۲۰۲۳ جنوری
سوال :
زوجین میں سے ایک فریق بدعات و خرافات میں مبتلا ہے، مزاروں پر اس کی آمد و رفت رہتی ہے۔ اس کی جانب سے مُردوں سے حاجت طلبی اور شرکیہ اعمال کا صدور ہوتا ہے، جب کہ دوسرا فریق موحّد ہے۔ اس طرح کے اعمال سے اسے ذہنی کوفت ہوتی ہے۔ اس بنا پر ان کے درمیان ازدواجی تعلقات خوش گوار نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
جواب:
نکاح کے ذریعے دو اجنبی افراد ملتے ہیں اور پوری زندگی ایک ساتھ گزارنے کا عہد کرتےہیں۔ اس لیے ان کے درمیان مزاجی ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔رشتہ طے کرتے وقت اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمارے سماج میں عموماً ’’کفو‘‘ کے نام پر صرف ذات برادری دیکھی جاتی ہے اور مال داری کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے، دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نکاح کے بعد معمولی معمولی باتوں پر ٹکراؤ ہوتا ہے، تنازعات سر ابھارتے ہیں اور ازدواجی رشتے میں خوش گواری باقی نہیں رہتی۔لیکن جب نکاح ہوجائے تو زوجین میں سے ہر ایک کو رشتہ نبھانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن مجید میں مردوں کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے:
وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْرا(النساء :19)
(ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کے بارے میں فرمایا:
المنتزعات والمختلعات ھن المنافقات (النسائی: 3461 )
(بغیر کسی عذر کے شوہروں سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنے والی عورتیں منافقوں جیسی ہیں۔)
اسلام، توحید کا علم بردار ہے۔ وہ شرک کا سخت مخالف ہے۔ قرآن میں ہے ک:
’’اللہ تعالیٰ شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس کے ماسوا دوسرے گناہ جس قدر بھی ہوں، وہ جس کو چاہے گا، معاف کردے گا۔‘‘ (النساء: 48)
اسی طرح اہلِ ایمان کو بدعات و خرافات سے بھی دور رہنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
’’جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کر دی جو اس میں سے نہ ہو وہ قابلِ ردّ ہے۔‘‘ (بخاری267 ، مسلم: 1718)
لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد شرکیہ اعمال اور بدعات و خرافات میں مبتلا ہے۔ مزاروں پر آمد و رفت اور مُردوں سے حاجت طلبی اور استمدادکا شمار بھی ایسے ہی ناجائز کاموں میں ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں سے بالکلیہ تعلقات منقطع کرلینے کے بجائے ان کی حتی الامکان اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔
زوجین میں سے اگر کوئی شرکیہ اعمال اور بدعات و خرافات میں مبتلا ہے اور دوسرا موحّد ہے، جسے ان کاموں سے سخت تنفّر ہے، تو مؤحّد کو اپنے شریک زندگی کی اصلاح اور تربیت کی فکر کرنی چاہیے۔ عام انسانوں کے مقابلے میں وہ اس کا زیادہ مستحق ہے۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے:
یَٰآیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً(التحریم:6 )
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ عیال کو جہنم کی آگ سے۔)
رشتے کو ختم کرنے کی بات آخر میں اور بہ درجۂ مجبوری سوچنی چاہیے۔ رشتے کو ختم کرنا بہت آسان ہے، لیکن اصلاح کا کام بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

1 Comment

  1. امّ ہانیہ

    جی بالکل ۔بلکہ یوں سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُن تک پہونچایا اُن کی اصلاح کے لیے ہے ۔آپکا جوڑا تو اللہ کی اجازت سے ہی بنا ہے ۔یعنی حکمت سے کوشش کریں چاہیے اس کے لیے دس برس ہی کیوں نہ لگ جائیں ۔یقین رکھیں آپکی محنت اور دعا سے وہی ضرور تبدیل ہوتے ہیں ۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۳ جنوری