۲۰۲۳ جنوری
میری ایک دوست نے کہا کہ کچھ عرصے سے میں یہ محسوس کررہی ہوں کہ میں اکثر ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہوں۔میرے خوابوں اور خیالوں میں یاد ماضی کچھ اس انداز سے رچ بس گئی ہے کہ بعض دفع وقت موجود میں کسی بات کے تجزیہ وردعمل کی قوت انتہائی پست ہو جا تی ہے۔ذہن ماؤف سا ہو جاتا ہے۔حال اور مستقبل کے حوالے سے ذہن میں ایک خلاءساپیدا ہوجاتاہے۔ماضی کی یادوں کی یلغار اتنی زبردست ہوتی ہے کہ میں اپنے زمانۂ حال سے بےزاراورمستقبل سے بے پروا ہو جاتی ہوں۔ یہ عجیب کشمکش کی صورت حال ہے ۔
میں نے جب غور کیا تو یہ ادراک ہوا کہ نفسیاتی زبان میں اسے ناسٹلجیا کہتے ہیں ۔اسی حوالے سے کچھ تحقیق وتجزیہ ا وراحساسات اس تحریر میں قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے ۔
یاد ماضی ایک فطری عمل ہے اور انسان اس عمل سے مسرت وانبساط حاصل کرتاہے اور حال کی تلخ حقیقتوں سے لمحہ بھرکی لیے ہی سہی، ماضی کے آنچل میں پناہ لیتا ہے۔ لیکن جب یہ احساس دیگر کیفیات کی طرح حد اعتدال سے متجاوز ہو جائےتو انسانی زندگی میں نفسیاتی الجھنوں کا اضافہ ہوجاتا ہے ،اور اس کیفیت کو نفسیات کی زبان میں ناسٹلجیا (یاد ماضی)کہا جاتاہے۔جسے اردو کے مایہ ناز طنزومزاح نگار ادیب مشتاق احمد یوسفی صاحب نے ’’ماضی تمنائی‘‘کی اصطلاح سے موسوم کیا ہے،اور یہ اصطلاح زیادہ مناسب بھی معلوم ہوتی ہے۔
ناسٹلجیا/یاد ماضی(ماضی تمنائی)
ناسٹلجیا یونانی زبان کا لفظ ہے، جو دو حصوں پر مشتمل ہےNotosاور Algos Notosکے معنی ہیں ’’گھر واپسی‘‘ ” To Return Home ” اور Algos کامعنی ہے ’’کرب یا درد‘‘ “To Pain”
وکی پیڈیا کے مطابق ناسٹلجیاپرانی روایات سے وابستہ رہنا، ماضی کی داستانوں،قصے اورخیالوں میں کھوئے رہنا اور انہی پر نوحہ خوانی کرتے رہناہے۔ گزرے ہوئے لمحات و واقعات کی یاد دل میں بسائے رکھنا اور زندگی کے ہر پہلو میں اسی کے بیان کرنے کا نام ہے۔میں نے بشمول خود اپنے اطراف میں جن خواتین کواس نفسیاتی کشمکش میں مبتلا دیکھا، ان میں زیادہ تر شادی شدہ خواتین ہیں اور اس میں بھی کثرت ان کی ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنے وطن سے دور ہیں ،یا اس ماحول سے کٹ گئی ہیں ،جن کا وہ بچپن سے حصہ تھیں ۔جس کہ نتیجے میں اکثر ان خواتین کا موضوع گفتگو عمر گذشتہ کی یادوں پرمشتمل ہوتا ہے،جو عموماً تلخ ہوتی ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ ہمہ وقت خود اذیتی و کرب میں مبتلاء رہتی ہیں۔اس کے برعکس کچھ کی یادوں کا محور ماضی کے بیتے ہوئے خوشحال دن ہوتے ہیں، تو بعض کے نزدیک خوشیوں کو ناپنے کے پیمانے بھی ماضی کے ہوتے ہیں، جن کی بناپروہ وقت موجود میں خوشی کے احساس کو پانے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ نتیجۃًان کی زندگیوں سے ذہنی سکون رخصت ہو جاتاہے اور بے چینی کی کیفیت ان کے ذہن پر چھا جاتی ہے۔
شاید شاعر نے اسی صورت حال سے دوچار ہوکر فرمایا:

دل غم دیدہ پر خدا کی مار
سینہ آہوں سے چھل گیا میرا
یاد کے تند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جل اٹھا میرا
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اگر ہم ناسٹلجیا کے وسیع سماجی اثرات پر نظر دوڑائیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ افراد کے علاوہ یہ کیفیات ہمیں ادب میں بھی نمایاں نظر آتی ہیں ۔انتظار حسین کی تحاریر اس ضمن میں قابل ذکر ہیں ۔وہ نئ صدی کے مصنف ہونے کے باوجود ماضی میں جیتے ہیں ۔ اگر ہم مزید غور کریں تو بعض اوقات بحیثیت مجموعی قومیں بھی ناسٹلجیا کا شکار نظر آتی ہیں ، اور یہ غلام قوموں کی نفسیات کا ایک اہم پہلو ہے،کہ جو قومیں ایک روشن و تابناک ماضی رکھتی ہیں لیکن زمانۂ حال میں پستی و ذلت میں پڑی ہوئی ہیں، وہ اپنے ماضی پرفخر کرنے اور اس کی یاد میں آہیں بھرنے کے سو ا کوئی کارِ نمایاں انجام دینے سے قاصر ہوتی ہیں۔جسکی بہترین مثال موجودہ امت مسلمہ کے سوااور کیا ہو سکتی ہے۔ وہیں صاحب اختیارواقتدار قومیں اپنے ماضی کو لے کراحساس تفاخر سے بڑھ کر اجتماعی نرگسیت تک پہنچ جاتی ہیں۔
(Collective Narisiesm) یعنی تاریخ کے لحاظ سے خود کی ماضی پر بے جا تفاخر کرنا اور اپنی قوم ،تاریخ و تہذیب کوہی سب کچھ سمجھنابھی ناسٹلجیا کی ہی ایک قسم ہے۔جس کو سمجھنے کے لیے ہم وطن عزیز میں ابھرنے والے ہندو راشٹر یا رام راج کے نعروں اور موجودہ ماحول کا جائز ہ لے سکتے ہیں ۔
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی غم،وساوس،اور اضطراب کو شیطانی قوتوں کے ہتھیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مثلاً قدیم یونانی دیومالاؤں اور لٹریچر میں ایسی شیطانی قوتوں (Evil Forces)کا تذکرہ ملتا ہے، جو ایک انسان پر غم و اندوہ اور اضطراب کی کیفیت کو طاری کر دیتی ہیں۔ مثلاً ویکی پیڈیا کے مطابق یونانی افسانوں میں اویزیز(Oizys)  مصائب، اضطراب ،
غم، افسردگی اور بدقسمتی کی دیوی ہے۔ اس کا رومن نام Miseria ہے ، جس سے انگریزی لفظ Misery ماخوذ ہے۔ لیکن واضح ہو کہ ان مذاہب میں ان سے محفوظ رہنے کے لیے ہدایات کا فقدان ہے ،جبکہ دین اسلام میں اس ضمن میں واضح رہنمائی قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
بنیادی طور پر ناسٹلجیا کی دو اقسام ہیں۔ ایک کے اثرات خوشگوار ہیں، وہ ہماری زندگی میں خوشی لاتا ہے۔ زندگی کے گذرےہوئے کوالٹی ٹائم کو یاد کرنا اور وہاں سے انسپریشن لینا اچھی بات ہے،اور دوسرا وہ جس پر ہم نے بالائی سطور میں بحث کی ہے۔
ناسٹلجیا کے شکار افراد کی بیماری کی بڑی وجوہات میں سے ہجرت بھی ایک اہم وجہ ہے ،جس میں وہ اپنے آپ کو مظلوم یا وکٹم محسوس کرتے ہیں،لیکن واضح ہو کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جو لوگ اعلیٰ مقاصد کےلیے کام کرتے ہیں، ان کے لیے ہجرت وغیرہ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جن کے مقاصد چھوٹے ہوں وہی لوگ ’’حال‘‘ کا رونا روتے ہیں۔ہجرت جذباتی استحکام (Emotinal Stability)کےلیےلازمی ہے۔
حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو لق و دق صحرا میں چھوڑنا اور بچے کو ذبح کرنے کا حکم دینا سب ذہنی استحکام کےلیے ہے کہ بندہ ان سب چیزوں سے بے نیاز ہو کر خالص الله کےلیے کام کرے۔ ہم اس ضمن میں قرآنی اسلوب پر غور کریں تو ہم جانیں گے کہ قرآن میں جہاں بھی تاریخ نگاری یا ماضی کا ذکر ہوا ہے، اس کا واضح مقصد یا تو عبرت کا حصول ہے یا ماضی کے تجربات کی روشنی میں نئے چلنجز کے مقابلے کے لیے عمل پر ابھارا گیا ہے۔اس کی ایک مثال اصحاب کہف کا قصہ ہے، جس میں ان کی تعداد کی ٹوہ میں رہنے سے منع کیا گیا ہے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام لایعنی بحثوں اور غیر نافع علم کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے۔ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ بے جا حزن و ملال اور وساوس یہ سب شیطانی ہتھکنڈے ہیں ،جن سے بچنے کے لیے بہت سی مسنون دعاؤں کا اہتمام بھی ا ن شاءاللہ کارگر ہو گا۔
جن میں درج ذیل معروف و مسنون دعا قابلِ ذکر ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:
 اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ 

(اے اللہ  میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم والم سے ، عاجزی سے ، سستی سے ، بزدلی سے ، بخل ، قرض چڑھ جانے اور لوگوں کے غلبہ سے ۔)
(صحیح بخاری: 6369)
اسلام ایک قوی مومن کی حوصلہ افزائی فرتا ہے،جس کے تئیں جسمانی وروحانی قوتوں کے ساتھ ساتھ ذہنی و نفسیاتی صحت بھی مطلوب ہے۔قرآن کی تلاوت ذہنی استحکام پیدا کرتی ہے۔ناسٹلجیا کا شکار عموماً ایسے لوگ ہو جاتے ہیں ،جن کا وژن محدود ہواور بے شک مومن کسی بھی قسم کےذہنی الجھن (Complexes) اوراندیشوں سے خوف( Phobias )کاشکار نہیں ہو سکتا۔ اس کا ایمان باللّٰہ جتنا مضبوط ہوگا، ان شاء اللہ وہ ان کیفیات کا شکا ر زیادہ عرصے تک نہیں رہ سکتا ہے،تاہم ماہر نفسیات لوگوں کو ماضی کی تلخ و شیریں یادوں سے نکل کر ’’حال‘‘ میں جینے اور مستقبل کی طرف توجہ کرنے کی صلاح دیتے ہیں ،تاکہ ان کی زندگی میں خوشحالی آ سکے ۔اگر ہم ناسٹلجیا کی اقسام اور اس کے اچھے برے اثرات یا پھر ماہرین کی مختلف آراء پر بات کریں تو یہ بحث کافی طویل ہوجائےگی، جبکہ اس تحریر کا مقصد عام خواتین کی نفسیاتی الجھنوں کا جائز ہ اور ان کے ممکنہ حل پر گفتگو کرنا ہے۔
لہذا، اس صورتحال سے نمٹنے کی چند عملی صورتیں درج ذیل ہیں:
اولاً یہ کہ انسان ہر سانس کو باری تعالیٰ کی امانت جانےاور وقت کی قدر کرے۔ ہمارا آج کا وقت ہی وہ انمول نعمت ہے جس کے باسلیقہ استعمال سے ہم تابناک مستقبل کی نیو رکھ سکتے ہیں۔ آپ کا ماضی کرب ناک اور تلخ یادوں پر محیط ہے تو اس پر ماتم کرنے کی بجائے حال پر شکر کیجیے کہ اب آپ اس وقت سے نکل چکے ہیں۔اور زمانہ حال کی بدامنی و انتشار کی وجہ سے خوشحال ماضی کی یادوں کی یلغار کا سامنا ہو تو اس سے مثبت قوت کو کشید کر کے زمانۂ حال کے ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تازہ دم اور پرجوش ہوجائیں ۔کولین کیمبل نامی مصنف نے اپنے مضمون ’’حاضر رہنے کا طریقہ‘‘ (How to stay Present) میں چند شاندار عملی رہنمائیاں پیش کی ہیں جن میں مراقبہ ،یوگا اور جسمانی ورزش کے علاوہ درج ذیل ہدایات قابل ذکر ہیں۔
1.شعوری طور پرسانس لینے کی مشق کریں۔ اس لمحے میں موجود رہنے میں آپ کی مدد کرنے کے یقینی طریقوں میں سے ایک صرف سانس لینا ہے۔ کوئی کام شروع کرنے یا کوئی ایسا کام کرنے سے پہلے جس پر بہت زیادہ توجہ درکار ہو، سانس لینے کے لیے ایک لمحہ نکالیں۔
2.جو آپ کے سامنے ہے اس پر توجہ دیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی کے ساتھ بات چیت کے دوران کھو جائیں، یا کسی پروجیکٹ کو مکمل کرتے وقت آپ پیچھے ہٹ جائیں۔ سامنے کے لمحات کھونے کے بجائے، ان پر پہلی فرصت میں توجہ دیں۔ جب بھی لوگ آپ سے مخاطب ہوں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں۔
 3.اپنی ترجیحات کا اندازہ لگائیں۔ صحیح معنوں میں موجود ہونے کے لیے، ان تمام چیزوں کا جائزہ لیں جنہوں نے روایتی طور پر آپ کو ایسا ہونے سے روک رکھا ہے۔ شاید کام کے دوران، آپ اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے ہوئے پیچھے ہٹ جائیں اور آپ ان کے بارے میں فکر کرنے لگیں یا پریشانی محسوس کریں۔ یا ہوسکتا ہے کہ آپ دوسرے منفی جذبات کو محسوس کرتے ہوں جیسے اکثر جرم یا مایوسی۔ ان جذبات کی فہرست بنائیں جن کا آپ سب سے زیادہ شکار ہیں اور پھر اسے جلا دیں یا کوڑے دان میں پھینک دیں۔ موجود رہنے کے لیے آپ کی پوری توجہ کی ضرورت ہے۔ کسی خیال کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرنا، اسے اپنے ذہن میں رکھنے کا سب سے یقینی طریقہ ہے، لہذا اپنے منفی جذبات کو ایک یا دو لمحے دیں، ان کے بارے میں سوچیں، انہیں لکھیں، اور پھر ہاتھ میں موجود کام پر دوبارہ توجہ دیں۔
4.اپنے خیالات پر سوال کریں۔ کسی بھی منفی خیال پر سوال کریں جو آپ کےذہن میں ہے اور اندازہ کریں کہ آیا وہ آپ کے اپنے ٹاسک یا کسی مطلوبہ شخص تک رسائی کے لیے کتنا اہم ہے۔ کئی بار ہو سکتا ہے کہ آپ کے منفی خیالات کی جڑیں حقیقت میں نہ ہوں، لہذا جب ہو سکے تو انہیں لا یعنی قرار دینے کی پوری کوشش کریں۔ اپنے آپ کو اپنے سامنے کی حقیقت کی طرف آہستہ سےموڑ ری ڈائریکٹ کریں۔مثال کے طور پر، آپ کو فکر ہو سکتی ہے کہ کوئی آپ کے گھر میں گھس جائے گا۔ لیکن اگر آپ کے پڑوس میں حال ہی میں کوئی چوری نہ ہوئی ہو یا آپ کے پاس گھر کا اطمینان بخش حفاظتی نظام ہے، تو شاید یہ خوف اس وقت پریشان کرنے کے قابل نہیں ہے۔
5.جو اہم ہے اس پر توجہ دیں۔ ترجیح کیا ہے اور غیرضروری کیا ہے، کے درمیان فرق کرنا سیکھیں۔ ہر اس چیز کی فہرست بنائیں جو آپ کو ضرورت سے ایک دن پہلے کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی کریں جنہیںآپ پہلے مکمل کریں گے۔ ہر ایک کام کو ایک وقت میں مکمل کریں۔ ہر روز اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے وقت نکالیں۔
5.اپنا فون بند کر دیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا نے متعدد طریقوں سے معاشرے کو آگے بڑھانے اور آگاہ کرنے میں مدد کی ہے، لیکن یہ آپ کی زندگی مکی سب سے زیادہ پریشان کن عادت بھی ہو سکتی ہے۔ جب آپ کو واقعی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہو تو اپنا سیل فون بند کر دیں، یا کم از کم اسے خاموش رکھیں۔ اپنے چند سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو غیر فعال کرنے یا اپنے فون پر ای میل کو غیر فعال کرنے پر غور کریں۔اسے ایک فیملی پریکٹس بنانے پر غور کریں کہ رات کے کھانے میں کسی کے پاس بھی فون نہ ہو۔
6. اپنے شوق کی پیروی کریں۔ذہن سازی کی مشق کے دوران اسے یقینی بنانے کے لیے ان چیزوں پرتوجہ کریں جن سے آپ لطف اندوز ہوتے ہوں یا جو آپ کو محبوب ہوں ۔اپنے شوق کو دریافت کریں اور ایسی زندگی بنائیں جس میں آ پ موجود رہنے کے قابل ہو ں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۳ جنوری