۲۰۲۳ جنوری
’’اللہ اکبر! اللہ اکبر!‘‘
ہر سو پھیلتی اذان کی مترنم آواز ماحول کو پُر نور بنا رہی تھی۔ فردوس کچن سے نکلی،تاکہ اپنی بیٹی عالیہ کو نماز پڑھنے کا کہہ سکے، جو پچھلے ایک گھنٹے سے ٹی وی دیکھنے میں مشغول تھی۔ جیسے ہی لاؤنج میں داخل ہوئی اپنے پسندیدہ ڈرامے پر نظر پڑی۔
’’مما بیٹھیےناں ۔ ابھی شروع ہوئی ہے قسط۔ پتا ہے عائزہ نے اپنی ضد کی بنا پر والد کا تھپڑ کھایا۔‘‘ عالیہ اپنے پہلو میں جگہ بناتے ہوئے بولی۔
’’ اچھا ۔‘‘ فردوس تشویش کا مظاہرہ کرتی بیٹھ گئی۔دونوں ماں بیٹی ڈرامہ دیکھنے میں محو تھیں کہ کچھ ہی دیر میں فردوس اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’یا اللہ ! نہ جانے ان پاکستانی ڈراموں میں ایسی کون سی کشش ہے کہ درمیان سے اٹھنے کا جی ہی نہیں چاہتا۔‘‘
’’عالیہ !میں عشاء کی نماز پڑھنے جارہی ہوں ، تم بھی چلو۔‘‘ فردوس ایک لمبی سانس خارج کرتی ہوئی بولی۔
’’مما پہلے قسط تو مکمل کرلوں۔ نماز بعد میں پڑھوں گی۔‘‘ عالیہ نے اسکرین سے نظر ہٹائے بغیر بیزاری سے جواب دیا۔۔فردوس کا اپنے شوہر جوادا ور اکلوتی بیٹی پر مشتمل چھوٹا سا گھرانہ تھا۔ اولاد کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں اہم کردار نبھاتے ہیں، مگر وہ وقت بھی آگیا جب جواد صاحب نے اپنی بیوی ا ور بیٹی کے آنسوؤں اور دعاؤں کے سایے میں قطر کے لیے اڑان
بھری۔وہ باقاعدگی سے اپنے اہل و عیال سے رابطے میں تھے اور ہر ماہ ایک خطیر رقم بھیجا کرتےتھے۔ جب تعطیلات کے بعد عالیہ کا کالج شروع ہوگیا تو فردوس کو خالی گھر کاٹنے کودوڑنے لگا۔ سارا دن وہ خالی ذہن کے ساتھ گھر کے چکر کاٹتی یا مزید بوریت سے بچنے کی خاطر ہمسائے کےیہاںچلی جاتی۔ پڑوسن سے پاکستانی ڈرامے کی شان میں قصیدے سن کر ایک دن اسے بھی دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔وقت گزاری کے نتیجے میں ایسا چسکا لگا کہ اب ماں کی بہ نسبت نوجوان بیٹی کے شب و روز ان ڈراموں کے نذر ہونے لگے۔ فردوس نہیں جانتی تھی کہ لاعلمی کے زیرِ اثر کیا جانے والا عمل اولاد کے کچے ذہنوں میں زہریلے بیج بونے کا کام کرتا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ یہ پودا تناور درخت کا روپ اختیار کر کے دنیا و عاقبت کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔

٭٭٭

’’مما ، مما !جلدی ناشتہ دیں ورنہ کالج کے لیے دیر ہو جائے گی۔‘‘ عالیہ تیار ہوکر ایک کاندھے پر بیگ لٹکائے کچن کے دروازے پر آکھڑی ہوئی۔
’’جی بیٹا! بس یہ پراٹھا سینک لوں پھر… ‘‘ فردوس جیسے ہی عالیہ کی جانب مڑی، جملہ ادھورا رہ گیا۔ عالیہ کا حلیہ دیکھ کر اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’ عالیہ یہ جینز،یہ ٹاپ؟یہ ہمارےخریدےہوئےکپڑےتو نہیں ہیں۔‘‘فردوس نے اپنی ناگواری کو چھپاتے ہوئے پوچھا ۔
’’ مما مجھے پہلے یہ تو بتائیں کہ کیسی لگ رہی ہوں؟ہمارے فرینڈز گروپ کی ساری لڑکیاں اداکارہ عائزہ کی فین ہیں۔ آپ کو یاد ہے پچھلی قسط میں اس نے ایسا ہی لباس زیب تن کیا تھا، جبکہ آپ بھی اس کی خوبصورتی کے گن گا رہی تھیں۔ آج ہمارا سارا گروپ یہی جینز اور ٹاپ میں ملبوس ہوگا جسے meesho سے آن لائن منگوایا ہے۔ ‘‘عالیہ کی باتوں سے فردوس کو شاک سا لگا اور وہ بےدلی سے لقمے توڑنے لگی۔
’’ مما آپ کو پتا ہے میری سہیلی شمع ہر مہینہ بیوٹی پارلر جاتی ہے۔‘‘
’’ ہاں تو ؟ ‘‘ فردوس نے بظاہر تو لاپرواہی سے پوچھا مگر اس کا دل کسی انجانے خوف سے دھڑکنے لگا۔
’’تو دیکھیے ناں مما وہ کتنی خوبصورت نظر آتی ہے۔ بس پھر میں نے بھی شمع سے بات کرلی۔ مجھے بھی اس کے ساتھ پارلر جانا ہے ۔‘‘ عالیہ جوش سے بتانے لگی۔
’’ان فضول کاموں میں پیسے جھونکنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘ فردوس نے دوٹوک انداز میں کہا۔ وہ کہنا تو بہت کچھ چاہتی تھی مگر کچھ کہہ نہیںپائی۔ اپنی اس انجانی کیفیت سے وہ خود ناواقف تھی۔عالیہ نے نہ صرف اپنا ظاہر بدلا بلکہ اس کے مزاج میں بھی بدلاؤ آنے لگے۔ آہستہ آہستہ اس کا جی پڑھائی سے بھی اچاٹ ہوگیا۔ اس واضح تبدیلی کو کئی دنوں سے فردوس بھی محسوس کر رہی تھی۔ ایک دن عالیہ کے کمرے کی صفائی کے دوران فردوس کے ہاتھ اس کا رزلٹ لگا ،جسے دیکھ کر اس کے پاؤں تلے کی زمین کھسک گئی۔جیسے ہی عالیہ کالج سے آئی فردوس نے اس کےفیل کا رزلٹ تھماتے ہوئے اپنے دل کا سارا غبار نکال ڈالا جسے اب تک ممتا کی چادر تلے چھپایا ہوا تھا۔ عالیہ اپنی غلطی ماننے کے بجائے ماں سے جرح کرنے لگی۔’’مما ! آپ مجھ پر بلا وجہ چیخ رہی ہیں۔ میری زندگی ، میری مرضی ۔ آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ دوٹوک انداز میں کہتی غصے سے تن فن کرتی کمرے میں چلی گئی۔فردوس اپنا سر تھام کر نڈھال سی بیٹھ گئی۔وہ سوچنے لگی کہ میں نے تو اپنی بیٹی کی خواہشات کو ہمیشہ مقدم رکھا، کبھی باپ کی غیر موجودگی کا احساس نہیںہونے دیا ۔ پھر جواب میں اتنی بے عزتی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کیوں ؟
رشیدہ خالہ کے زوردار سلام سے اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا جو دھڑلے سے گھر میں داخل ہوکر بے تکلفی سے صوفے پر براجمان ہوگئیں تھیں۔ محلے میں ہونے والےہر چھوٹے بڑے واقعے کو سب کے علم میں لانا خالہ کا واحد اور محبوب ترین مشغلہ تھا۔
’’ جی خالہ فرمائیں۔‘‘ فردوس بے دلی سے متوجہ ہوئی۔
’’ ارے فردوس حمیدہ کی بیٹی کی کچھ خبر ہے تمہیں؟‘‘ ’’ جی خالہ میں کل گئی تھی حمیدہ بھابھی کے گھر ،بہت بری طرح ایکسیڈنٹ ہوا ہے بچی کا۔‘‘
’’ لو جی میں جانتی تھی کہ یقیناً تم اصل واقعہ سے بے خبر ہو۔ ارے بی بی کوئی ایکسیڈنٹ ویکسیڈنٹ نہیں ہوا، بلکہ اس کے والد نے بری طرح زدوکوب کر کے حادثے کی افواہ اڑا رکھی ہے۔‘‘
’’ نہیں خالہ ضرور آپ کسی غلط فہمی کا شکار ہوئی ہیں۔کسی خبر کو پھیلانے سے پہلے… ‘‘
’’او بی بی تم کیا جانو لوگوں کے اصل چہرے ۔‘‘ خالہ نے بے ساختہ اس کی بات کاٹی۔
’’ لڑکی کی کسی نامحرم سے دوستی تھی۔ فون پر بات کرتی ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی۔پھر والد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بری طرح پیٹا اور ایسی درگت بنائی کہ بس نہ پوچھو۔ اتفاق سے میں اس وقت حمیدہ کے گھر موجود تھی۔‘‘ رشیدہ خالہ کسی نیوز اینکر کی طرح ساری روداد سنانے لگیں۔
’’جب بھی حمیدہ کے گھر جانا ہوا اس کی بیٹی ہمیشہ ٹی وی کے سامنے بیٹھی فلمیں ، ڈرامے دیکھتی نظر آئی۔ ارے فردوس! میں تو کہتی ہوں کہ ساری غلطی اس حمیدہ کی ہے۔ اسے ٹوکنے کے بجائے اس کی ہم نوا بن بیٹھی تھی۔ ارے ہمارے زمانے میں تو… ‘‘نہ جانے خالہ اور کیا کیا کہے جارہی تھیں، مگر فردوس کا رنگ کسی لٹھے کی مانند سفید ہوگیاتھا۔ وہ ششدر رہ گئی، کیونکہ اسے عالیہ کے بد مزاج و بد تمیز رویے کا جواب مل گیا تھا۔
کسی کتاب میں پڑھی عبارت یاد آ گئی :
’’چھوٹی لڑکیاں نرم ٹہنی کی طرح ہوتی ہیں ، ٹہنیوں کوجہاں موڑو مڑ جائیں گی ، اگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹہنی رنگ بدل لے ، سوکھ بھی جائے تو اس کا رخ وہی رہتا ہے۔ مگر جو بڑی لڑکیاں ہوتی ہیں نا ں، وہ کانچ کی طرح ہوتی ہیں۔ کانچ کو موڑو تو مڑتانہیں ہے ، زبردستی کرو تو ٹوٹ جاتا ہے۔ کانچ کو تراشنا پڑتا ہے اور جب تک اس کی کرچیاں نہیں ٹوٹتیں اور اپنے ہاتھ زخمی نہیں ہوتے ، وہ مرضی کے مطابق نہیں ڈھلتا۔‘‘
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۳ جنوری