۲۰۲۳ جنوری
جنسی استحصال
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کا سماجی،معاشی اور جنسی استحصال بہت پرانا ہے ۔ خواتین ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں، لیکن پھر بھی استحصال کی شکار ہیں۔ اخبارات اور ملکی میڈیا میں خواتین کے جنسی استحصال کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں، پانچ سال کی بچی سے لے کر پچاس سال کی ادھیڑعمر کی خواتین بھی معاشرے میں محفوظ نہیں ہیں۔’’سوشل ایکشن فورم فار ہیومن رائٹس‘‘کی تحقیق سامنے آئی ہے کہ جن جگہوں پرخواتین مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں ،وہ خواتین کے لیے محفوظ مقامات نہیں ہیں۔
’’ نیشنل کمیشن فار وومن ‘‘ کے ذریعے کروائے گئے مطالعےسے یہ سنسی خیز خبر سامنے آئی ہے کہ 40%خواتین اپنے کام کے دوران 2سے3 مرتبہ جنسی استحصال کا شکار ہو تی ہیں،ان میں سے% 13خواتین نے خودکشی کی کوشش کی ۔ میٹرو شہروں میں 90% خواتین بھونڈے مذاق اور طنزیہ فقروں کے سبب ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں اور% 80فیصد خواتین نے تسلیم کیا کہ کام کی جگہوں پر وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ اس صورت میں ہو رہا ہے جبکہ خواتین کے کام کی جگہوں پر ان کے جنسی استحصال کو روکنے کے لیے باضابطہ قوانین موجود ہیں۔
سپریم کورٹ نے1997ءمیں اس صورت حال کے مقابلے کے لیےواضح ہدایات دی تھیں۔ مثلاًNike کمپنی کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے اور صنفی امتیاز کے مقدمے میں پانچ ہزار صفحات سے زیادہ ریکارڈ تیار کیے گئے ،جن میں ملازم پیشہ خواتین کے سروے پر بھی رپورٹ شامل ہے ،جس میں انہوں نے کارپوریٹ غنڈہ گردی اور انتقامی کارروائی کے علاوہ اسپورٹس وئیر کی ویو میں جنس پرستانہ رویوں کا الزام لگایا ہے۔
یکساں سول کوڈ:آمریت کے طرف بڑھتے قدم
سماج وادی پارٹی کے ایم پی رام گوپال یادو نے کہا کہ یکساں سول کوڈ بل آرٹیکل(b(26 اور (I(29کے خلاف ہے۔ کیونکہ آرٹیکل کی رو سے دستور ساز اسمبلی نے فیصلہ لیا تھا کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے اس لیے یہ بل نہیں لایا جا سکتا ہے۔ بی جے پی کروڑی لال مینا نے 9 دسمبر2022 ءکو پارلیمنٹ میں یکساں سول کوڈ بل پیش کیا۔بل کے تعلق سے کہا گیا کہ تمام مذاہب کے شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک اور احترام کے لیے ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ کیا جانا چاہیے، جبکہ ہندوستان جیسے تکثیری ملک میں الگ الگ مذہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں، جن کا رہن سہن،رسم ورواج، شادی بیاہ،طلاق وخلع اور وراثت کی تقسیم کے مختلف طریقہ ٔ کار ہیں۔ ان کے اپنے کلچر اور تہذیب کے خلاف یکساں سول کوڈ کا نفاذ کیا شہریوں کے لیے یکساں سلوک اور احترام کا متقاضی ہے؟
دنیا کے نقشے پرہندوستان سب سے بڑا جمہوری اورسیکولر ملک ہے۔جہاں صدیوں سے الگ الگ مذہب کے ماننے والے اپنے طور طریقوں کے مطابق چلتے ہیں۔مسلمان شریعت پر عمل کرتاہے۔اس بات کے پیش نظر ملک کی آزادی سے پہلے ہی سےارباب اقتدار کی جانب سےمسلم پرسنل لاء کی ضمانت و حفاظت کی یقین دہانی شروع کر دی گئی تھی۔ان کی ہی وہ کوششیں تھیں ،جن کے نتیجے میں گاندھی جی نے1931ءمیں لندن میں گول میز کانفرنس میں دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ مسلم پرسنل لاء کو کسی بھی قانون کے ذریعے چھیڑانہیں جائے گا، اور پھر آزادی سے تقریباً دس سال پہلے 1937 میں قانون تحفظ شریعت ایکٹ(Sharia Application Act1937 ) پاس کیا گیا۔بعد میں اس کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔
گجرات الیکشن میں جیت کے بعد مودی سرکار نے ایک بار پھر یکساں سول کوڈ کا موضوع اٹھایا ہے۔ بی جے پی حکومت نے اترا کھنڈ، اتر پردیش، گجرات اور کرناٹک میںے یکساں سول کوڈ کے لیے کمیٹیاں بنائی ہیں۔ جاری سرمائی اجلاس میں راجیہ سبھا میں یکساں سول کوڈ بل پیش کیا گیا، جس کی حمایت میں 63 اور مخالفت میں 23ووٹ پڑے۔اس پر بحث ہوگی۔کیا نتیجہ نکلتا ہے وہ وقت بتائے گا، لیکن اس کا نفاذ اتنا مشکل ہے جتنا ہاتھی کا سوئی کے ناکے سے گزرنا۔
انسانی اسمگلنگ
اسمگلنگ کیا ہے؟ لوگوں کو ملازمت کا لالچ دےکر یا نوکریوں کے جھوٹے اشتہار، تعلیمی وسفری مواقع کے بارے میں جھوٹ اور بیرونی ممالک میں ملازمت کا عندیہ دےکر ،غرض دھوکہ دہی اور فریب کے ذریعے انسانوں کی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس وقت انسانی اسمگلنگ عروج پر پہنچ چکی ہے۔اسمگلر فنڈز جمع کرنے کے لیے خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے ڈرگز اینڈ کرائمز کی جانب سےHuman trafficking کی شائع شدہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 13سالوں میں سب سے زیادہ 2016ءمیں انسانی اسمگلنگ کے واقعات پیش آئے ہیں۔مجموعی طور پر متاثرین میں 30%بچے ہیں،اور متاثرین میں آدھی تعداد خواتین کی ہے۔اعداد وشمار کے مطابق 15سالوں کے دوران اسمگلنگ میں خواتین اور بچیوں کی تعداد 70%تک رہی ہے۔
ہندوستان میں’’ اجولا اسکیم‘‘
خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت نےاسمگلنگ کی روک تھام اور ملک بھر میں جنسی استحصال اور اسمگلنگ کا شکار ہونے والوں کی مدد کے لیے اجولا اسکیم کو نافذ کیا گیا تھا ۔ اسکیم کے بحالی جزو کے تحت اجولا ہومز کے قیام کے لیےکرایہ، عملہ، خوراک،طبی دیکھ بھال، قانونی امداد، تعلیم اورپیشہ ورانہ تربیت کے لیے گرانٹ فراہم کیا جاتا ہے۔ ریاستی حکومتوں /مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے ضابطہ فوجداری کے سیکشن357 AC cr.pc کے تحت متاثرین کے معاوضےکی اسکیموں کا اعلان کیا تھا ۔ اس کے علاوہ یہ معاوضہ اسکیموں کی حمایت اور ان کی تکمیل کے لیے وزارت داخلہ نے نربھیا فنڈ سے سینٹرل وکٹم کمپین سیشن فنڈ کے تحت 2016/17میں ریاستی حکومتوں کو UTs کو یک وقتی گرانٹ کے طور پر 200کروڑ روپے جاری کیے تھے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۳ جنوری