شادی کی عمر کے قانون میں تبدیلی :مفید یا مضر؟

شادی کی اوسط عمر میں اضافہ ، 18تا20 سال کی عمر میں شادیوں کا
تناسب گررہا ہے
شادی کی اوسط عمر (برسوں میں)
18 اور 21سال کی عمر کے درمیان شادی کرنے والی خواتین کا فیصد

مرکزی کابینہ میں ۲۰۲۱ء کو رخصت کرتے ہوئے ۱۸ سال میں بیٹی کو رخصت نہ کرنے کا بِل پیش کیا گیا ہےاور لڑکیوں کی شادی کی عمر کم از کم ۲۱ سال کردی گئی ہے۔ ۲۰۲۰ء کےبجٹ میں نرملاسیتا رمن نے بجٹ کے ساتھ ہی یہ تجویز پیش کی تھی، جس کوحکومت نے کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے لیتے ہوئےایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی، جس کمیٹی نے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات ، غذائیت کی کمی اور کم عمر ماؤں کی تعداد کو بنیاد بناکر یہ قانون بنانےکی سفارش کرتے ہوئے رپورٹ مرکزی کابینہ میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ 16دسمبر کو مرکزی کابینہ نے اس تجویز کو باضابطہ طور پر منظوری دے دی اور اب ایک سال بعد یہ ڈی سی ڈبلیو یعنی دلی خواتین کمیشن کی طرف سے قائم کردہ خصوصی ٹاسک فورس کی سفارشات کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ ہے۔ اگرچہ پینل کی رپورٹ کی تفصیلات ابھی تک پبلک ڈومین پر دست یاب نہیں ہیں، لیکن اس تجویز کا بنیادی سبب ان جسمانی اور نفسیاتی مسائل کو حل کرنا ہے، جو کم عمری میں ہونے والی شادیوں، غذائیت کی کمی، نوزائیدہ بچوں کی اموات اور زچگی کی شرح اموات کی صورت میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب باتیں بالآخر خواتین کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہیں۔
جب سے مرکز نے خواتین کے لیے شادی کی کم از کم عمر کو ۱۸ سے بڑھا کر ۲۱ سال کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، اس کے بارے میں بحث ومباحثہ کا طویل سلسلہ چل پڑاہے، جو میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک جاری ہے ۔سیاسی کارکنان، سماجی جہدکار اور خواتین تنظیمیں اوردیگر سرگرم افرادمختلف جہات پر گفتگو کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس قانون کے خلاف مختلف سیاسی، غیر سیاسی تنظیمیں بشمول خواتین کی تنظیموں کی صفوں سے صدائےاحتجاج بلند ہورہی ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف اس قسم کا رد عمل بالکل فطری امر ہے۔اس لیے کہ ہر کوئی اس اندیشے کا شکار ہے کہ مسائل کے خاتمے کے لیےبنایا گیا یہ قانون ،خود بڑے مسائل کو جنم دینے کا سبب ہوگا ۔
ہندوستان میں خواتین کے تحفظ کا مسئلہ، بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔دی ہندو نے ۲۰۲۱ء کی کرائم رپورٹ میں خواتین پر ظلم،تشدد،ریپ اور خواتین کو ہراساں کی جانے والی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ:’’ عصمت دری کے واقعات ۲۰۲۰ء میں ۵۸۰ تھے، جو بڑھ کر اس سال ۸۳۳ ہو گئے۔
دہلی پولیس کےاعداد وشمار کے مطابق ۲۰۲۰ء کے مقابلے ۲۰۲۱ء کے پہلے چھ مہینوں میں دارالحکومت میں خواتین کے خلاف جرائم میں ۶۳.۳ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال ۱۵/ جون تک عصمت دری کے واقعات میں ۴۳ فیصد اضافہ ہوا ،جو ۸۵۰ سے بڑھ کر اس سال ۷۳۳ ہو گیا۔ چھیڑ چھاڑ کے واقعات ۷۳۳ سے بڑھ کر ۱۰۲۲ ہو گئے۔ خواتین کے اغوا ہونے کے واقعات ۱۰۲۶ سے بڑھ کر ۱۵۸۰ ہو گئے۔ اور جہیز سے ہونے والی اموات ۴۷ سے ۵۶ تک پہنچ گئیں۔‘‘
یہ اعداد وشمار دیکھ کر لڑکیوں کے تئیں والدین کی فکر مندی میں اضافہ ہی ہوناچاہیے اور وہ فطری طور پر اس بات کی کوشش کریں گے کہ اپنی بیٹی کو ۱۸ سال کی عمر میں شادی کرکے رخصت کردیں۔پورا ہندوستانی معاشرہ اس بات کا قائل ہے کہ خاندانی نظام کے ذریعے ہی ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے ۔
اس قانون کے خلاف احتجاج درج کروانے والی تنظیموں کے اپنے بھی کچھ دلائل ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ جب ۱۸ سال کی عمر میں لڑکی کو رائے دہی کا حق دیا جاتا ہےتو شادی کا حق کیوں نہیں دیا جائے؟ غذائیت کی کمی، نوزائیدہ بچوں کی اموات جیسی سرکاری دلیلوں کاجواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ غذائیت کے درست انتظام اور گاؤں اور دیہاتوں میں مناسب سہولیات کے ساتھ دواخانوں کا قیام اور ڈاکٹرز کی تقرری جیسے امور میں ان مسائل کا حل ہے، نہ کہ شادی کو روک کر ان مسائل کا تدارک کیا جائے؟
آج کے تیز رفتار اور مادہ پرستی کے دور میں شادی تک اپنی بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہمارے ہندوستانی معاشرےمیں مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ انہی مسائل کے پیشِ نظر والدین صنفی تفریق کا شکار ہوکر لڑکیوں کے حمل کو ضائع کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ریپ اور رحم مادر میں اولاد کے قتل پر قانون تو ہے، لیکن جرائم کی کتنی رپورٹیں درج ہوتی ہیں اور اس پر کتنا قابو پایا گیا؟ اس کو ہم اورآپ سبھی بخوبی جانتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ لڑکی کی شادی کی عمرمیں اضافے کا قانون خواتین کو کس حد تک تحفظ دے گا؟
بیٹی کی پیدائش اور پرورش کو سماجی روایات نے جتنا پیچیدہ بنایا ہے، اس سے یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا یہ قانون نئے پیدا شدہ مسائل کی روک تھام میں مفید ہوگا یا اس معاملہ کی گتھی مزید الجھتی جائے گی؟ مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے ہمارے سامنے کیا مسائل درپیش ہوں گے ؟ ابھی قبل از وقت کوئی رائے مناسب نہ سہی، مگر جو خدشات ہیں، وہ اپنی جگہ باقی ہیں۔ آگے کیا ہوگا؟یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا ۔
خاندان اوراس کی صحت مند بنیادوں پر بھارت کی تشکیل میں کسی ایک مذہب اور سوسائٹی کا نہیں بلکہ خاندان کی صحت مند بنیاد پر تعمیر اور تشکیل پورے بھارتی سماج کے اساسی نظریہ سے متعلق ہے۔ پورے ہندوستانی سماج میں بیٹی کی ذمہ داری شادی تک اس کے والدین کی ہے۔ ان کے تحفظ اور انہیں پاکیزگی کے ساتھ ’کنیا دان ‘کرنے کا تصور پایا جاتا ہے ۔
ہندوستان کی قدیم روایت سے چمٹا ہوا سماج آج ہمیں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مغربی تہذیب کو اپناتا نظر آتا ہے۔باوجود اس کے خاندانی نظام میں شادی بیاہ کی روایت میں وہ طبقہ نہایت سنجیدہ نظر آئے گا۔ بالخصوص ہمارے ملک کی دیہی آبادی میں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی بڑی آبادی دیہاتوں میں بستی ہے۔ وہاں لڑکیوں کے تحفظ کے مسائل اور روایتوں کی پاس داری اور والدین پر ڈالی گئی ذمہ داریوں کو نمٹانے کی روایت والدین کو بلوغت کی عمر کے بعد اسے ایک اچھے شوہر کے ساتھ رخصت کرنے پر مجبور رکھتی ہے۔
ہادیہ ای میگزین کی ٹیم نے آن لائن خواتین جہدکاروں سے بات کی اور اس معاملے پر ان کی رائے جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس قانون کو کس نظر سے دیکھتی ہیں ۔
ڈاکٹراپیکشا ہاڈولے گائناکالوجسٹ اورنگ آباد سے یہ جب یہ پوچھا کہ ’آج کل لڑکیوں کی بلوغت کی عمر ۱۳ سے ۱۵ کے بجائے ۱۰ سے ۱۱ ہوگئی ہے اور اس ۱۰ سال یا ۱۱ سال میں سن بلوغ کو پہنچنے والی لڑکی کی شادی ۲۱ سال کی عمر میں اس قانون کی رو سے کی جائے گی، جب کہ ہر لڑکی کی جذباتی، جنسی اور جسمانی ارتقاء کی عمر دوسرے سے مختلف ہے۔ ایسی صورت میں والدین گیارہ سال تک شادی نہ کروانے کے پابند ہیں۔ اس دوران لڑکیوں میں بدلتے ہارمونز، جذباتیت کو دبانے والی تجویز کے خود ان کی اپنی ذات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ یہ بات درست ہے کہ ہمارے موجودہ طرزِ زندگی نے لڑکیوں میں معلومات اور شعور کی سطح کو بلند کیا ہے، جہاں یہ اچھی بات ہے۔ وہیں جنسی انارکی سوشل میڈیا تک رسائی نے بلوغت کی عمر کو بہت تیز بنادیا ہے۔ لڑکیوں کی بلوغت کی عمر ۱۰ سے ۱۱ سال ہوگئی ہے ۔وہیں سوشل میڈیا نے جنسی ضرورت کی تکمیل کے لیے راہیں نکال لی ہیں اور شادی کی عمر بڑھادیے جانے سے ناجائز راستوں کا استعمال نوجوانوں کے لیے آسان ہوجائے گا، وہیں ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ ٹوتتے بکھرتے خاندان میں کم عمر لڑکیوں کی شادی کے بعد کم عمر ماں میں غذائیت کی کمی کے ساتھ ایسی کم زور ماں پر پورے خاندان کا بوجھ ڈال کرسماج اس سے بہت توقعات وابستہ رکھتا ہے جو کہ کسی طرح مناسب نہیں ہے ۔ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے میرےپاس آنے والےمریضوں میں آدھی سے زائد ایسی خواتین ہوتی ہیں جو کم عمر ی میں ہی ماں بنی ہوئی ہوتی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بہت ممکن ہے کہ یہ قانون شہروں میں رہنے والی ان لڑکیوں کے لیے بہتر ہو جو اپنی پڑھائی جاری رکھنا چاہتی ہیں لیکن اس قانون کو عمومی طور پر اگر دیکھا جائےتو یہ سب کے لیے مناسب نہیں ہے، جیسا کہ بعض لڑکیاں بہت جلد سِن بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں۔ وہ ۱۸ سال تک شادی کےلیے طبعی طور پر تیار ہو جاتی ہیں ۔‘‘
خواتین کے مسائل پر کام کرنے والی ممبئی کی ایک سماجی جہد کار اور پیشے سے وکیل نیلوفر سعید نے کہا کہ’’اس قانون میں بھارت میں خواتین کےمسائل کا مکمل حل نہیں ہے۔ کیوں کہ دیہات اور قصبوں کے مسائل اس سےبہت مختلف ہیں۔وہاں کم زور صحت اور تغذیے کی کمی کے مسائل ہیں۔شادی کی عمر ۱۸ سے ۲۱ سال تک بڑھا دینے میں ان مسائل کا حل نہیں ہے۔حکومت اگر حقیقی معنوں میں اس کا حل چاہتی ہےتو پوری ایمانداری کے ساتھ بہتر غذا، تعلیم اور دواخانے کا نظم کرے۔صرف قانون بنادینا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ صرف قانون بنادینے سے والدین پر لڑکیوں کی ذمہ داری کو بڑھادیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے صحت کے مسائل پر حکومت کوسنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ دیگر ممالک میں حاملہ خاتون کی پوری ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے۔ دوران گفتگو انہوں نے بطور مثال ایک واقعہ یہ بتایا کہ کووِڈ کے موقع پرایک امریکی شہری جوڑا ہندوستان میں اچانک لاک ڈاون کی وجہ سے ہندوستان میں پھنس گیا تھا۔اس کے بعدمیں نےدیکھا کہ اس کی خیریت دریافت کرنے امریکا کے سرکاری ہاسپٹل سے کال آیا، جس میں اسے پوچھا گیا کہ ہندوستان میں کون آپ کے میڈیکل صلاح کار ہیں؟ غذا کا خیال کون رکھ رہا ہے ؟رہائش کا انتظام کیسا ہے؟ در اصل ترقی پذیر ممالک میں حاملہ خواتین کو سرکاری دواخانوں میں مفت علاج اور صلاح کار فراہم کیا جاتا ہے۔ اس طریقے کو پسند کرتے ہوئے خاتون جہد کار نے بھارت سرکار سےبھی خواتین کے لیے اس طرح کے انتظامات کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا حاملہ خواتین کو دوران حمل صحت، غذا اور انفرادی توجہ کے لیے صلاح کار دست یاب ہیں؟انہوں نے سوال کیا کہ حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے کیا عملی اقدامات کیے ہیں؟ بھارت میں کرائم رپورٹ میں درج ریپ کیس، عورتوں پر تشدد، بڑھتی شرح اموات اور مہلک امراض کے علاج کے لیے حکومت کی جانب سے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
ہفت روزہ دعوت نے ملک کی مختلف گرلز تنظیموں اور کالج کیمپس کی نمائندہ لڑکیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ اس قانون کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔اس سلسلے میں لڑکیوں کا کہنا تھا کہ ’انہیں تعلیم حاصل کرنے کا وقت ملنا چاہیے، کیوں کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہر لڑکی کا خواب ہوتاہے تاکہ وہ اپنے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ بھی ادا کر سکیں، ترقی یافتہ دور میں اپنی راہ طے کرسکیں، اپنی صلاحیتوں کونکھارنے کا موقع مل سکے۔ ایسی لڑکیوں کے سامنے دوران تعلیم والدین کی جانب سے جب شادی کی تجویز آتی ہے تو وہ پریشان ہوجاتی ہیں۔تاہم اسی کیمپس ہی میں ہمارے ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں کی شادی گریجویشن کے دوران ہوگئی، لیکن ان کے شوہروں نے ان کی تعلیم مکمل کروائی ہے۔ ایسی مثالیں بھی ہیں ۔وہیں اس کے برعکس بھی بے شمارمثالیں موجود ہیں۔ ہم نے جن لڑکیوں کو کالج کپمس میں شادی کے بعد تعلیم جاری رکھتے ہوئے دیکھا وہ دیگر کےمقابلے زیادہ مطمئن تھیں ۔اس ماڈل کو بھی عام کیا جاسکتا ہے نہ صرف ہمارے ملک کی بلکہ دیگر ممالک سے بھی لڑکیاں شادی کے بعد تعلیم جاری رکھتی ہیں۔ مسلم پرسنل لابورڈ کی ممبر اور خواتین ونگ کی صدر سماجی جہد کار ڈاکٹر اسماء زھرہ کہتی ہیں کہ’ بھارتی سماج زمانۂ قدیم سے ہی خاندانی نظام کو بہت اہمیت دینے والا سماج ہے، جہاں خاندانی اقدار اور خاندانی نظام کی پاسداری کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ہر ایک مذہب کا ماننے والا شخص خاندانی نظم کے ذریعے ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرنے والا سسٹم ہے ۔اگر ملک میں خواتین کے ایشو پر بات کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلا سوال خواتین کے تحفظ کا ہے اور اس سے بھی بڑا مسئلہ صنفی تفریق کے باعث لڑکیوں کو پیدا ہونے کی آزادی بھی نہ دینے کا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ اس پر ہماری کیا توجہ ہے ؟کتنی ہی بچیاں ہیں جو پیدا ہونے سے پہلے صنفی تفریق کے باعث مار دی جاتی ہیں ۔تیسرا بڑا اور اہم مسئلہ اس دیہی آبادی کا ہےجو تعداد میں زیادہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دیہی آبادی سے کتنی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے طویل سفر کرتی ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان کے تحفظ کا کوئی معقول نظم نہیں ہوتا۔ اسی خوف سے ہی دیہات میں ہی ان کی شادی کردی جاتی ہے ۔
کتنی لڑکیاں ہیں جن کے ساتھ ریپ کے واقعات ہوتے ہیں۔راستوں پر مردوں کی جانب سے انہیں بدتمیزی جھیلنی پڑتی ہے۔ انہیں ہراساں کیا جاتا ہے ۔ ویسے قانون تو عصمت دری کرنے والوں کے لیے بھی بنے ہوئے ہیں، لیکن کیس درج ہی نہیں کیے جاتے تو اس قانون کا کیا فائدہ متأثرہ کو مل سکتا ہے؟
کتنےمعاملات ایسے ہیں جس میں انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کی وجہ سےایف آئی آر ہی درج نہیں کی جاتی اور بعض معاملات کم علمی کے باعث درج نہیں ہوپاتے۔ توسوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے اس جانب کو اقدام کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ’بھارتی سماج میں جہیز کی روایت سے بھی عورتوں پر ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، جس کی جانب سخت اقدامات ضروری ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ ’۱۸ سال کی عمر میں یا ۲۱ سال میں لڑکی اپنا ساتھی منتخب کرے، اس سے زیادہ اس بات پر توجہ ہو کہ وہ اپنے ملک میں خود کو کتنا محفوظ سمجھتی ہے۔ ڈاکٹر اسماء زہرہ نے اپنی بات جاری رکھتےہوئے کہا کہ اس قانون سے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے ۔عورتوں کی جینے کی آزادی، ان کا تحفظ اور تعلیم کے لیے اقدامات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، تاکہ وہ بحیثیت تعلیم یافتہ ماں اپنی زندگی کےفیصلے خود کر سکیں۔بے شمار ازدواجی تعلقات کی ناچاقی ہمارے سماج کا مسئلہ ہے اور پورا معاشرہ ہی ایسا ہے کہ وہ ایسی لڑکیوں سے شادی پسند نہیں کرتا جس نے شادی سے پہلے کسی سے معاشقہ کیا ہو ۔ ایک بالغ لڑکی کو بغیر کسی وجہ کے شادی سے روکے رکھنا بھارتی سماج کے لیے کتنا مفید ہوگا، اس پر غور کرنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ’بھارت کی اقلیتوں سے بڑھ کراکثریتی طبقہ کی خواتین پر اس قانون کے اثرات اخلاقی قدروں کے لحاظ سے کیا ہوں گے؟ یہ تو اس قانون کے نفاذ کے بعد سماجی مطالعہ سے ہی معلوم ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح میڈیا حقیقت سے نظر چرا کر اس قانون کو پیش کررہا ہے اس پر بھی بہت سے سوالات کی گنجائش ہے۔ایک اہم سوال یہ پوچھا جانا چاہیے کہ دیہات میں بسنے والی بھارت کی بڑی آبادی میں کونسی خواتین رضاکارانہ تنظیموں نے اس قانون کی سفارشات کی ہیں؟ اور ساتھ ہی زمینی سطح پر کام کرنے والی وہ کونسی تنظمیں تھیں ؟ انہوں نے کس طرح کا ریسرچ کیا؟ اور اس حل کو کن بنیادوں پر پیش کیا ہے؟ پہلے ان سوالوں پر گفتگو ہونی چاہیے۔
انہوں نےیہ بھی کہا کہ بھارت میں جہیز پر قانون موجود ہے۔ گھریلو تشدد اور ہراسانی پر قانون موجودہے، اس کے باوجود ہم سب جانتے ہیں ان قوانین پر عمل نہیں ہوتا بلکہ قانون کا بنانا اور عمل نہ کرنا ٹرینڈ بنتا جارہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس طرح قانون بناکر یا تبدیلوں کے ذریعے سماج کو پابند نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی سماج کی اخلاقی سطح اتنی بلند ہو کہ وہ خواتین کو اپنا ضمیمہ بنائے بغیر آزادی دیں تاکہ وہ علم حاصل کرسکیں اور تحفظ کے ساتھ زندگی گزار سکیں ۔
خواتین کی نہایت سرگرم جہدکار خواتین نیشنل ونگ کی سکریٹری اور ھادیہ ای میگزین کی چیف ایڈیٹر عطیہ صدیقہ نے کہا کہ ’’ اخلاقی قدروں کا نقصان پورے بھارتی سماج کا مسئلہ ہے، لیکن کمزور ماؤں کی صحت کے ساتھ ساتھ بھارتی سماج کی اخلاقی صحت پر بھی سوسائٹی اور حکومت دونوں کوسوچنا چاہیے ۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تیزی سے خاندانی قدریں متأثر ہورہی ہیں ۔
ٹوٹتے بکھرتے خاندان، سماجی علوم اور سماج میں اپنے رول سے ناواقفیت کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے کہ کم زور پڑتے خاندان، اخلاقی قدروں کی گرتی دیواریں، جسمانی صحت اور جذباتی نفسیاتی اور جنسی ہراسانی سے تحفظ جیسے مسائل کو پسِ پشت ڈال کر صرف قانون کی تبدیلی خواتین کے مسائل کا حقیقی حل نہیں ہے ۔
تمام خواتین کی یہ متفقہ رائے تھی کہ اب حکومت نے بے شمار مسائل کے باوجود اس قانون کو خواتین کی بہتری کے طور پر پیش کیا ہے تو خاموش رہنے کی بجائے خواتین کو اپنے اصل مسائل پر میڈیا کو متوجہ کرنا چاہیے اور ایوان بالا میں بھی خواتین کی رائے کو اہمیت دے کر ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ملک کی ترقی میں خواتین کا حصہ رہے ۔
مجموعی طور پر یہ محسوس کیا جارہا ہے اب تک کا مجموعی رویہ حکومت کا یہی رہا ہے کہ بنیادی وسائل کی فراہمی اور مسائل کے حل کے اقدامات میں وہ اپنے کام بھی سماج کے کھاتے میں ڈال رہی ہے۔ جیسے عوامی سہولت کے ادراوں کی نجکاری کی جارہی ہے اور حکومت ذمہ داری سے دست بردار ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس تبدیلی کے ذریعہ حکومت خواتین کے تحفظ اور ان کی صحت اور محفوظ ماحول میں آنے والی نسلوں کی پرورش کی ذمہ داری سے بھی نظریں چرارہی ہے ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکاری تجزیہ نگاروں اور ریسرچ کرنے والوں کے سامنے صرف ۱۰فی صدی شہری آبادی کے متمول گھرانے ہیں، جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے، لڑکیوں کی عمر بیس بائیس سال ہوجاتی ہے اور ان کی شادیوں میں تاخیر ہوتی ہے ۔ یہ چندے معدودے گھرانوں کا مسئلہ ہے، لیکن ۷۵ فی صد دیہی آبادی کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ یہ قانون سازی کے عمل کی بڑی خطر ناک بھول ہے ۔ لہٰذا اس طرح کے قوانین بنا کر شہریوں کے حقوق سلب کرنا فلاحی مملکت کا کوئی اچھا اقدام نہیں ہے ۔

بیٹی کی پیدائش اور پرورش کو سماجی روایات نے جتنا پیچیدہ بنایا ہے، اس سے یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا یہ قانون نئے پیدا شدہ مسائل کی روک تھام میں مفید ہوگا یا اس معاملہ کی گتھی مزید الجھتی جائے گی؟ مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے ہمارے سامنے کیا مسائل درپیش ہوں گے ؟ ابھی قبل از وقت کوئی رائے مناسب نہ سہی، مگر جو خدشات ہیں، وہ اپنی جگہ باقی ہیں۔ آگے کیا ہوگا؟ یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جنوری ٢٠٢٢