ترقی کے اس دور میں جہاں پل پل کی خبریں منٹوں اور سیکنڈوں میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہیں۔ جہاں رات اور دن چوبیس گھنٹے خبروں کی ترسیل کا کام جاری رہتا ہے۔ جہاں ہر وقت ایک شخص کی نیند کھلنے سے بستر پر جانےاور دیر رات گئے سونے سے پہلے تک دنیا کے کسی بھی کونے میں کیا ہو رہا ہے؟ کیسے ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ اور کہاں ہو رہا ہے ؟ اس پر نظر بنی رہتی ہے ۔کوئی بھی واقعہ یا حادثہ ابھی رونما ہوا اور خبر ساری دنیا میں تیزی سے پھیل جاتی ہے۔خبروں کو پہنچانے میں ہم اب درختوں کے پتوں، پتھروں کی تختیوں ،کپڑوں اور چمڑوں کے علاوہ صرف کاغذ اور اخبار پر بھی منحصر نہیں رہ گئے، بلکہ ایک ٹچ اور اسکرین پر ساری دنیا ہمارے سامنے ہوتی ہے ۔
تمام ملکی اور بین لاقوامی خبریں ،ہر دن رونما ہونے والے واقعات ہماری نظروں میں آ جاتے ہیں۔ یوں کہیں کہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور سمٹ کر چھوٹی ہو چکی ہے۔اب ہفتوں اور مہینوں پیغامات واطلاعات کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ۔ دور دراز بیٹھے ہوئے ایک شخص کی باتیںاور اس سے تبادلۂ خیال آن لائن چیٹ کے ذریعے زوم اور گوگل میٹ کے ذریعے اس قدر آسان ہو گیا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہے۔ لیکن ترقی کی اس دوڑ اور ہوڑ میں میڈیا کی اہمیت و افادیت سے انکار کیے بغیر یہ المیہ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ میڈیا اپنا صحیح رول ادا نہیں کر رہا ہے ۔جہاں سچائی اور حقیقت پر مبنی ذرائع ابلاغ عوام کی ضرورت ہوا کرتے تھے۔ دنیا میں بڑی سے بڑی تبدیلی اور انقلاب کا ذریعہ بنے، آج وہی مرکزی میڈیا اپنا رول صحیح طریقے سے ادا نہیں کر رہا ہے۔وہ اپنی گہرائی اور معنویت کو کھو چکا ہے۔
میڈیا جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، زبان و بیان آزادیٔ اظہار کا مرکزمانا جاتا ہے، حقائق کو کھول کر رکھ دینے اور سچائی سے پردہ اٹھا کر لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کا دم خم رکھنے والا میڈیا آج خاموش ہے۔ اس کی جگہ ایک ایسا میڈیا ہمارے سامنے ہے، جس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور زبان گونگی ہو چکی ہے، جو سچائی اور حقیقت سے آنکھیں بند کر کےایسی راہ پر گامزن ہے جہاں حکمران، سیاستدان اور کارپوریٹ ہاؤس کے پاورفل لوگوں نے اس کے ہاتھ جکڑ کررکھ دیے ہیں، اس کی اپنی زبان اور بیان پر پابندی عائد کر اسے غلام کر لیا گیا ہے۔وہ صبح سے شام تک غلط اور مفاد پرست خبروں کی ترسیل کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اور ایک قدم آگے بڑھ کر مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کی خبروں کی اشاعت کا ذریعہ بنا ہوا ہے ۔
مرکزی میڈیا کے تمام چینلز اور اخبارات کا تیزی سے بدلتا ہوا رویہ ہماری نظروں کے سامنے ہے، ہم روز اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کس طرح آنکھوں میں دھول جھونکنے اور حقائق پر پردہ ڈالنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی معمولی واقعے کو طول دے کر کچھ ہی لمحوں میں تل کا تاڑ بنا دیا جاتا ہے ۔دو فرقوں میں غلط فہمیاں پھیلا کر آپس میں نفرت کا ماحول پیدا کرکے فضا کو سیاسی مفاد کے لیے سازگار بنانا، اور ماحول کو خراب کر کے اپنے حق میں فائدہ حاصل کرنا حکمران طبقے کا مشغلہ بن گیا ہے ۔
ہندوستان کی یہ تصویر اور میڈیا کا یہ کردار کسی سے چھپی ہوئی بات نہیں ،بلکہ یہ بالکل عیاں اور واضح ہو چکا ہے کہ ہم اس ماحول میں مثبت اور تعمیری تبدیلی کی امید نہیں کر سکتے ۔
ہندوستان کی اس بدلتی ہوئی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سچ بولنے والوںکو اور حقائق سے پردہ اٹھانے والے تمام ذمہ دار چینلزکو کس طرح خرید لیا گیا ہے ۔ نڈر اور سچے صحافیوں کو ایک ایک کر کے مین اسٹریم میڈیا سے الگ کیا جا رہا ہے ۔ ان تمام چینلزاور اخبارات اور ان کے اداروں کو کارپوریٹ سیکٹر کے ہاتھوں فروخت کر کے ہندوستان میں آزاد صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔گویاجمہوریت کے چوتھے ستون کا ہر ستون گر کر خاک ہو چکا ہے۔
عوام اور حکومت کے درمیان میڈیا ہمیشہ ایک کڑی ہوا کرتا تھا ، سوال کرتا تھا، عوام کی آواز کو حکومت تک پہنچانے کا ذریعہ تھا ،رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام اس کے ذمہ تھا ، وہ میڈیا آج اپنی تمام قوتوں کو کھو چکا ہے۔وہ وہی لکھتا ہے ،وہی پیش کرتا ہے، اسکرین پر وہی دکھاتا ہے جس کو حکمران اور عہدے داران کی طرف سے گرین سگنل ملا ہوا ہو۔صاف لفظوں میں اگر کہا جائے تو یوں ہے کہ میڈیا بک چکا ہے اس کی آزادی ختم ہو چکی ہے، اس کی ایک زندہ مثال این ڈی ٹی وی ہے۔اور اسی طرح بہت سے دوسرے چینلز کے ان تمام بے باک صحافیوں کی سبکدوشی ،خصوصاً رویش کمار جیسے سچے اور مخلص صحافی کی حالیہ سبکدوشی اس بات کا صاف طور پر اعلان ہے کہ کارپوریٹ ہاؤسز کے مالکان اورحکمران طبقہ کی ساٹھ گانٹھ کے ذریعے کس طرح سےسچ کی آواز کو دبانے اور کچلنے کا کام کیاجارہاہے۔
دولت کے نشے میں چور حکومت کی پشت پناہی میں یہ جمہوریت کی آزادی کو کس طرح سلب کر رہے ہیں،اس بات کواور سچے صحافی رویش کمار کے درد کو ہم اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔اسی طرح درجنوں صحافیوں کو مین ا سٹریم میڈیا ہاؤس سے باہر کر دیا گیا، لیکن وہ اب بھی خاموش نہیں ہیں ،زمین تنگ ہونے کے باوجود اپنی آواز کو بلند کر رہے ہیں، حقائق سے عوام کو آگاہ کر رہے ہیں اوراپنی حق گوئی سے اس کا ثبوت پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں :
تمام ملکی اور بین لاقوامی خبریں ،ہر دن رونما ہونے والے واقعات ہماری نظروں میں آ جاتے ہیں۔ یوں کہیں کہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور سمٹ کر چھوٹی ہو چکی ہے۔اب ہفتوں اور مہینوں پیغامات واطلاعات کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ۔ دور دراز بیٹھے ہوئے ایک شخص کی باتیںاور اس سے تبادلۂ خیال آن لائن چیٹ کے ذریعے زوم اور گوگل میٹ کے ذریعے اس قدر آسان ہو گیا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہے۔ لیکن ترقی کی اس دوڑ اور ہوڑ میں میڈیا کی اہمیت و افادیت سے انکار کیے بغیر یہ المیہ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ میڈیا اپنا صحیح رول ادا نہیں کر رہا ہے ۔جہاں سچائی اور حقیقت پر مبنی ذرائع ابلاغ عوام کی ضرورت ہوا کرتے تھے۔ دنیا میں بڑی سے بڑی تبدیلی اور انقلاب کا ذریعہ بنے، آج وہی مرکزی میڈیا اپنا رول صحیح طریقے سے ادا نہیں کر رہا ہے۔وہ اپنی گہرائی اور معنویت کو کھو چکا ہے۔
میڈیا جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، زبان و بیان آزادیٔ اظہار کا مرکزمانا جاتا ہے، حقائق کو کھول کر رکھ دینے اور سچائی سے پردہ اٹھا کر لوگوں کی آنکھیں کھول دینے کا دم خم رکھنے والا میڈیا آج خاموش ہے۔ اس کی جگہ ایک ایسا میڈیا ہمارے سامنے ہے، جس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور زبان گونگی ہو چکی ہے، جو سچائی اور حقیقت سے آنکھیں بند کر کےایسی راہ پر گامزن ہے جہاں حکمران، سیاستدان اور کارپوریٹ ہاؤس کے پاورفل لوگوں نے اس کے ہاتھ جکڑ کررکھ دیے ہیں، اس کی اپنی زبان اور بیان پر پابندی عائد کر اسے غلام کر لیا گیا ہے۔وہ صبح سے شام تک غلط اور مفاد پرست خبروں کی ترسیل کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اور ایک قدم آگے بڑھ کر مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کی خبروں کی اشاعت کا ذریعہ بنا ہوا ہے ۔
مرکزی میڈیا کے تمام چینلز اور اخبارات کا تیزی سے بدلتا ہوا رویہ ہماری نظروں کے سامنے ہے، ہم روز اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کس طرح آنکھوں میں دھول جھونکنے اور حقائق پر پردہ ڈالنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی معمولی واقعے کو طول دے کر کچھ ہی لمحوں میں تل کا تاڑ بنا دیا جاتا ہے ۔دو فرقوں میں غلط فہمیاں پھیلا کر آپس میں نفرت کا ماحول پیدا کرکے فضا کو سیاسی مفاد کے لیے سازگار بنانا، اور ماحول کو خراب کر کے اپنے حق میں فائدہ حاصل کرنا حکمران طبقے کا مشغلہ بن گیا ہے ۔
ہندوستان کی یہ تصویر اور میڈیا کا یہ کردار کسی سے چھپی ہوئی بات نہیں ،بلکہ یہ بالکل عیاں اور واضح ہو چکا ہے کہ ہم اس ماحول میں مثبت اور تعمیری تبدیلی کی امید نہیں کر سکتے ۔
ہندوستان کی اس بدلتی ہوئی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سچ بولنے والوںکو اور حقائق سے پردہ اٹھانے والے تمام ذمہ دار چینلزکو کس طرح خرید لیا گیا ہے ۔ نڈر اور سچے صحافیوں کو ایک ایک کر کے مین اسٹریم میڈیا سے الگ کیا جا رہا ہے ۔ ان تمام چینلزاور اخبارات اور ان کے اداروں کو کارپوریٹ سیکٹر کے ہاتھوں فروخت کر کے ہندوستان میں آزاد صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔گویاجمہوریت کے چوتھے ستون کا ہر ستون گر کر خاک ہو چکا ہے۔
عوام اور حکومت کے درمیان میڈیا ہمیشہ ایک کڑی ہوا کرتا تھا ، سوال کرتا تھا، عوام کی آواز کو حکومت تک پہنچانے کا ذریعہ تھا ،رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام اس کے ذمہ تھا ، وہ میڈیا آج اپنی تمام قوتوں کو کھو چکا ہے۔وہ وہی لکھتا ہے ،وہی پیش کرتا ہے، اسکرین پر وہی دکھاتا ہے جس کو حکمران اور عہدے داران کی طرف سے گرین سگنل ملا ہوا ہو۔صاف لفظوں میں اگر کہا جائے تو یوں ہے کہ میڈیا بک چکا ہے اس کی آزادی ختم ہو چکی ہے، اس کی ایک زندہ مثال این ڈی ٹی وی ہے۔اور اسی طرح بہت سے دوسرے چینلز کے ان تمام بے باک صحافیوں کی سبکدوشی ،خصوصاً رویش کمار جیسے سچے اور مخلص صحافی کی حالیہ سبکدوشی اس بات کا صاف طور پر اعلان ہے کہ کارپوریٹ ہاؤسز کے مالکان اورحکمران طبقہ کی ساٹھ گانٹھ کے ذریعے کس طرح سےسچ کی آواز کو دبانے اور کچلنے کا کام کیاجارہاہے۔
دولت کے نشے میں چور حکومت کی پشت پناہی میں یہ جمہوریت کی آزادی کو کس طرح سلب کر رہے ہیں،اس بات کواور سچے صحافی رویش کمار کے درد کو ہم اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔اسی طرح درجنوں صحافیوں کو مین ا سٹریم میڈیا ہاؤس سے باہر کر دیا گیا، لیکن وہ اب بھی خاموش نہیں ہیں ،زمین تنگ ہونے کے باوجود اپنی آواز کو بلند کر رہے ہیں، حقائق سے عوام کو آگاہ کر رہے ہیں اوراپنی حق گوئی سے اس کا ثبوت پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں :
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
آج جس طرح میڈیا کو سیاسی جماعتوں نےاپنے نرغے میں لے رکھا ہےوہ یقینا انسانی معاشرہ کو شکشت وریخت کی طرف لے جارہی ہیں کیونکہ سیاسی اداروں کو صرف ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے انہیں ملی و ملکی مفاد عزیز نہیں ہوتے انسانی ہمدردی معاشی ترقی تعلیمی پستی کا علاج سیاسی جماعتوں کے اہداف میں شامل نہیں ہےیہی وجہ کہ آج اگر ہم ملک کے منظر نامے پر نظر ڈالے تو اندازہ ہوگا کہ کتنےکنبہ ایسے ہیں جو نان شبینہ کے محتاج ہیں ہزاروں افراد فٹ پاتھ پر زندگی گزانے کو مجبور ہیں سر ڈھکنے کے لئے چھپر کا گھر تک موجود نیہں ہے -اگر ہمارا میڈیا سماج کی ان حقیقتوں کو سامنے لائے تو ملک سے بہت حد تک غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے – اس لئے میڈیا کو چاہئے کہ ان چیزوں کو عوام کے سامنے لائے جو ملک وسماج کی تعمیروترقی کے لئےمفید ہوں نا کہ ان مناظر کو بروئے کار لائے جو سیاسی جماعتوں کے لئے مفید ثابت ہو۔
ایسے دور میں بطور نعمت متبادل میڈیا سامنے آیا جسے ہم سوشل میں کہتے ہیں ۔
سوشل میڈیا
سوشل میڈیا کے فوائد کا ذکر کیا جائے تو اگر اس کا مثبت استعمال کیا جائے تو بہت سے فوائد ہیں جیسے کہ تعلیم حاصل کرنا آج کل کے دور میں بہت آسان ہو گیا ہے مثلاً یوٹیوب کے ذریعے معلوماتی ویڈیوز دیکھ کر ہم اپنی معلومات میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں جو شخص بھی جس قسم کی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے اس تک اس کی پہنچ بہت آسان ہو گئی ہے۔
اس کے بعد ہر شخص کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے وہ اپنا پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے تمام لوگوں یہاں تک کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں تک بھی پہنچا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کاروباری طبقے کو بھی بہت فائدہ ہے مارکیٹنگ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت ہی آسان ہو گئی ہے کسٹمرز اپنی من پسند چیزیں آنلائن ذرائع سے بآسانی گھر بیٹھے منگوا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے ٹرینڈ یا رائے عامہ کے ذریعے آپ حکومت کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پہ مجبور کر سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا مین اسٹریم میڈیا کے علاوہ متبادل میڈیا کے ذریعہ کئی ممالک نے انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر کیا ، اور ظلم و استحصال کے خلاف مضبوط آواز بن کر ابھرا ۔
جیسے مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے سامنے اخوان کا انقلاب سوشل میڈیا کے ذریعہ عوامی تحریک بنا تھا ۔اسی طرح ایران میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا شعور عوام میں بیداری کی ترسیل میں متبادل میڈیا مدد گار رہا ہے ۔
ہندوستان کے شاہین باغ تحریک کو متبادل میڈیا نے کوریج دے کر ملک کے دیگر شہروں میں تحریک برپا کی اس کے برعکس مین اسٹریم میڈیا میں دوایک چینل کے علاوہ کسی نے اسے کوریج نہ دیا ۔
بہرحال، ذرائع ابلاغ کی ضرورت و اہمیت سے انکار کے بغیر ہم آج تیزی سے متبادل میڈیا کی ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے تابناک مستقبل اور ایک نئے بھارت کی تعمیر کا خواب دل میں لیے ہوئے آج ہر ذمہ دار شہری کی نظریں متبادل میڈیا کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ ان تمام سوشل میڈیا نیوز چینلز، نیوز پورٹلس، یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر خبروں کی ترسیل کا کام کرنے والے سبھی سچے ایماندار اور نڈر صحافیوں کی ذمہ داری اب بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دیں، لیکن چند صحافیوں سے یہ کام نہیں چلنے والا ہے، بلکہ اس کے لیے میڈیا ہاؤسز کا قیام عمل میں لانے کی ضرورت ہے ،ساتھ ہی جو صحافی حضرات اس میدان میں قدم رکھنے کی کوشش کرچکے ہیںاور اپنے چینلز اور پورٹلس چلا رہے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے۔
انہی ابھرتے ہوئے نیوز پورٹلس میں ایک نام’’ انڈیا ٹو مارو‘‘ کا بھی ابھر کر سامنے آتا ہے، جس نے صحافت کے میدان میں ایک متبادل کے طور پر اپنی مدت کے دس سال مکمل کیے اورصحافت کی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے مسلسل عوام تک صحیح خبریں پہنچانے کا کام کیا، اس کی ایک رپورٹ پیش خدمت ہے:
’’ 18 دسمبر 2022 ءکو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں ایک سیمینار بعنوان ’’کل کے بھارت کی تعمیر میں متبادل میڈیا کا رول‘‘ منعقد کیا گیا، جس میں میں دہلی پریس کلب آف انڈیا کے صدر جناب اوما کانت لکھیڑا،سینئر صحافی پروفیسر پردیپ ماتھر صاحب اور این آئی ٹی جے پور کے پروفیسر انجینیئر محمد سلیم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر متبادل میڈیا میں اپنی ذمہ داری نبھانے والے کچھ چنندہ صحافیوں کو انڈیا ٹومارو کی طرف سے اعزاز سے نوازا گیا ۔جو نیوز پورٹلس اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے زمینی مسائل کو لگاتار اٹھاتے رہے ہیں ،جن مسائل کو مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، ان پر انہوں نے آواز اٹھائی ہے۔
اس سیمینار میں انڈیا ٹو مارو کے چیف ایڈیٹر سید خلیق احمد نے کہا کہ ہم ایسا بھارت چاہتے ہیں جہاں بولنے کی آزادی ہو، اور رپورٹر اپنی بات کہنے کے لیے کسی دقت کا سامنا نہ کر رہا ہو، لیکن بدقسمتی سے آج بات چیت کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے، بولنے کی آزادی کو چھینا جا رہا ہے اور یہ کل کے بھارت کی تعمیر میں رکاوٹ ہے ۔
اس پروگرام کے مہمان خصوصی اور پریس کلب آف انڈیا کے صدر جناب اوما کانت لکھیڑا نے کہا کہ جمہوریت کے چوتھے ستون کو متبادل میڈیا نے ہی بچارکھا ہے۔ انہوں مزید یہ بھی کہا کہ ان حالات میں جب کہ صحافیوں کو ڈرایا جارہا ہے، متبادل میڈیا کے ذریعے عوام کے مسائل کو سامنے لانا یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔ نیز مرکزی میڈیا خبروں کو دبانے کا کام کر رہا ہے، لیکن متبادل میڈیا ہی ان محروم لوگوں کے درد کو بانٹنے کا کام کر رہا ہے۔
سینئر صحافی پروفیسر پردیپ ماتھر نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ صحافت کے میدان میں آنے والے تمام نوجوان صحافیوں کو ایمانداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ صحافت ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ خبر لکھتے وقت اس کی سا کھ اور سچائی پر بھی توجہ رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح انڈیا کو مارو( ہندی )کے ایڈیٹر مسیح الزماں انصاری نے بھی اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ آج نیوز روم میں محروم اور پسماندہ لوگوں کے مسائل کنارے کر دیے جاتے ہیں ،کیونکہ مرکزی میڈیا میں ان کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہے، ایسے میں متبادل میڈیا ایک واحد ذریعہ ہے جو مسلم ،آدی واسی اور دلتوں کو منظر عام پر لانے کا کام انجام دے رہا ہے۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے پروگرام کے صدارتی کلمات میں کہا کہ آج متبادل میڈیا ہی ملک کا مرکزی میڈیا ہے، اور زمینی حقائق پر رپورٹ کرنے والے نڈرصحافی ہی جمہوریت کے چوتھے ستون کی لاج رکھنے والے ہیں۔ انہوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ جمہوری اصولوں پر ڈٹے رہنے کا یہ وقت ہے اور یہاں موجود تمام صحافی بہت ہی ہوش مندی کے ساتھ اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔
میرے خیال میں مذکورہ بالا سیمینار اوراس طرح کے دیگر پروگرام متبادل میڈیا کے رول کو اجاگر کرنے میں بہترین کردار ادا کریں گے، اور نئے ہندوستان کی تعمیر میں مفید ثابت ہوں گے۔صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جہاں ایمانداری اور سچائی کی ضرورت ہے ورنہ اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا لوگوں تک سچ کو پہونچانا اور اسے جھوٹ سے دور رکھنا ایک ذمہ داری کا کام ہے۔ ایک صحافی جب خبروں کے ذریعے واقعات اور واردات کو لوگوں تک پہنچاتا ہے ،تو اس پر ہی لوگوں کے تاثرات اور ان کے یقین کی بنیاد قائم ہوتی ہے، اسی بنا پر فیصلے ہوتے ہیں، مجرم کو سزا اور مظلوم کی دادرسی ہوتی ہے، انصاف قائم ہوتا ہے۔
لیکن ایک جھوٹی اور غلط خبر کے پروپگنڈہ سے پوری دنیا میں تہلکہ مچ جاتا ہے۔ اس نازک اور اور ذمہ داری کے کام کو بہت ہی ایمانداری اور سوجھ بوجھ سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔چنانچہ ہم قرآن کی تعلیم سے رہنمائی لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ہمیں صاف ہدایت فرمائی ہے اور کہا ہے :
ایسے دور میں بطور نعمت متبادل میڈیا سامنے آیا جسے ہم سوشل میں کہتے ہیں ۔
سوشل میڈیا
سوشل میڈیا کے فوائد کا ذکر کیا جائے تو اگر اس کا مثبت استعمال کیا جائے تو بہت سے فوائد ہیں جیسے کہ تعلیم حاصل کرنا آج کل کے دور میں بہت آسان ہو گیا ہے مثلاً یوٹیوب کے ذریعے معلوماتی ویڈیوز دیکھ کر ہم اپنی معلومات میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں جو شخص بھی جس قسم کی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے اس تک اس کی پہنچ بہت آسان ہو گئی ہے۔
اس کے بعد ہر شخص کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے وہ اپنا پیغام سوشل میڈیا کے ذریعے تمام لوگوں یہاں تک کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں تک بھی پہنچا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے کاروباری طبقے کو بھی بہت فائدہ ہے مارکیٹنگ سوشل میڈیا کے ذریعے بہت ہی آسان ہو گئی ہے کسٹمرز اپنی من پسند چیزیں آنلائن ذرائع سے بآسانی گھر بیٹھے منگوا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے ٹرینڈ یا رائے عامہ کے ذریعے آپ حکومت کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پہ مجبور کر سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا مین اسٹریم میڈیا کے علاوہ متبادل میڈیا کے ذریعہ کئی ممالک نے انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر کیا ، اور ظلم و استحصال کے خلاف مضبوط آواز بن کر ابھرا ۔
جیسے مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کے سامنے اخوان کا انقلاب سوشل میڈیا کے ذریعہ عوامی تحریک بنا تھا ۔اسی طرح ایران میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا شعور عوام میں بیداری کی ترسیل میں متبادل میڈیا مدد گار رہا ہے ۔
ہندوستان کے شاہین باغ تحریک کو متبادل میڈیا نے کوریج دے کر ملک کے دیگر شہروں میں تحریک برپا کی اس کے برعکس مین اسٹریم میڈیا میں دوایک چینل کے علاوہ کسی نے اسے کوریج نہ دیا ۔
بہرحال، ذرائع ابلاغ کی ضرورت و اہمیت سے انکار کے بغیر ہم آج تیزی سے متبادل میڈیا کی ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے تابناک مستقبل اور ایک نئے بھارت کی تعمیر کا خواب دل میں لیے ہوئے آج ہر ذمہ دار شہری کی نظریں متبادل میڈیا کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ ان تمام سوشل میڈیا نیوز چینلز، نیوز پورٹلس، یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر خبروں کی ترسیل کا کام کرنے والے سبھی سچے ایماندار اور نڈر صحافیوں کی ذمہ داری اب بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دیں، لیکن چند صحافیوں سے یہ کام نہیں چلنے والا ہے، بلکہ اس کے لیے میڈیا ہاؤسز کا قیام عمل میں لانے کی ضرورت ہے ،ساتھ ہی جو صحافی حضرات اس میدان میں قدم رکھنے کی کوشش کرچکے ہیںاور اپنے چینلز اور پورٹلس چلا رہے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کی بھی ضرورت ہے۔
انہی ابھرتے ہوئے نیوز پورٹلس میں ایک نام’’ انڈیا ٹو مارو‘‘ کا بھی ابھر کر سامنے آتا ہے، جس نے صحافت کے میدان میں ایک متبادل کے طور پر اپنی مدت کے دس سال مکمل کیے اورصحافت کی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے مسلسل عوام تک صحیح خبریں پہنچانے کا کام کیا، اس کی ایک رپورٹ پیش خدمت ہے:
’’ 18 دسمبر 2022 ءکو دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں ایک سیمینار بعنوان ’’کل کے بھارت کی تعمیر میں متبادل میڈیا کا رول‘‘ منعقد کیا گیا، جس میں میں دہلی پریس کلب آف انڈیا کے صدر جناب اوما کانت لکھیڑا،سینئر صحافی پروفیسر پردیپ ماتھر صاحب اور این آئی ٹی جے پور کے پروفیسر انجینیئر محمد سلیم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس موقع پر متبادل میڈیا میں اپنی ذمہ داری نبھانے والے کچھ چنندہ صحافیوں کو انڈیا ٹومارو کی طرف سے اعزاز سے نوازا گیا ۔جو نیوز پورٹلس اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے زمینی مسائل کو لگاتار اٹھاتے رہے ہیں ،جن مسائل کو مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، ان پر انہوں نے آواز اٹھائی ہے۔
اس سیمینار میں انڈیا ٹو مارو کے چیف ایڈیٹر سید خلیق احمد نے کہا کہ ہم ایسا بھارت چاہتے ہیں جہاں بولنے کی آزادی ہو، اور رپورٹر اپنی بات کہنے کے لیے کسی دقت کا سامنا نہ کر رہا ہو، لیکن بدقسمتی سے آج بات چیت کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے، بولنے کی آزادی کو چھینا جا رہا ہے اور یہ کل کے بھارت کی تعمیر میں رکاوٹ ہے ۔
اس پروگرام کے مہمان خصوصی اور پریس کلب آف انڈیا کے صدر جناب اوما کانت لکھیڑا نے کہا کہ جمہوریت کے چوتھے ستون کو متبادل میڈیا نے ہی بچارکھا ہے۔ انہوں مزید یہ بھی کہا کہ ان حالات میں جب کہ صحافیوں کو ڈرایا جارہا ہے، متبادل میڈیا کے ذریعے عوام کے مسائل کو سامنے لانا یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔ نیز مرکزی میڈیا خبروں کو دبانے کا کام کر رہا ہے، لیکن متبادل میڈیا ہی ان محروم لوگوں کے درد کو بانٹنے کا کام کر رہا ہے۔
سینئر صحافی پروفیسر پردیپ ماتھر نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ صحافت کے میدان میں آنے والے تمام نوجوان صحافیوں کو ایمانداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ صحافت ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ خبر لکھتے وقت اس کی سا کھ اور سچائی پر بھی توجہ رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح انڈیا کو مارو( ہندی )کے ایڈیٹر مسیح الزماں انصاری نے بھی اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ آج نیوز روم میں محروم اور پسماندہ لوگوں کے مسائل کنارے کر دیے جاتے ہیں ،کیونکہ مرکزی میڈیا میں ان کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہے، ایسے میں متبادل میڈیا ایک واحد ذریعہ ہے جو مسلم ،آدی واسی اور دلتوں کو منظر عام پر لانے کا کام انجام دے رہا ہے۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے پروگرام کے صدارتی کلمات میں کہا کہ آج متبادل میڈیا ہی ملک کا مرکزی میڈیا ہے، اور زمینی حقائق پر رپورٹ کرنے والے نڈرصحافی ہی جمہوریت کے چوتھے ستون کی لاج رکھنے والے ہیں۔ انہوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ جمہوری اصولوں پر ڈٹے رہنے کا یہ وقت ہے اور یہاں موجود تمام صحافی بہت ہی ہوش مندی کے ساتھ اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔
میرے خیال میں مذکورہ بالا سیمینار اوراس طرح کے دیگر پروگرام متبادل میڈیا کے رول کو اجاگر کرنے میں بہترین کردار ادا کریں گے، اور نئے ہندوستان کی تعمیر میں مفید ثابت ہوں گے۔صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جہاں ایمانداری اور سچائی کی ضرورت ہے ورنہ اس کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا لوگوں تک سچ کو پہونچانا اور اسے جھوٹ سے دور رکھنا ایک ذمہ داری کا کام ہے۔ ایک صحافی جب خبروں کے ذریعے واقعات اور واردات کو لوگوں تک پہنچاتا ہے ،تو اس پر ہی لوگوں کے تاثرات اور ان کے یقین کی بنیاد قائم ہوتی ہے، اسی بنا پر فیصلے ہوتے ہیں، مجرم کو سزا اور مظلوم کی دادرسی ہوتی ہے، انصاف قائم ہوتا ہے۔
لیکن ایک جھوٹی اور غلط خبر کے پروپگنڈہ سے پوری دنیا میں تہلکہ مچ جاتا ہے۔ اس نازک اور اور ذمہ داری کے کام کو بہت ہی ایمانداری اور سوجھ بوجھ سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔چنانچہ ہم قرآن کی تعلیم سے رہنمائی لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ہمیں صاف ہدایت فرمائی ہے اور کہا ہے :
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
(سورۃ البقرہ : 42)
(سورۃ البقرہ : 42)
( جھوٹ کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور جانتے بوجھتے ہوئے حق کو چھپانے کی کوشش نہ کرو۔)
اس نسخۂ کیمیا کو آزمائیں گے تو ضرور سچی صحافت کا آغاز ہوگا ۔ہمارا ملک بھارت انصاف کی راہ پر گامزن ہو گا ۔اور ایک نئے بھارت کی تعمیر میں متبادل میڈیا امید کی کرن بن کر ابھرے گا ۔
اس نسخۂ کیمیا کو آزمائیں گے تو ضرور سچی صحافت کا آغاز ہوگا ۔ہمارا ملک بھارت انصاف کی راہ پر گامزن ہو گا ۔اور ایک نئے بھارت کی تعمیر میں متبادل میڈیا امید کی کرن بن کر ابھرے گا ۔
ویڈیو :
آڈیو:
Comments From Facebook
0 Comments