(1) استدلال: مقصد، وجہ، اور منطق دعوت، ایک انتہائی سنجیدہ، خیرخواہانہ اور ناصحانہ عمل ہے۔ اس کا مقصد خدائی ہدایات کو بندگان خدا تک پہنچانا اور ان پر عمل کے لیےتیار و آمادہ کرنا ہے۔ یہ ہمارا دینی فریضہ ہی نہیں بلکہ انسانی ذمہ داری بھی ہے۔ اسلامی دعوت کو ذہنی کشتی ، مناظرہ بازی، پروپیگنڈہ اور فتح و شکست کی سرگرمی نہیں بنانا چاہیے بلکہ باہمی رابطہ، تعامل اور افہام وتفہیم کا ذریعہ بنانا چاہیے۔
( 2) آمادگی : ضرورت، خواہش اور جذبہ؛ دعوتی سرگرمی کے لیے ہمارے اندراسی وقت آمادگی پیدا ہوگی جب اس کی اہمیت کو سمجھ لیں اور اس کی ضرورت کا ہمارے اندر احساس پیدا ہوجائے۔ یہی احساس ہمارے اندر دعوتی کام کی تمنا اور خواہش کو پیدا کرے گا اوردعوتی جوش و جذبہ کو ہوا دے گا۔
(3) تیاری: ذہنی، جسمانی اور فکری طور پر۔ذہنی طورپر دعوتی کاموں کے لیے آمادگی دراصل دعوتی کاموں کے لیے تیاری کا اولین مرحلہ ہے۔ اب داعی اس راہ میں انتھک جدوجہداور دوڑبھاگ کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں وہ دین اسلام کی ترویج وفروغ کے لیے درکار علمی وفکری تیاری کا آغاز کرتا ہے۔ اس ضمن میں اسلام کاگہرا مطالعہ اور غوروفکر داعی کی تیاری کا اہم ترین جزو ہوتاہے۔
(4) منصوبہ بندی:عملی، پرحکمت ،باتدبیر،مرتب اورمنصوبہ کے بغیر دعوتی کام طویل مدتی اور نتیجہ خیز نہیں ہوتے۔ قابل عمل اور حکیمانہ منصوبہ بنانا اور اس منصوبہ کو مختلف تدابیر سے مزین کرنا دعوتی عمل کو کامیاب بنانے میں معاون ہوتا ہے۔
(5) فکرمندی: پہنچانا، متأثر کرنا، اور بچانا۔انسانوں تک ان کے خالق و مالک کے پیغام کو پہنچانے کے لیےداعی ہمیشہ فکر مند اوربےچین رہتا ہے۔ وہ اس الہی یبغام کی حقانیت سے انسانوں کو متأثر کرنے کےلیے مضطرب اور بے قرار رہتا ہے اور اس کی تڑپ ہوتی ہے کہ انسانوں کو خدا کی پکڑ اور جہنم کے عذاب سے بچایا جائے۔
(6) طرز : جڑنا، دیکھ بھال کرنا، اور اپنانا۔داعی افراد سے اور ان کے مسائل سے جڑا ہوتا ہے، وہ ان کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتا ہے گویا وہ اپنے مدعوئین کو اپنالیتا ہے۔
(7) گفت و شنید: پراعتماد، قابل اور آسان۔داعی کو اپنے پیغام دین پر مکمل شرح صدر اور گہرا ایمان ویقین ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کی گفتگو پراعتماد ہوتی ہے۔ وہ اپنی تمام تر قابلیت، صلاحیت اور مہارت کو استعمال کرتےہوئے مدعو کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ داعی کا بیانیہ عام فہم ہوتا ہے۔
(8)قائل کرنا: فصاحت و بلاغت، جامعیت۔داعی اپنی زبان کی فصاحت وبلاغت کو بھی استعمال کرتے ہوئے مدعو کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مدعو کا ذہن و دل دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار و آمادہ ہو جائے۔ اس کی دعوت صرف کسی ایک پہلو کا ہی احاطہ نہیں کرتی ہے بلکہ جامعیت کی حامل ہوتی ہے۔
(9) تعاون: جذباتی، سماجی اور مادی طور پر۔داعی اپنے مدعو کے لیے ایک مددگار ومعاون کی طرح ہوتا ہے۔ اس کا یہ تعاون نہ صرف نفسیاتی و جذباتی سطح پرمدعو کوحوصلہ فراہم کرتا ہے، بلکہ سماجی و معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں بھی معاون بنتا ہے۔ حسب ضرورت اور امکان وہ اپنے مدعو کی مادی ضروریات کابھی خیال رکھتا ہے۔
( 2) آمادگی : ضرورت، خواہش اور جذبہ؛ دعوتی سرگرمی کے لیے ہمارے اندراسی وقت آمادگی پیدا ہوگی جب اس کی اہمیت کو سمجھ لیں اور اس کی ضرورت کا ہمارے اندر احساس پیدا ہوجائے۔ یہی احساس ہمارے اندر دعوتی کام کی تمنا اور خواہش کو پیدا کرے گا اوردعوتی جوش و جذبہ کو ہوا دے گا۔
(3) تیاری: ذہنی، جسمانی اور فکری طور پر۔ذہنی طورپر دعوتی کاموں کے لیے آمادگی دراصل دعوتی کاموں کے لیے تیاری کا اولین مرحلہ ہے۔ اب داعی اس راہ میں انتھک جدوجہداور دوڑبھاگ کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں وہ دین اسلام کی ترویج وفروغ کے لیے درکار علمی وفکری تیاری کا آغاز کرتا ہے۔ اس ضمن میں اسلام کاگہرا مطالعہ اور غوروفکر داعی کی تیاری کا اہم ترین جزو ہوتاہے۔
(4) منصوبہ بندی:عملی، پرحکمت ،باتدبیر،مرتب اورمنصوبہ کے بغیر دعوتی کام طویل مدتی اور نتیجہ خیز نہیں ہوتے۔ قابل عمل اور حکیمانہ منصوبہ بنانا اور اس منصوبہ کو مختلف تدابیر سے مزین کرنا دعوتی عمل کو کامیاب بنانے میں معاون ہوتا ہے۔
(5) فکرمندی: پہنچانا، متأثر کرنا، اور بچانا۔انسانوں تک ان کے خالق و مالک کے پیغام کو پہنچانے کے لیےداعی ہمیشہ فکر مند اوربےچین رہتا ہے۔ وہ اس الہی یبغام کی حقانیت سے انسانوں کو متأثر کرنے کےلیے مضطرب اور بے قرار رہتا ہے اور اس کی تڑپ ہوتی ہے کہ انسانوں کو خدا کی پکڑ اور جہنم کے عذاب سے بچایا جائے۔
(6) طرز : جڑنا، دیکھ بھال کرنا، اور اپنانا۔داعی افراد سے اور ان کے مسائل سے جڑا ہوتا ہے، وہ ان کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتا ہے گویا وہ اپنے مدعوئین کو اپنالیتا ہے۔
(7) گفت و شنید: پراعتماد، قابل اور آسان۔داعی کو اپنے پیغام دین پر مکمل شرح صدر اور گہرا ایمان ویقین ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کی گفتگو پراعتماد ہوتی ہے۔ وہ اپنی تمام تر قابلیت، صلاحیت اور مہارت کو استعمال کرتےہوئے مدعو کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ داعی کا بیانیہ عام فہم ہوتا ہے۔
(8)قائل کرنا: فصاحت و بلاغت، جامعیت۔داعی اپنی زبان کی فصاحت وبلاغت کو بھی استعمال کرتے ہوئے مدعو کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مدعو کا ذہن و دل دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار و آمادہ ہو جائے۔ اس کی دعوت صرف کسی ایک پہلو کا ہی احاطہ نہیں کرتی ہے بلکہ جامعیت کی حامل ہوتی ہے۔
(9) تعاون: جذباتی، سماجی اور مادی طور پر۔داعی اپنے مدعو کے لیے ایک مددگار ومعاون کی طرح ہوتا ہے۔ اس کا یہ تعاون نہ صرف نفسیاتی و جذباتی سطح پرمدعو کوحوصلہ فراہم کرتا ہے، بلکہ سماجی و معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں بھی معاون بنتا ہے۔ حسب ضرورت اور امکان وہ اپنے مدعو کی مادی ضروریات کابھی خیال رکھتا ہے۔
Comments From Facebook
0 Comments