راستہ روکتی ساری مایوسیاں
سن لیں مدہم امیدوں کی سرگوشیاں
ایک لمحے کو لب مسکراہٹ بنیں
آئیے آج ہم زندگی سے ملیں
پھول تارے سمندر ہوا زندگی
ہے چٹکتی کلی کی نوا زندگی
ابن آدم کی پہلی صدا زندگی
ہم خطاکار اس کی عطا زندگی
تھام کر اس کے ہاتھوں کو آگے بڑھیں
آئیے آج ہم زندگی سے ملیں
آج غم ہے تو کیا،آنکھ نم ہے تو کیا
پل کے نیچے سے پانی گزر جائے گا
کیا ہوا جو چھاگئی کالی گھٹا
کس نے کرنوں کا روکا بھلا راستہ
ان گھٹاؤں سے سورج کا گھر پوچھ لیں
آئیے آج ہم زندگی سے ملیں
شب کے دامن میں گرچہ اندھیرے بھی ہیں
پھوٹتے پر اسی سے سویرے بھی ہیں
اس میں خوش رنگ خوابوں کے ڈیرے بھی ہیں
جو کہ تیرے بھی ہیں جو کہ میرے بھی ہیں
اس کے چاند اور تاروں سے باتیں کریں
آئیے آج ہم زندگی سے ملیں
رب کعبہ کی دہلیز کو تھام لیں
دل دھڑکتا رہے اشک بہتے رہیں
زندگی کے سکوں کی دوا مانگ لیں
جب تلک سارے غم نہ حوالے کریں
اس کی دہلیز سے تب تلک نہ اٹھیں
آئیے آج ہم زندگی سے ملیں
نظم

زمرہ : سخن سراپا
Comments From Facebook
جنوری ٢٠٢٢
0 Comments