کیا خوبصورت تصویر ہے! خوبصورتی اس معصوم جذبے کی ،جو خود بھیگتے ہوئے ان چھوٹی جانوں کو بارش سے بچانے کی فکر پیدا کرتا ہے۔ خود غرض دنیا میں یہ بے لو ث کردار کتناحسین لگ رہا ہے، یہ جذبۂ ہمدردی تو خدائی وصف ہے، جو انسانوں کے اندر بطور خاص ودیعت کردیا گیا ہے۔ بے غرض و بے لوث ہمدردی کا یہ جذبہ انسانوں کی امتیازی خوبی ہے۔ جب ضرورت مند بے بس سامنے نظر آئیں تو ایک رحمدل انسان کے لیے وسائل کی قلت آڑ نہیں بن سکتی، بلکہ وہ درکاروسائل کےذریعہ ہی مدد کے لیےدوڑ پڑتا ہے۔
جب آخرت میں اس کا خوب بدلہ ملنے کا یقین ہو تو بے لوث معاونت کا ظہور ہوتا ہے۔ ایسی ہی بے غرض ہمدردی نے مدینہ میں مواخات کی شاندار نظیر قائم کی تھی۔یہی وہ جذبہ تھاجس کی وجہ سے صحابہ ٔکرام و سلف صالحین کے گھر اور دل کے در یتیموں اور ضروتمندوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔
کووڈ کے دوران وبا کے خوف سے جب بچوں نے اپنے متأثرہ ماں باپ کو چھوڑ دیا، رشتہ داروں نے اپنے اقارب سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی، اس وقت بھی اسی مبارک جذبےسے لبریزکچھ ہمدرد نفوس تھے، جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر بیماروں کی مدد کی ،ہجرت کررہے بے بس مزدوروں کے کھانے کا انتظام کیا ،رشتہ داروں کی بے رخی کی شکار بے گورو کفن پڑی لاشوں کے آخری رسوم ادا کیے ،نوکریاں کھو دینے والے اور تجارت میں خسارہ کےشکار پریشان حال لوگوں تک راشن پہنچایا ۔
مور بی پل ٹوٹنے کے بعد ڈوبتے لوگوں کی چیخ وپکار ، عورتوں اور بچوں کی جان بچانے کی فریاد سن کر اپنی جانیں جوکھم میں ڈالےخطرناک موجوں اور بہتے دریا میں کود کربلا تفریق مذہب و ملت کئی ڈوبتوں کی جان بچانے والے وہ جانباز بھی اسی جذبہ سے سرشار تھے۔
ایسے ہی ہمدردان انسانیت کے ذریعے اللہ تعالی کتنے ہی سیلاب و زلزلہ کے متاثرین کو امداد پہنچاتا ہے، فساد کی مار سہتے مظلومین کی دادرسی اور بازآبادکاری کا انتظام کرواتا ہے ۔ہمارے اطراف میں بھی کچھ ایسے ہی رحمدل لوگ نظر آتےہیں، جن کی خاص دلچسپی دُکھی پریشان لوگوں کے دکھ دور کرنےمیںہوتی ہے۔ یہ غم زدوں کی غمُخواری کرتے ہیں، ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں، یہ سرگرم رہتے ہیں لوگوں کے لیے راحت و آسانی پیدا کرنے میں اور خود کی اخروی راحت کا سامان کرتے ہیں۔
جب آخرت میں اس کا خوب بدلہ ملنے کا یقین ہو تو بے لوث معاونت کا ظہور ہوتا ہے۔ ایسی ہی بے غرض ہمدردی نے مدینہ میں مواخات کی شاندار نظیر قائم کی تھی۔یہی وہ جذبہ تھاجس کی وجہ سے صحابہ ٔکرام و سلف صالحین کے گھر اور دل کے در یتیموں اور ضروتمندوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔
کووڈ کے دوران وبا کے خوف سے جب بچوں نے اپنے متأثرہ ماں باپ کو چھوڑ دیا، رشتہ داروں نے اپنے اقارب سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی، اس وقت بھی اسی مبارک جذبےسے لبریزکچھ ہمدرد نفوس تھے، جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر بیماروں کی مدد کی ،ہجرت کررہے بے بس مزدوروں کے کھانے کا انتظام کیا ،رشتہ داروں کی بے رخی کی شکار بے گورو کفن پڑی لاشوں کے آخری رسوم ادا کیے ،نوکریاں کھو دینے والے اور تجارت میں خسارہ کےشکار پریشان حال لوگوں تک راشن پہنچایا ۔
مور بی پل ٹوٹنے کے بعد ڈوبتے لوگوں کی چیخ وپکار ، عورتوں اور بچوں کی جان بچانے کی فریاد سن کر اپنی جانیں جوکھم میں ڈالےخطرناک موجوں اور بہتے دریا میں کود کربلا تفریق مذہب و ملت کئی ڈوبتوں کی جان بچانے والے وہ جانباز بھی اسی جذبہ سے سرشار تھے۔
ایسے ہی ہمدردان انسانیت کے ذریعے اللہ تعالی کتنے ہی سیلاب و زلزلہ کے متاثرین کو امداد پہنچاتا ہے، فساد کی مار سہتے مظلومین کی دادرسی اور بازآبادکاری کا انتظام کرواتا ہے ۔ہمارے اطراف میں بھی کچھ ایسے ہی رحمدل لوگ نظر آتےہیں، جن کی خاص دلچسپی دُکھی پریشان لوگوں کے دکھ دور کرنےمیںہوتی ہے۔ یہ غم زدوں کی غمُخواری کرتے ہیں، ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں، یہ سرگرم رہتے ہیں لوگوں کے لیے راحت و آسانی پیدا کرنے میں اور خود کی اخروی راحت کا سامان کرتے ہیں۔
Comments From Facebook
0 Comments