ کے سبب بھی بدبو ہوتی ہے۔
٢۔ رحم سے زرد مواد کا اخراج:
کبھی زرد رنگت کی رطوبت کا اخراج ہوتا ہے یا بدرنگ یا سبزی رنگت لیے ہو مادے کا اخراج اکثر سوزا کی سرایت کے سبب ہوتا ہے۔ اور اکثر ‘عفونت‘کے سبب سے زرد رنگت کی رطوبت خارج ہوتی رہتی ہے۔ اکثر اطبایہ کہتے ہیں کہ سیلان الرحم صفراوی مرض ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے ذیل کی سطور ملاحظہ کریں:
“اس رطوبت کی پیدائش یا تو خاص رحم میں ہوتی ہے۔ یا جس وقت رحم کی قوت جاذبہ میں ضعف آجایا کچھ فضول تمام بدن سے رحم میں آتے ہوں بطور استفراغ طبیعی کے، جس کے ذریعے سے بدن کا تن۔(جاری)

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ٢٠٢٢