تحریکی خاتونِ اول :حمیدہ بیگم
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کی اقامتِ دین کی آواز پر جن سعید روحوں نے لبیک کہا، ان میں مردوں کی علاوہ خواتین بھی شامل تھیں۔یہ خواتین دور نبویؐ کی عظیم صحابیات کے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے روز اول سے اس قافلۂ سخت جاں کا حصہ رہی ہیں ۔
ہم کیوں ان کی زندگیوں کا مطالعہ کریں ؟
1۔تا کہ جماعت سے وابستہ افراد کو ان سعا دت مند ہستیوں کی زندگی سے نصب العین کے عملی تقاضوں میں رہنمائی ملے ۔
2۔ ان عظیم خواتین کی تاریخ کا مطالعہ ہر اس فرد کے لیے ہے، جو دعوت دین کے کام کا ذوق رکھتا ہے اور جسے اللہ کے دین کی سربلندی کا شوق ہے ۔
3۔اپنے محسنوں کو یاد کرنا اور زندگی کی عملی جدوجہد میں ان کے افکار و اعمال سے رہ نمائی لینا، عظیم قوموں کا شیوہ ہوتا ہے۔اس سے راہ ِحق میں آنے والی مشکلات دم توڑتی ہیں اور منزل کی طرف بڑھنے کے عزم اور ولولے کو مہمیز ملتی ہے ۔
اسلاف سے نسبت
جماعتِ اسلامی کے قیام ( 26 اگست 1941) کے بعد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے دوسرے ہی اجتماع میں کہا:’’ ہمیں سرجوڑ کر سوچنا چاہیے کہ خواتین کو اپنے ساتھ لے کر کام کرنے کی کیا صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔اب تک ہمارا ایک ہی ہاتھ کام کرتا رہا ہے اور گاڑی کا ایک حصہ متحرک ہوا ہے۔ اب ہمیں اپنے دوسرے ہاتھ اور گاڑی کے دوسرے پہیے کی فکر کرنی ہے۔ ہمارا اور خواتین کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وہ ہم سے اور ہم ان سے ہر لحظہ متأثر ہوتے رہتے ہیں۔ ہم گھروں کو مسلمان بنائے بغیر دنیا کو مسلمان نہیں بنا سکتے۔ اس کے لیے خود خواتین ہی سے مدد لینی ہوگی۔‘‘
مولانا مودوی کےلٹریچر اور ارکانِ جماعت کی دعوت کے نتیجے میں خواتین بھی اس تحریک سے متعارف ہوتی گئیں۔ چراغ سے چراغ جلتا گیا، یہاں تک کہ 15 فروری 1948 کو اچھرہ لاہور میں150 نمائندہ خواتین کا اجتماع منعقد ہوا۔اس میں سے محض چند خواتین ہی رکن جماعت بنیں۔اس میں مرکزی مجلس شوریٰ کی فیصلے کے مطابق جماعت اسلامی حلقۂ خواتین کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس وقت کے امیرمولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے رکن جماعت محترمہ حمیدہ بیگم کو حلقۂ خواتین کی پہلی قیمہ مقرر کیا ۔ اس دن سے لے کر آج کے دن تک حلقۂ خواتین اللہ کی دین کی دعوت، اللہ کی بندیوں تک پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ نسل در نسل ہدایت کا سفر جاری ہے۔ دعوت حق کی اس رواں کشتی کا ہر کوئی حسب استطاعت چپو چلا کر اگلےکے حوالے کر دیتا ہے ۔
حلقۂ خواتین کی پہلی قیمہ ہونے کے ناطے انہوں نےاس تحریک کی بنیادیں رکھنے کا عمل سر انجام دیا ۔انہوں نے قریب آنے والی ہر خاتون کو محبت کی چاشنی سے اپنے ساتھ جوڑ لیا اور قرآن وحدیث کا پیغام اس کے دل میں اتار کر گویا بنیاد میں ایک اینٹ کا اضافہ کردیا ۔دوسرا فرد خود کتنا ہی سرد کیوں نہ ہو، ان کی محبت کی گرمی اس میں بھی سرایت کر جاتی تھی اور وہ ہر دل میں ایک چنگاری سلگا دیتی تھیں۔
ابتدائی حالات زندگی
آپا حمیدہ بیگم کی پیدائش 1915 میں گوجرنوالا میں ہوئی۔آپ کا تعلق راجپوت گھرانے سے تھا ۔بچپن میں انہیں گلے کی ٹی بی ہوگئی تھی، جس کے بعد طبیعت میں نازک مزاجی پیدا ہو گئی تھی۔ والدین نے انہیں ہر طرح کے کاموں سے دور رکھا تھا ۔
تعلیم
آپا حمیدہ بیگم کو تعلیم سے دلی وابستگی تھی۔ اس زمانے میں انہوں نے بی اے اور بی ٹی کی ڈگری نمایاں کامیابی کے ساتھ حاصل کیں اور اپنے شہر کے ہائی اسکول میں معلمہ کے فرائض سرانجام دینے لگیں۔آپ انگلش کی معلمہ تھیں اور رضاکارانہ طور پر دینیات بھی پڑھاتی تھیں۔
تحریکِ اسلامی سے وابستگی
رسالہ ترجمان القرآن کے مطالعے نے ان کے دینی خیالات کو گہرائی دی۔ ترجمان القرآن کی مدد سے دیگر تحریکی لٹریچر بھی حاصل کیا۔اس مطالعے نے ان کے سامنے فریضۂ اقامت دین اور اسلامی اجتماعیت کی اہمیت کو بالکل عیاں کر دیا ۔اس وقت کے احساسات کو وہ خود اس طرح بیان کرتی ہیں: ’’رکنیت اختیار کرنے سے پہلے میں ایک ماہ تک ہر رات جاگ کر یہ سوچتی رہتی کہ میرے جماعت میں شریک ہونے سے جماعت کو کیا فائدہ ہوگا۔اپنی معذوریاں اور کم زوریاں سامنے آ کر پیچھے دھکیلتیں۔دل نے کہا جماعت کا بھلا ہو یا نہ ہو تم خود تو روزِ قیامت سرخرو ہو سکوگی۔ یہ سوچ کر میں نے رکنیت کی درخواست دے دی ۔‘‘
جب آپا حمیدہ بیگم کی درخواست رکنیت امیر جماعت سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ تک پہنچی تو آپ نے ان کی درخواست سے ان کے جوہر قابل کا اندازہ لگا لیا اور قیادت کے قابل پہلی خاتون کے دست یاب ہوتے ہی ان کی رکنیت کی درخواست منظور کرتے ہوئے حلقۂ خواتین کی پہلی قیمہ مقرر کردیا ۔
حلقۂ خواتین کی تنظیم سازی
آپا حمیدہ بیگم نے سب سے پہلے ان چند خواتین کواپنی تحریروں کے ذریعے منظم کیا ۔ابھی تعلقات استوار ہو ہی رہے تھے کہ بٹوارےکا سانحہ پیش آگیا۔ جماعت اسلامی بھی دو حصوں مکیں منقسم ہوگئی۔ پاکستان منتقل ہونے والی خواتین سے آپ نے دوبارہ رابطے بحال کیے ۔دعوت سے آشنائی اختیار کرنے والی خواتین کو آپس میں جوڑنے کے لیے آپا حمیدہ بیگم وقتاًفوقتاً انہیں مدعوکرتیں اور ان کے ساتھ مل کر سوچا کرتیں کہ دعوت کے کام کو کس طرح آگے بڑھایا جائے۔ اس طرح ایک ایک کر کے انھوں نے انسانی معاشرے میں سے حق کی طلب اور اسے پھیلانے کی آرزو رکھنے والےہیرے اکٹھے کیے اور انہیں مقصد کی لگن میں یکسو کر دیا۔دور دراز کی خواتین جب ایک مرتبہ آپ سے مل کر واپس اپنے شہروں میں واپس جاتیں تو آپ ان سے مضبوط تحریکی تعلق بنائے رکھتیں۔ تفصیلی خطوط کا تبادلہ ہوتا تھا، جس میں گھر والوں سے لے کر آس پڑوس اور اس سے باہر کی دنیا، سب کا تذکرہ ہوتا اور سب میں دین پھیلانے کی تدابیر سوچی جاتیں۔دور رہنے والوں کو بھی مفصل حالات تحریر کرنے کی ہدایت کر رکھی تھی۔ کسی کارکن نے صرف تحریکی کاموں سے متعلق خط لکھ کر بھیج دیا تو اس پر ناراض ہوئیں اور کہا:’’یہ کیا صرف قانونی خط؟ میں اس خط کو تسلیم نہیں کرتی۔ مجھے گھر کے ایک ایک بچے کا حال لکھیں ۔‘‘
جب تک صحت ٹھیک رہی، خوب بھاگ دوڑ کی۔ ہر روز ملاقاتوں کے لیے جاتیں۔ شہروں کے دورے بھی ہوتے۔ ہمراہ کوئی کارکن، بھانجا یا بھتیجا ہوتا۔ تنہا کبھی شہر میں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ نہ جاتیں۔ گھر میں کوئی نہ ہوتا تو کام کرنے والی مائیوں میں سے کسی کو ساتھ لے لیتیں، ہر صورت واپسی سورج ڈوبنے سے پہلے کرتیں۔ کہا کرتی تھیں:’’ ہماری خیر اسی میں ہے کہ ہر کام کرتے وقت خدا کی پسند کو ملحوظ رکھیں ۔ ‘‘
انہوں نے ہفتہ واری اجتماعات کا نظام قائم کیا ،زکوٰۃ فنڈقائم کیا،درسِ قرآن کے لیے جن مقامات کا تعین کیا جاتا، وہاں باقاعدگی کے ساتھ جاتیں۔ موسم خواہ کتنا ہی شدید ہو، طبیعت خواہ کتنی ہی خراب ہو، باقاعدگی سے جا کر درس دیا کرتیں۔ حاضرین کی تعداد کو کبھی اہمیت نہ دیتیں۔ ایک یا دو خواتین کی موجودگی میں بھی اسی جذبے سے درس دیا کرتیں۔ کارکن کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے جانا ہوتا تو اس کے گھر پہنچ کر گھر کے کاموں برتن مانجھنے، سبزی بنانے اور بچوں کو تیار کرنے میں ان کی مدد کر تیں تاکہ کارکن سکون سے وقت نکال کر چل سکیں ۔جس گھر میں جاتیں اس گھر کی ہر خاتون سے ملاقات کر تیں۔مشن کی تکمیل کے لیے ہر ذریعہ کو اپنا تیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 9 باتوں والی حدیث کو نمونہ بنا کر دعوت دین کا آغاز کرنا چاہیے ۔چار سال کی مستقل محنت کے بعد حلقۂ خواتین منظم شکل اختیار کر گئی ۔
انسان شناسی
آپا بلا کی انسان شناس تھیں۔سامنے والے کے حالات، مزاج اور قابلیت کا جائزہ لے کر اس کے مطابق اسے کام کا میدان سونپتیں اور ساتھ ساتھ پوری رہ نما ئی کرتی تھیں۔ ان کی نگاہ بڑی تیز اور جوہر شناس تھی، جس خاتون میں انہیں لکھنے کا سلیقہ دکھائی دیتا، اسے لکھنے کی طرف مائل کرتیں، جس میں پڑھنے کا شوق پاتیں، اسے پڑھنے کی طرف لگا دیتیں۔ جس میں تقریر کی خوبی محسوس کرتیں، اس کی اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کی کوشش کرتیں۔ یہ ساری تگ و دو اس لیے کہ اللہ کے دین کو غالب کیا جائے ۔وہ ماہر کاریگر کی طرح خام مال کو خوبصورت اور کارآمد سانچوں میں ڈھالنے کے لیے دن رات ایک کرتی تھیں۔ یہی بات بیگم مولانا مودودی نے کہی کہ وہ اس قدر دل نشین انداز میں ترغیب دیتی تھیں کہ انکار کی گنجائش نہ رہتی۔ میں نے ان کے اصرار کرنے اور اکسانے پر بولنا شروع کیا۔ میری ٹوٹی پھوٹی تقریر کی بڑی تعریف اور ہمت افزائی کی۔ یہاں تک کہ جھجک جاتی رہی، اعتماد پیدا ہو گیا اور میں آسانی سے بولنے لگی ۔
رسالہ بتول کا اجراء
ابتدا ہی میں ایک رسالے کی ضرورت محسوس ہوئی، جس سے خواتین تک اپنا پیغام پہنچانے اور ان میں فکری تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا جاسکے۔ لیکن سوال سرمائے کا تھا کہ وہ کہاں سے آئے گا؟ اس وقت آپا حمیدہ بیگم نے بڑے جذبے سے کہا کہ اللہ کا نام لے کر کام کا آغاز کر دیا جائے۔ سرمائے کا انتظام وہ خود کرے گا، جس کی خاطر ہم یہ کام شروع کرنے لگے ہیں ۔البتہ نام و نمود کی خواہش نہ ہو۔ یہ یاد رہے کہ ہر تحریر صرف رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر چھپے گی۔ پہلے عفت اور پھر بتول کے نام سے رسالہ جاری کیا گیا ۔بعد میں کسی نے پرچے کی اشاعت میں اضافہ اور اخراجات پورا کرنے کے لیے مشورہ دیا کہ کسی مشہور ادیبہ کے افسانے اس میں شامل کر دیے جائیں اس پر انہوں نے ناراضی سے کہا:’’ ہم اس وقت خسارے میں ہوں گے، جب خرچ پورا کرنے کی خاطر معیاری اخلاق سے کم تر مواد پیش کریں گے۔ میں ایسی کوئی چیز اپنی زندگی میں نہ آنے دوں گی، اگرچہ ایک بھی پرچہ نہ فروخت ہو۔ یاد رکھیے جس روز مادی فائدہ اخلاقی فائدے سے آگے آیا، پرچے میں خیر و برکت ختم ہو جائے گی ۔خدا کی رضا اور حدود کو مد نظر رکھو ،اسی میں بھلائی ہے ۔تم اخلاقی چیزیں پیش کرو ،لوگ خود بخود دل چسپی محسوس کریں گے ۔‘‘
انھیں ادارۂ بتول سے از حد لگاؤ تھا۔ وہ ادارہ کی منیجر بھی تھیں، مدیر ابھی، کلرک بھی اور اکاؤنٹنٹ بھی۔ سارا دن کام کرتیں اور ساتھ ساتھ یہ تسلی بھی دیتی جاتیں کہ مجھے تو کام نے تندرست کردیا ہے۔ کام جتنا زیادہ ہے، اتنا ہی میں اپنےآپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتی ہوں۔
بتول میں لکھنے والیوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتیں اور قدردانی بھی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ان پر واضح کرتیں کہ مجھے عفت بے حد عزیز ہےاور چاہتی ہوں کی یہ عمدہ سے عمدہ شعر و ادب پیش کرے ۔لیکن مجھے اس سے زیادہ لکھنے والیوں کی زندگی، ان کی دنیا اور ان کی عقبیٰ عزیز ہے ۔
میں نہیں چاہتی کہ عفت کی خاطر کارکنوں کی زندگی میں کوئی بے اعتدالی آئے۔ اس وقت مجھے حلقۂ خواتین کی طرف سے دو جہاد بڑے اہم دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تو گھریلو زندگی اختیار کرنے پر رضامند ہو جانا۔دوسری بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے پوری طرح تیار ہو جانا۔علمی و ادبی کام اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے، لیکن ۔بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہمارا اصل مالک ہم سے کیا چاہتا ہے اور ہم کیسی زندگی گزاریں؟
شوق ِمطالعہ
تحریکی کام کے لیے مطالعہ کو شرطِ اول قرار دیتیں۔ کہتی تھی کہ:’’تحریک میں شمولیت سے پہلے میں نے سارے لٹریچر کو اس طرح پڑھا تھا گویا اس کا بہت بڑا امتحان دینا ہے۔ ‘‘
مطالعے کا شوق بڑھانے کے لیے کارکنان سے کہتیں:’’مطالعہ ہمارے کام میں پٹرول کی حیثیت رکھتا ہے اور بغیر پٹرول کی گاڑی چلانے کی کوشش کا انجام کسی سےپوشیدہ نہیں ۔پورے جماعتی لٹریچر کا اس طرح مطالعہ کریں جیسے روز کھاتی یا سوتی ہیں۔ کوئی ایسا شخص کس طرح فوج کا کپتان ہوسکتا ہے، جس نے باقاعدہ فوجی ٹریننگ دو یا تین سال سے زیادہ نہ لی ہو ۔‘‘
وہ خود ایک صاحب طرز ادیب تھیں۔اسلوب نگارش سادہ، منفرد، شگفتہ اور دل نشین تھا ۔ان کی ہاتھ کی لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے سادہ جملے اتنی دل نشین ہوتے کہ آنکھوں کی راستے سیدھے دل میں اتر جاتے، ایک جگہ لکھتی ہیں: ’’اصل میں سارا سلیقہ ہم تھوڑی دیر کے لیے غیروں کو دکھاتے ہیں ۔اپنے گھر میں دکھانے کی عادت ہو جائے تو ہماری آدھی سے زیادہ مشکلات حل ہو جائیں ۔‘‘
ایک اور جگہ لکھا کہ’’ حقوق ادا کرنے کے سلسلے میں کوئی شرط نہیں کہ جن کے حقوق ادا کرنا ہمارے ذمے ہو وہ لازماً نیک اور محبت کرنے والی ہوں۔ یہ تو قرض کی مانند ہے، جس کے لیے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جس کا قرض دینا ہے وہ نیک ہے یا بد، بلکہ یہ سوچا جاتا ہے کہ جتنی جلد ہو اس کا قرض اتار دیا جائے ۔
عائلی زندگی
بچپن میں ٹی بی ہونے کی باعث حمیدہ آپا کم زور صحت کی حامل تھیں۔ اسی وجہ سے شادی کر کے گھریلو ذمہ داری اٹھانے سے بھی گریزاں تھیں۔ جماعت اسلامی میں شامل ہونے کے بعد ان کے سامنے نکاح کی سنت کو واضح کیا گیا اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی تو اتباعِ سنت کے جذبے سے آپ نکاح کے لیے راضی ہوگئیں ۔سیالکوٹ کے رکن جماعت قاضی حمیداللہ صاحب سے آپ کی شادی قرار پائی ۔قاضی صاحب کی یہ دوسری شادی تھی اور ان کا ایک 14 سالہ بیٹا بھی تھا۔شادی کی کچھ ہی دن بعد قاضی صاحب بیمار ہوگئے اور بیماری طول پکڑتی گئی، یہاں تک کے نومبر 1950 میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح شادی کی محض دو سال بعد آپ بیوہ ہوگئیں اور واپس والدین کی گھر آگئیں۔ لیکن بعد میں بھی اپنے سوتیلے بیٹے اسلم سے رابطہ برقرار رکھا۔ پوتے پوتیوں سے حسن سلوک جاری رہا۔
بھائی بھاؤ جو اور خاندان کی بہنوں کی تعریفیں کرتے زبان نہ تھکتی تھی۔کہتیں:’’میرے اوپر سب عزیز جان چھڑکتے ہیں۔ اللہ نے میرے لیے کیسی آسانیاں پیدا کر دی ہیں ۔‘‘
ملازمین کے ساتھ بھی بہت حسن سلوک کرتیں۔ وقتاً فوقتاً پیسے دیتی رہتیں، انھیںکپڑے بنواتیں۔ کھانا تیار ہوجاتا تو کبھی خود چولھے کے پاس آتیں اور ہانڈی میں سے نکال کر ملازمہ اور اس کی بچوں کو دیتیں پھر خود کھاتیں۔
خرابیٔ صحت
دسمبر 1958میں انہیں دل کا پہلا دورہ پڑا ۔1962میں دل کا آپریشن ہوا، جس کی باعث سینے میں ایسا زخم ہوگیا جس سے موت کے وقت تک خون اور پیپ نکلتا رہا۔ اس کے بعد پیٹ میں پانی جمع ہونا شروع ہوگیا۔1973میں ابتدا سے آخر تک پانچ مرتبہ پیٹ سے پانی نکالا گیا۔اس بیماری کے باعث آپ تین چار منٹ سے زیادہ بیٹھ نہیں سکتی تھیں۔ کمر سے پاؤں تک ورم آگیا تھا۔پنڈلیاں پتھر کی مانند ہو گئی تھیں۔ وضو کرتیں اور نفلیں پڑھتیں۔ لیٹا نہ جاتا تھا ۔آگے تکیہ رکھ کر اس سے آگے گردن بڑھا کر سر کو پلنگ سے نیچے لٹکائے رہتیں۔ اس حالت میں بھی بتول پڑھوا کر سنتیں۔ اگست کے شمارے کا حرف اول بھی خود لکھا ۔بیماری کا ذکر کرنے والوں سے ناراض ہوتیں۔ کہتی کہ’’ اس فضول گوئی سے کیا حاصل، وہی وقت قرآن کی تلاوت میں کیوں نہ گزارا جائے ۔جو ملا ہے اس کا حق ہی ادا نہیں کرسکتی تو جو کمی رہ گئی ہے، اس کا رونا رونے سے کیا ہوگا ۔‘‘
اورشمع گل ہو گئی
آپا کی خواہش تھی کہ جمعہ کے دن وفات ہو ۔اللہ تعالیٰ نے جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب میں اپنے پاس بلا لیا ۔ستمبر 1973 بمطابق 14 شعبان کو آپ کا انتقال ہوا۔ چار شعبان کو ان کی ڈائری میں رمضان کی پلاننگ تحریری طور پر موجود تھی ۔سبحان اللہ ۔
آپا حمیدہ بیگم اس دنیائے فانی سے دوسری ہمیشہ رہنے والی دنیا کی طرف کوچ کر گئیں۔ ان کی رحلت کے بعد کسی نے انہیں سونے کے تخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا ۔کسی کو انہوں نے بتایا کہ اللہ نے نیک بندوں سے جو وعدے کیے ہیں وہ سب اس نے پورے کر دیے ۔کسی سے کہا کہ یہاں ہزاربلبوں سے بھی زیادہ روشنی ہے۔ بے شک وہ ایسی زندگی گزار گئیں جو رب کی مرضی سے ہم آہنگ تھی ۔اللہم اغفر لھا وارحمھا وادخلھا فی جنت الفردوس ۔
دعوت سے آشنائی اختیار کرنے والی خواتین کو آپس میں جوڑنے کے لیے آپا حمیدہ بیگم وقتاًفوقتاً انہیں مدعو
کرتیں اور ان کے ساتھ مل کر سوچا کرتیں کہ دعوت کے کام کو کس طرح آگے بڑھایا جائے۔ اس طرح ایک ایک کر کے انھوں نے انسانی معاشرے میں سے حق کی طلب اور اسے پھیلانے کی آرزو رکھنے والےہیرے اکٹھے کیے اور انہیں مقصد کی لگن میں یکسو کر دیا۔
Comments From Facebook

3 Comments

  1. Aliya

    بہت ہی اچھی شروعات ہے،حلقہ خواتین کی تاریخ پہلی بار پڑھ کر بہتاچھا لگا،،۔۔۔۔۔اُمید ہے کہ آگے بھی اس طرح کا مضمون پڑھنے کو ملےگا

    Reply
  2. منور سلطانہ

    ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت اورinspirکرنے والی تحریر ہے۔ جزاک اللہ خیرا

    Reply
  3. JAVERIA

    اللہ تعالیٰ حمیدہ آپا جیسی جستجو ہم میں بھی پیدا فرمادے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ کا قرب اور رضا حاصل کرنے والی بنادے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ٢٠٢٢