أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَيٰقَوۡمِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ يُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَيۡكُمۡ مِّدۡرَارًا وَّيَزِدۡكُمۡ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمۡ وَلَا تَتَوَلَّوۡا مُجۡرِمِيۡنَ ۞
(سورہ ہود، آیت : 52)
(اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے ربّ سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔)
بشر ہونے کے ناتے ہم تمام سے کہیں نہ کہیں غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں ،
بسا اوقات ہم اپنے مقصد تخلیق سے بھی غافل ہو جاتے ہیں، فرائض و واجبات بھی ہم سے چھوٹ جاتے ہیں، منہیات میں ملوث ہوجاتے ہیں، کیونکہ ہم انسان خطا کار ہیں، اس وجہ سے ہم سے غلطیاں وکوتاہیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔
چنانچہ جس طرح سے خدا نے ہماری تخلیق کی ہے ہمیں زندہ رکھنے کے لیے ہوا ، غذا، پانی اور دیگر اسباب زندگی مہیا کیا ہے، اسی طرح سے اللہ سبحانہ و تعالی نے ہماری روحانی زندگی کی سرسبزی وشادابی کا بھی مکمل بندوبست کیا ہے۔اللہ سبحانہ و تعالی نے صرف یہ نہیں کہا ہے کہ نیکوکار جنت میں جائیں گے اور گناہ گار جہنم میں ڈال دیے جائیں گے، بلکہ جب ہم قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بندے نے کتنے ہی بڑے گناہ کیوں نہ کیے ہوں ،لیکن جب اسے اپنے گناہ کا احساس ہو جائے تو اس سے نکلنے کا راستہ بھی اللہ سبحانہ وتعالی نے بتایا ہے فرائض و واجبات سے غفلت ہو یا منہیات کا ارتکاب؛ سب کا حل اسلام میں موجود ہے، وہ حل ہے توبہ و استغفار۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے محبوب بندوں کی تعریف یہ نہیں فرمائی کہ ان سے گناہ صادر نہیں ہوتے، بلکہ جو اللہ کے محبوب بندے ہیں گناہوں کے صدور پر توبہ و استغفار کرتے ہیں ۔اس کی تشریح ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم نے زِرّ بن حُبَیش کے واسطے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے توبۂ نصوح کا مطلب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا :
’’اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہوجائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔‘‘ یہی مطلب حضرت عمرؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی منقول ہے، اور ایک روایت میں حضرت عمرؓ نے توبۂ نصوح کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی گناہ کا اعادہ تو درکنار، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے۔ (ابن جریر)
حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ ایک بدّو کو جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ توبۃ الکذابین ہے۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے؟ فرمایا، اس کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہئیں۔ (۱) جو کچھ ہوچکا ہے اس پر نادم ہو۔ (۲) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو ان کو ادا کر۔ (۳) جس کا حق مارا ہو اس کو واپس کر۔ (۴) جس کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معافی مانگے۔ (۵) آئندہ کےلیے عزم کرلے کہ اس گناہ کا اعادہ نہیں کرے گا۔ (۶) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھُلا دے ،جس طرح تونے اب تک اسے معصیت کا خوگر بنائے رکھا ہے اور اس کو طاعت کی تلخی کا مزہ چکھا جس طرح اب تک تو اسے معصیتوں کی حلاوت کا مزہ چکھاتا رہا ہے۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمام کے تمام انسان خطا کار ہیں بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں۔(ترمذی) توبہ کے معنی ہیں پلٹنا ،واپس آنا ،رجوع کرنا۔ استغفار کے معنی ہیں گناہوں اور لغزشوں سے اللہ کی بخشش طلب کرنا، معافی مانگنا یعنی جب بندے کو اپنے گناہوں کا احساس ہو جاتا ہے تو اپنے رب کی طرف پلٹ آتا ہے، اور اس سے معافی کی درخواست کرتا ہے اور اللہ تعالی کی ایک صفت ہے:التواب۔ پس اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے، توبہ ایک مؤمنانہ صفت ہے اور توبہ نہ کرنا شیطانی صفت ہے ،کیونکہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی، آپ نے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا لیکن آپ علیہ السلام کو فوراً پشیمانی ہوئی اور اپنے رب سے معافی مانگ لی، اللہ رب العزت نے معاف فرما دیا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے شیطان کو آدم علیہ السلام کے سجدے کا حکم دیا اس نے جھکنے سے انکار کیا ،اللہ تعالی کے حکم کا انکار شیطان کی غلطی تھی، وہ اپنی غلطی پر اڑ گیا اور مختلف دلائل دینے لگا کہ میں برتر ہوں اور آدم کمتر ہے، اسی طرح اس نے تکبر کیا ،چنانچہ تکبر شیطانی صفت ہے اور توبہ انبیاء اور نیکوکاروں کی صفت ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی دن میں ستر ستر بار اور سو سو بار توبہ و استغفار کیا کرتے تھے ،انبیائے کرام خود بھی توبہ و استغفار کا اہتمام کیا کرتے ،اور اپنی قوموں کو بھی توبہ کی دعوت دیتے تھے، جس کی مثال قرآن کے اندر متعدد مقامات پر ملتی ہے۔ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا :
’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ سے استغفار کرو ،اپنے گناہوں کی معافی مانگو، اس معافی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تم پرموسلا دھار بارش برسائے گا جو نفع بخش ہوتی ہے ،
تمہیں قوت پر قوت عطا کرے گا(سورہ ہود: 52)
حالانکہ انبیاء تو سراپا معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتے تھے، پھر بھی کثرت سے توبہ و استغفار کا اہتمام کیا کرتے تھے ،اور آج ہمارا حال یہ ہے کہ پورا معاشرہ گناہوں میں ملوث ہے ۔جھوٹ، زنا،قتل و غارت گری، رشوت وبے ایمانی کا دور دورہ ہے ؛جس کے نتیجے میں اللہ تعالی کی جانب سے آزمائش اور عذاب کی مختلف شکلیں ظاہر ہورہی ہیں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
’’ اور تم پر جو مصائب آتے ہیں وہ تمہارے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں اور خدا تو بہت سی خطاؤں سے در گزر کرتا رہتا ہے۔‘‘(سورۃالشوری: 30 )
بندوں کی خطاؤں پر تنبیہ کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی چھوٹے چھوٹے عذاب نازل کرتا رہتا ہے، تاکہ خواب غفلت میں پڑے ہوئے لوگ چوکنا ہو جائیں اور اپنے رب کی طرف رجوع کریں ۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کو وڈ19- کی شکل میں ایک طرح سے عذاب مسلط کردیا گیا ہے، ہر انسان پریشانیوں کا شکار ہے، ایسی صورت حال میں لازم ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں ایسی توبہ کریں کہ گناہ کا تصور بھی ہمارے دل و دماغ میں نہ آئے، نہایت خلوص اور صدق قلب کے ساتھ توبہ کریں، ایسی توبہ جس کے لیے قرآن کے اندر توبۃًنصوحاً کا لفظ آیا ہے۔ فرمان باری تعالی ٰہے:
’’ اے مومنو! خدا کے آگے سچی اور خالص توبہ کرو، امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا۔(سورۃالتحریم:8 )
توبةً نصوحاً کے چار اجزاء ہیں (1)انسان واقعی اپنے گناہ پر نادم ہو۔ (2)آئندہ گناہ سے بچنے کا عزم رکھے۔ (3)اپنی زندگی کو سدھارنے میں پوری طرح منہمک ہو جائے۔(4) اگر کسی بندے کی حق تلفی کی ہے تو اس کا حق ادا کرے اور اس سے معافی مانگ لے۔
توبہ و استغفار کے فضائل:(1) توبہ کرنے والے لوگ اللہ کے محبوب بندے بن جاتے ہیں۔(2) توبہ کرنے والوں کی خطائیں بخش دی جاتی ہیں۔(3)غم اور پریشانی سے نجات ملتی ہے۔ (4)تنگ دستی دور کی جاتی ہے۔ (5)ایسی جگہ سے رزق عطا کیا جاتا ہے جہاں سے بندے کا گمان بھی نہ ہو۔(6)استغفار کی کثرت سے بہترین بارش کا نزول ہوتا ہے۔(7) دل سیاہ ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے، جس کے متعلق پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:’’ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، اور جب وہ نادم ہو کر اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو دھبہ صاف ہوجاتا ہے ،اگربندہ پھر گناہ کر بیٹھے تو اس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے ۔‘‘
چنانچہ زندگی کے جس حصے میں بھی گناہوں پر شرمساری اور ندامت کا احساس ہو، اسے خدا کی توفیق سمجھتے ہوئے توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ خدا اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے مگر سانس اکھڑنے سے پہلے پہلے ۔‘‘(ترمذی )
صبح سے شام تک نہ معلوم کتنی خطائیں ہم سے ہوتی ہیں جس کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا ،ہماری مہلت نہ جانے کب ختم ہوجائے ،اس لیے ہمیں ذرا بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے ۔سید الاستغفار کا اہتمام کرنا چاہیے،اجتماعی توبہ کا اہتمام کرنا چاہیے،اس خوف وہراس کے ماحول میں اجتماعی توبہ کا بالخصوص اہتمام کرنا اشد ضروری ہے۔
’’اے مومنو! تم سب مل کرخدا کی طرف پلٹو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(سورۃالنور: 31 )
اللہ تعالی ہمیں توتوبۃً نصوحاً کی توفیق دے،آمین۔
بسا اوقات ہم اپنے مقصد تخلیق سے بھی غافل ہو جاتے ہیں، فرائض و واجبات بھی ہم سے چھوٹ جاتے ہیں، منہیات میں ملوث ہوجاتے ہیں، کیونکہ ہم انسان خطا کار ہیں، اس وجہ سے ہم سے غلطیاں وکوتاہیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔
چنانچہ جس طرح سے خدا نے ہماری تخلیق کی ہے ہمیں زندہ رکھنے کے لیے ہوا ، غذا، پانی اور دیگر اسباب زندگی مہیا کیا ہے، اسی طرح سے اللہ سبحانہ و تعالی نے ہماری روحانی زندگی کی سرسبزی وشادابی کا بھی مکمل بندوبست کیا ہے۔اللہ سبحانہ و تعالی نے صرف یہ نہیں کہا ہے کہ نیکوکار جنت میں جائیں گے اور گناہ گار جہنم میں ڈال دیے جائیں گے، بلکہ جب ہم قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بندے نے کتنے ہی بڑے گناہ کیوں نہ کیے ہوں ،لیکن جب اسے اپنے گناہ کا احساس ہو جائے تو اس سے نکلنے کا راستہ بھی اللہ سبحانہ وتعالی نے بتایا ہے فرائض و واجبات سے غفلت ہو یا منہیات کا ارتکاب؛ سب کا حل اسلام میں موجود ہے، وہ حل ہے توبہ و استغفار۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے محبوب بندوں کی تعریف یہ نہیں فرمائی کہ ان سے گناہ صادر نہیں ہوتے، بلکہ جو اللہ کے محبوب بندے ہیں گناہوں کے صدور پر توبہ و استغفار کرتے ہیں ۔اس کی تشریح ہمیں اس حدیث میں ملتی ہے جو ابن ابی حاتم نے زِرّ بن حُبَیش کے واسطے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعبؓ سے توبۂ نصوح کا مطلب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا :
’’اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور ہوجائے تو اپنے گناہ پر نادم ہو، پھر شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔‘‘ یہی مطلب حضرت عمرؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی منقول ہے، اور ایک روایت میں حضرت عمرؓ نے توبۂ نصوح کی تعریف یہ بیان کی ہے کہ توبہ کے بعد آدمی گناہ کا اعادہ تو درکنار، اس کے ارتکاب کا ارادہ تک نہ کرے۔ (ابن جریر)
حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ ایک بدّو کو جلدی جلدی توبہ و استغفار کے الفاظ زبان سے ادا کرتے سنا تو فرمایا یہ توبۃ الکذابین ہے۔ اس نے پوچھا پھر صحیح توبہ کیا ہے؟ فرمایا، اس کے ساتھ چھ چیزیں ہونی چاہئیں۔ (۱) جو کچھ ہوچکا ہے اس پر نادم ہو۔ (۲) اپنے جن فرائض سے غفلت برتی ہو ان کو ادا کر۔ (۳) جس کا حق مارا ہو اس کو واپس کر۔ (۴) جس کو تکلیف پہنچائی ہو اس سے معافی مانگے۔ (۵) آئندہ کےلیے عزم کرلے کہ اس گناہ کا اعادہ نہیں کرے گا۔ (۶) اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت میں گھُلا دے ،جس طرح تونے اب تک اسے معصیت کا خوگر بنائے رکھا ہے اور اس کو طاعت کی تلخی کا مزہ چکھا جس طرح اب تک تو اسے معصیتوں کی حلاوت کا مزہ چکھاتا رہا ہے۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمام کے تمام انسان خطا کار ہیں بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں۔(ترمذی) توبہ کے معنی ہیں پلٹنا ،واپس آنا ،رجوع کرنا۔ استغفار کے معنی ہیں گناہوں اور لغزشوں سے اللہ کی بخشش طلب کرنا، معافی مانگنا یعنی جب بندے کو اپنے گناہوں کا احساس ہو جاتا ہے تو اپنے رب کی طرف پلٹ آتا ہے، اور اس سے معافی کی درخواست کرتا ہے اور اللہ تعالی کی ایک صفت ہے:التواب۔ پس اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے، توبہ ایک مؤمنانہ صفت ہے اور توبہ نہ کرنا شیطانی صفت ہے ،کیونکہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطا ہوئی، آپ نے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا لیکن آپ علیہ السلام کو فوراً پشیمانی ہوئی اور اپنے رب سے معافی مانگ لی، اللہ رب العزت نے معاف فرما دیا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے شیطان کو آدم علیہ السلام کے سجدے کا حکم دیا اس نے جھکنے سے انکار کیا ،اللہ تعالی کے حکم کا انکار شیطان کی غلطی تھی، وہ اپنی غلطی پر اڑ گیا اور مختلف دلائل دینے لگا کہ میں برتر ہوں اور آدم کمتر ہے، اسی طرح اس نے تکبر کیا ،چنانچہ تکبر شیطانی صفت ہے اور توبہ انبیاء اور نیکوکاروں کی صفت ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی دن میں ستر ستر بار اور سو سو بار توبہ و استغفار کیا کرتے تھے ،انبیائے کرام خود بھی توبہ و استغفار کا اہتمام کیا کرتے ،اور اپنی قوموں کو بھی توبہ کی دعوت دیتے تھے، جس کی مثال قرآن کے اندر متعدد مقامات پر ملتی ہے۔ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا :
’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ سے استغفار کرو ،اپنے گناہوں کی معافی مانگو، اس معافی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تم پرموسلا دھار بارش برسائے گا جو نفع بخش ہوتی ہے ،
تمہیں قوت پر قوت عطا کرے گا(سورہ ہود: 52)
حالانکہ انبیاء تو سراپا معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتے تھے، پھر بھی کثرت سے توبہ و استغفار کا اہتمام کیا کرتے تھے ،اور آج ہمارا حال یہ ہے کہ پورا معاشرہ گناہوں میں ملوث ہے ۔جھوٹ، زنا،قتل و غارت گری، رشوت وبے ایمانی کا دور دورہ ہے ؛جس کے نتیجے میں اللہ تعالی کی جانب سے آزمائش اور عذاب کی مختلف شکلیں ظاہر ہورہی ہیں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
’’ اور تم پر جو مصائب آتے ہیں وہ تمہارے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں اور خدا تو بہت سی خطاؤں سے در گزر کرتا رہتا ہے۔‘‘(سورۃالشوری: 30 )
بندوں کی خطاؤں پر تنبیہ کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی چھوٹے چھوٹے عذاب نازل کرتا رہتا ہے، تاکہ خواب غفلت میں پڑے ہوئے لوگ چوکنا ہو جائیں اور اپنے رب کی طرف رجوع کریں ۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کو وڈ19- کی شکل میں ایک طرح سے عذاب مسلط کردیا گیا ہے، ہر انسان پریشانیوں کا شکار ہے، ایسی صورت حال میں لازم ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں ایسی توبہ کریں کہ گناہ کا تصور بھی ہمارے دل و دماغ میں نہ آئے، نہایت خلوص اور صدق قلب کے ساتھ توبہ کریں، ایسی توبہ جس کے لیے قرآن کے اندر توبۃًنصوحاً کا لفظ آیا ہے۔ فرمان باری تعالی ٰہے:
’’ اے مومنو! خدا کے آگے سچی اور خالص توبہ کرو، امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا۔(سورۃالتحریم:8 )
توبةً نصوحاً کے چار اجزاء ہیں (1)انسان واقعی اپنے گناہ پر نادم ہو۔ (2)آئندہ گناہ سے بچنے کا عزم رکھے۔ (3)اپنی زندگی کو سدھارنے میں پوری طرح منہمک ہو جائے۔(4) اگر کسی بندے کی حق تلفی کی ہے تو اس کا حق ادا کرے اور اس سے معافی مانگ لے۔
توبہ و استغفار کے فضائل:(1) توبہ کرنے والے لوگ اللہ کے محبوب بندے بن جاتے ہیں۔(2) توبہ کرنے والوں کی خطائیں بخش دی جاتی ہیں۔(3)غم اور پریشانی سے نجات ملتی ہے۔ (4)تنگ دستی دور کی جاتی ہے۔ (5)ایسی جگہ سے رزق عطا کیا جاتا ہے جہاں سے بندے کا گمان بھی نہ ہو۔(6)استغفار کی کثرت سے بہترین بارش کا نزول ہوتا ہے۔(7) دل سیاہ ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے، جس کے متعلق پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:’’ جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے، اور جب وہ نادم ہو کر اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو دھبہ صاف ہوجاتا ہے ،اگربندہ پھر گناہ کر بیٹھے تو اس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے ۔‘‘
چنانچہ زندگی کے جس حصے میں بھی گناہوں پر شرمساری اور ندامت کا احساس ہو، اسے خدا کی توفیق سمجھتے ہوئے توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ خدا اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے مگر سانس اکھڑنے سے پہلے پہلے ۔‘‘(ترمذی )
صبح سے شام تک نہ معلوم کتنی خطائیں ہم سے ہوتی ہیں جس کا ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا ،ہماری مہلت نہ جانے کب ختم ہوجائے ،اس لیے ہمیں ذرا بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے ۔سید الاستغفار کا اہتمام کرنا چاہیے،اجتماعی توبہ کا اہتمام کرنا چاہیے،اس خوف وہراس کے ماحول میں اجتماعی توبہ کا بالخصوص اہتمام کرنا اشد ضروری ہے۔
’’اے مومنو! تم سب مل کرخدا کی طرف پلٹو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(سورۃالنور: 31 )
اللہ تعالی ہمیں توتوبۃً نصوحاً کی توفیق دے،آمین۔
ویڈیو :
آڈیو:
Comments From Facebook
0 Comments