۲۰۲۳ جنوری
زمرہ : ادراك
مجھے یاد ہے 2021 ءکا آخری اداریے میں میں نےلکھا تھا کہ حکومت نے 18 سال کی عمر کی شادی پر پابندی کا بل پیش کیا ہے ،اور شادی کی عمر بڑھا کر اکیس سال کردی گئی ہے ۔آج ہم2022 ءکو رخصت کرتے ہوئے اس ماہ کی خبروں میں لیو اینڈ رلیشن شپ میں قتل ہونے والی اکیس سالہ دوشیزہ اور ٹی وی اداکارہ تونیشا شرما کی خودکشی کے واقعات کو پڑھتے ہوئے گزر رہے ہیں ۔
اس سال کی ایک خبر جو ذہن پر نقش ہوئی:
’’تلنگانہ کے عادل آباد ضلع کے ايچوڈہ منڈل مستقر کے ریڈی کالونی میں خاندانی جھگڑوں کے باعث ماں نے دو بچوں سمیت جسم پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگالی ،جس کی وجہ سے تینوں کی موت واقع ہوگئی ۔‘‘
کتنی مائیں بشمول میرے، ایسی خبریں پڑھتے ہوئے اور بے قابو ماحول کے خوف سے اپنے بچوں کو سامنے کھیلتے دیکھ کر سوچتی ہوں گی کہ میرے جگر گوشو! کیسے میں زمانے کےتند وتیز تھپیڑوں سے تمہیں بچاؤں؟
بقول سردار جعفری :

پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے

ذمہ دار مائیں ہمارے معاشرے میں کم نہیں ،بہت ہیں بلکہ یوں کہوں کہ ماں ہی ذمہ داری کا اصل استعارہ ہے۔ روئے زمین پر بچوں کے لیے ماں سے زیادہ حساس ہستی پیدا نہیں ہوئی، تاہم چوک ماں سے نہیں پورے ماحول سے ہورہی ہے ۔جرائم کا بڑھنا ، ماحول میں مذہبی منافرت، عریانیت وفحاشی،بے قابو جنسی بے راہ روی، اباحیت پسندی، شعبدہ بازی، فریب کاری، دھوکہ دہی، سودی لین دین، مسلسل قرض کی دشواری کا بڑھ جانا نیز قناعت پسندی، کفایت شعاری، سادگی کا رخصت ہوجانا اور معاملات کا قتل و خودکشی تک پہنچ جانا ؛دراصل دن بدن کمزور ہوتی انسان کی دماغی صحت
( Mental Health)ہی کا نتیجہ ہے ۔دماغی صحت کی کمزوری ہی انسان کو جرم پر مائل کرتی ہے ۔یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان مہلت کو غنیمت جان کر اپنی ذات کو اعتدال کے سانچے میں ڈھالنے کا داعیہ پیدانہیں کرتا ۔
مہلت ِعمل کا ایک سال پھر مکمل ہوا۔ مہلت عمل کا ملنا عطیۂ خداوندی اور نیا سال مومن کے لیے ایک نعمت ہے۔یہ نعمت ہے اس شخص کے لیے جو اپنی زندگی کو کارآمد بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہے ۔اسلام زندگی کو ایک نعمت قرار دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں جس طرح روح و احساس سے نوازا ہے، جس طرح ہمارے لیے رات دن مسخر کیے ہیں اور جس طرح ہمیں آسمان وزمین کے درمیان آباد کیا ہے، اس پر ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کریں۔
یہ ناز و نعمت کی زندگی ایک خاص قسم کا اعزاز ہے، جس پر ہمیں فخر کرنا چاہیے اور اللہ تعالی کے حق کو پہچاننا چاہیے۔
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرجَعُونَ(البقرہ : 28)
(تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو؟ حالاں کہ تم بے جان تھے۔ اس نے تم کو زندگی عطا کی ، پھر وہی تمہاری جان سلب کرے گا ، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا ، پھراسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔)
زندگی کو بغیر شعور کےگزار دینا، حق باطل کی تمیز سے عاری ہونا دراصل کتمان حق ہے، جس کی جانب اس آیت میں اشارہ ہے ۔جو زندگی کا شعور رکھتے ہیں وہ اس آیت کو سمجھتے ہیں ملی۔ ہوئی مہلت عمل کے ہر لمحے کوپورے احساس کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ان کی پوری نگاہ اپنی ذات پر ہوتی ہے، اور وہ اپنی زندگی کو کارآمد بناتے ہیں ۔اپنی زندگی کو کارآمد بنانے والے افراد وہ ہوتے ہیں جو اپنے مقصد میں Clarity رکھتے ہیں، جنہیں زندگی کا شعور ہوتا ہے، وہ زندگی کے اصول مرتب کرتے ہیں ،اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ جائزہ لیتے ہیں ۔ وہی لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے سنوارنے کا مرحلہ سمجھ کر گزارتے ہیں ۔
زندگی کے تصور کو شفاف نگاہ سے دیکھنے والے دنیا اور آخرت کی زندگی، مادہ اور روحانیت کی حقیقت، عمل صالح اور عمل لاحاصل کا فرق اچھی طرح جانتے ہیں ۔ہم خواتین زندگی کو بہت محدود نگاہ کے ساتھ دیکھتی ہیں ۔
ہمارے نزدیک چند ایک امورِ عبودیت اور گھر کی دیکھ بھال میں خانہ داری کے سوا کوئی اور کام نہیں ہے،یاتوموجودہ معاشرے میں لڑکیوں کے نزدیک کسی پیشے سے جڑنا مقصد زندگی بنتا جارہا ہے ،یا تو خاندان کے چھوٹے چھوٹے کاموں ہی میں زندگی کا بڑا حصہ لگادیتی ہیں،یا لاعلمی میں زندگی بسر کرنے والوں کی ہمت افزائی کرتی ہیں ۔اپنی ذات کی تعمیر، خوش باش زندگی ، سماجی فعالیت سے خود کو دور رکھتی ہیں ۔
اسلام کیا چاہتا ہے؟ہمیں دنیامیںکس مقصد کے لیے بھیجاگیا ہے ؟ خاندان کی صرف کھانے پینے سونے کی ضرورت کے ہم ذمہ دار ہیں یا ان کی تربیت کا محاذ بھی ہمارا مطمح نظر ہے ؟ کیا قرآن کے اصول ہمارے ذریعہ خاندان کے دیگر افراد کی زندگی کا حصہ بن سکتے ہیں ؟ ان سوالات پر ہم نے کبھی غور نہیںکیا ۔
The hundred success principles میں جیک کنفیلڈ نے لکھا ہےکہ کسی چیز کوہم ٹاسک سمجھ کر قبول کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں Hundred percent responsible بننا ہوگا ،صد فی صد کسی بھی چیز کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی ۔مطلب معاشرے کے بگاڑ کی صد فی صد ذمہ داری ہم خواتین قبول کر سکتی ہیں؟ مثلاً اللہ تعالی نے مرد و خواتین کو قرآن میں یکساں مخاطب کیا ہے، برائی کے خاتمے کے لیے بھی اور بھلائی کی ترویج کے لیے بھی ۔
لِلرِّجَالِ…
اسی آیت کے تناظر میں نسلِ نو کی تربیت، اپنی ذہنی صحت، گھر کی معاشی حالت، خاندان کے دیگر افراد کا مکمل مینجمنٹ ؛قرآن کے اصولوں کے مطابق زندگیوں کوڈھالنے میں بہت بڑا کردار ہم خواتین پیش کرسکتی ہیں۔ ماضی میں برسہابرس تک ہمارے خاندانوں میں ایسے بے شمار کردار رہے بھی ہیں، لیکن وقت کی گرد نے یا نظر خیرہ کرنے والی چمک دمک نے جہاں ہر گوشے کو متاثر کیا وہاں ہمارا حقیقی کردار بھی ہم سے چھین لیا ۔بیداری اور ماڈرن ازم کی اس لہر نے جہاں تبدیلی کو قبول کرنے کا داعیہ پیدا کیا،وہیں قرآن وحدیث کو کسوٹی بناکر آگے بڑھنے کی حس کو بری طرح متاثر کیا، انسان مشینی انداز میں صرف سلوگن کے سانچے میں ڈھلتا چلا گیا ۔درحقیقت یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب زندگی قرآن مجید کے سانچے میں ڈھلے بغیر گزرے گی تو تباہی اور ذلت اس کا مقدر ہوگی ۔مثلاً اگر سلوگن قرار پایا کہ ہر خاتون کو پیسے کمانے چاہئیں، تاکہ پرتعیش زندگی گزار سکے، تو ہر طالبہ کے علم کا مقصد تعلیم برائے روزگار سے جڑ گیا ،چاہے خاندان بکھرنے لگے ،لیکن خاتون کا مقصد زندگی بنالیاگیا کہ وہ معاشی کیرئیر بنائے۔
زندگی سے Flexibility کا خاتمہ ہوگیا۔ وہی علم جو انسان کو شعور ذات اور شعور کائنات بخشتا ہے ،اس نے انسان کو بے شعور زندگی کا دلدادہ بنادیا اور انسان خود کو ایک مشین بن گیا، جذبات سے عاری مشین، حساسیت سے خالی انسان ۔مائیں بچے چھوڑ کر خلع لے کر کمانے کو ترجیح دینے لگیں، کمانے والی لڑکی کو،رشتہ و نسبت میں فوقیت دی جانے لگی، دولت ہی سے انسان کو اہم سمجھا جانے لگا ۔مادہ پرستی کی چکا چوند نے ہماری آنکھوں کو اتنا خیرہ کیا کہ
اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَ تۡقٰٮكُمۡ‌ ؕ (سورۃ الحجرات:13 )
(درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔)
ہم یہ بات بھول گئے اور مادہ پرستی، دکھاوا، لوگوں کے لیے جینے کے طرز کو اپنا لیا ۔جب ترجیحات مادہ پرستی بن جائیں تو انسان ساری زندگی اسی مقصد کے لیے دوڑتا ہے،بنیادی اخلاق زائل ہوجاتے ہیں ،حصول کی تگ ودو عدم ِ حصول پر جھنجلاہٹ کا شکار بنادیتی ہے اور انسان اپنی دماغی صحت کھودیتا ہے، انسان چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھنے لگتا ہے اور قوت برداشت باقی نہیں رہتی ۔
انسان حال اور مستقبل سے زیادہ ماضی کی ناکامیوں کو ذہن پر سوار کرلیتا ہے ۔ حصول کی چاہت انسان کو اپنے بچوں کی پیدائشی، خوابیدہ صلاحیت کے بجائے اسے معاشی پیمانے کے پیشِ نظر تیار کرواتی ہے، اس طرح نسلیں بھی غیر مطمئن اور ذہنی سکون سے عاری ہوجاتی ہیں ۔اسی طرح مادی توقعات کی تکمیل اور اعتدال کی راہ سےمتجاوز ہوکر شوہر بیوی کے تنازعات کا سبب بنتے ہیں ۔چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کی زندگی تباہ کردیتی ہیں ۔دماغی صحت کا بہتر ہونا انسان کو مضبوط بناتا ہے، حالات کا مقابلہ خوش دلی کے ساتھ کرتا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فی‏ کَبَدٍ(سورۃ البلد:4)
(ہم نے انسان کو سخت مشقت میں پیدا کیا ۔)
اس کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔ چھوٹی باتیں ذہن پر سوار نہیں کرتا، بلکہ بڑے کاموں پر نظر رکھتا ہے ۔ایک گلاس پانی کو چٹکی بھر مٹی بھی گدلا کردیتی ہے جبکہ سمندر میں مٹی کا بڑاتودابھی گر جائے تو اثر نہیں ہوتا ۔ یہی حال ذہنی حالت (Mental Health) کا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتیں کمزور دماغی حالت پر بہت زیادہ اثر کرتی ہیں، جبکہ آپ دماغی صحت کا خیال رکھتے ہوں تو آپ کو لوگوں کے چھوٹے رویے تو کجا، تجارت کے بڑے بڑے نقصان اور بڑی آزمائش بھی خراش کی مانند لگتی ہے ۔دماغی صحت کے متاثر ہونے سے ہی ہمیں دوسروں کے رویے تکلیف دیتے ہیں ،جس کا ہم برملا تکرارکے ساتھ اظہار کرتے رہتےہیں ،حالانکہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں ۔
شیخ محمد غزالی نے اپنی کتاب ’’ اپنی زندگی پھر سے سنواریے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’ شکاگو کے ایک جج ’’جوزف سابتھ ‘‘چالیس ہزار سے زیادہ طلاق کے معاملوں کا فیصلہ کرنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ازدواجی زندگی کو لاحق ہونے والی ہر بدبختی کےپیچھے ہمیشہ معمولی باتیں ہی ملیں گی۔‘‘
نیویارک کے اٹارنی جنرل’’ فرنیک ہوگئی‘‘ کا کہنا ہے کہ عدالتوں میں جرائم کےجو معاملات مجھے پیش ہوتے ہیں، ان میں سے نصف کی بنیاد معمولی اسباب پر ہوتی ہے، مثلاً خاندان کے افراد کی درمیان کوئی جھگڑا، کسی کی تو ہین، کوئی تکلیف دہ جملہ یا ذلت آمیز اشارہ۔ جی ہاں ! اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں قتل جیسے جرائم تک پہنچادیتی ہیں۔
ہم میں سے کم ہی لوگ فطری طور پر سخت دل ہوتے ہیں۔ ہماری ذات، عزت اور شرف پر ہونے والے مسلسل حملے ہی ان آدھے مسائل کا سبب بنتے ہیں ،جو آج دنیا کو در پیش ہیں۔عقل مند کے لیے اس میں بڑی نشانی ہے کہ وہ ان چھوٹی باتوں میں خود نہیں الجھتا ،تاہم وہ یہ بھی خیال کرے کہ کسی دوسروںکو اس سے سرزد ہونے والی کوئی بات تکلیف نہ پہنچائے ۔
سعد بن جنادہ نے روایت کیا اللہ کے نبیﷺ کے ساتھ ہم نے جنگ حنین سے لوٹتے ہوئے ایک ویران جگہ پڑاؤ کیا ،آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جو کچھ ہڈی، دانت وغیرہ ملے اکھٹا کرو۔‘‘ کچھ ہی دیر میں ڈھیر لگ گیا۔آپ ﷺ نے فرمایا :’’دیکھ رہے ہو؟ جس طرح چھوٹی چھوٹی چیزوں کا تم نے یہ ڈھیر جمع کیا اسی طرح چھوٹی چھوٹی برائیوں کا ڈھیر بن جاتا ہے ۔‘‘
گویا اپنی ذات سے سرزد ہونے والے چھوٹے چھوٹے دانستہ و نادانستہ کیے گئے اعمال ایک ڈھیر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں،جودوسروں کے لیے تکلیف دہ ہوتاہے، لیکن وہ ڈھیر ہمارے رویے کا ہے، سو اس سے اجتناب لازم ہے ۔ماحول چاہے جیسا مادہ پرست یا چکاچوند کی دعوت دے ،مستقبل کے فقر وفاقہ کا احساس یا ملک کی منافرت کا احساس چاہے جس قدر ڈرائے، ہمیں قرآن کی ان آیات کے پیش نظر زندگی کو گزارنا چاہیے :
اَلَّذِيۡنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَـكُمۡ فَاخۡشَوۡهُمۡ فَزَادَهُمۡ اِيۡمَانًا  ۖ وَّقَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰهُ وَنِعۡمَ الۡوَكِيۡلُ (سورۃ آل عمران:173 )
(اور وہ جن سے لوگوں نے کہاکہ تمہارے خلاف بڑی فوج جمع ہوئی ہے، ان سے ڈرو۔ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے او ر وہی بہترین کارساز ہے۔) متنبی نے اسی طرح کا مفہوم اپنے ایک شعر میں ادا کیا ہے،جس کاترجمہ یوں ہے:
’’خوف وہی ہے جس سے آدمی ڈر جائے، اور سلامتی وہی ہے جسے انسان سلامتی جانے۔‘‘
جب انسان متعلقہ حقائق کو جان لے اور خوف و دہشت کھائے بغیر یا مادے سے مرعوب ہوئے بغیر ان پر گہرائی سے غور کرلے، تو اب اس کے سامنے آخری قدم باقی رہ جاتا ہے، اور وہ یہ کہ جس فیصلہ پر پہنچ چکا ہے ،
پرخلوص جذبے اورپورے حوصلے کے ساتھ اس کے نفاذ کے لیے پوری طاقت اور ثابت قدمی کے ساتھ لگ جائے اوردنیا کوآخرت کی تیاری کی جگہ بنالے ،پس اسی کو بامقصد زندگی کہتے ہیں ۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۳ جنوری