بڑھتا ہوا ٹیکنالوجی کااستعمال:کتنا مفید، کتنا مضر؟

وہ عمر جس میں بچے کھیل کود کر کے خود کو جسمانی طور پر فٹ رکھ سکتے ہیں، اس عمر میں ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال جہاں ان بچوں کو جسمانی طور پر کمزور اور سست بنا دیتا ہے وہاں ذہنی صلاحیتوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔

ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی ایجاد ہے’’پرسنل کمپیوٹر‘‘اور اس کمپیوٹر کو لامحدود وسعت دینے والی ایجاد کا نام ہے انٹرنیٹ۔انٹرنیٹ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مختلف کمپیوٹرز کو مربوط کرنے والی کڑی ہے۔ جس طرح کمپنیاں اپنی پیداوار کی تشہیر کے لیے صارفین کی نظروں میں سمانے کے لیے جلوہ آرائیاں کرتی ہے، اسی طرح انسان بھی اپنی معلومات، ایجادات، خیالات اور تصورات کو دوسرے انسانوں تک پہنچانے کے لیے مضطرب ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے تمام لوگوں کے ذوقِ تجسس کی تسکین بہ آسانی ہوجاتی ہے۔
انٹرنیٹ پر موجود کروڑوں ویب سائٹس اور سوشل میڈیا، تشنگانِ علم کو معمولی مہارت اور انگلیوں کی جنبش سے ہمہ وقت سیراب کرتی ہیں۔ معلومات کے بھرپور خزانے کا منھ کھلنے لگتا ہے تو خس وخاشاک کا منھ زور ریلا بھی دندناتا ہوا اسکرین اور آنکھوں کے راستے دماغ میں اترنے لگتا ہے۔ انٹرنیٹ سے دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود ہم زبان سے تبادلۂ خیال کا عمل آسان ہوگیا ہے۔ ای میل اور سوشل میڈیا نے خط و کتابت اور مراسلات کی ترسیل کو انتہائی سستا اور معیاری بنا دیا ہے۔ اسی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے تعلیم و تدریس کے نئے اور مؤثر ذرائع وجود میں آگئے ہیں، جیسے ای لرننگ، ای بک وغیرہ۔
تفریح طبع کے گوناگوں وسائل ہاتھ آگئے ہیں۔ فلمیں،نغمے، کتابیں، ضروریات زندگی،پیداوار کی تفصیل، مقامات، شخصیات اور کاروبار کی پل پل بدلتی کروٹیں لیتی صورتِ حال منکشف ہو جاتی ہیں۔ دوستیاں، شادیاں، کاروباری لین دین، نظریات کی تبلیغ غرض یہ کہ انسانوں کے باہمی نفع نقصان کے لامحدود امکانات ٹیکنالوجی و انٹرنیٹ نے فراہم کر دیے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ فحاشی، عریانیت، فیشن، لبرلزم، بےحیائی و بےشرمی، تیسرے درجہ کی زبان کا استعمال، دھوکے بازی اور نفرت کے پرچار کا راستہ بھی کھل گیا ہے۔
آخر اس کا سبب کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہمارے اعتقادات کی کمزوری، اسلامی اقدار سے ہماری دوری اور نئی نسل کی صحیح اسلامی تربیت سے ہمارا جی چرانا ہے۔ ہم چھوٹی عمر سے ہی ٹیکنالوجی کا استعمال بچوں کو سکھا دیتے ہیں۔ اس کی ابتداچھوٹے بچوں کو خاموش اور پرسکون کرنے کے لیے موبائل فونز پر ویڈیوز دکھانے سے ہوتی ہے۔ آہستہ آہستہ بچوں کو اس چیز کی عادت ہو جاتی ہے جو کہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور ہوئی بھی ہے۔ بچے جب تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی غیر نصابی سرگرمیاں صرف موبائل فونز اور کمپیوٹرز پر ویڈیو گیمز تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ وہ عمر جس میں بچے کھیل کود کر کے خود کو جسمانی طور پر فٹ رکھ سکتے ہیں، اس عمر میں ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال جہاں ان بچوں کو جسمانی طور پر کمزور اور سست بنا دیتا ہے وہاں ذہنی صلاحیتوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔
اسی طرح میڈیا آج ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا آلۂ کار ہے۔ یہ جس کی جیسی چاہے برین واشنگ کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ منفی فلمیں، ڈرامے اور ویڈیوز منفی تربیت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
انسانوں کا انسانوں سے زیادہ وقت مشینوں کی رفاقت میں گزرنے کی وجہ سے انسان بھرے معاشرے میں تنہا ہوگیا ہے اور نفسا نفسی بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ سے ڈیپریشن میں بھی اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔ برائی کی تھوڑی سی خواہش بھی دل میں پیدا ہونے والا فرد جب انٹرنیٹ کے سامنے بیٹھ جاتا ہے تو اپنے ہم خیال کمپنیز تک آسانی سے رسائی حاصل کر لیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اس برائی میں مزید ڈوبتا چلا جاتا ہے۔
تمام ترٹیکنالوجی کی ایجادات کی بنیاد ہے انسانی ضروریات۔ جس طرح ضرورت اپنا پاؤں پھیلا رہی ہے، نئی نئی ایجادات وجود میں آرہی ہے۔ ان ایجادات نے انسان کو عیش و مستی کا کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے اخلاقی پستی اور بے تعلقی و بے حسی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ نت نئے مصنوعی اشیاء متعارف کی جارہی ہیں جو کہ بہرحال قدرتی اشیاء کی نسبت نقصان دہ ہوتے ہیں، بالخصوص اشیائے خورد و نوش۔
سب سے خطرناک نقصان ٹیکنالوجی کا ڈویلپڈ اسلحہ ہے۔ پرانے زمانے میں اگر دیکھا جائے تو لڑائی جھگڑے بہت مشکل سے ہوتے تھے۔ ان میں حصہ لینے کے لیے افرادی قوت اور تیغ و تیر مارنے کی کافی مہارت درکار ہوتی تھی۔ اس کے باوجود بھی لمحہ بھر میں درجنوں مارنا ممکن نہیں تھا۔ شہری آبادیوں سے دور کوئی میدان چنا جاتا تھا، جہاں مخالف افواج آمنے سامنے ہوتی تھیں۔ اس طرح کی لڑائیوں میں شہروں کو کم سے کم نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ ایک شخص کے لیے دشمن پر تلوار، چاقو، تیر یا نیزے سے حملہ اتنا آسان نہ تھا، جو بندوق، پستول یا بم نے بنایا ہے کہ کم وقت میں بنا خطرے کے زیادہ افراد مارنا، جن میں کوئی حملہ آور سے جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی لحاظ سے ہزار ہا طاقتور ہی کیوں نہ ہو مارا جاسکتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اپنے آپ میں کوئی خطرناک چیز نہیں۔ جب ہم اسے اپنے منفی مقاصد کے حصول کے لیےاستعمال کرتےہیں، تب اس کے مفید اثرات ناپید ہوجاتے ہیں اور مضر اثرات معاشرے میں ناسور بن کر پھیل جاتے ہیں۔ لہٰذا ہماری بنیادی ذمہ داری ہے کہ ان سہولیات سے ہماری نوجوان نسلوں کو صرف اور صرف معاشرے کی ترقی اور نشوونما کے کاموں میں استعمال کرنے کی تلقین و تاکید کی جائے۔ اسلام بھی ہمیں اعتدال میں رہنا سکھاتا ہے۔ انٹرنیٹ انسانیت کے لیے برکت ہے، لیکن اخلاقی قدروں سے ٹوٹتے ہوئے رشتے انٹرنیٹ کو ذلت کی تہوں میں دھکیل رہے ہیں۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ٢٠٢٢